Archive for February, 2012
مرشد حسین حق مھنجا سائیں۔۲
مرشد حسین حق مھنجا سائیں۔۲
مرشد حسین حق مھنجا سائیں۔۱
مرشد حسین حق مھنجا سائیں۔۱
بیان کے نیچے فہرست پر کلک کریں۔ شکریہ
بیان کے بٹن سے نیچے فہرست پر کلک کریں تاکہ آپ کے سامنے تمام بیانات کی فہرست کھل جائے۔
تشہد ’’التحیات‘‘ کے سلسلے میں ایک مغالطے کا تحقیقی جائزہ
تشہد ’’التحیات‘‘ کے سلسلے میں ایک مغالطے کا تحقیقی جائزہ
علامہ اُسید الحق قادری بدایونی دامت برکاتہم العالیہ کی کتاب تحقیق و تفہیم سے ھدیہء قارئین ہے۔
نماز میں قعدہ کی حالت میں کچھ مخصوص الفاظ پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے جن کو اصطلاح میں تشہد اور عام زبان میں ’’التحیات‘‘کہتے ہیں،اس میں پہلے اللہ کی حمدوثنا ہے،پھر نبی کریم ﷺپر سلام ہے ،اس کے بعد اللہ کے نیک بندوں پر سلام ہے،اور پھر توحید ورسالت کی گواہی پریہ دعا ختم ہوتی ہے-صحیح احادیث میں اس کے مختلف الفاظ آئے ہیں،ترتیب اور مفہوم کم وبیش سب کا یہی ہے جو مذکور ہوا البتہ روایتوں کے اختلاف کی وجہ سے الفاظ میں تھوڑا بہت تفاوت ہے- مثال کے طور پرصحیح بخار ی اور صحیح مسلم میں حـضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ الفاظ مروی ہیں:
التحیات للّٰہ و الصلوت والطیبات السلام علیک ایھا النبی ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ السلام علینا و علی عباداللّٰہ الصالحین اشھد ان لا الہ الا اللّٰہ واشھد انّ محمدا عبدہ ورسولہ- (۱)
یہ تشہد ابن مسعود کہلاتا ہے -اس کے علاوہ حضرت ابن عباس اور حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے بھی تشہد کی روایتیں منقول ہیں-
تشہد ابن عباس یہ ہے : التحیات المبارکات الصلوات الطیبات للّٰہ السلام علیک ایھا النبی ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ السلام علینا وعلٰی عباد اللّٰہ الصالحین اشھد ان لا الہ الا اللّٰہ واشھد ان محمدا عبدہ و رسولہ-
تشہد ابن عمر یہ ہے : التحیات للّٰہ الزاکیات للّٰہ الطیبات الصلوات للّٰہ السلام علیک ایھا النبی ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ السلام علینا وعلٰی عباد اللّٰہ الصالحین اشھد ان لا الہ الا اللّٰہ واشھد ان محمدا عبدہ و رسولہ
احناف کا عمل تشہد ابن مسعود پر ہے اور امام احمد بن حنبل کے مسلک میں بھی اسی پر عمل ہے ،اکثر شافعیہ نے تشہدابن عباس کو اختیار فرمایا ہے،امام لیث بن سعد نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے،جب کہ امام مالک نے تشہد ابن عمر کو اختیار فرمایا ہے-
ان تمام روایتوں میں ایک بات مشترک ہے کہ ان میں نبی کریم ﷺ کو سلام کے لیے ندا اور خطاب کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے یعنی السلام علیک ایھا النبی ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ(اے نبی آپ پر سلام ہو اوراللہ کی رحمتیں اور برکتیں (نازل )ہوں)کچھ حضرات کے لیے نبی کریم ﷺ کو اس طرح مخاطب کرکے سلام کرناتشویش کا باعث ہوتا ہے لہٰذا یہ حضرات اپنی’’ تشویش ‘‘کو مختلف تاویلات کے ذریعہ دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں،حالانکہ اگر تحقیقی نظر سے دیکھا جائے توان تاویلات کی حیثیت مغالطے سے زیادہ کچھ نہیں ہے -اس سلسلہ میں عام طور پر دو باتیں کہی جاتی ہیں:
(۱)تشہد کے یہ الفاظ اس وقت تک پڑھے جاتے رہے جب تک نبی کریم ﷺظاہری طور پر صحابہ کے درمیان موجود رہے،مگر جب آپ نے پردہ فرمایاتو بجائے السلام علیک ایھا النبی(اے نبی آپ پر سلام ہو)کے السلام علی النبی(نبیﷺ پر سلام ہو)پڑھا جانے لگا،اس کے لیے حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ایک روایت کا حوالہ دیا جاتا ہے جو صحیح بخاری اور مسند ابی عوانہ میں مروی ہے-امام ابی عوانہ یعقوب بن اسحاق الاسفرائنی (م:۳۱۶ھ)اپنی مسند میں حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ: وھو بین ظھر انینا فلما قبض قلنا السلام علی النبی- (۲)
ترجمہ : ابن مسعود نے فرمایا کہ وہ (یعنی السلام علیک ایھاالنبی) حضور ﷺ کی حیات ظاہری میں تھا، جب حضور نے پردہ فرما لیا تو ہم یہ کہنے لگے ’’السلام علی النبی‘‘ یعنی نبی پر سلامتی ہو- یہی روایت الفاظ کے قدرے اختلاف کے ساتھ صحیح بخاری میں بھی وارد ہے جس کی تفصیل آگے آرہی ہے-
(۲)دوسرا مغالطہ یہ دیا جاتا ہے کہ یہ الفاظ یعنی السلام علیک ایھاالنبییہ تشہد میں آئے ہیں اور تشہد معراج کی رات اللہ اور اس کے رسول کے درمیان ہونے والی گفتگوکی حکایت ہے ،اس سے انشاے مصلی مقصود نہیں ہے یعنی نمازی سلام کا قصد و ارادہ نہیں کرتا بلکہ وہ صرف ان الفاظ کی نقل و حکایت کرتا ہے ،جس طرح کہ قرآن کریم میں بے شمار جگہ لفظ ’’یا‘‘(اے فلاں)کے ذریعے مختلف اقوال کی حکایت موجود ہے جب نمازی ان آیات کو نماز میں تلاوت کرتا ہے تواس کا ارادہ ان مذکورہ اشخاص کو پکارنا یا ندا کرنا نہیں ہوتا ہے بلکہ وہ محض اس واقعے کی نقل وحکایت کے طور پر ان الفاظ کو ادا کرتا ہے ،اسی طرح تشہد میں بھی نبی کریم ﷺ کو مخاطب کرکے سلام کرنا مقصود نہیں ہے بلکہ یہ تو صرف اس گفتگو کی نقل وحکایت ہے –
ذیل میں ہم ان دونوں دلیل نما مغالطوں کا تنقیدی جائزہ لیں گے-لیکن آگے بڑھنے سے پہلے تشہد ابن مسعود کے سلسلے میں محدثین کی راے دیکھتے چلیں-امام ترمذی اپنی جامع میں حضرت ابن مسعود کی مذکورہ روایت نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
حدیث ابن مسعود قد روی عنہ من غیروجہ، وھو اصح حدیث روی عن النبی ﷺفی التشھد والعمل علیہ عند اکثر اھل العلم من اصحاب النبی ﷺ ومن بعدھم من التابعین،وہو قول سفیان الثوری،وابن مبارک،واحمد واسحاق(۳)
ترجمہ : ابن مسعود کی حدیث ایک سے زیادہ طریقوں سے مروی ہے اور وہ تشہد کے سلسلہ میں نبی کریم ﷺ سے مروی حدیثوں میں سب سے اصح حدیث ہے ، صحابہ اور ان کے بعد تابعین میں سے اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے،یہی سفیان ثوری،ابن مبارک،احمدبن حنبل اوراسحاق کا قول بھی ہے-
حافظ ابن حجر عسقلانی فتح الباری میں فرماتے ہیں:
قال البزار لما سئل عن اصح حدیث فی التشھد قال ھو عندی حدیث ابن مسعود روی عن نیف و عشرین طریقا ثم سرد اکثرھا وقال لا اعلم فی التشھد اثبت منہ ولا اصح اسانید ولا اشھررجالا(۴)
ترجمہ:جب بزار سے تشہد کی صحیح ترین حدیث کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے کہا میرے نزدیک وہ حدیث ابن مسعود ہے- یہ بیس سے زائد صحابہ سے مروی ہے، پھر بزار نے ان میں سے اکثر طریقوں کو ذکر کیا ہے، پھر کہا کہ اور مجھے علم نہیں ہے کہ تشہد کے متعلق اس سے زیادہ اثبت واصح کوئی حدیث ہو جس کے رجال اس سے زیادہ مشہور و معروف ہوں-
اب ہم تشہد کے سلسلے میں پہلے مغالطے کی طرف آتے ہیں- ہم نے اوپرعرض کیا تھاکہ تشہد کے الفاظ اگر چہ مختلف واقع ہوئے ہیں (جیسا کہ تشہد ابن مسعود، تشہد ابن عباس اور تشہد ابن عمرمیں آپ نے دیکھا) مگر تمام روایتوں میں حضور ﷺ پر سلام کے لیے ندا اور خطاب کا صیغہ ہی وارد ہوا ہے- حضور ﷺ کی ظاہری حیات مبارکہ اور بعد وصال صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا عمل اسی طرح رہا، اس سلسلہ میں حضرت ابوبکر، حضرت عمر، سیدہ عائشہ، حضرت ابوموسیٰ اشعری، حضرت ابن عمر اور حضرت ابو سعید خدری رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے صحیح روایات موجود ہیں، امام مالک مؤطا میں فرماتے ہیں :
عن عروۃ بن زبیر عن عبدالرحمن بن عبدالقاری انہ سمع عمر بن الخطاب رضی اللّٰہ عنہ وھو علی المنبر یعلم الناس التشھد یقول ثم قولوا التحیات للّٰہ الزاکیات للّٰہ الطیبات للّٰہ الصلوات للّٰہ، السلام علیک ایھا النبی ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ السلام علینا وعلی عباد اللّٰہ الصالحین اشھد ان لا الہ الا اللّٰہ واشھد ان محمداً عبدہ ورسولہ-(۵)
ترجمہ : حضرت عروۃ بن زبیر حضرت عبدالرحمن بن عبدالقاری سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے حضرت عمر بن خطاب کو سنا کہ وہ منبر پر لوگوں کو تشہد سکھا رہے ہیں، آپ فرما رہے تھے کہ پھر اس کے بعد یہ کہو: التحیات للّٰہ الزاکیات للّٰہ الطیبات للّٰہ الصلوات للّٰہ، السلام علیک ایھا النبی ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہالسلام علینا وعلی عباد اللّٰہ الصالحین اشھد ان لا الہ الا اللّٰہ واشھد ان محمداً عبدہ ورسولہ-
اس روایت میں واضح ہے کہ حضرت عمر نے اپنے زمانۂ خلافت میں منبر پر کھڑے ہوکر لوگوں کو جو تشہد تعلیم فرمایا اس میں السلام علی النبی (نبی پر سلام) نہیں ہے بلکہ السلام علیک ایھا النبی (اے نبی آپ پر سلام ہو) ہے-
امام مالک نے حضرت عبداللہ ابن عمر اور حضرت سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے بھی روایات تشہد ذکر کیں ہیں، ان میں بھی سلام بصیغۂ خطاب و نداہی ہے (۶) تشہد میں صیغۂ خطاب پر تمام ائمہ مجتہدین کا اجماع ہے-ابن حزم ظاہری لکھتے ہیں : اجماع اھل الاسلام المتیقن علی ان المصلی یقول فی صلاتہ السلام علیک ایھا النبی- (۷) ترجمہ : تمام اہل اسلام کا اس بات پر اجماع ہے کہ نماز میں نمازی یہ کہے السلام علیک ایھا النبی-
حضرت ابن مسعود کی متذکرہ روایت کے علاوہ کسی صحابی سے کوئی ایسی روایت نہیں ہے جس سے یہ پتہ چلتا ہو کہ حضور اکرم ﷺ کے پردہ فرمانے کے بعد صحابہ نے تشہد کے الفاظ میں تبدیلی کر لی ہو-یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اگر ’’السلام علیک ایھاالنبی‘‘ کہنے سے اس لیے اعراض ہے کہ حضور ﷺ اب سامنے نہیں، لہٰذا ان کو صیغۂ خطاب سے سلام نہیں کیا جا سکتا تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب صحابہ کرام سفر پر جاتے تھے اور مدینہ منورہ سے دور دیگر شہروں میں ہوتے تھے تو تشہد کیسا پڑھتے تھے؟ اس دلیل کی رو سے تو سفر وغیرہ میں (جہاں حضور ﷺ سامنے موجود نہ ہوں) صحابۂ کرام کو ’’السلام علی النبی‘‘ کہنا چاہیے تھا مگر اس سلسلہ میں صحیح تو کیا کوئی ضعیف روایت بھی پیش نہیں کی جا سکتی- صحابۂ کرام حضور ﷺ کے سامنے ہوں یا آپ کے غائبانہ میں، مدینہ میں ہوں یا مدینہ سے سیکڑوں میل دور ہر حال میں تشہد پڑھتے وقت ’’السلام علیک ایھاالنبی‘‘ ہی کہا کرتے تھے اور یہی تشہد دور دراز کے شہروں میں رہنے والے اہل اسلام کو سکھایا جاتا تھا- مصر کے بلند پایہ عالم اور محقق علامہ محمود صبیح فرماتے ہیں :
قد کان الصحابۃ یقولون وھم فی اسفارھم بعیدین باجسادھم عن رسول اللّٰہ ﷺ : السلام علیک ایھاالنبی ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ ویعلمون ذلک لاصحابھم وھذا نداء بالغیب لبعدالمکان-(۸)
ترجمہ : صحابۂ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین اپنے سفر کے دوران جب کہ وہ جسم کے اعتبار سے حضور ﷺ سے دور ہوتے تھے تو بھی السلام علیک ایھاالنبی ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ ہی کہا کرتے تھے اور ایسا ہی اپنے احباب کو سکھایا کرتے تھے، حالانکہ دور ہونے کی وجہ سے یہ بھی ندا بالغیب ہی ہے-
اب آیے حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس روایت کا جائزہ لیا جائے جس کو دلیل میں پیش کیا جاتا ہے- مسند ابی عوانہ کے حوالے سے ہم نے گزشتہ صفحات میں اس کو نقل کیا ہے ،مسند ابی عوانہ کی اس روایت پر کلام کرتے ہوئے امام ابوالمحاسن الحنفی فرماتے ہیں:
من قولہ ’’بین ظھر انینا‘‘ الی’’ علی النبی‘‘ منکر لا یصح لانہ یوجب ان یکون التشھد بعد موتہ علیہ الصلوۃ والسلام علی خلاف ماکان فی حیاتہ و ذلک مخالف لما علیہ العامۃ ولما فی الاٰثار المرویۃ الصحیحۃ، وقد کان ابوبکر و عمر یعلمان الناس التشھد فی خلافتھما علی ماکان فی حیاتہ ﷺ من قولھم السلام علیک ایھاالنبی وانّما جاء الغلط من مجاھد وامثالہ وقد قال ابو عبید ان مما اجل اللّٰہ بہ رسولہ ان یسلم علیہ بعد وفاتہ کما کان یسلم علیہ فی حیاتہ وھذا من جملۃ خصائصہ ﷺ-(۹)
ترجمہ : بین ظہرانیناسے لے کر علی النبی تک یہ قول منکر ہے، صحیح نہیں ہے- اس لیے کہ اس سے لازم آتا ہے کہ حضور ﷺ کی وفات کے بعد تشہد اس کے برخلاف ہو جو آپ کی حیات میں تھا اور یہ عامہ علما کے عمل اور آثار صحیحہ کے مخالف ہے، حضرت ابوبکر اور حضرت عمر اپنی خلافت کے دور میں لوگوں کو وہ تشہد سکھاتے تھے جیسا حضور ﷺ کی حیات میں تھا یعنی ’’السلام علیک ایھا النبی‘‘ یہ غلطی مجاہد اور ان کے امثال کی طرف سے آئی ہے، ابو عبید نے کہا کہ یہ ان باتوں میں سے ہے جن سے اللہ نے اپنے رسول کو بزرگی عطا فرمائی ہے کہ ان پر ان کی وفات کے بعد بھی ویسا ہی سلام بھیجا جائے گا جیسا ان کی وفات سے پہلے بھیجا جاتا تھا اور یہ آپ کی خصوصیات میں سے ہے-
مسند ابی عوانہ کی جو روایت ابھی ہم نے ذکر کی اس کو امام بخاری نے بھی اپنی صحیح میں درج کیا ہے، امام بخاری نے تشہد ابن مسعود والی حدیث کو صحیح بخاری میں سات مقامات پر روایت کیا ہے، جس کی تفصیل درج ذیل ہے:
(۱) کتاب الاذان،باب التشہد فی الآخرۃ
(۲) کتاب الاذان،باب ما یتخیر من الدعاء بعد التشہد ولیس بواجب
(۳) کتاب العمل فی الصلاۃ،باب من سمیٰ قوما او سلم فی الصلاۃ علیٰ غیرہ وہو لا یعلم
(۴) کتاب الاستئذان،باب السلام اسم من اسماء اللہ تعالیٰ
(۵) کتاب الاستئذان،باب الاخذ بالیدین
(۶) کتاب الدعوات،باب الدعاء فی الصلاۃ
(۷) کتاب التوحید،باب قول اللہ تعرالیٰ السلام المؤمن
آپ کو حیرت ہوگی کہ ان سات روایتوں میں صرف ایک روایت ایسی ہے جس میں زیر بحث الفاظ آئے ہیں ،باقی چھ روایتوں میں یہ الفاظ نہیں ہیں،صرف روایت نمبر ۵ میں یہ الفاظ موجود ہیں:’’وہو بین ظہرانینا فلما قبض قلنا السلام یعنی علی النبی‘‘یہاں یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ صرف اسی روایت کی سند میں حضرت مجاہد کا نام آتا ہے ،حضرت مجاہد عبداللہ بن سخبرۃ سے روایت کرتے ہیں اور انہوں نے حضرت ابن مسعود سے روایت کی ہے ،اسی لیے امام ابو المحاسن نے معتصر المختصر میں فرمایا ہے(جس کا حوالہ پیچھے مذکور ہوا) کہ ’’یہ غلطی مجاہد اور ان کے امثال کی طرف سے آئی ہے‘‘-دوسری قابل ذکر بات یہ ہے کہ شارحین حدیث نے وضاحت کی ہے کہ حضرت ابن مسعود کا قول صرف یہاں تک ہے ’’قلنا السلام‘‘اس کے بعد ’’یعنی علی النبی‘‘امام بخاری کا قول ہے ،مسند ابو عوانہ میں جو روایت ہے اس میں راوی کو وہم ہوا اور اس نے اس کو بھی حضرت ابن مسعود کا قول سمجھ لیا ،علامہ علی قاری مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں اس حدیث پر بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
واما قول ابن مسعود کنا نقول فی حیاۃ رسول اللّٰہ ﷺ السلام علیک ایھا النبی فلما قبض علیہ السلام قلنا السلام علی النبی فھو روایۃ ابی عوانۃ وروایۃ البخاری الاصح منھا بینت ان ذلک لیس من قول ابن مسعود بل من فھم الراوی عنہ ولفظھا فلما قبض قلنا السلام یعنی علی النبی فقولہ قلنا السلام یحتمل انہ اراد بہ استمررنا بہ علی ما کنا علیہ فی حیاتہ ویحتمل انہ اراد عرضنا عن الخطاب واذا احتمل اللفظ لم یبق فیہ دلالۃ کذا ذکرہ ابن حجر-(۷)
ترجمہ : ابن مسعود کایہ فرمانا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کی ظاہری حیات مبارکہ میں السلام علیک ایھا النبی کہا کرتے تھے، جب حضور کا وصال ہو گیا تو ہم نے کہا السلام علی النبییہ ابو عوانہ کی روایت ہے- اس سلسلہ میں بخاری کی روایت اصح ہے اور اس روایت سے ظاہر ہے کہ السلام علی النبی ابن مسعود کا قول نہیں ہے بلکہ راوی نے ایسا سمجھ لیا ہے، اس حدیث کے الفاظ یہ ہیں ’’فلما قبض قلنا السلام یعنی علی النبی‘‘ قلنا السلام- یہ احتمال رکھتا ہے کہ جیسا سلام آپ کی حیات میں پڑھا کرتے تھے ویسا ہی بعد میں بھی جاری رہا اور یہ بھی احتمال رکھتا ہے کہ ان کی مراد یہ ہو کہ ہم نے خطاب سے اعراض کر لیا اور جب لفظ میں احتمال پیدا ہو گیا تو دلالت باقی نہیں رہی، اسی طرح ابن حجر عسقلانی نے بھی ذکر کیا ہے-
اس بحث سے یہ بات واضح ہوگئی کہ نبی کریم ﷺ کی وفات کے بعد بھی تمام صحابہ اور ان کے بعد تابعین اور ائمہ مجتہدین بھی السلام علیک ایھا النبی ہی پڑھتے رہے اور اسی کی تعلیم فرماتے رہے ،اور جو روایت حضرت ابن مسعود کے نام سے پیش کی جاتی ہے ،اولاً تو وہ پورا حضرت ابن مسعود کا قول نہیں،دوسرے یہ کہ اس روایت میں حضرت مجاہد منفرد ہیں،تیسرے یہ کہ اس میں چند احتمالات پیدا ہورہے ہیں اور جس قول میں چند احتمالات پیدا ہورہے ہوں اصول فقہ کے قاعدے کی رو سے ایسی روایت سے دلیل لانا درست نہیں ہوتا اور چوتھی اور آخری بات یہ کہ اگر ان سب باتوں سے قطع نظر کرکے اس کو بالکل صحیح بھی تسلیم کرلیا جاے تب بھی جمہور صحابہ اور تابعین کے عمل کے مخالف ہونے کی وجہ سے اس کو رد کردیا جائے گا-ہم پیچھے عرض کر چکے ہیں کہ حضرت ابن مسعود کے اس قول کے علاوہ کوئی صحیح روایت ایسی نہیں دکھائی جا سکتی جس میں یہ ہو کہ نبی کریم ﷺ کی وفات کے بعد صحابہ نے تشہد کے الفاظ میں تبدیلی کر لی تھی-
تشہد کے سلسلے میں دوسرا مغالطہ یہ دیا جاتا ہے کہ اس سے سلام مقصود نہیں ہوتا بلکہ یہ واقعہ معراج میں ہونے والی گفتگو کی حکایت ہے -اس مغالطے کے جواب میں سیدنا شاہ فضل رسول بدایونی نے اپنی کتاب ’’احقاق حق‘‘(فارسی)میں تحقیقی گفتگو فرمائی ہے ، قدرے اختصار اور تلخیص کے ساتھ اسی کی روشنی میں ہم اس مغالطے کا تنقیدی جائزہ لیں گے-
یہ مغالطہ دراصل پوری حدیث کو غور سے نہ پڑھنے کے نتیجے میں پیدا ہوگیا ہے ،صحیح بخاری میں پوری حدیث اس طرح ہے:
قال عبداللہ کنا اذا صلینا خلف النبی ﷺ قلنا السلام علی جبریل و میکائیل السلام علی فلان و فلان فالتفت الینا رسول اللّٰہ ﷺ فقال انّ اللّٰہ ھوا لسلام فاذا صلی احدکم فلیقل التحیات للّٰہ و الصلوت والطیبات السلام علیک ایھا النبی ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ السلام علینا و علی عباداللّٰہ الصالحین فانکم اذا قلتموھا اصابت کل عبداللّٰہ صالح فی السماء والارض، اشھد ان لا الہ الا اللّٰہ واشھد انّ محمدا عبدہ ورسولہ- (۱۱)
ترجمہ : حضرت ابن مسعود فرماتے ہیں کہ جب ہم نبی کریم ﷺ کی اقتدا میں نماز ادا کرتے تھے تو کہتے تھے جبریل پر سلام ہو، میکائیل پر سلام ہو، فلاں پر سلام ہو، رسول اللہ ﷺ ہماری جانب متوجہ ہوئے اور فرمایا بیشک اللہ خود سلام ہے جب تم میں سے کوئی نماز ادا کرے تو یہ کہے تمام قولی، جانی و مالی عبادات خالص اللہ کے لیے ہیں- اے نبی آپ پر اللہ کی سلامتی، رحمت اور برکات نازل ہوں، ہمارے اوپر اور اللہ کے نیک بندوں پر سلام ہو، جب تم یہ کہوگے تو زمین و آسمان میں اللہ کے ہر نیک بندے کو یہ سلام پہنچے گا اور میں شہادت دیتا ہوں کہ معبود برحق صرف اللہ عز و جل ہے اور محمد مصطفی ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں-
امام بخاری ایک دوسری روایت میں ارشاد فرماتے ہیں:
عن عبداللّٰہ قال کنا اذا کنا مع النبی ﷺ فی الصلاۃ قلنا السلام علی اللّٰہ من عبادہ السلام علیٰ فلان وفلان فقال النبی ﷺ لا تقولوا السلام علی اللّٰہ فان اللّٰہ ہوالسلام ولٰکن قولوا التحیات للّٰہ الخ (۱۲)
ترجمہ: حضرت ابن مسعود فرماتے ہیں کہ جب ہم نماز میں نبی کریم کے ساتھ ہوا کرتے تھے تو کہتے تھے کہ اللہ کے بندوں کی جانب سے اللہ پر سلام ہو،فلاں اور فلاں پر سلام ہو تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ یہ نہ کہا کرو کہ اللہ پر سلام ہو کیوںکہ اللہ تو خود سلام ہے ،بلکہ یہ کہا کروالتحیات للّٰہ الخ
حدیث کے شروع میں ہے کہ ہم کہا کرتے تھے خدا پر سلام ہو، جبریل پر سلام ہو، میکائیل پر سلام ہو، فلاں پر سلام ہو، آنحضرت ﷺ نے خدا پر سلام بھیجنے سے منع فرمایا اور اس کی جگہ خود پر سلام بھیجنے کا حکم دیا اس سے معلوم ہوا کہ یہ صرف واقعۂ معراج کی حکایت نہیں ہے،بلکہ اس میں خود سلام بھیجنا مقصود ہے-
دو سری بات یہاں یہ قابل غورہے کہ حدیث کے آخری حصہ میں ارشاد فرمایا:
السلام علینا و علی عباداللّٰہ الصالحین فانکم اذا قلتموھا اصابت کل عبداللّٰہ صالح فی السماء والارض
ترجمہ: ہمارے اوپر اور اللہ کے نیک بندوں پر سلام ہو، جب تم یہ کہوگے تو زمین و آسمان میں اللہ کے ہر نیک بندے کو یہ سلام پہنچے گا-
یہاں پر بھی اگرسلام کا ارادہ اور انشا مقصود نہ ہوتا اور صرف واقعۂ معراج میں وارد الفاظ کی نقل و حکایت مقصود ہوتی تو پھر ہر بندہ کو سلام پہنچنے کا کیا معنی ہوا-
امام غزالی فرماتے ہیں :
واحضر فی قلبک النبی ﷺ وشخصہ الکریم وقل السلام علیک ایھاالنبی ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ ولیصدق املک فی انہ یبلغہٗ ویرد علیک اوفٰی منہ-(۱۳)
ترجمہ : (اے نمازی) تو اپنے دل میں نبی کریم ﷺ اور آپ کی مقدس شخصیت کو حاضر کر، پھر السلام علیک ایھاالنبی ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہکہہ، یقینا تیری امید بر آئے گی، بایں طور کہ سلام حضور کی بارگا ہ میں پہنچے گا اور آپ ﷺ اس سے بہتر سلام کے ذریعہ جواب عطا فرمائیں گے-
ملا علی قاری فرماتے ہیں :
وجواز الخطاب من خصوصیاتہ علیہ السلام اذ لو قیل لغیرہ حاضرا اوغائبا السلام علیک بطلت صلاتہ (۱۴)
ترجمہ : نماز میں صیغۂ خطاب صرف آنحضرت ﷺ کے لیے جائز و روا ہے اور یہ آپ کے خصائص و فضائل سے ہے حضور کے علاوہ نماز میں کسی سے خطاب خواہ وہ حاضر ہو یا غائب نماز کو باطل کر دیتا ہے-
دراصل بعض حضرات کو اس بات سے غلط فہمی ہوئی کہ انھوں نے صرف یہ دیکھا کہ یہ الفاظ قصۂ معراج میں بھی ہیں اور تشہد میں بھی لہٰذا انھوں نے حدیث کے اول و آخر پر غور نہیں کیا اور یہ کہہ دیا کہ یہ واقعہ معراج کی حکایت ہے-
صحیح حدیث میں اس بات کی ایک اور قوی دلیل موجود ہے کہ تشہد میں جو السلام علیک ایھا النبی ہے وہ واقعۂ معراج کی حکایت نہیں ہے بلکہ اس سے خود سلام مقصود ہے- سنن نسائی میں ہے :
عن عبدالرحمن ابن ابی لیلٰی قال لقینی کعب بن عجرۃ فقال الا اھدی لک ھدیۃ سمعتھا من النبی ﷺ فقلت بلی فاھدھا لی فقال سألنا رسول اللّٰہ ﷺ فقلنا یا رسول اللّٰہ! کیف الصلوٰۃ علیکم اہل البیت فان اللّٰہ تعالٰی قد علمنا کیف نسلم علیک قال قولوا اللّٰہم صل علی محمد- الخ (۱۵)
ترجمہ : عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ فرماتے ہیں کہ مجھ سے کعب بن عجرہ کی ملاقات ہوئی، انھوں نے کہا کیا میں تمہیں وہ تحفہ نہ دوں جس کو میں نے نبی اکرم ﷺ سے حاصل کیا ہے؟ میں نے کہا کیوں نہیں، وہ تحفہ مجھے دو، تو کعب بن عجرہ نے کہا کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا یا رسول اللہ ﷺ آپ پر درود کس طرح بھیجیں، اللہ تعالیٰ نے ہمیں آپ پر سلام بھیجنے کا طریقہ تو تعلیم فرما دیا کہ ہم کس طرح آپ پر سلام بھیجیں ، حضور ﷺ نے فرمایا تم اس طرح کہو : اللّٰھم صلِّ علی محمدالخ
شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے لکھا ہے :
بتحقیق دانانید مارا کیفیت سلام فرستادن برتوکہ در التحیات تعلیم کردی و آن را تعلیم الٰہی گفتند زیرا کہ تعلیم آن حضرت تعلیم الٰہی است زیرا کہ وی نطق نمی کند در احکام مگر بوحی(۱۶)
ترجمہ : حضور پر سلام بھیجنے کی کیفیت و طریقہ التحیات میں ہمیں بتا دیا گیا اور صحابہ نے جو یہ کہا کہ اللہ نے سلام پڑھنے کا طریقہ ہمیں تعلیم کیا ہے، اس لیے کہ حضور ﷺ کا تعلیم فرمانا در حقیقت تعلیم الٰہی ہے کیونکہ حضور جو کچھ احکام شریعت میں فرماتے ہیں وہ وحی کے ذریعہ فرماتے ہیں-
ملا علی قاری مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں لکھتے ہیں:
فان اللّٰہ قد علمنا ای فی التحیات بواسطۃ لسانک کیف نسلم علیک ای بان نقول السلام علیک ایھا النبی کذا قیل وحاصلہ انّ اللّٰہ قد امرنا بالصلوٰۃ والسلام علیک وقد علمنا کیف السلام علیک والاظہر انہ علیہ السلام امرھم بالصلوٰۃ علیہ وعلٰی اہل بیتہ ولما لم یعرفوا کیفیتھا سألوہ عنھا مقرونا بالایماء الی انہ مستحق للسلام ایضا الا انہ معلوم عندھم بتعلیم ایاھم بلسانہ فارادوا تعلیم الصلوٰۃ ایضا علی لسانہ بان ثواب الوارد افضل و اکمل- (۱۷)
ترجمہ : خدا نے ہمیں تشہد میں آپ کی زبان مبارک کے توسط سے سلام کرنے کی کیفیت تعلیم کی ہے کہ ہم ایسے سلام پڑھیں السلام علیک ایھا النبی الخ اور اس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں آپ کی ذات گرامی پر درود اور سلام دونوں بھیجنے کا حکم فرمایا ہے اور ہمیں سلام کی کیفیت بھی تعلیم کر دی ہے اور ظاہر یہ ہے کہ حضور نے خود پر اور اپنے اہل بیت پر درود بھیجنے کا حکم فرمایا ہوگا- اب چونکہ صحابہ درود بھیجنے کا طریقہ نہیں جانتے تھے لہٰذا انھوں نے آپ سے دریافت کیا کہ درود بھیجنے کا طریقہ کیا ہے اس سوال میں یہ اشارہ بھی ہے کہ آپ سلام کے بھی مستحق ہیں مگر اس کا طریقہ تو حضور کی زبان مبارک سے ان کو معلوم ہو گیا ہے، اب درود کا طریقہ بھی وہ حضور ہی کی زبان سے سیکھنا چاہتے ہیں، اس لیے کہ جو چیز حضور کی زبان مبارک سے وارد ہوگی اس کا ثواب زیادہ افضل و اکمل ہوگا –
ملا علی قاری مرقاۃ میں مزید فرماتے ہیں :
قال ابن حجر وفیہ روایۃ للشیخین الااھدی لک ھدیۃً ان النبی ﷺ خرج علینا فقلنا یا رسول اللّٰہ قد علمنا کیف نسلم علیک فکیف نصلی علیک-وفی روایۃ سندھا جید لما نزلت ھذہ الاٰیۃ ’’انّ اللّٰہ وملائکتہ یصلون علی النبی یا ایھاالذین اٰمنواصلوا علیہ وسلموا تسلیماً‘‘ جاء رجل الی النبی ﷺ فقال یا رسول اللّٰہ ھذا السلام علیک قد عرفناہ فکیف الصلوۃ علیک قال ’’قولو اللّٰہم صل علی محمد ‘‘ الحدیث -وفی روایۃ المسلم وغیرہ امرنا اللّٰہ ان نصلی علیک فکیف نصلی علیک فسکت علیہ السلام حتی تمنینا انہ لم یسئل ثم قال قولوا اللّٰہم صل علی محمدٍ الخ وفی آخرہ والسلام کما علمتم- (۱۸)
ترجمہ : ابن حجر نے کہا کہ اس سلسلہ میں شیخین سے مروی ہے کہ’’ میں تمہیں ایک تحفہ نہ دوں؟ایک مرتبہ حضور ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے ہم نے کہا یا رسول اللہ ہم سلام کی کیفیت تو جانتے ہیں یہ بتائیے کہ درود کس طرح بھیجیں؟ ‘‘ایک اور روایت میں آیا ہے جس کی سند جید ہے کہ جب آیت کریمہ انّ اللّٰہ و ملائکتہ یصلون علی النبی الخ نازل ہوئی تو ایک شخص نے آ کر عرض کیا’’ یا رسول اللہ ﷺ ہم جان گئے کہ آپ پر سلام کس طرح بھیجیں اب آپ فرمائیں کہ ہم آپ پر درود کس طرح بھیجیں؟‘‘آپ نے فرمایا کہو اللّٰھم صل علی محمد الخ ایک دوسری روایت میں آیا ہے جو صحیح مسلم کی ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ نے ہمیں آپ پر درود بھیجنے کا حکم دیا ہے تو ہم کیسے درود بھیجیں ؟‘‘ حضور نے تھوڑا سا سکوت فرمایا تو ہمارے دل میں یہ خیال گزرا کاش حضور سے یہ سوال نہیں پوچھا جاتا، پھر حضور ﷺ نے فرمایا اس طرح کہو :اللّٰھم صل علی محمد ‘‘الخ اس حدیث کے آخر میں فرمایا کہ’’ رہا سلام تو ویسا ہی جیسا تم نے سیکھ لیا‘‘-
ان تمام روایتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ جس سلام کا حکم آیت کریمہ وسلموا تسلیمامیں دیا گیا ہے وہ تو تشہد میں معلوم ہو گیااب آپ درود پڑھنے کا طریقہ تعلیم فرمائیں-اور تشہد میں سلام کا جو طریقہ بتایا گیا ہے وہ وہی ہے جو پیچھے مذکور ہوا’’ السلام علیک ایہاالنبی‘‘ اس سے صاف ظاہر ہے کہ تشہد میں السلام علیک ایھاالنبی بطور نقل و حکایت نہیں ہے بلکہ اس سے خود سلام مقصود ہے-
(جامِ نور مارچ ۲۰۰۹ئ)
qqq
حواشی
(۱) الف: صحیح بخاری: بطریق شقیق بن سلمہ : عن ابن مسعود ،کتاب الاذان: باب التشہد فی الآخرۃ
ب:صحیح مسلم : بطریق ابی وائل عن ابن مسعود، کتاب الصلوٰۃ: باب التشہد فی الصلوٰۃ
(۲) مسند ابی عوانہ : ج ۱، ص: ۵۴۱، دارالمعرفہ بیروت
(۳) جامع ترمذی:کتاب الصلاۃ،باب ما جاء فی التشہد
(۴) فتح الباری : ج: ۲، ص: ۳۱۵، دارالمعرفۃ بیروت
(۵) مؤطا امام مالک: ج ۱، ص: ۹۰، باب التشہد فی الصلوٰۃ، داراحیاء التراث العربی ، قاہرہ
(۶) مرجع سابق
(۷) المحلی: ج ۴، ص: ۷۰۶، دارالآفاق الجدیدہ، بیروت
(۸) علامہ محمود صبیح: اخطأ ابن تیمیہ فی حق رسول اللہ: ص: ۳۹۵، دار جوامع الکلم، قاہرہ
(۹) معتصر المختصر : ج ۱، ص: ۵۳، ۵۴، مکتبہ المتنبی، القاہرہ
(۱۰) مرقاۃ شرح مشکوٰۃ: ج ۲، ص: ۵۸۱، کتاب الصلوٰۃ، باب التشہد، فیصل پریس، دیوبند ۲۰۰۵ء
(۱۱) صحیح بخاری: بطریق شقیق بن سلمہ : عن ابن مسعود ،کتاب الاذان: باب التشہد فی الآخرۃ
(۱۲) کتاب الاذان،باب ما یتخیر من الدعاء بعد التشہد ولیس بواجب
(۱۳) احیاء علوم الدین : امام غزالی، ج:۱/ص: ۱۷۵
(۱۴) مرقاۃ شرح مشکوٰۃ: ج ۲، ص: ۵۸۶، کتاب الصلوٰۃ باب التشہد، فیصل پریس، دیوبند ۲۰۰۵ء
(۱۵) سنن نسائی : باب کیف الصلوٰۃ علی النبی ، ج:۳/ص: ۴۸، مکتبۃ المطبوعات، حلب ۱۹۸۶ء
(۱۶) اشعۃ اللمعات شرح مشکوٰۃ : ج ۱، ص: ۳۶۱، کتاب الصلوٰۃ : باب الصلوٰۃ علی النبی ﷺ وفضلھا، مطبع نول کشور ۱۲۹۰ھ
(۱۷) مرقاۃ شرح مشکوٰۃ : ج ۳، ص: ۴، کتاب الصلوٰۃ : باب الصلوٰۃ علی النبی ﷺ وفضلھا
(۱۸) مرجع سابق
(۱۹) ترجمہ باختصاروتلخیص :احقاق حق :مولانافضل رسول بدایونی،ازص۴۳تاص۴۹،تاج الفحول اکیڈمی بدایوں۲۰۰۷ء
اولیاء اللہ کا مقام
اولیاء اللہ کا مقام۔ ۔ ۔ قرآن کی نظر میں
قرآنِ مجید کا انداز اور اُسلوبِ بیان اپنے اندر حِکمت و موعظت کا پیرایہ لئے ہوئے ہے۔ اِسی موعظت بھرے انداز میں بعض اَوقات آیاتِ قرآنی کے براہِ راست مخاطب حضور سرورِ دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات ہوتی ہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وساطت سے پوری اُمت کو حکم دینا ہوتا مقصود ہے۔ قرآن مجید کی درج ذیل آیتِ کریمہ میں اللہ ربّ العزّت نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اِرشاد فرمایا :
وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُم بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ وَلاَ تَعْدُ عَيْنَاكَ عَنْهُمْ تُرِيدُ زِينَةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَلاَ تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَن ذِكْرِنَا وَاتَّبَعَ هَوَاهُ وَكَانَ أَمْرُهُ فُرُطًاO
(الکفَ، 18 : 28)
(اے میرے بندے!) تو اپنے آپ کو اُن لوگوں کی سنگت میں جمائے رکھا کر جو صبح و شام اپنے ربّ کو یاد کرتے ہیں، اُس کی رضا کے طلبگار رہتے ہیں، تیری (محبت اور توجہ کی) نگاہیں اُن سے نہ ہٹیں۔ کیا تو (اُن فقیروں سے دِھیان ہٹا کر) دُنیوی زندگی کی آرائش چاہتا ہے؟ اور تو اُس شخص کی اِطاعت بھی نہ کر جس کے دِل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دِیا ہے اور وہ اپنی ہوائے نفس کی پیروی کرتا ہے اور اُس کا حال حد سے گزر گیا ہےo
اِس اِرشادِ ربانی میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے توسط سے اُمتِ مسلمہ کے عام افراد کو یہ حکم دِیا جارہا ہے کہ وہ اُن لوگوں کی معیت اور صحبت اِختیار کریں اوراُن کی حلقہ بگوشی میں دِلجمعی کے ساتھ بیٹھے رہا کریں، جو صبح و شام اللہ کے ذِکر میں سرمست رہتے ہیں اور جن کی ہر گھڑی یادِالٰہی میں بسر ہوتی ہے۔ اُنہیں اُٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے کسی اور چیز کی طلب نہیں ہوتی، وہ ہر وقت اللہ کی رضا کے طلبگار رہتے ہیں۔ یہ بندگانِ خدا مست صرف اپنے مولا کی آرزو رکھتے ہیں اور اُسی کی آرزو میں جیتے ہیں اور اپنی جان جاںآفریں کے حوالے کردیتے ہیں۔ اﷲ کے ولیوں کی یہ شان ہے کہ جو لوگ اﷲ تعالیٰ کے ہونا چاہتے ہیں اُنہیں چاہئیے کہ سب سے پہلے وہ ان اولیاء اﷲ کی صحبت اِختیار کریں۔ چونکہ وہ خود اﷲ کے قریب ہیں اور اِس لئے اﷲ تعالیٰ نے عامۃ المسلمین کو اُن کے ساتھ جڑ جانے کا حکم فرمایا ہے۔ مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ نے یہی قرآنی نکتہ اپنے اِس خوبصورت شعر میں یوں بیان کیا ہے :
ہر کہ خواہی ہمنشینی با خدا
اُو نشیند صحبتے با اولیاء
ترجمہ : جو کوئی اللہ تعالی کی قربت چاہتا ہے اُسے چاہئے کہ وہ اللہ والوں کی صحبت اختیار کرے۔
غوثِ اعظم سیدنا عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ، حضر ت بہاؤ الدین زکریا ملتانی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت شاہ رکن عالم رحمۃ اللہ علیہ اور حضور داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ اُن لوگوں میں سے تھے جنہوں نے خود کو اللہ کے قریب کرلیا تھا۔ مذکورہ بالا آیتِ کریمہ میں ایسے ہی لوگوں کی صحبت اِختیار کرنے اور اُن سے اِکتسابِ فیض کا حکم دیا گیا ہے۔ یعنی جو شخص اللہ کے ولی کی مجلس میں بیٹھے گا اُسے اللہ کی قربت اور مجلس نصیب ہوگی۔
یہ وہ لوگ ہیں جنہیں نہ جنت کا لالچ ہے اور نہ ولایت کا، نہ کرامت کا شوق ہے اور نہ شہرت کی طلب، یہ نہ حوروں کے متمنی ہیں نہ قصور کے۔ اِن کا واحد مقصد اللہ کا دیدار ہیاور یہ فقط اللہ کے مکھڑے کے طالب ہیں۔ لہٰذا عام لوگوں کو تعلیم دی گئی کہ جو لوگ میرے (اللہ کے) مکھڑے کے طالب ہیں اُنہیں بھی اُن کا مکھڑا تکنا چاہیئے اور اپنی نظریں اُن کے چہروں پر جمائے رکھنا چاہیئں۔ جبکہ دُوسری طرف اللہ کی یاد سے غافل لوگوں سے دُور رہنے کا حکم دیا گیا :
وَلاَ تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَن ذِكْرِنَا.
(الکهف، 18 : 28)
اور تو اُس شخص کی اِطاعت نہ کر جس کے دِل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دِیا ہے۔
اِسی طرح سورۂ انعام میں اِرشاد ربانی ہوا :
فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّکْرٰی مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِيْنَo
(انعام، 6 : 68)
پس تم یاد آنے کے بعد (کبھی بھی) ظالم قوم کے ساتھ نہ بیٹھا کروo
اِن آیاتِ مبارکہ میں یہ بات بالصراحت واضح ہوتی ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ سے دُور ہٹانے والوں کے ساتھ نشست و برخاست سے بھی اِجتناب کیا جائے۔ اُس کی محبت اور توجہ کے حصول کے لئے طالبانِ حرص و ہوس اور بندگانِ دُنیا کی صحبت کو کلیتاً ترک کرنا اور اولیاء اﷲکی نسبت اور سنگت کو دِلجمعی کے ساتھ اِختیار کرنا نہایت ضروری ہے۔ بقولِ شاعر :
صحبتِ صالح تُرا صالح کند
صحبتِ طالع تُرا طالع کند
اولیا ء اللہ کی معیت کس لئے؟
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ گوشۂ تنہائی میں بیٹھ کر اللہ اللہ کرنے کی بجائے اولیاء اللہ کی سنگت اور ہم نشینی اِختیار کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ ان کے سلسلے میں آنے، بیعت کرنے اور نسبت قائم کرنے کی شریعت میں کیا اہمیت ہے؟ چاہیئے تو یہ تھا کہ سارا معاملہ براہِ راست اللہ سے اُستوار کرلیا جاتا اور سیدھا اُسی سے تعلق اور ناطہ جوڑنے کی کوشش کی جاتی۔ آخر بندوں کو درمیان میں لانے اور اُنہیں تقرّب اِلیٰ اللہ کے لئے واسطہ بنانے کی کیا ضرورت ہے جبکہ مقصودِ کل تو اللہ تبارک و تعالیٰ ہی کی ذات ہے؟
یہ سوال آج کے دور میں دو وُجوہات کی بناء پر اِنتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ ایک اِس لئے کہ جوں جوں زمانہ آگے گزرتا جارہا ہے رُوحانیت اور رُوحانی فکر مٹتا چلا جا رہا ہے۔ مادّیت اور مادّی فکر دُنیوی تعلیم کے ساتھ ساتھ مذہبی تعلیمات پر بھی غالب آتا جا رہا ہے اور اچھے بھلے تعلیم یافتہ لوگ دِین اور مذہب کو بھی مادّی پیمانوں پر پرکھنے لگے ہیں۔ اِس سوال کی پیدائش کا دُوسرا بڑا سبب یہ ہے کہ آج کا دور بے عملی کے ساتھ ساتھ بدعقیدگی کا دور بھی ہے۔ مذہبی اور دِینی حلقوں میں نام نہاد خالص توحید پرست طبقے اولیاء اللہ کی عظمت کے صاف مُنکر ہیں اور اُن سے منسوب تعلیمات کو شرک و بدعا ت کا پلندہ قرار دیتے ہیں۔ اُن کے نزدیک اِسلام کے رُوحانی نظام کی نہ تو شرعی اہمیت ہے اور نہ اِس کی کوئی تاریخی حیثیت ہی ہے۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگ راہِ راست سے بھٹک کر اولیائے کرام کی تعلیمات اوراُن کے عظیم سلسلوں اور نسبتوں سے دُور ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ اِس طرح کی باتیں آج کل بڑی شدّت سے زور پکڑ رہی ہیں اور یہ سوال ذِہنوں کو مسلسل پراگندہ (Confuse) کر رہے ہیں کہ اولیاء و صوفیاء کو اﷲ اور بندے کے مابین واسطہ ماننے کا از روئے شریعت کیا جواز ہے! جب ہم اِس سوال کا جواب قرآنِ مجید سے پوچھتے ہیں تو وہ ہمیں صراحتاً بتاتا ہے کہ بندوں اور خدا کے درمیان اولیاء اللہ کو خود اللہ ربّ العزّت نے ہادی و رہبر کے طور پر ڈالا ہے۔ کسی اِنسان کی اِتنی مجال کہاں کہ وہ ایسی جسارت کرسکے! اِس بارے میں قرآن مجید کے الفاظ : ’’وَ اصْبِرْ نَفْسَکَ‘‘ اِس حکم کی نشاندہی کرتے ہیںکہ اولیاء اللہ کو ہدایت الیٰ اﷲ کے لئے درمیانی واسطہ بنائے بغیر اور کوئی چارہ نہیں اور اﷲ تعالیٰ تک رسائی کی یہی صورت ہے کہ اُس کے دوستوں سے لو لگائی جائے۔ جب اُن سے یاری ہو جائے گی تو وہ خود اﷲ ربّ العزّت کی بارگاہ کا راستہ دِکھائیں گے۔
ازل سے سنتِ الٰہی یہی ہے
اللہ ربّ العزّت نے اپنی توحید کا پیغام اپنے بندوں تک پہنچانے کے لئے انبیاء علیہ السلام کو بھیجا، جو حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک ہر دور میں اُس فریضۂ نبوت کو بطریقِ اَحسن سراِنجام دیتے رہے۔ اِبتدائے آفرینش سے اللہ تعالیٰ کی یہ سنت رہی ہے کہ وہ مخلوقاتِ عالم تک اپنا پیغا م انبیاء علیہ السلام کی وساطت سے پہنچاتا رہا ہے۔ انبیاء علیہ السلام کی ظاہری حیات کے دور میں اُن کو اپنے اور بندوں کے درمیان رکھا اور اب جبکہ نبوت کا دروازہ ہمیشہ کے لئے بند ہوچکا ہے تواِ سی کام کے لئے اولیاء اللہ کو مامور کیا جاتا رہا اور یہ سلسلہ تا قیامِ قیامت ابدالاباد تک جاری و ساری رہے گا۔
یہ اللہ کی سنت ہے کہ وہ اپنی توحید کا پیغام اپنے بندوں کو دینا چاہتا ہے تو ’’ قُلْ هُوَ اﷲُ أَحَدٌ‘‘ فرماتا ہے۔ یعنی اے میرے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ اپنی زبان سے کہہ دیں کہ اللہ ایک ہے۔ اگر کوئی کہے کہ اے اللہ! تو خود اپنی توحید کا اِعلان کیوں نہیں کرتا؟۔ ۔ ۔ تو خود ہی فرمادے کہ میں ایک ہوں! اللہ تعالی جواب دیتا ہے کہ نہیں یہ میری شان نہیں کہ بندوں سے از خود کلام کروں اور نہ ہی کسی بشر کی مجال ہے کہ وہ اللہ سے براہِ راست کلام کرے۔ اﷲ ربّ العزّت نے فرمایا :
وَمَا کَانَ لِبَشَرٍ أَنْ يُکَلِّمَهُ اﷲُ إلاَّ وَحْياً أَوْ مِنْ وَّرَآءِ حِجَابٍ أَوْ يُرْسِلَ رَسُوْلاً فَيُوْحِیَ بِإذْنِه مَا يَشَآءُط إنَّه‘ عَلِیٌّ حَکِيْمٌo
(شوریٰ، 42 : 51)
اور کسی آدمی کی یہ طاقت نہیں کہ اﷲ سے (براہِ راست) بات کرے مگر ہاں (اِس کی تین صورتیں ہیں یا تو) وحی (کے ذریعے) یا پردے کے پیچھے سے یا (اﷲ) کسی فرشتے کو بھیج دے کہ اس کے حکم سے جو اﷲ چاہے وحی کرے، بے شک وہ بڑے مرتبہ والا، حکمت والا ہے۔
اﷲ تعالیٰ کا یہ فرمان اِس امر پر دلالت کرتاہے کہ وہٰ یہ کام اپنے منتخب مکرم بندوں سے کراتا ہے، جنہیں منصبِ رسالت پر فائز کر دیا جاتا ہے۔ اِرشادِ باری تعالیٰ ہے کہ میں اپنے اُس نبی اور رسول ہی سے کلام کرتا ہوں جسے منصبِ نبوت و رسالت سے سرفراز فرماتا ہوں اور اپنے اُس محبوب کو اپنا ہمراز بناتا ہوں اور اُسے اپنی خبر دیتا ہوں۔ اِسی لئے فرمایا : اے محبوب! تجھے میں نے اپنا رسول بنایا ہے، تو ہی میرے بندوں کے پاس جا اور اُنہیں میری یکتائی کی خبر دے اور جو کلام میں نے تجھ سے کیا ہے وہ اُن تک پہنچادے۔
آیتِ مبارکہ : قُلْ هُوَ اﷲُ أَحَدٌ میں لفظِ ’’قُلْ‘‘ رسالت ہے، جبکہ هُوَ اﷲُ أَحَدٌ ’’وہ اللہ ایک ہے‘‘۔ ۔ ۔ یہ الفاظ اﷲ ربّ العزّت کی توحید پر دلالت کرتے ہیں۔ اِس آیتِ کریمہ سے یہ پتہ چلا کہ توحید کے مضمون کا عنوان بھی رسالت ہے تاکہ لوگوں کو اِس امر سے مطلع کردیا جائے کہ اللہ ایک ہے اور وہی سب کا ربّ ہے۔
اِس سے یہ نکتہ کھلا کہ اللہ کی سنت یہی ہے کہ وہ کسی سے براہِ راست کلام نہیں کرتا اور اگر وہ کسی سے کلام کرنا چاہتا ہے تو درمیان میں واسطۂ رسالت ضرور لاتا ہے۔ اب کس کی یہ مجال ہے کہ وہ رسول کے واسطے کے بغیر اُس سے ہمکلام ہونے کی کوشش کرے! آیۂ توحید سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ اللہ ربّ العزّت اپنے بندوں سے ہم کلام ہونے کے لئے اپنے رسول کا واسطہ درمیان میں لاتا ہے۔ ۔ ۔ تو جب وہ خدا ہو کر اپنے بندوں سے ہمکلام ہوتے وقت رسول کا واسطہ درمیان میں لانے سے اِجتناب نہیں کرتا تو ہم بندے ہو کر اُس کے رسول کا واسطہ لائے بغیر اُس سے ربط و تعلق کیونکر برقرار رکھ سکتے ہیں! یہ اﷲ تعالیٰ کا حکم ہے اور ہم اُس کے حکم کے پابند ہیں، اُس سے رُوگرانی نہیں کرسکتے۔
بخدا خدا کا یہی ہے در
ربّ ذوالجلال نے یہ بنیادی نکتہ، کلیہ اور اصل الاصول بیان فرمادیا کہ میری اِطاعت کا راستہ میرے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اِطاعت کے راستے سے ہو کر گزرتا ہے۔ کلامِ مجید میں اِرشاد ہوا :
مَنْ يُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ أَطَاعَ اﷲَ.
(النساء، 4 : 80)
جو رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اِطاعت کرتا ہے تحقیق اُس نے اللہ کی اِطاعت کی۔
اِس آیتِ کریمہ میں اﷲ ربّ العزّت دوٹوک اِعلان فرما رہا ہے کہ ’’اے میرے بندو! یہ بات ہمیشہ کے لئے اپنے پلے باندھ لو کہ تم میں سے جو کوئی میری اِطاعت کا خواہشمند ہو اُسے چاہیئے کہ پہلے میرے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اِطاعت کو اپنے اُوپر لازم کرے۔ میرے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اِطاعت ہی میری اِطاعت ہے۔ خبردار! میرے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اِطاعت بجا لائے بغیر میری اِطاعت کا تصور بھی نہ کرنا‘‘۔
قرآن مجید نے اِس نکتے کو یہ کہہ کر مزید واضح فرمادیا :
قُلْ إِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اﷲَ فَاتَّبِعُوْنِیْ يُحْبِبْکُمُ اﷲُ.
(آل عمران، 3 : 31)
(اے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم !) فرما دیں کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری اِتباع میں آجاؤ، اللہ تم سے محبت کرنے لگے گا۔
گویا اﷲ تعالیٰ نے واضح طور پر فرما دِیا کہ اے محبوب! آپ فرمادیجئے کہ اگر تم میں سے کوئی اللہ کی محبت اور غلامی کا دعویٰ کرتا ہے تو وہ پہلے میری محبت اور غلامی کا قلاّدہ اپنے گلے میں ڈال لے۔ اگر وہ ایسا کرے گا تو اُسے اللہ کی محبت نصیب ہوجائے گی۔
اِس آیتِ کریمہ سے یہ بات بھی روزِ روشن کی طرح عیاں ہو گئی کہ اللہ کے نزدیک وہ محبت اور اِطاعت ہرگز معتبر اور قابلِ قبول نہیں جو اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کا دَم بھرے اور اُس کی اِطاعت بجالائے بغیر ہو۔ اُس نے اپنے رسول کو اپنے اور اپنے بندوں کے درمیان واسطہ بنادیا اور یہ بات طے کردی کہ اِس واسطہ کو درمیان سے نکال کر اِطاعت و محبتِ اِلٰہی کا دعویٰکسی طور پر بھی مبنی بر حقیقت قرار نہیں دیا جا سکتا۔ مزید ارشاد فرمایا :
وَ إذَا سَأَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّی فَإنِّیْ قَرِيْبٌط
(البقرة، 2 : 186)
اور (اے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) جب آپ سے میرے بندے میرے متعلق سوال کریں (تو فرمادیں) پس میں قریب ہوں۔
یعنی اے میرے محبوب! جب میرے متلاشی بندے آپ سے میرے بارے میں سوال کریں تو آپ اُنہیں کہہ دیجئے کہ میں اُن کے بہت قریب ہوں۔ اِس آیتِ مبارکہ میں کہا جارہا ہے کہ میں اُن بندوں کے قریب ہوں۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ بندے کون ہیں جنہیں قربِ الٰہی کا مژدۂ جانفزا سنایا جارہا ہے! ذرا غور کریں تو یہ نکتہ کھل جائے گا کہ میرے بندے وہ ہیں جو پہلے میرے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے در کے سوالی بنیں۔ جو اُن کے در کا سوالی ہوگا، وُہی میرا بندہ ہوگا۔ اور جو اُس در کا سوالی نہ ہوگا، وہ میرے در کا سوالی نہیں اور وہ کبھی شانِ بندگی کا حامل نہیں ہوسکتا۔ اِسی سیاق میں اِمام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ نے کیاخوب کہا ہے :
بخدا خدا کا یہی ہے دَر، نہیں اور کوئی مفرّ مقرّ
جو وہاں سے ہو، یہیں آکے ہو، جو یہاںنہیں، تو وہاں نہیں
خدا کی بندگی کے لئے واسطۂ رِسالت کی ناگزیریت
اللہ تعالیٰ اور اُس کے بندوں کے درمیان رِسالت ایک ایسا واسطہ ہے جس سے اِطاعت و محبتِ الٰہی کے باب میں صرفِ نظر نہیں کیاجاسکتا۔ اِس لئے جب منافقین نے از رُوئے بغض و عناد درِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سرِ تسلیم خم کرنے سے اِنکار کردیا تو اللہ ربّ العزّت نے یہ اِرشاد فرما کر اُن کی قلعی کھول دی :
وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْاْ إِلَى مَا أَنزَلَ اللّهُ وَإِلَى الرَّسُولِ رَأَيْتَ الْمُنَافِقِينَ يَصُدُّونَ عَنكَ صُدُودًاo
(النساء، 4 : 61)
اور جب اُن سے کہا جاتا ہے کہ آؤ اُس چیز کی طرف جو اللہ نے نازل کیا ہے اور رسول کی طرف تو آپ دیکھیں گے کہ منافق آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منہ موڑ کر پھر جاتے ہیں۔
ملاحظہ ہو کہ یہ منافق لوگ اللہ کی طرف آنے سے پس و پیش نہیں کریں گے اور انہیں کسی قسم کی ہچکچاہٹ اور گھبراہٹ نہ ہوگی، مگر جب رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف بلایا جاتا ہے تو وہ اپنا چہرہ یہ کہہ کر پھیرلیتے ہیں کہ جب بالآخر اللہ ہی کی طرف جانا ہے تو سیدھے اُسی کی طرف کیوں نہ جائیں۔ ۔ ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف کیوں جائیں؟ اﷲتعالیٰ نے اُن لوگوں کے بارے میں جن کے دلوں کے اندر چور ہے دو ٹوک اِعلان کر دیا کہ وہ میرے بندے نہیں بلکہ منافق ہیں۔ میرا اُن سے نسبتِ بندگی کے ناطے کوئی تعلق نہیں۔
یہ بات محوّلہ بالا اِرشادِ ربانی سے طے ہوگئی کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی راہ پر چلے بغیر کوئی اپنی منزل کو نہیں پاسکتا۔ وہ لاکھ ٹکریں مارتا رہے، اُس کی بندگی کو بارگاہِ خداوندی میں سندِ قبولیت نہیں مل سکتی۔ بقول سعدی شیرازی رحمۃ اللہ علیہ :
خلافِ پیغمبر کسے رَہ گزید
ہرگز نخواہد بمنزل رسید
اللہ ربّ العزّت چاہتا تو اپنا پیغام براہِ راست اپنے بندوں تک پہنچانے کا انتظام کر سکتا لیکن اُس کے باوجود اُس نے اپنے اور بندوں کے درمیان رِسالت کا واسطہ رکھا۔ اُس کی قدرتِ کاملہ کے سامنے کوئی چیز محال نہیں، وہ اپنے فرشتوں سے یہ کام لے سکتا تھا۔ عین ممکن تھا کہ ہر شخص جب صبح بیدار ہوتاتو اُس کے سرہانے ایک سیپارہ پڑا ہوتا جس پر درج ہدایتِ ربانی اُس کے دل میں اُترجاتی۔ وہ کلام جو اُس نے اپنے چنیدہ و برگزیدہ انبیاء و رُسل کے ساتھ کیا، وہ اپنے ہر بندے کے ساتھ بھی کرسکتا تھا، اِس طرح ہر بندے کا تعلق براہِ راست اُس سے قائم ہوجاتا۔ لیکن اپنی بے پایاں حکمتوں کے پیشِ نظر اﷲ تعالیٰ نے اِس بات کا فیصلہ کردیا کہ میری ہدایت میرے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے واسطے کے بغیر ممکن نہیں اور میری معرفت کو وہی پاسکتا ہے جسے میرے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معرفت حاصل ہوجائے۔
مہرِ انگشتریئِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ناموں کی ترتیب
تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ایک انگوٹھی تھی، جس پر ’’مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اﷲِ‘‘ کے الفاظ کندہ تھے۔ آپ اُس سے مُہر لگایا کرتے تھے۔ (صحیح البخاری، 1 : 15) حکمرانانِ وقت کو خطوط بھجواتے وقت اُن پر یہ مہر لگوائی جاتی تھی۔ آجکل یہ خطوط چھپ چکے ہیں اور اُنہیں ہر کوئی دیکھ سکتا ہے۔
عربی ہمیشہ دائیں سے بائیں لکھی جاتی ہے۔ مگر یہ بات غور طلب ہے کہ انگوٹھی مبارک کی مہر میں یہ ترتیب نیچے سے اوپر کی طرف چلی گئی ہے اور وہ یوں کہ ’’محمد‘‘ نیچے، ’’رسول‘‘ درمیان میں اور ’’اﷲ‘‘ سب سے اُوپر لکھا گیا ہے۔ یہ ترتیب محض کوئی اِتفاقی امر نہیں بلکہ اِس کا مقصد لوگوں کو یہ سمجھانا تھا کہ اگر تم اللہ کا قرب حاصل کرنے کی تمنا رکھتے ہو تو اُس کا راستہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی اور اِتباع میں مضمر ہے۔ یہ ترتیبِ صعودی اِس بات کی مظہر ہے کہ اللہ تعالیٰ تک رسائی حاصل کرنے کے لئے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دہلیز پر سرِتسلیم خم کرنا لازمی ولابدّی امر ہے۔ ہمارے سفر کی اِنتہا تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ ستودہ صفات تک رسائی ہے، باقی رہا اللہ سے ملانا تو یہ اُن کا کام ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے :
تیری معراج کہ تو لوح و قلم تک پہنچا
میری معراج کہ میں تیرے قدم تک پہنچا
درِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر تقسیمِ فیوضاتِ الٰہیہ
یہ بات طے ہوگئی کہ بارگاہِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں شرفِ حضوری حاصل کرنے والے کو ہی فیضانِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نصیب ہوگا۔ یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ فیضانِ رسالت ہی معرفتِ الٰہی کے حصول کا پیش خیمہ ہے۔ واسطۂ رِسالت ہی وہ زِینہ ہے جو سیدھا عرشِ اِلٰہی تک جاتا ہے۔ اگر کوئی اِس واسطے کو درمیان سے ہٹانا چاہے تو اُس کا یہ عمل اللہ کے نظام کو منسوخ کرنے کی سعیء موہوم کے مترادف ہوگا۔ اِس حقیقت پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ اِرشادِ مبارک دلالت کرتا ہے :
اِنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ وَ اﷲُ يُعْطِیْ.
(صحيح البخاری، کتاب العلم، 1 : 16)
(الصحيح لمسلم، کتاب الزکوٰة، 1 : 333)
(مسند احمد بن حنبل، 2 : 234)
(المعجم الکبير، 19 : 284، رقم : 755)
(شرح السنة، 1 : 284، رقم : 131)
میں (نعمتوں کی) تقسیم کرنے والا ہوں اور عطا کرنے والا اﷲ ہے۔
اِس حدیثِ مبارکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عطائے نِعم کے مالک اﷲ ربّ العزّت کا ذکر بعد میں اور اُن نعمتوں کی تقسیم کے حوالے سے اپنا ذِکر پہلے کیا ہے۔ گویا یوں فرمایا کہ : ’’اے لوگو! کہاں بھٹکے جارہے ہو! قاسم میں ہی ہوں۔ اگر تمہیں خیرات و فیوضاتِ الٰہیہ چاہئیں تو تمہیں میرے دروازے پر آنا ہوگا۔ اگر مجھ سے گریزاں ہو گے تو دربدر کی ٹھوکریں کھانا تمہارانصیب ہوگا اور تمہیں ذِلت و رُسوائی کی خاک پھانکنے کے سِوا اور کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ فیوضاتِ الٰہیہ کی خیرات صرف اِسی در سے مل سکتی ہے، اِس لئے آؤ اور میری دہلیز پر جھک جاؤ‘‘۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے :
محمدِ عربی کہ آبروئے ہر دو سرا ست
کسے کہ خاکِ درش نیست خاک بر سر اُو
سلسلۂ اولیاء کا اِجراء
بابِ نبوت ہمیشہ کے لئے بند ہو جانے کے بعد فیوضاتِ الٰہیہ کی ترسیل و اِجراء کے نظام کو جاری و ساری رکھنے کے لئے اﷲ تعالیٰ نے اپنے محبوب اور مقرّب اولیائے کرام کا سلسلہ جاری فرما دیا۔ یہ اولیائے کرام درِمصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خیرات عامۃالناس میں تقسیم کرنے اور اُنہیں اﷲ کی بارگاہ کا راستہ دِکھانے پر متعین ہیں۔ اُن سے فیض حاصل کرنا حکمِ ربانی کی تعمیل ہے۔ قرآنِ مجید میں حکمِ ربانی ہے :
وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدَاةِ وَ الْعَشِیِّ يُرِيْدُوْنَ وَجْهَه‘ط وَ لَا تَعْدُ عَيْنَاکَ عَنْهُمْ.
(الکهف، 18 : 28)
(اے میرے بندے) تو اپنے آپ کو اُن لوگوں کی سنگت میں جمائے رکھا کر جو صبح و شام اپنے ربّ کو یاد کرتے ہیں، اُس کی رضا کے طلبگار رہتے ہیں (اُس کی دِید کے متمنی اور اُس کا مکھڑا تکنے کے آرزومند رہتے ہیں) تیری (محبت اور توجہ کی) نگاہیں اُن سے نہ ہٹیں۔
اِس آیتِ مبارکہ میں اﷲ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو اپنی بارگاہ تک رسائی کا طریقہ بتاتے ہوئے فرمایا : ’’اے لوگو! تم میرے اُن بندوں سے اپنا ناطہ جوڑ لو جو صبح و شام میری یاد میں سرمست رہتے ہیں اور جو میرے چمنستانِ الست سے جام پر جام لنڈھاتے ہیں اور میرے ذِکر میں اُن کے شب و روز عالمِ سرشاری میں بسر ہوتے ہیں‘‘۔
اب جنہیں میری قربت درکار ہو اُن کے لئے ضروری ہے کہ میرے اِن خدا مست بندوں کی صحبت اور سنگت اِختیار کرلیں اور اُن بادہ کشوں کی میئ سرمدی کی محفل میں آجائیں تاکہ اُنہیں بھی اُس سرور و نشاط آگیںشراب کے چند گھونٹ میسر آجائیں۔ اگر وہ نہیں تو فقط اس کی خوشبو سے جو سرشاری نصیب ہوگی وہ بھی کم نہیں۔
گردِ مستاں گرد، گر مے کم رسد بوئے رسد
بوئے اُو گر کم رسد، رؤیتِ اِیشاں بس است
پھر اِرشاد فرمایا : ’’وَ لَا تَعْدُ عَيْنَاکَ عَنْهُمْ‘‘ یعنی اے پندارِ دُنیوی میں مست رہنے والے لوگو! میرے اِن بندوں سے اپنی نگاہیں نہ ہٹانا اور اُنہیں کبھی بنظرِ تحقیر نہ دیکھنا ورنہ اللہ تم سے اپنی نگاہیں ہٹالے گا اور تمہارا نام و نشان بھی باقی نہ رہے گا۔ پھر فرمایا : ’’تُرِيْدُ زِيْنَةَ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا‘‘ کیا تم اِس چند روزہ دنیا کی زیب و زِینت کے اسیر رہنا چاہتے ہو اور آخرت کی نعمتوں کی طلب سے بیگانہ رہ کر زندگی گزارنے کے تمنائی ہو؟ خبردار! اگر اُخروی نعمتوں کے طلبگار ہو تو میرے بندوں کو اپنا مرکزِ نگاہ بنالو۔ اگر تم عارضی متاعِ حیات سے صرفِ نظر کر کے اُن کے خوشہ چیں بن جاؤگے تو وہ تمہیں طالبانِ مولا اور طالبانِ آخرت بنادیں گے اور اگر اُنہیں تکنا چھوڑ دوگے اور اُن سے نظریں ہٹا لو گے تو پھر مکروہاتِ دُنیا میں غرق ہوکر رہ جاؤگے اور دُنیا کی محبت تمہیں ذِکرِ الٰہی اور یادِ آخرت سے بیگانہ کردے گی۔ پھر اِرشاد ہوا :
وَ لَا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَنْ ذِکْرِنَا.
(الکهف، 18 : 28)
اور تو اُس شخص کی اِطاعت بھی نہ کر جس کے دِل کو ہم نے اپنے ذِکر سے غافل کر دِیا ہے۔
خبردار! اُن لوگوں کی اِطاعت نہ کرنا جن کے دلوں کو ہم نے اپنے ذِکر سے غافل کردیا ہے، اگر تم اُن کا کہنا مانوگے اور اُن کے پیچھے چلوگے تو ہم سے دُور ہوکر خُسْرَانٌ فِی الدُّنْيَا وَ الْأَخِرَة یعنی دُنیا و آخرت کی ہلاکت کے مستحق بن جاؤگے۔
اِس آیت کریمہ سے یہ سبق ملتا ہے کہ معرفت و قربِ اِلٰہی اور وصال باللہ کے لئے اللہ کا حکم ہے کہ اُس کے اُن نیک بندوں سے یک گو نہ قلبی تعلق، صحبت اور معیت اِختیار کی جائے جو فیوضاتِ نبوت حاصل کرنے کا وسیلہ ہیں۔ پس متذکرہ بالا بحث سے یہ ثابت ہوا کہ جس طرح نبی کی ذات اُلوہی فیوضات حاصل کرنے کا ذریعہ ہوتی ہے، اُسی طرح گروہِ اولیاء بھی فیوضاتِ نبوت حاصل کرنے کا ذریعہ و وسیلہ ہے۔
رُوحانی کائنات کا مِقناطیسی نظام
رُوحانیت کی حقیقت کو نہ سمجھ پانے والے مادّیت زدہ لوگ اکثر یہ سوال کرتے ہیں کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ اللہ کا ایک ولی ہزاروں میل کی مسافت سے اپنے مرید کو اپنی توجہ سے فیضاب کردے؟ اِتنی دور سے ایسا کیونکر ممکن ہے؟ کم علمی کے باعث پیدا ہونے والے اِن شکوک و شبہات کا جواب بالکل سادہ ہے کہ وہ قدیر و علیم ذات جس نے زمین اور مشتری جیسے سیارگانِ فلک کو وہ مقناطیسی قوّت عطا کر رکھی ہے، جو ہزاروں لاکھوں میلوں کے فاصلے پر خلاء میں اُڑتے ہوئے کسی شہابیئے (Meteorite) پر اثر انداز ہو کر اُسے اپنی طرف کھینچتے ہوئے اپنے اُوپر گرنے پر مجبور کر سکتی ہے، کیا وہ قادرِ مطلق ذات مادّی حقیقتوں کو رُوحانی حقیقتوں سے بدلنے پر قادِر نہیں؟ اِس حقیقت کا اِدراک وُہی کرسکتا ہے جس کا دِل بصیرتِ قلبی اور نورِ باطنی سے بہرہ ور ہو۔
ہر صاحبِ علم پر یہ حقیقت مُنکشف ہے کہ زمین جو ایک بڑا مقناطیس ہے، اُس کی مقناطیسی قوّت اُس کے قطبین (Poles) سے پیدا ہوتی ہے، جو شمالی اور جنوبی پول (North & South Poles) کہلاتے ہیں۔ کششِ ثقل کے اِن اثرات کو قطب نما (Compass) کی مثال سے بخوبی سمجھا جاسکتا ہے۔ اُسے جونہی زمین پر رکھا جاتا ہے، اُس کی سوئیوں کا رُخ شمالاً جنوباً گھوم جاتا ہے۔ جب Compass کے مقابلے میں عام سوئیاں زمین پر رکھیں تو وہ جوں کی توں پڑی رہتی ہیں اور اُن کا رُخ شمالاً جنوباً نہیں پھرتا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ Compass کی سوئی کو شمالاً جنوباً کس قوّت نے پھیرا؟ اِس کا جواب یہ ہے کہ وہ مقناطیسی سوئی جس کی نسبت زمینی قطب (Pole) کے ساتھ ہوگئی وہ عام سوئی نہیں رہی بلکہ قطب نما بن گئی۔ اِسی نسبت کے اثر نے اُس کی سمت قطبین کی طرف پھیر دی۔
رُوحانی قطب نمائے اعظم۔ ۔ ۔ مکینِ گنبدِ خضرا ء
مادّیت زدہ لوگوں کو جان لینا چاہئے کہ اُن کے دِل عام سوئی کی طرح ہیں جو کسی رُوحانی قطب سے منسلک نہ ہونے کے باعث اُس ایزد اَفروز نور سے محروم ہیں، جس کے بارے میں قرآن نے : لَا شَرَقِيَّةَ وَ لَا غَرَبِيَّةَ کہا، کیونکہ اُس کے نور کی حدیں شرق و غرب سے ماوراء ہیں۔ رُوحانی کائنات کا قطبِ اعظم صرف ایک ہے اور وہ گنبدِ خضرا میں مقیم ہے۔ زمین کے شمالی اور جنوبی دو پول ہیں، جن کی نسبت سے قطب نما کی سوئی شمالاً و جنوباً رُخ اِختیار کرلیتی ہے، جبکہ فرش سے عرش تک رُوحانی کائنات کا قطب گنبدِ خضرا کا مکین ہے۔ جس طرح عام سوئیوں کی نسبت زمین کے قطبین سے ہوجائے تو وہ عام سوئیاں نہیں رہتیں بلکہ خاص ہوجاتی ہیں، جو ظاہری واسطہ کے بغیر جہاں بھی ہوں خود بخود اپنی سمتیں شمالاً جنوباً درُست کرلیتی ہیں، بالکل اِسی طرح ایک مؤمن کا دِل بھی ہر آن مکینِ گنبدِ خضراء کی توجہاتِ کرم کی طرف مائل رہتا ہے۔ جن دلوں کی نسبت گنبدِ خضراء سے ہوجائے وہ عام نہیں رہتے بلکہ خاص دل بن جاتے ہیں۔ پھر وہ کسی ظاہری واسطے کے بغیر بغداد ہو یا اجمیر، لاہور ہو یا ملتان، جب اُن کی نسبتِ وُجود مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہو جاتی ہے تو سمت خود بخود متعین ہوجاتی ہے۔ اگر خدانخواستہ یہ سلسلۂ فیض منقطع ہوگیا تو اِس کا مطلب ہے کہ ہمارے دِل کی سوئی خراب ہے اور اُس کا رابطہ اپنے رُوحانی قطب سے کٹ گیا ہے، کیونکہ یہ فیضان تو ہمیشہ جاری رہنے والا ہے۔ اِس وسیع و عریض مادّی کائنات میں اپنے اپنے مداروں میں تیرنے والے تمام تر سیاروں اور ستاروں کے ہمیشہ دو دو پول ہوتے ہیں، جن سے اُ ن کی مِقناطیسی لہریں نکل کر اُن کی فضا میں بکھرتی اور بیرونی عناصرکے لئے اپنی طرف کشش پیدا کرتی ہیں جبکہ تحت الثریٰ سے اوجِ ثریا تک پھیلی ہوئی اِس ساری رُوحانی کائنات کا پول فقط ایک ہی ہے اور وہ ہماری ہی زمین پر واقع سرزمینِ مدینہ منورہ میں ہے۔ یہ نظامِ وحدت کی کارفرمائی ہے کہ جس دِل کی سوئی مدینہ کے پول سے مربوط ہوگئی وہ کبھی بھی بے سمت و بے ربط نہ رہے گا۔ آج بھی تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مقناطیسی توجہ ہر صاحبِ ایمان کو اُسی طرح سمت (Direction) دے رہی ہے جیسے زمینی مقناطیس کے دونوں پول کسی قطب نما کی سوئی کو شمال و جنوب کی مخصوص سمت دیتے ہیں۔
مِقناطیس کیسے بنتے ہیں؟۔ ۔ ۔ شیخ اور مرید میں فرق
مِقناطیس بنانے کے دو طریقے ہیں، جن سے عام طور پر لوہے کو مِقنایا جاتا ہے :
1۔ مِقناطیس بنانے کا پہلا اور دیرپا طریقہ الیکٹرک چارج میتھڈ (Electric Charge Method) کہلاتا ہے۔ اِس طریقے کی رُو سے لوہے کے ایک ٹکڑے میں سے برقی رَو (Electric Current) گزاری جاتی ہے۔ اِس کے نتیجے میں جو مقناطیس بنتے ہیں اُنہیں Electric Charged Magnets یعنی برقی چارج کئے گئے مقناطیس کہتے ہیں۔
یہ مقناطیس اس آیۂ کریمہ کا مِصداق ہیں جس میں اللہ تعالی کا اِرشاد ہے :
الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰوةِ وَ الْعَشِیِّ يُرِيْدُوْنَ وَجْهَه‘.
(الکهف، 18 : 28)
جو لوگ صبح و شام اپنے ربّ کو یاد کرتے ہیں اور اُس کی رضا کے طلبگار رہتے ہیں۔
اﷲ تعالیٰ نے اُن بندوں کی یہ کیفیت بیان فرمائی ہے کہ وہ صبح و شام اپنے مولا کی یاد میں مست رہتے ہیں۔ اُن میں محنت، مجاہدہ اور تزکیہ کی بجلی گزاری جاتی ہے تو رُوحانی طور پر چارج ہوجاتے ہیں۔ اس پروسس سے جو مقناطیس (Magnet) تیار ہوتے ہیں اُن میں سے کسی کو داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ بنا کر لاہور میں، کسی کو غوثِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ بنا کر بغداد شریف میں، کسی کو خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ بنا کر اجمیر شریف میں اور کسی کو بہاؤالدین زکریا رحمۃ اللہ علیہ بنا کر ملتان میں فیض رسانی کو جاری و ساری رکھنے کے لئے مامور کر دیا جاتا ہے۔
2۔ مِقناطیس بنانے کا دُوسرا طریقہ سٹروک میتھڈ (Stroke Method) کہلاتا ہے۔ اِس کے مطابق لوہے کے ٹکڑے کو کسی مقناطیس کے ساتھ رگڑا جاتا ہے تو اُس میں مقناطیسیت (Magnetism) منتقل ہوجاتی ہے اور لوہے کا وہ ٹکڑا بھی اِس رگڑ اور معیت سے مِقناطیس بن کر لوہے کی عام اشیاء کو اپنی طرف کھینچنے لگ جاتا ہے۔
رُوحانی مقناطیسیت کی دُنیا میں دُوسرے طریقے کے ضمن میں وہ لوگ آتے ہیں جو مجاہدۂ نفس، محنت اور تزکیہ و تصفیہ کے اِعتبار سے کمزور ہوتے ہیں اور وہ اِس قدر ریاضت نہیں کرسکتے مگر اُن کے اندر یہ تڑپ ضرور ہوتی ہے کہ وہ بھی اپنے قلب و باطن کو کثافت اور رذائل سے پاک و صاف کر کے رضائے الٰہی سے ہمکنار ہوں۔
وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِيْنَ. . .
(الکهف، 18 : 28)
تو اپنے آپ کو اُن لوگوں کی سنگت میں جمائے رکھ۔ ۔ ۔
اِس آیتِ مبارکہ میں اُن طالبانِ حق کا ذِکر کیا گیا ہے جو اللہ والوں کی محبت اور معیت اختیار کر کے اپنے اندر للہیت، حق پرستی اور خدا پرستی کا جوہر پیدا کرلیتے ہیں۔ سٹروک میتھڈ والے ’’وَاصْبِرْ نَفْسَکَ‘‘ کے مِصداق ہوتے ہیں۔ مُرید دوسرے طریقے (Stroke Method) سے رُوحانی مقناطیسیت لیتا ہے اور شیخ پہلے طریقے (Electric Charge Method) سے مقناطیس بنتا ہے۔
اِیصالِ حرارت اور اِیصالِ رُوحانیت
سٹروک میتھڈ کی مثال اِیصالِ مقناطیسیت کے ضمن میں اِیصالِ حرارت کی سی ہے۔ جیسے کسی مُوصِل شے کو آگ میں تپایا جائے تو وہ خود بھی گرم ہو جاتی ہے اور اپنی حرارت کو آگے بھی منتقل کرتی ہے۔ مثال کے طور پر لوہا ایک اچھا مُوصِل ہونے کے ناطے حرارت کے اِیصال کی خاصیّت رکھتا ہے جبکہ لکڑی غیرمُوصِل ہے جو آگ میں جل کر راکھ تو ہوجاتی ہے مگر اِیصالِ حرارت کی صفت ہے محروم ہے۔
جس طرح لوہا مُوصِل ہونے کے ناطے حرارت منتقل کرنے کی خاصیت سے بہرہ ور ہے اور جب تک اُسے حرارت ملتی رہے اِیصال کا عمل جاری رکھتا ہے، بالکل اُسی طرح وہ اَولیائے کرام جو فیضانِ نبوت سے بہرہ یاب ہوتے ہیں، وہ اِس فیضان کو آگے عامۃ الناس تک منتقل کرتے رہتے ہیں۔ فیضانِ نبوت کے منتقل کرنے والے اِس طریقِ کار کو رُوحانی دنیا میں سلسلہ کہتے ہیں اور یہ سلسلہ اُن اَولیائے کرام سے چلتا ہے جو گنبدِ خضراء کے مکیں سے رُوحانیت کا Magnetism لیتے اور آگے تقسیم کرتے رہتے ہیں اور اُن سے جاری ہونے والا چشمۂ فیض کبھی خشک نہیں ہوتا۔
جدید سائنسی دریافت اور نظام برقیات سے ایک تمثیل
موجودہ سائنسی دنیا میں بہت سی چیزیں سپر الیکٹرو میتھڈ(Super Electro Method) کے نظام کے تحت چل رہی ہیں، جس کے تحت ایک کوائل (Coil) پر اِتنی توجہ اور محنت کی جاتی ہے کہ ہر ممکنہ حد تک اُس کی ساری برقی مزاحمت (Electrical Resistance) ختم کردی جاتی ہے۔ صوفیاء کی زبان میں اِسے تزکیہ کہتے ہیں۔ جس کے بارے میں قرآن مجید نے فرمایا :
قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰيo
(الاعلیٰ، 87 : 14)
بے شک وہی بامُراد ہوا جو (نفس کی آفتوں اور گناہوں کی آلودگیوں سے) پاک ہو گیاo
تزکیہ کیا ہے؟
برقیات کی اِصطلاح میں :
یہ بجلی چارج کرنے کے خلاف تمام تر ممکنہ مزاحمت کو ختم کرنا ہے۔
صوفیاء کی اِصطلاح میں :
یہ نفس کی کدُورتوں، رذائل اور اُس مزاحمت کو دور کرنا ہے جو قربِ الٰہی کی راہ میں حائل ہوتی ہے۔
برقیات کے حوالے سے ہونے والی جدید سائنسی پیش رفت میں کسی بھی کوائل (Coil) کو اِس قدر ٹھنڈا کیا جاتا ہے کہ اُس کا درجۂ حرارت 269o سینٹی گریڈ پر چلا جاتا ہے۔ اِس طرح جو الیکٹرومیگنٹ (Electro Magnet) حاصل ہوتا ہے، وہ زیادہ سے زیادہ کرنٹ اپنے اندر سما سکتا ہے۔ واضح رہے کہ ہماری زمین کا اَوسط درجۂ حرارت محض 15o سینٹی گریڈ جبکہ پوری کائنات کا درجۂ حرارت 270o سینٹی گریڈ ہے۔
اِسی تمثیل پر صوفیائے کرام مجاہدہ و محاسبۂ نفس کے ذریعے اپنے اندر سے غصہ، حسد، بغض، غرور، تکبر اور نفس کی دیگر جملہ کثافتوں کو جو حصولِ فیض کی راہ میں مانع ہوتی ہیں، اپنے نفس کو خوب ٹھنڈا کر کے بالکل نکال دیتے ہیں تآنکہ وہ سراپا یوں نظر آنے لگتے ہیں :
وَ الْکَاظِمِيْنَ الْغَيْظَ وَ الْعَافِيْنَ عَنِ النَّاسِ وَ اﷲُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِيْنَo
(آل عمران، 3 : 134)
اور غصہ ضبط کرنے والے ہیں اور لوگوں سے (اُن کی غلطیوں پر) درگزر کرنے والے ہیں اور اﷲ اِحسان کرنے والوں سے محبت فرماتا ہےo
جس طرح Super Electro Magnet مادّ ی کثافتوں کے دُور ہونے سے چارج ہوتا ہے اور اُس سے مادّی دُنیا میں کرامتیں صادِر ہونے لگتی ہیں، بالکل اِسی طرح اولیاء کا نفس کثافتوں اور رذائل و کدُورت سے پاک ہوکر فیضانِ اُلوہیت اور فیضانِ رسالت کو اپنے اندر جذب کرلینے کے قابل بن جاتا ہے اور پھر وہ جدھر نگاہ اُٹھاتے ہیں کرامات کا ظہور ہونے لگتا ہے۔ اِس قلبِ ماہیت سے اولیاء کے دل مُوصِل مِقناطیس (Conducting Magnet) بن جاتے ہیں۔
جب اُس الیکٹرومیگنٹ (Electro Magnet) کو ایک خاص پروسیس سے گزارا جاتا ہے تو وہ Super Conducting Magnet بن جاتا ہے۔ اِسے این ایم آر یعنی Nuclear Magnetic Resonant کے پروسیس سے گزارتے ہیں۔ مریض کو جب اُس کے سامنے رکھ دیا جاتا ہے تو اُس کے بدن کے اندر کی تمام چیزوں سے پردے اُٹھ جاتے ہیں۔ گویا جسم کا پردہ تو قائم رہتا ہے مگر مِقناطیسیت کی وجہ سے Scanner کے ذریعے وہ چیزیں جو ننگی آنکھ نہیں دیکھ سکتی سب آشکار کردی جاتی ہیں۔
سو وہ لوگ جنہوں نے تزکیہ و تصفیہ کی راہ اِختیار کی، اُن پر سے بصورتِ کشف پردے اُٹھا دیئے جاتے ہیں۔ وہ کشف سے توجہ کرتے ہیں تو ہزارہا میل تک اُن کی نگاہ کام کرتی ہے اور وہ چیزیں جو مغیبات میں سے ہیں اور عام طور پر ننگی آنکھ پہ ظاہر نہیں ہوتیں، اُن پر آشکار کردی جاتی ہیں۔
رُوحانی مِقناطیسیت کے کمالات
یہ تزکیہ و تصفیہ کے طریق سے حاصل ہونے والی اُسی رُوحانی مِقناطیسیت کا کمال تھا کہ تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبتِ جلیلہ میں تربیت پانے والے صحابۂ کرام مادّی ذرائع اِختیار کئے بغیر ہزاروں میل کی مسافت پر موجود سپہ سالارِ لشکرِ اِسلام کو ہدایات دینے پر قادِر تھے۔ سیدنا ساریہ بن جبل رضی اللہ عنہ کی زیرقیادت اِسلامی لشکر دُشمنانِ اِسلام کے خلاف صف آراء تھا۔ دُشمن نے ایسا پینترا بدلا کہ اِسلامی اَفواج بُری طرح سے اُس کے نِرغے میں آ گئیں۔ اُس وقت مسلمانوں کے دُوسرے خلیفہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ مدینہ منورہ میں بر سرِ منبر خطبۂ جمعہ اِرشاد فرما رہے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ کی رُوحانی توجہ کی بدولت میدانِ جنگ کا نقشہ آپ کی نظروں کے سامنے تھا۔ دورانِ خطبہ بآوازِ بلند پکارے :
يَا سَارِیَ الْجَبَل.
(مشکوٰة المصابيح : 546)
اے ساریہ! پہاڑ کی اوٹ لے۔
یہ اِرشاد فرما کر آپ دوبارہ اُسی طرح خطبہ میں مشغول ہو گئے۔ نہ آپ کے پاس راڈار تھا اور نہ ہی ٹی وی کا کوئی ڈائریکٹ چینل، ہزاروں میل کی دُوری پر واقع مسجدِ نبوی میں خطبۂ جمعہ بھی دے رہے ہیں اور اپنے سپہ سالار کو میدانِ جنگ میں براہِ راست ہدایات بھی جاری فرما رہے ہیں۔ نہ اُن کے پاس وائرلیس سیٹ تھا، نہ موبائل فون۔ ۔ ۔ کہ جس سے میدانِ جنگ کے حالات سے فوری آگہی ممکن ہوتی۔ یہ رُوحانی مِقناطیسی قوّت تھی، اندر کی آنکھ سب کچھ دیکھ رہی تھی۔ حضرت ساریہ بن جبل رضی اللہ عنہ نے سیدنا فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کا پیغام موصول کیا اور اُس پر عمل درآمد کرتے ہوئے پہاڑ کی اوٹ لے کر فتح پائی۔ دُشمن کا حملہ ناکام رہا اور عساکرِ اِسلام کے جوابی حملے سے فتح نے اُن کے قدم چومے۔
فیضانِ نبوی اور فیضانِ صحابہ ہی کی خوشہ چینی کی بدولت اولیاء اللہ عبادت، زُہد و ورع، اِتباعِ سنت، تقویٰ و طہارت، پابندئ شریعت، اَحکامِ طریقت کی پیروی اور اللہ تعالیٰ کے امر کی تعمیل کے ذریعے اپنے قلب و باطن کا تزکیہ و تصفیہ کر کے زِندگی سرورِ انبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عشق و محبت اور اِتباع میں گزار کر اپنے اندر ’’رُوحانی مقناطیسیت‘‘ پیدا کرلیتے ہیں۔
مادّی ترقی کی اِس سائنسی دُنیا میں جہاں گلوبل ویلج کا اِنسانی تصوّر حقیقت کا رُوپ دھار رہا ہے، کمپیوٹر کی دُنیا میں فاصلے سمٹ کر رہ گئے ہیں، اِنٹرنیٹ نے پوری دُنیا کو رائی کے دانے میں سمیٹ لیا ہے۔ آج سائنسی ترقی کا یہ عالم ہے کہ موجودہ دَور کا عام آدمی بھی اپنی ہتھیلی پر موجود رائی کے دانے کی طرح تمام دُنیا کا مشاہدہ کرنے پر قادِر ہے۔ یہ مادّی ترقی کا اعزاز ہے، جس نے ہمیں آلات کی مدد سے اِس اَوجِ ثریا تک لا پہنچایا ہے، لیکن قربان جائیں سرورِ دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلاموں کے تصرّفات پر جو فقط اپنی رُوحانی ترقی اور کمالات کی بدولت اِس منزل کو پا چکے تھے۔ سرکارِ غوثِ اعظم سیدنا عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
نَظَرْتُ إلٰی بِلَادِ اﷲِ جَمْعًا
کَخَرْدَلَةٍ عَلٰی حُکْمِ التَّصَالِیْ
ترجمہ : میں اﷲ کے تمام ملکوں کو ایک ساتھ اِس طرح دیکھتا ہوں جیسے میری ہتھیلی پر رائی کا ایک معمولی دانہ (میری نظر میں ہوتا ہے)۔
تزکیہ و ریاضت سے حیات بخشی تک
مزید برآں مِقناطیس (Magnet) ایک پروسیس کے ذریعے اِس قابل بن جاتے ہیں کہ اُن سے بجلی پیدا ہونے لگتی ہے، جو حرارت اور روشنی پیدا کرنے کا مُوجب ہے۔ اور جب یہ بجلی حرکی توانائی (Mechanical Energy) میں منتقل ہوتی ہے تو چیزوں کی ہیئت بدلنے لگتی ہے اور مُردہ جسم حرکت کرنے لگتے ہیں۔ اِس کی سادہ سی مثال پلاسٹک کی گڑیا ہے، جس کو بیٹری سے چارج کیا جائے تو وہ متحرّک ہوجاتی ہے اور مختلف ریکارڈ شدہ آوازیں بھی نکالتی ہے۔ ایسا کھلونا اُس وقت تک متحرّک رہتا ہے جب تک اُسے بیٹری سیل سے چارج ملتا رہتا ہے اور یوں مادّی کائنات میں بیٹری سیل کا نظام مُردہ اَجسام کو زندگی اور حرکت دیتا ہے۔ اِسی طرح رُوحانی دُنیا میں بھی جب اولیائے کرام کی رُوحانیت اپنے تکمیلی پروسیس سے گزرتی ہے تو جس مُردہ دِل پر اُن کی نظر پڑتی ہے وہ زِندہ ہو جاتا ہے۔ وہ مُردہ لوگ جو صحبتِ اولیاء سے فیضیاب ہو کر زِندہ ہوجاتے ہیں، اُن کے دل اور روحیں حیاتِ نو سے مستفیض ہوجاتی ہیں۔ اِس کی تصدیق قرآنِ مجید میں بیان کردہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام کی ملاقات کے حوالے سے ہوتی ہے۔ جب ایک مقام ’’مجمع البحرین‘‘ پر۔ ۔ ۔ جو حضرت خضرعلیہ السلام کی قیام گاہ تھی۔ ۔ ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ناشتہ دان میں سے مُردہ مچھلی زِندہ ہوکر پانی میں کود جاتی ہے۔ یہ واقعہ اِس اَمر کا مظہر ہے کہ وہ مقام جو حضرت خضر علیہ السلام کا مسکن تھا، اُس کی آب و ہوا میں یہ تاثیر تھی کہ مُردہ اَجسام کو اُس سے حیاتِ نو ملتی تھی۔ قرآنِ مجید میں اِس واقعہ کا ذِکر یوں آیا ہے :
فَلَمَّا بَلَغَا مَجْمَعَ بَيْنَهُمَا نَسِيَا حُوْتَهُمَا فَاتَّخَذَ سَبِيْلَه‘ فِی الْبَحْرِ سَرَباًo
(الکهف، 18 : 61)
سو جب وہ دونوں دو دریاؤں کے سنگم کی جگہ پہنچے تو وہ دونوں اپنی مچھلی (وہیں) بھول گئے، پس وہ (تلی ہوئی مچھلی زِندہ ہو کر) دریا میں سرنگ کی طرح اپنا راستہ بناتے ہوئے نکل گئی۔
یوں اَولیاء اللہ کا وُجودِ مسعود حیات بخشی کا مظہر ہوتا ہے اور وہ مُردوں میں زِندگیاں بانٹنے پر مامور ہوتے ہیں۔ جیسا کہ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کے لئے فرمایا :
گنج بخش فیض عالم مظہر نور خدا
ناقصاں را پیر کامل کاملاں را رہنما
بجلی کا نظام ترسیل اور اَولیاء اللہ کے سلاسل
اولیاء اﷲ کے سلاسل دُنیا بھر میں موجود بجلی کے نظامِ ترسیل ہی کی مِثل ہوتے ہیں۔ اَب یہ اپنے اپنے ظرف کی بات ہے کہ کوئی کس حد تک فیض لے سکتا ہے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ میں بجلی ڈائریکٹ تربیلا ڈیم سے لوں گا تو کیا ایسا ممکن ہے! تربیلا ڈیم سے کنکشن کسے مل سکتا ہے! دُنیا میں بجلی کی ترسیل کا ایک نظام ہے، اُس کے لئے اپنے سلاسل ہیں جن کی پابندی ضروری ہے۔ ایک طے شدہ نظام کے مطابق بجلی تربیلا ڈیم سے پاور ہاؤس تک، پاور ہاؤس سے پاورسٹیشن اور ٹرانسفارمر تک اور وہاں سے مقررہ اندازے کے مطابق گھر میں آتی ہے۔ ٹرانسفارمر سے کنکشن لینے کے بعد ہم گھروں میں سٹیبلائزر (Stabliser) اور فیوز (Fuse) بھی لگاتے ہیں تاکہ ہمارے گھریلو حساس برقی آلات کہیں جل نہ جائیں۔ ایسا اِس لئے کرتے ہیں کہ ہمارے گھروں کا برقی سسٹم اِتنا مضبوط اور مستحکم نہیں ہوتا کہ زیادہ وولٹیج کا متحمل ہوسکے۔ اِسی نظام کو سلسلہ کہتے ہیں۔
اِس مادّی عالم کی طرح عالمِ رُوحانیت میں بھی اللہ تعالیٰ نے فرش سے عرش تک اِس ارضی و سماوی کائنات میں ایک واحد رُوحانی ڈیم بنایا ہے، جس سے رحمت کا فیض ساری کائنات میں مختلف سلاسل کے نظام کے ذریعے منتقل ہوتا ہے۔ رحمت و رُوحانیت کا وہ ڈیم آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ گرامی ہے اور اُس فیضانِ رسالت کو تقسیم کرنے کے لئے اولیاء اللہ کے وسیع و عریض سلاسل ہیں، جنہیں Power Distribution Systems یعنی رُوحانی بجلی کی ترسیل و تقسیم کے نظام کہتے ہیں۔ یہی اولیائے کرام مخلوقِ خداوندی میں بقدرِ ظرف فیض تقسیم کرنے میں مصروف رہتے ہیں اور یہ سلسلہ تا قیامِ قیامت یونہی جاری و ساری رہے گا۔
اولیائے کرام نے چونکہ سخت محنت، ریاضت اور مجاہدے سے نسبتِ محمدی کو مضبوط سے مضبوط تر بنا لیا ہے اِس لئے وہ براہِ راست وہیں سے فیض حاصل کرتے ہیں۔ جبکہ ہر شخص کا ظرف اِس قابل نہیں ہوتا کہ وہ ڈائریکٹ اُس ڈیم سے فیض حاصل کر سکے۔ عام افرادِ دُنیا کے لئے وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِيْنََ کا درس ہے کہ وہ اُن اللہ والوں کی سنگت اِختیار کر لیں اور اپنے آپ کو اُن سے پیوستہ اور وابستہ رکھیں تو اُنہیں بھی فیض نصیب ہوجائے گا۔
سلاسلِ طریقت کا یہ نظام مِن جانبِ اللہ قائم ہے۔ یہ ایک سلسلۂ نور ہے، جو تمام عالمِ اِنسانیت کو ربّ لا یزال کی رحمت سے سیراب کر رہا ہے۔ اِس سے اِنکار، عقل کا اِنکار، شعور کا اِنکار اور ربّ کائنات کے نظامِ ربوبیت کا اِنکار ہے۔
چاند کی تسخیر اور اپالو مِشن
رُوحانی تعلق کی ضرورت کو یوں بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ خلائی تحقیقات کے امریکی اِدارے National Aeronautic Space Agency – NASA کی طرف سے تسخیرِ ماہتاب کے لئے شروع کئے گئے دس سالہ اپالو مِشن کا پروب Apolo-10 چاند کی تسخیر کے لئے محوِ سفر تھا تو امریکی ریاست فلوریڈا میں قائم زمینی مرکز Kennedy Space Center – KSC میں موجود سائنسدان اُسے براہِ راست ہدایات دے رہے تھے۔ ایسے میں دورانِ سفر حادثاتی طور پراُس کا رابطہ اپنے زمینی کنٹرول رُوم سے منقطع ہوگیا، جس کے نتیجے میں نہ صرف وہ اپنی منزلِ مقصود تک نہ پہنچ سکا بلکہ آج تک اُس کا سُراغ بھی نہ مِل سکا۔ اِس عظیم حادثے کے کچھ ہی عرصے بعد جولائی 1969ء میں اپالو مِشن کا اگلا پروب Apolo-11 چاند کی طرف بھیجا گیا۔ دورانِ سفر چونکہ اُس کا رابطہ اپنے زمینی مرکز سے بحال رہا اِس لئے وہ چاند تک پہنچنے اور دو دِن بعد بحفاظت واپس لوٹنے میں کامیاب رہا۔ سو جس طرح وہ اپالو مہم جس کا رابطہ زمین پر واقع اپنے خلائی تحقیقاتی مرکز سے کھو گیا تھا، وہ ناکام اور تباہ و برباد ہوگئی، اوردُوسری طرف وہ مہم جس کا رابطہ بحال رہا، کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔ ۔ ۔ بالکل اِسی طرح یہ بات ذِہن نشین رہنی چاہیئے کہ اِس مادّی دنیا کی طرح ربّ ذوالجلال نے رُشد و ہدایت کے ایک طے شدہ نظام کے ذریعے کامیابی اور نجات کی منزل تک پہنچنے کے لئے رُوحانی مرکزِ نجات حضور نبئ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات کو بنایا ہے۔ سو ہم میں سے جس کا رابطہ اس مرکزِ مصطفوی سے قائم رہا وہ منزلِ مقصود تک پہنچ جائے گا اور جو اپنا رابطہ بحال نہ رکھ سکا وہ نیست و نابود ہو کر رہ جائے گا اور اپالو 10 جیسی تباہی اور ہلاکت اُس کا مقدّر ہو گی۔
قلبی سکرین اور روحانی ٹی وی چینل
آج کے اِس دورِ فتن میں ہمارے دِلوں پر غفلت کے دبیز پردے پڑے ہوئے ہیں اور اُن پر فیضانِ اُلوہیت اور فیضانِ رِسالت کا نزول بند ہو گیا ہے۔ جس کی وجہ سے ہم مطلقاً وُجودِ فیض ہی کا اِنکار کرنے پر تُل جاتے ہیں۔ بات دراصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے دل کو ایک ٹی وی سکرین کی مثل بنایا ہے، جس پر رُوحانی چینل سے نشریات کا آنا بند ہوگیا ہے اور ہم غفلت میں کہتے پھرتے ہیں کہ چینل نے کام کرنا بند کردیا ہے۔ نہیں! چینل پر نشریات تو اُسی طرح جاری ہیں جبکہ ہمارے ٹی وی سیٹ میں کوئی خرابی آگئی ہے اور جب تک اِس خرابی کو دُور نہیں کیا جائے گا، نشریات سنائی اور دِکھائی نہیں دیں گی۔ جس طرح ٹی وی کے لئے اسٹیشن سے رابطہ بحال ہو تو سکرین پر تصویر بھی دِکھائی دیتی ہے اور آواز بھی سنائی دیتی ہے اور اگر یہ رابطہ کسی وجہ سے ٹوٹ جائے تو پھر آواز سنائی دیتی ہے اور نہ تصویر دِکھائی دیتی ہے۔ اِسی طرح سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمۃ للعالمینی اور فیضانِ نبوت کا سلسلہ بلا اِنقطاع جاری و ساری ہے، یہ ہمارے قلب کی سوئی ہے جو رابطہ بحال نہ ہونے کے باعث اُس اسٹیشن کو نہیں پارہی جہاں سے رُوحانی نشریات دِن رات نشر ہو رہی ہیں۔ آج بھی یہ رابطہ بحال ہوجائے تو یہ فیضان ہم تک بلا روک پہنچ سکتا ہے۔
اولیائے کرام کا تعلق اپنے آقا و مولا ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کبھی نہیں ٹوٹتا اور اُن کی قلبی سکرین ہمہ وقت گنبدِ خضراء کی نشریات سے بہرہ یاب رہتی ہے۔ حضرت ابو العباس مرصی رحمۃ اللہ علیہ ایک بہت بڑے ولی اللہ گزرے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں :
لو حجب عنی رسول اﷲ صلی اﷲ عليه وسلم طرفة عين ما عددتُ نفسی من المُسلمين.
(رُوح المعانی، 22 : 36)
اگر ایک لمحہ کے لیے بھی چہرہ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے سامنے نہ رہے تو میں اس لمحے خود کو مسلمان نہیں سمجھتا۔
اللہ کے بندوں کے قلب کی سوئی گنبدِ خضراء کے چینل (Channel) پر لگی رہتی ہے اور اُن کا رابطہ کسی لمحہ بھی اپنے آقا و مولا کی بارگاہ سے نہیں ٹوٹتا، اِس لئے وہ تکتے بھی رہتے ہیں اور سنتے بھی رہتے ہیں۔
اَصحابِ کہف پر خاص رحمتِ الٰہی
قرآن فہمی کے باب میں ربط بین الآیات بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اِس حوالے سے جب ہم سورۂ کہف کا مطالعہ کرتے ہوئے آیاتِ قرآنی کا ربط دیکھتے ہیں تو وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ سے اِس سورۂ مبارکہ میں بیان کردہ واقعۂ اصحابِ کہف اپنی پوری معنویت کے ساتھ ہمارے سامنے آجاتا ہے۔ یہ پہلی اُمت کے وہ اَولیاء اللہ تھے جو اللہ کے دِین اور اُس کی رضا کے لئے دُشمنانِ دین کے ظلم و سِتم سے بچنے کے لئے اپنے گھروں سے ہجرت کر گئے اور ایک غار میں پناہ حاصل کرلی اور وہاں بحضورِ خداوندی دعاگو ہوئے :
رَبَّنَا اٰتِنَا مِنْ لَّدُنْکَ رَحْمَةً وَّ هَيِّئ لَنَا مِنْ أَمْرِنَا رَشَدًاo
(الکهف، 18 : 10)
اے ہمارے ربّ! ہمیں اپنی بارگاہ سے خصوصی رحمت عطا فرما اور ہمارے کام میں راہ یابی (کے اَسباب) مہیا فرماo
اُن کی دعا کو شرفِ قبولیت بخشتے ہوئے باری تعالیٰ نے اُنہیں اِس مُژدۂ جانفزا سے نوازا کہ تمہارا ربّ ضرور اپنی رحمت تم تک پھیلا دے گا۔ اَب سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ خاص رحمت جس کا ذکر قرآن کریم میں مذکور ہے، کیا تھی؟ یہاں قرآنِ مجید کے سیاق و سباق کا عمیق مطالعہ کیا جائے تو اصحابِ کہف کے حوالے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ وہ غار میں 309 سال تک آرام فرما رہے۔ کھانے پینے سے بالکل بے نیاز قبر کی سی حالت میں 309 سال تک اُن جسموں کو گردشِ لیل و نہار سے پیدا ہونے والے اَثرات سے محفوظ رکھا گیا۔ سورج رحمتِ خداوندی کے خصوصی مظہر کے طور پر اُن کی خاطر اپنا راستہ بدلتا رہا تاکہ اُن کے جسم موسمی تغیرات سے محفوظ و مامون اور صحیح و سالم رہیں۔ 309 قمری سال 300 شمسی سالوں کے مساوِی ہوتے ہیں۔ اِس کا مطلب یہ ہوا کہ کرۂ ارضی کے 300 موسم اُن پر گزر گئے مگر اُن کے اجسام تروتازہ رہے۔ اور تین صدیوں پر محیط زمانہ اُن پر اِنتہائی تیز رفتاری کے ساتھ گزر گیا۔ قرآنِ مجید فرماتا ہے :
وَ تَرَی الشَّمْسَ إذَا طَلَعَتْ تَّزٰوُرَ عَنْ کَهْفِهِمْ ذَاتَ الْيَمِيْنِ وَ إذَا غَرَبَتْ تَّقْرِضُهُمْ ذَاتَ الشِّمَالِ وَ هُمْ فِیْ فَجْوَةٍ مِنْه‘ط
(الکهف، 18 : 17)
اور آپ دیکھتے ہیں جب سورج طلوع ہوتا ہے تو اُن کے غار سے دائیں جانب ہٹ جاتا ہے اور جب غروب ہونے لگتا ہے تو اُن سے بائیں جانب کتراجاتا ہے اور وہ اُس کشادہ میدان میں (لیٹے) ہیں۔
اللہ کی خاص نشانی یہی ہے کہ اس نے اپنے ولیوں کے لئے 309 قمری سال تک سورج کے طلوع و غروب کے اُصول تک بدل دیئے اور ذٰلِکَ تَقْدِیْرُ الْعَزِیْزِ الْعَلِیْمِ کی رُو سے ایک معین نظامِ فلکیات کو سورج کے گرد زمین کی تین سو مکمل گردشوں تک کے طویل عرصے کے لئے صرف اِس لئے تبدیل کردیا گیا اور فطری ضابطوں کو بدل کر رکھ دیا گیا تاکہ اُن ولیوں کو کوئی گزند نہ پہنچے۔
اﷲ ربّ العزّت نے اِس پورے واقعے کو بیان کر کے اِسی تناظر میں یہ اِرشاد فرمایا : ’’اگر لوگ میرا قرب حاصل کرنا چاہتے ہیں تو میرے اِن مقرّب بندوں کے حلقہ بگوش ہو جائیں اور وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِيْنََ کو حرزِ جاں بنالیں‘‘۔ پھر آگے چل کر اِرشادِ ربانی ہوا :
مَنْ يَهْدِ اﷲُ فَهُوَ الْمُهْتَدُ وَ مَنْ يُضْلِلْ فَلَنْ تَجِدَ لَه‘ وَلِيًّا مُرْشِدًا.
(الکهف، 18 : 17)
اﷲ جسے ہدایت دیتا ہے وہی راہِ ہدایت پر ہے اور جس کو وہ گمراہ کردے تو آپ کسی کو اُس کا دوست نہیں پائیں گے۔
خدائے رحمان و رحیم نے اپنی خصوصی رحمت سے اصحابِ کہف کو تھپکی دے کر پُرکیف نیند سلادیا اور اُن پر عجیب سرشاری کی کیفیت طاری کر دی۔ پھر اُنہیں ایک ایسے مشاہدۂ حق میں مگن کر دیا کہ صدیاں ساعتوں میں تبدیل ہوتی محسوس ہوئیں۔ جیسا کہ قیامت کا دِن جو پچاس ہزار سال کا ہوگا، وہ اللہ کے نیک بندوں پر عصر کی چار رَکعتوں کی اَدائیگی جتنے وقت میں گزر جائے گا۔ جبکہ دیگر لوگوں پر وہ طویل دِن ناقابلِ بیان کرب و اَذیت کا حامل ہوگا۔ پس ثابت ہوا کہ مشاہدۂ حق کے اِستغراق میں وقت سمٹ جاتا ہے اور صدیاں لمحوں میں بدل جاتی ہیں۔
مہینے وصل کے گھڑیوں کی صورت اُڑتے جاتے ہیں
مگر گھڑیاں جُدائی کی گزرتی ہیں مہینوں میں
روزِ قیامت اللہ تعالیٰ ملائکہ کو حکم دے گا کہ اُن طالبانِ مولا کو۔ ۔ ۔ جن کے پہلو فقط میری رضا کی خاطر نرم و گداز بستروں سے دُور رہتے تھے اور اُن کی راتیں مصلّے پر رکوع و سجود میں بسر ہوتی تھیں۔ ۔ ۔ میرے دِیدار سے شرفیاب کیا جائے اور اُن پر سے سب حجابات اُٹھا دیئے جائیں۔ پس وہ قیامت کے دِن نور کے ٹیلوں پر رَونق اَفروز ہوں گے اور صدیوں پر محیط وہ طویل وقت اُن پر عصر کے ہنگام کی طرح گزر جائے گا جب کہ دوسروں کے لئے یہ عرصۂ قیامت پچاس ہزار سال کے برابر ہوگا۔
اَولیاء اﷲ کی بعد از وفات زِندگی
اصحابِ کہف کے حوالے سے قرآنِ مجید کہتا ہے کہ جب اُن پر صدیوں کا عرصہ چند ساعتوں میں گزر گیا اور بیدار ہونے پر انہوں نے ایک دوسرے پوچھا کہ ابھی کتنا عرصہ گزرا ہوگا، تو اُن میں سے ایک نے کہا : يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ ’’ایک دن یا دن کا کچھ حصہ‘‘۔ قرآنِ کریم کی اِس بات سے کیسے اِنکا رہوسکتا ہے کہ اُن پر صدیاں گزر گئی تھیں، مگر اُن کے کپڑے بوسیدہ نہ ہوئے تھے اور جسموں میں کوئی کمزوری اور نقاہت کے آثار نہ تھے بلکہ یک گو نہ تازگی اور بشاشت تھی جیسے وہ چند گھٹنے نیند کر کے تازہ دَم اُٹھے ہوں۔
پھر اُنہوں نے اپنے میں سے ایک ساتھی کو کچھ سکے دے کر کہا کہ جاؤ اِس رقم سے کھانے کی کچھ چیزیں خرید لاؤ۔ جب وہ سودا سلف خریدنے بازار گیا تو دُکاندار اُن سکوں کو حیرت اور بے یقینی سے تکنے لگا کہ یہ شخص صدیوں پرانے سکے کہاں سے لے کر آگیا! وہ اُنہیں قبول کرنے سے اِنکاری تھا کہ اِتنی صدیوں پرانے سکے اَب نہیں چلتے۔ وہ (اصحابِ کہف کا فرد) کہنے لگا : ’’بھئی یہ سکے ابھی ہم کل ہی تو اپنے ساتھ لے کر گئے تھے‘‘۔ دکاندارنے کہا : ’’کیا بات کرتے ہو یہ صدیوں پرانے سکے جانے تم کہاں سے لے کے آگئے ہو‘‘! پھر جب اصحابِ کہف کے اُس فرد نے اپنے گردو پیش توجہ کی اور غور سے دیکھا تو اُس ماحول کی ہرچیز کو بدلا ہوا پایا۔
یہ اہل اللہ وہ اہلِ مشاہدہ ہوتے ہیں کہ جن پر غاروں میں ہزاروں برس بھی بیت جائیں، مگر اُن کی جسمانی حالت میں کوئی تبدیلی واقع نہ ہوگی۔ اِسی طرح وہ اہلِ مشاہدہ جو قبر میں برزخی زندگی گزار رہے ہیں، ہزاروں سال اُن پر اِس طرح بیت جائیں گے جیسے دو لمحے ہوں۔ یہ کوئی من گھڑت قصہ نہیں، قرآنِ حکیم کا بیان کردہ واقعہ ہے، جس کی صداقت کو جھٹلایا نہیں جاسکتا۔ اولیائے کرام کا یہ عالم ہے کہ وِصال کے بعد بھی مشاہدۂ حق کی زِندگی گزار رہے ہیں۔ پھر اُس پیغمبرِ حق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذِکر ہی کیا جو آئے ہی مُردہ اِنسانوں میں زِندگیاں بانٹنے کے لئے تھے اور جو آج تک زندگیاں بانٹ رہے ہیں۔
اولیاء اﷲ کا خدمت گزار کتا بھی سلامت رہا
اصحابِ کہف کے ساتھ اُن کا ایک خدمت گزار کتا بھی تھا۔ 309 سال تک وہ کتا بھی غار کے دہانے پر پاؤں پھیلائے اُن کی حفاظت پر مامور رہا۔ اُن کی نسبت سے قرآنِ مجید میں اُس کتے کا ذِکر بھی آیا ہے :
وَ کَلْبُهُمْ بَاسِطٌ ذِرَاعَيْهِ بِالْوَصِيْدِ.
(الکهف، 18 : 18)
اور اُن کا کتا (اُن کی) چوکھٹ پر اپنے دونوں بازو پھیلائے (بیٹھا) ہے۔
کتے کو یہ مقام اُن غار نشین اولیائے حق کی بدولت ملا۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ جب وقفے وقفے سے اصحابِ کہف دائیں بائیں کروٹ لیتے تو وہ کتا بھی کروٹ لیتا تھا۔ یہ اُسی صحبت نشینی کا اثر تھا جس کا ذکر وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِيْنَ میں ہوا۔ بعض رِوایات میں ہے کہ اصحابِ کہف نے اِس خدشے کے پیشِ نظر کہ کتے کے بھونکنے سے کہیں ظالم بادشاہ کے کارندے اُن تک نہ آن پہنچیں، بہت کوشش کی کہ کتا غار سے چلا جائے۔ وہ اُسے دُھتکارتے لیکن وہ اُن کی چوکھٹ پر جم گیا اور تین صدیوں تک فیضِ رحمت سے بہریاب ہوتا رہا۔
ذاتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ ۔ ۔ منبعِ فیوضیاتِ اِلٰہیہ
آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی رحمۃ للعالمینی کی بناء پر اِس کائناتِ آب و گل کے مقناطیسِ اعظم ہیں، جنہیں بارگاہِ اُلوہیت سے ’’الیکٹرک چارج میتھڈ‘‘ اور ’’سٹروک میتھڈ‘‘ دونوں ذرائع سے فیض ملا ہے۔ بقول اقبال :
دَر شبستانِ حرا خلوت گزید
قوم و آئین و حکومت آفرید
غارِ حراء کی خلوتوں نے تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پوری نسلِ اِنسانی کا محسن و ہادئ اعظم بنا دیا۔ جن کے دم قدم سے دنیائے شرق و غرب ایک قوم، ایک قرآن اور ایک حکومتِ الٰہیہ کے نظم میں پرو دی گئی۔ اُس فیضانِ اُلوہیت کا ذِکر کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ ایک رات مجھے اﷲ تعالیٰ نے اپنی شان کے مطابق دیدار عطا کیا اور اپنا دستِ قدرت میرے دونوں شانوں کے درمیان رکھا۔ اُس کی بدولت میں نے اپنے سینے میں ٹھنڈک محسوس کی، پھر اِس کے بعد میرے سامنے سے سارے پردے اُٹھا دیئے گئے اور آسمان و زمین کی ہر چیز مجھ پر روشن ہوگئی۔ فیضِ اُلوہیت کا یہ عالم تو زمین پر تھا، اُس فیض کا عالم کیا ہوگا جو ’’قَابَ قَوْسَيْن‘‘ کے مقا م پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درجات کی بلندی کا باعث بنا اور پھر آپ کو ’’أَوْ أَدْنٰی‘‘ کا قربِ اُلوہیت عطا ہوا۔ جس کے بعد زمان و مکاں اور لا مکاں کے تمام فاصلے مٹ گئے اور محب و محبوب میں دو کمانوں سے بھی کم فاصلہ رہ گیا۔ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنٰی کے الفاظ سے مخلوق کو یہ بتلانا مقصود تھا کہ دیکھو اپنا عقیدہ درست رکھنا۔ اللہ تعالی کی خالقیت اور معبودیت اپنی جگہ برحق ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اِتنا قریب ہوکر بھی عبدیت کے مقام پر فائز ہیں۔ یہ فرق روا رکھنا لازم ہے۔
فیضِ اُلوہیت کی ساری حدیں اور اِنتہائیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر تمام ہوئیں۔ جب تمام فیض آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عطا کردیئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
مَنْ رَأَنِیْ فَقَدْ رَاءَ الْحَق.
(صحيح البخاری، 2 : 1036)
(مسند احمد بن حنبل، 3 : 55)
جس نے مجھے دیکھ لیا تحقیق اُس نے اﷲ ربّ العزّت کو دیکھ لیا۔
سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے بارگاہِ حق میں دیدارکی اِلتجاء کی تھی، جس کا جواب اُنہیں جبلِ طور پر تجلیاتِ الٰہیہ کو برداشت نہ کر پانے کی صورت میں ملا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دیدارِ الٰہی کی اِلتجا کئی بار کی تھی مگر اُن کی یہ دعا اُس وقت تک مؤخر کردی گئی جب تک کہ اُمتِ مسلمہ کو شبِ معراج پچاس نمازیں دی گئیں اور چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بار بار بارگاہِ اُلوہیت میں پلٹ جانے کے لئے عرض کرتے رہے، حتی کہ پانچ نماز رہ گئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم محبوبِ حقیقی کے جلوؤں کا مظہرِ اتم ہوکر لوٹتے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدارِ فرحت آثار سے شادکام ہوتے۔ یہ عالمِ لاہوتی کا فیض تھا، جبکہ عالمِ ناسوتی کے فیض کا یہ عالم تھا کہ ارض و سماء کے سب خزانوں کی کنجیاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تھما دی گئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام فیوضاتِ الٰہیہ کے قاسم بن گئے۔ جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فیضانِ اُلوہیت کے قاسم ہیں اُسی طرح اولیاء اﷲ فیضانِ رسالت کے قاسم ہیں۔ جیسا کہ قرآن مجید میں اِرشاد ہوتا ہے :
أَوَ مَن كَانَ مَيْتًا فَأَحْيَيْنَاهُ وَجَعَلْنَا لَهُ نُورًا يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ.
(الانعام، 6 : 122)
بھلا وہ شخص جو مُردہ (یعنی ایمان سے محروم) تھا پھر ہم نے اُسے (ہدایت کی بدولت) زِندہ کیا اور ہم نے اُس کے لئے (ایمان و معرفت کا) نور پیدا فرما دیا (اب) وہ اس کے ذریعے (بقیہ) لوگوں میں (بھی روشنی پھیلانے کے لئے) چلتا ہے۔
مُراد یہ کہ کچھ وہ لوگ ہیں جن کے دِل مُردہ تھے، ہم نے اُن مُردہ دِلوں کو زِندہ کر کے نورِ نبوت سے سرفراز فرمایا۔ پھر جیسے اُنہیں نورِ نبوت سے زندگی ملی وہ اُس نور کو لوگوں میں بھی بانٹتے ہیں۔ اب یہ اُسی ’’يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ‘‘ کا کرشمہ تھا کہ کسی کو غوثِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی صورت میں بغداد میں یہ ذمہ داری دی، کسی کو داتا گنج بخش ہجویری رحمۃ اللہ علیہ بنا کر لاہور میں کسی کو خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ بنا کر اجمیر میں اور کسی کو غوث بہاؤالدین زکریا رحمۃ اللہ علیہ بنا کر ملتان میں نور بانٹنے پر لگا دیا اور کوئی اِس نور کو سرہند میں تقسیم کرنے پر مامور ہوا۔ وہ دل جو مُردہ تھے سب اِس نور نے زِندہ کر دیئے اَب موت کی کیا مجال کہ اُنہیں مار سکے۔ موت تو صرف ایک ذائقہ ہے اور بقول اِقبال :
موت تجدیدِ مذاقِ زندگی کا نام ہے
خواب کے پردے میں بیداری کا اِک پیغام ہے
استغفار کے بارے میں ۔
وَمَاۤ اَرْسَلْنَا مِنۡ رَّسُوۡلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللہِ ؕ وَلَوْ اَنَّہُمْ اِذۡ ظَّلَمُوۡۤا اَنۡفُسَہُمْ جَآءُوۡکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللہَ وَاسْتَغْفَرَ لَہُمُ الرَّسُوۡلُ لَوَجَدُوا اللہَ تَوَّابًا رَّحِیۡمًا ﴿۶۴﴾
او رہم نے کوئی رسول نہ بھیجا مگر اس لئے کہ اللّٰہ کے حکم سے اُس کی اطاعت کی جائے (ف۱۷۵) اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں (ف۱۷۶) تو اے محبوب تمہارے حضور حاضر ہوں اور پھر اللّٰہ سے معافی چاہیں ا ور رسول ان کی شِفاعت فرمائے تو ضرور اللّٰہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں (ف۱۷۷)
علم غیب کے بارے میں
عٰلِمُ الْغَیۡبِ فَلَا یُظْہِرُ عَلٰی غَیۡبِہٖۤ اَحَدًا ﴿ۙ۲۶﴾
غیب کا جاننے والا تو اپنے غیب پر (ف ۴۸) کسی کو مسلط نہیں کرتا(ف ۴۹)
اِلَّا مَنِ ارْتَضٰی مِنۡ رَّسُوۡلٍ فَاِنَّہٗ یَسْلُکُ مِنۡۢ بَیۡنِ یَدَیۡہِ وَ مِنْ خَلْفِہٖ رَصَدًا ﴿ۙ۲۷﴾
سوائے اپنے پسندیدہ رسولوں کے (ف۵۰) کہ ان کے آگے پیچھے پہرا مقرر کردیتا ہے (ف۵۱)
Allah
اللہ سبحان و تعالٰی
شجرہ عالیہ نقشبندیہ
سلسلہ عالیہ خاندانِ نقشبندیہ مجددیہ فضلیہ غفاریہ حسینیہ
حضرت خلیفہ اوّل امیر المؤمنین سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ
حضرت سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ
حضرت فقیہ اعظم سیدنا قاسم بن محمد بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہم
حضرت امام العارفین شیخ المحققین امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ
حضرت سلطان العارفین خواجہ بایزید بسطامی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
حضرت خواجہ ابوالحسن خرقانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
حضرت خواجہ ابوالقاسم گرگانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
حضرت خواجہ ابوعلی فارمدی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
حضرت خواجہ ابویوسف ہمدانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
حضرت خواجہ عبدالخالق غجدوانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
حضرت خواجہ عارف ریوگری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
حضرت خواجہ محمود انجیرفغنوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
حضرت خواجہ عزیزان علی رامیتنی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
حضرت خواجہ بابا سماسی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
حضرت خواجہ امیر کلال سید شمس الدین رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
حضرت شیخ المشائخ خواجہ شاہ بہاء الدین نقشبند بخاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
حضرت خواجہ علاؤ الدین عطار رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
حضرت خواجہ یعقوب چرخی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
حضرت خواجہ عبیداللہ احرار رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
حضرت خواجہ محمد زاہد وخشی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
حضرت خواجہ درویش محمد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
حضرت خواجہ محمد امکنگی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
حضرت خواجہ محمد باقی باللہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
حضرت شیخ المشائخ امام ربانی مجدد الف ثانی شیخ احمد فاروقی سرہندی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
حضرت خواجہ محمد معصوم فاروقی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
حضرت خواجہ سیف الدین فاروقی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
حضرت خواجہ محمد محسن دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
حضرت خواجہ نور محمد بدایونی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
حضرت خواجہ مرزا مظہر جان جاناں شہید رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
حضرت خواجہ شیخ المشائخ نقشبند ثانی شاہ غلام علی دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
حضرت خواجہ ابو سعید فاروقی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
حضرت خواجہ احمد سعید فاروقی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
حضرت خواجہ دوست محمد قندھاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
حضرت خواجہ محمد عثمان دامانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
حضرت خواجہ محمد لعل شاہ ہمدانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
حضرت خواجہ محمد سراج الدین رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
حضرت شیخ المشائخ محبوب الٰہی خواجہ غریب نواز پیر فضل علی قریشی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
حضرت قطب الاولیاء امام العارفین خواجہ محمد عبدالغفار المعروف پیر مٹھا رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
حضرت شیخ المشائخ محبوب الٰہی ماہتاب ولایت امام لعاشقین سید غلام حسین شاہ بخاری مد ظلہ العالی و دامت برکاتہ علینا