تشہد ’’التحیات‘‘ کے سلسلے میں ایک مغالطے کا تحقیقی جائزہ


تشہد ’’التحیات‘‘ کے سلسلے میں ایک مغالطے کا تحقیقی جائزہ


علامہ اُسید الحق قادری بدایونی دامت برکاتہم العالیہ کی کتاب تحقیق و تفہیم سے ھدیہء قارئین ہے۔


نماز میں قعدہ کی حالت میں کچھ مخصوص الفاظ پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے جن کو اصطلاح میں تشہد اور عام زبان میں ’’التحیات‘‘کہتے ہیں،اس میں پہلے اللہ کی حمدوثنا ہے،پھر نبی کریم ﷺپر سلام ہے ،اس کے بعد اللہ کے نیک بندوں پر سلام ہے،اور پھر توحید ورسالت کی گواہی پریہ دعا ختم ہوتی ہے-صحیح احادیث میں اس کے مختلف الفاظ آئے ہیں،ترتیب اور مفہوم کم وبیش سب کا یہی ہے جو مذکور ہوا البتہ روایتوں کے اختلاف کی وجہ سے الفاظ میں تھوڑا بہت تفاوت ہے- مثال کے طور پرصحیح بخار ی اور صحیح مسلم میں حـضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ الفاظ مروی ہیں:
التحیات للّٰہ و الصلوت والطیبات السلام علیک ایھا النبی ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ السلام علینا و علی عباداللّٰہ الصالحین اشھد ان لا الہ الا اللّٰہ واشھد انّ محمدا عبدہ ورسولہ- (۱)
یہ تشہد ابن مسعود کہلاتا ہے -اس کے علاوہ حضرت ابن عباس اور حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے بھی تشہد کی روایتیں منقول ہیں-
تشہد ابن عباس یہ ہے : التحیات المبارکات الصلوات الطیبات للّٰہ السلام علیک ایھا النبی ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ السلام علینا وعلٰی عباد اللّٰہ الصالحین اشھد ان لا الہ الا اللّٰہ واشھد ان محمدا عبدہ و رسولہ-
تشہد ابن عمر یہ ہے : التحیات للّٰہ الزاکیات للّٰہ الطیبات الصلوات للّٰہ السلام علیک ایھا النبی ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ السلام علینا وعلٰی عباد اللّٰہ الصالحین اشھد ان لا الہ الا اللّٰہ واشھد ان محمدا عبدہ و رسولہ
احناف کا عمل تشہد ابن مسعود پر ہے اور امام احمد بن حنبل کے مسلک میں بھی اسی پر عمل ہے ،اکثر شافعیہ نے تشہدابن عباس کو اختیار فرمایا ہے،امام لیث بن سعد نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے،جب کہ امام مالک نے تشہد ابن عمر کو اختیار فرمایا ہے-
ان تمام روایتوں میں ایک بات مشترک ہے کہ ان میں نبی کریم ﷺ کو سلام کے لیے ندا اور خطاب کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے یعنی السلام علیک ایھا النبی ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ(اے نبی آپ پر سلام ہو اوراللہ کی رحمتیں اور برکتیں (نازل )ہوں)کچھ حضرات کے لیے نبی کریم ﷺ کو اس طرح مخاطب کرکے سلام کرناتشویش کا باعث ہوتا ہے لہٰذا یہ حضرات اپنی’’ تشویش ‘‘کو مختلف تاویلات کے ذریعہ دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں،حالانکہ اگر تحقیقی نظر سے دیکھا جائے توان تاویلات کی حیثیت مغالطے سے زیادہ کچھ نہیں ہے -اس سلسلہ میں عام طور پر دو باتیں کہی جاتی ہیں:
(۱)تشہد کے یہ الفاظ اس وقت تک پڑھے جاتے رہے جب تک نبی کریم ﷺظاہری طور پر صحابہ کے درمیان موجود رہے،مگر جب آپ نے پردہ فرمایاتو بجائے السلام علیک ایھا النبی(اے نبی آپ پر سلام ہو)کے السلام علی النبی(نبیﷺ پر سلام ہو)پڑھا جانے لگا،اس کے لیے حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ایک روایت کا حوالہ دیا جاتا ہے جو صحیح بخاری اور مسند ابی عوانہ میں مروی ہے-امام ابی عوانہ یعقوب بن اسحاق الاسفرائنی (م:۳۱۶ھ)اپنی مسند میں حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ: وھو بین ظھر انینا فلما قبض قلنا السلام علی النبی- (۲)
ترجمہ : ابن مسعود نے فرمایا کہ وہ (یعنی السلام علیک ایھاالنبی) حضور ﷺ کی حیات ظاہری میں تھا، جب حضور نے پردہ فرما لیا تو ہم یہ کہنے لگے ’’السلام علی النبی‘‘ یعنی نبی پر سلامتی ہو- یہی روایت الفاظ کے قدرے اختلاف کے ساتھ صحیح بخاری میں بھی وارد ہے جس کی تفصیل آگے آرہی ہے-
(۲)دوسرا مغالطہ یہ دیا جاتا ہے کہ یہ الفاظ یعنی السلام علیک ایھاالنبییہ تشہد میں آئے ہیں اور تشہد معراج کی رات اللہ اور اس کے رسول کے درمیان ہونے والی گفتگوکی حکایت ہے ،اس سے انشاے مصلی مقصود نہیں ہے یعنی نمازی سلام کا قصد و ارادہ نہیں کرتا بلکہ وہ صرف ان الفاظ کی نقل و حکایت کرتا ہے ،جس طرح کہ قرآن کریم میں بے شمار جگہ لفظ ’’یا‘‘(اے فلاں)کے ذریعے مختلف اقوال کی حکایت موجود ہے جب نمازی ان آیات کو نماز میں تلاوت کرتا ہے تواس کا ارادہ ان مذکورہ اشخاص کو پکارنا یا ندا کرنا نہیں ہوتا ہے بلکہ وہ محض اس واقعے کی نقل وحکایت کے طور پر ان الفاظ کو ادا کرتا ہے ،اسی طرح تشہد میں بھی نبی کریم ﷺ کو مخاطب کرکے سلام کرنا مقصود نہیں ہے بلکہ یہ تو صرف اس گفتگو کی نقل وحکایت ہے –
ذیل میں ہم ان دونوں دلیل نما مغالطوں کا تنقیدی جائزہ لیں گے-لیکن آگے بڑھنے سے پہلے تشہد ابن مسعود کے سلسلے میں محدثین کی راے دیکھتے چلیں-امام ترمذی اپنی جامع میں حضرت ابن مسعود کی مذکورہ روایت نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
حدیث ابن مسعود قد روی عنہ من غیروجہ، وھو اصح حدیث روی عن النبی ﷺفی التشھد والعمل علیہ عند اکثر اھل العلم من اصحاب النبی ﷺ ومن بعدھم من التابعین،وہو قول سفیان الثوری،وابن مبارک،واحمد واسحاق(۳)
ترجمہ : ابن مسعود کی حدیث ایک سے زیادہ طریقوں سے مروی ہے اور وہ تشہد کے سلسلہ میں نبی کریم ﷺ سے مروی حدیثوں میں سب سے اصح حدیث ہے ، صحابہ اور ان کے بعد تابعین میں سے اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے،یہی سفیان ثوری،ابن مبارک،احمدبن حنبل اوراسحاق کا قول بھی ہے-
حافظ ابن حجر عسقلانی فتح الباری میں فرماتے ہیں:
قال البزار لما سئل عن اصح حدیث فی التشھد قال ھو عندی حدیث ابن مسعود روی عن نیف و عشرین طریقا ثم سرد اکثرھا وقال لا اعلم فی التشھد اثبت منہ ولا اصح اسانید ولا اشھررجالا(۴)
ترجمہ:جب بزار سے تشہد کی صحیح ترین حدیث کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے کہا میرے نزدیک وہ حدیث ابن مسعود ہے- یہ بیس سے زائد صحابہ سے مروی ہے، پھر بزار نے ان میں سے اکثر طریقوں کو ذکر کیا ہے، پھر کہا کہ اور مجھے علم نہیں ہے کہ تشہد کے متعلق اس سے زیادہ اثبت واصح کوئی حدیث ہو جس کے رجال اس سے زیادہ مشہور و معروف ہوں-
اب ہم تشہد کے سلسلے میں پہلے مغالطے کی طرف آتے ہیں- ہم نے اوپرعرض کیا تھاکہ تشہد کے الفاظ اگر چہ مختلف واقع ہوئے ہیں (جیسا کہ تشہد ابن مسعود، تشہد ابن عباس اور تشہد ابن عمرمیں آپ نے دیکھا) مگر تمام روایتوں میں حضور ﷺ پر سلام کے لیے ندا اور خطاب کا صیغہ ہی وارد ہوا ہے- حضور ﷺ کی ظاہری حیات مبارکہ اور بعد وصال صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا عمل اسی طرح رہا، اس سلسلہ میں حضرت ابوبکر، حضرت عمر، سیدہ عائشہ، حضرت ابوموسیٰ اشعری، حضرت ابن عمر اور حضرت ابو سعید خدری رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے صحیح روایات موجود ہیں، امام مالک مؤطا میں فرماتے ہیں :
عن عروۃ بن زبیر عن عبدالرحمن بن عبدالقاری انہ سمع عمر بن الخطاب رضی اللّٰہ عنہ وھو علی المنبر یعلم الناس التشھد یقول ثم قولوا التحیات للّٰہ الزاکیات للّٰہ الطیبات للّٰہ الصلوات للّٰہ، السلام علیک ایھا النبی ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ السلام علینا وعلی عباد اللّٰہ الصالحین اشھد ان لا الہ الا اللّٰہ واشھد ان محمداً عبدہ ورسولہ-(۵)
ترجمہ : حضرت عروۃ بن زبیر حضرت عبدالرحمن بن عبدالقاری سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے حضرت عمر بن خطاب کو سنا کہ وہ منبر پر لوگوں کو تشہد سکھا رہے ہیں، آپ فرما رہے تھے کہ پھر اس کے بعد یہ کہو: التحیات للّٰہ الزاکیات للّٰہ الطیبات للّٰہ الصلوات للّٰہ، السلام علیک ایھا النبی ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہالسلام علینا وعلی عباد اللّٰہ الصالحین اشھد ان لا الہ الا اللّٰہ واشھد ان محمداً عبدہ ورسولہ-
اس روایت میں واضح ہے کہ حضرت عمر نے اپنے زمانۂ خلافت میں منبر پر کھڑے ہوکر لوگوں کو جو تشہد تعلیم فرمایا اس میں السلام علی النبی (نبی پر سلام) نہیں ہے بلکہ السلام علیک ایھا النبی (اے نبی آپ پر سلام ہو) ہے-
امام مالک نے حضرت عبداللہ ابن عمر اور حضرت سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے بھی روایات تشہد ذکر کیں ہیں، ان میں بھی سلام بصیغۂ خطاب و نداہی ہے (۶) تشہد میں صیغۂ خطاب پر تمام ائمہ مجتہدین کا اجماع ہے-ابن حزم ظاہری لکھتے ہیں : اجماع اھل الاسلام المتیقن علی ان المصلی یقول فی صلاتہ السلام علیک ایھا النبی- (۷) ترجمہ : تمام اہل اسلام کا اس بات پر اجماع ہے کہ نماز میں نمازی یہ کہے السلام علیک ایھا النبی-
حضرت ابن مسعود کی متذکرہ روایت کے علاوہ کسی صحابی سے کوئی ایسی روایت نہیں ہے جس سے یہ پتہ چلتا ہو کہ حضور اکرم ﷺ کے پردہ فرمانے کے بعد صحابہ نے تشہد کے الفاظ میں تبدیلی کر لی ہو-یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اگر ’’السلام علیک ایھاالنبی‘‘ کہنے سے اس لیے اعراض ہے کہ حضور ﷺ اب سامنے نہیں، لہٰذا ان کو صیغۂ خطاب سے سلام نہیں کیا جا سکتا تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب صحابہ کرام سفر پر جاتے تھے اور مدینہ منورہ سے دور دیگر شہروں میں ہوتے تھے تو تشہد کیسا پڑھتے تھے؟ اس دلیل کی رو سے تو سفر وغیرہ میں (جہاں حضور ﷺ سامنے موجود نہ ہوں) صحابۂ کرام کو ’’السلام علی النبی‘‘ کہنا چاہیے تھا مگر اس سلسلہ میں صحیح تو کیا کوئی ضعیف روایت بھی پیش نہیں کی جا سکتی- صحابۂ کرام حضور ﷺ کے سامنے ہوں یا آپ کے غائبانہ میں، مدینہ میں ہوں یا مدینہ سے سیکڑوں میل دور ہر حال میں تشہد پڑھتے وقت ’’السلام علیک ایھاالنبی‘‘ ہی کہا کرتے تھے اور یہی تشہد دور دراز کے شہروں میں رہنے والے اہل اسلام کو سکھایا جاتا تھا- مصر کے بلند پایہ عالم اور محقق علامہ محمود صبیح فرماتے ہیں :
قد کان الصحابۃ یقولون وھم فی اسفارھم بعیدین باجسادھم عن رسول اللّٰہ ﷺ : السلام علیک ایھاالنبی ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ ویعلمون ذلک لاصحابھم وھذا نداء بالغیب لبعدالمکان-(۸)
ترجمہ : صحابۂ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین اپنے سفر کے دوران جب کہ وہ جسم کے اعتبار سے حضور ﷺ سے دور ہوتے تھے تو بھی السلام علیک ایھاالنبی ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ ہی کہا کرتے تھے اور ایسا ہی اپنے احباب کو سکھایا کرتے تھے، حالانکہ دور ہونے کی وجہ سے یہ بھی ندا بالغیب ہی ہے-
اب آیے حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس روایت کا جائزہ لیا جائے جس کو دلیل میں پیش کیا جاتا ہے- مسند ابی عوانہ کے حوالے سے ہم نے گزشتہ صفحات میں اس کو نقل کیا ہے ،مسند ابی عوانہ کی اس روایت پر کلام کرتے ہوئے امام ابوالمحاسن الحنفی فرماتے ہیں:
من قولہ ’’بین ظھر انینا‘‘ الی’’ علی النبی‘‘ منکر لا یصح لانہ یوجب ان یکون التشھد بعد موتہ علیہ الصلوۃ والسلام علی خلاف ماکان فی حیاتہ و ذلک مخالف لما علیہ العامۃ ولما فی الاٰثار المرویۃ الصحیحۃ، وقد کان ابوبکر و عمر یعلمان الناس التشھد فی خلافتھما علی ماکان فی حیاتہ ﷺ من قولھم السلام علیک ایھاالنبی وانّما جاء الغلط من مجاھد وامثالہ وقد قال ابو عبید ان مما اجل اللّٰہ بہ رسولہ ان یسلم علیہ بعد وفاتہ کما کان یسلم علیہ فی حیاتہ وھذا من جملۃ خصائصہ ﷺ-(۹)
ترجمہ : بین ظہرانیناسے لے کر علی النبی تک یہ قول منکر ہے، صحیح نہیں ہے- اس لیے کہ اس سے لازم آتا ہے کہ حضور ﷺ کی وفات کے بعد تشہد اس کے برخلاف ہو جو آپ کی حیات میں تھا اور یہ عامہ علما کے عمل اور آثار صحیحہ کے مخالف ہے، حضرت ابوبکر اور حضرت عمر اپنی خلافت کے دور میں لوگوں کو وہ تشہد سکھاتے تھے جیسا حضور ﷺ کی حیات میں تھا یعنی ’’السلام علیک ایھا النبی‘‘ یہ غلطی مجاہد اور ان کے امثال کی طرف سے آئی ہے، ابو عبید نے کہا کہ یہ ان باتوں میں سے ہے جن سے اللہ نے اپنے رسول کو بزرگی عطا فرمائی ہے کہ ان پر ان کی وفات کے بعد بھی ویسا ہی سلام بھیجا جائے گا جیسا ان کی وفات سے پہلے بھیجا جاتا تھا اور یہ آپ کی خصوصیات میں سے ہے-
مسند ابی عوانہ کی جو روایت ابھی ہم نے ذکر کی اس کو امام بخاری نے بھی اپنی صحیح میں درج کیا ہے، امام بخاری نے تشہد ابن مسعود والی حدیث کو صحیح بخاری میں سات مقامات پر روایت کیا ہے، جس کی تفصیل درج ذیل ہے:
(۱) کتاب الاذان،باب التشہد فی الآخرۃ
(۲) کتاب الاذان،باب ما یتخیر من الدعاء بعد التشہد ولیس بواجب
(۳) کتاب العمل فی الصلاۃ،باب من سمیٰ قوما او سلم فی الصلاۃ علیٰ غیرہ وہو لا یعلم
(۴) کتاب الاستئذان،باب السلام اسم من اسماء اللہ تعالیٰ
(۵) کتاب الاستئذان،باب الاخذ بالیدین
(۶) کتاب الدعوات،باب الدعاء فی الصلاۃ
(۷) کتاب التوحید،باب قول اللہ تعرالیٰ السلام المؤمن
آپ کو حیرت ہوگی کہ ان سات روایتوں میں صرف ایک روایت ایسی ہے جس میں زیر بحث الفاظ آئے ہیں ،باقی چھ روایتوں میں یہ الفاظ نہیں ہیں،صرف روایت نمبر ۵ میں یہ الفاظ موجود ہیں:’’وہو بین ظہرانینا فلما قبض قلنا السلام یعنی علی النبی‘‘یہاں یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ صرف اسی روایت کی سند میں حضرت مجاہد کا نام آتا ہے ،حضرت مجاہد عبداللہ بن سخبرۃ سے روایت کرتے ہیں اور انہوں نے حضرت ابن مسعود سے روایت کی ہے ،اسی لیے امام ابو المحاسن نے معتصر المختصر میں فرمایا ہے(جس کا حوالہ پیچھے مذکور ہوا) کہ ’’یہ غلطی مجاہد اور ان کے امثال کی طرف سے آئی ہے‘‘-دوسری قابل ذکر بات یہ ہے کہ شارحین حدیث نے وضاحت کی ہے کہ حضرت ابن مسعود کا قول صرف یہاں تک ہے ’’قلنا السلام‘‘اس کے بعد ’’یعنی علی النبی‘‘امام بخاری کا قول ہے ،مسند ابو عوانہ میں جو روایت ہے اس میں راوی کو وہم ہوا اور اس نے اس کو بھی حضرت ابن مسعود کا قول سمجھ لیا ،علامہ علی قاری مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں اس حدیث پر بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
واما قول ابن مسعود کنا نقول فی حیاۃ رسول اللّٰہ ﷺ السلام علیک ایھا النبی فلما قبض علیہ السلام قلنا السلام علی النبی فھو روایۃ ابی عوانۃ وروایۃ البخاری الاصح منھا بینت ان ذلک لیس من قول ابن مسعود بل من فھم الراوی عنہ ولفظھا فلما قبض قلنا السلام یعنی علی النبی فقولہ قلنا السلام یحتمل انہ اراد بہ استمررنا بہ علی ما کنا علیہ فی حیاتہ ویحتمل انہ اراد عرضنا عن الخطاب واذا احتمل اللفظ لم یبق فیہ دلالۃ کذا ذکرہ ابن حجر-(۷)
ترجمہ : ابن مسعود کایہ فرمانا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کی ظاہری حیات مبارکہ میں السلام علیک ایھا النبی کہا کرتے تھے، جب حضور کا وصال ہو گیا تو ہم نے کہا السلام علی النبییہ ابو عوانہ کی روایت ہے- اس سلسلہ میں بخاری کی روایت اصح ہے اور اس روایت سے ظاہر ہے کہ السلام علی النبی ابن مسعود کا قول نہیں ہے بلکہ راوی نے ایسا سمجھ لیا ہے، اس حدیث کے الفاظ یہ ہیں ’’فلما قبض قلنا السلام یعنی علی النبی‘‘ قلنا السلام- یہ احتمال رکھتا ہے کہ جیسا سلام آپ کی حیات میں پڑھا کرتے تھے ویسا ہی بعد میں بھی جاری رہا اور یہ بھی احتمال رکھتا ہے کہ ان کی مراد یہ ہو کہ ہم نے خطاب سے اعراض کر لیا اور جب لفظ میں احتمال پیدا ہو گیا تو دلالت باقی نہیں رہی، اسی طرح ابن حجر عسقلانی نے بھی ذکر کیا ہے-
اس بحث سے یہ بات واضح ہوگئی کہ نبی کریم ﷺ کی وفات کے بعد بھی تمام صحابہ اور ان کے بعد تابعین اور ائمہ مجتہدین بھی السلام علیک ایھا النبی ہی پڑھتے رہے اور اسی کی تعلیم فرماتے رہے ،اور جو روایت حضرت ابن مسعود کے نام سے پیش کی جاتی ہے ،اولاً تو وہ پورا حضرت ابن مسعود کا قول نہیں،دوسرے یہ کہ اس روایت میں حضرت مجاہد منفرد ہیں،تیسرے یہ کہ اس میں چند احتمالات پیدا ہورہے ہیں اور جس قول میں چند احتمالات پیدا ہورہے ہوں اصول فقہ کے قاعدے کی رو سے ایسی روایت سے دلیل لانا درست نہیں ہوتا اور چوتھی اور آخری بات یہ کہ اگر ان سب باتوں سے قطع نظر کرکے اس کو بالکل صحیح بھی تسلیم کرلیا جاے تب بھی جمہور صحابہ اور تابعین کے عمل کے مخالف ہونے کی وجہ سے اس کو رد کردیا جائے گا-ہم پیچھے عرض کر چکے ہیں کہ حضرت ابن مسعود کے اس قول کے علاوہ کوئی صحیح روایت ایسی نہیں دکھائی جا سکتی جس میں یہ ہو کہ نبی کریم ﷺ کی وفات کے بعد صحابہ نے تشہد کے الفاظ میں تبدیلی کر لی تھی-
تشہد کے سلسلے میں دوسرا مغالطہ یہ دیا جاتا ہے کہ اس سے سلام مقصود نہیں ہوتا بلکہ یہ واقعہ معراج میں ہونے والی گفتگو کی حکایت ہے -اس مغالطے کے جواب میں سیدنا شاہ فضل رسول بدایونی نے اپنی کتاب ’’احقاق حق‘‘(فارسی)میں تحقیقی گفتگو فرمائی ہے ، قدرے اختصار اور تلخیص کے ساتھ اسی کی روشنی میں ہم اس مغالطے کا تنقیدی جائزہ لیں گے-
یہ مغالطہ دراصل پوری حدیث کو غور سے نہ پڑھنے کے نتیجے میں پیدا ہوگیا ہے ،صحیح بخاری میں پوری حدیث اس طرح ہے:
قال عبداللہ کنا اذا صلینا خلف النبی ﷺ قلنا السلام علی جبریل و میکائیل السلام علی فلان و فلان فالتفت الینا رسول اللّٰہ ﷺ فقال انّ اللّٰہ ھوا لسلام فاذا صلی احدکم فلیقل التحیات للّٰہ و الصلوت والطیبات السلام علیک ایھا النبی ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ السلام علینا و علی عباداللّٰہ الصالحین فانکم اذا قلتموھا اصابت کل عبداللّٰہ صالح فی السماء والارض، اشھد ان لا الہ الا اللّٰہ واشھد انّ محمدا عبدہ ورسولہ- (۱۱)
ترجمہ : حضرت ابن مسعود فرماتے ہیں کہ جب ہم نبی کریم ﷺ کی اقتدا میں نماز ادا کرتے تھے تو کہتے تھے جبریل پر سلام ہو، میکائیل پر سلام ہو، فلاں پر سلام ہو، رسول اللہ ﷺ ہماری جانب متوجہ ہوئے اور فرمایا بیشک اللہ خود سلام ہے جب تم میں سے کوئی نماز ادا کرے تو یہ کہے تمام قولی، جانی و مالی عبادات خالص اللہ کے لیے ہیں- اے نبی آپ پر اللہ کی سلامتی، رحمت اور برکات نازل ہوں، ہمارے اوپر اور اللہ کے نیک بندوں پر سلام ہو، جب تم یہ کہوگے تو زمین و آسمان میں اللہ کے ہر نیک بندے کو یہ سلام پہنچے گا اور میں شہادت دیتا ہوں کہ معبود برحق صرف اللہ عز و جل ہے اور محمد مصطفی ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں-
امام بخاری ایک دوسری روایت میں ارشاد فرماتے ہیں:
عن عبداللّٰہ قال کنا اذا کنا مع النبی ﷺ فی الصلاۃ قلنا السلام علی اللّٰہ من عبادہ السلام علیٰ فلان وفلان فقال النبی ﷺ لا تقولوا السلام علی اللّٰہ فان اللّٰہ ہوالسلام ولٰکن قولوا التحیات للّٰہ الخ (۱۲)
ترجمہ: حضرت ابن مسعود فرماتے ہیں کہ جب ہم نماز میں نبی کریم کے ساتھ ہوا کرتے تھے تو کہتے تھے کہ اللہ کے بندوں کی جانب سے اللہ پر سلام ہو،فلاں اور فلاں پر سلام ہو تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ یہ نہ کہا کرو کہ اللہ پر سلام ہو کیوںکہ اللہ تو خود سلام ہے ،بلکہ یہ کہا کروالتحیات للّٰہ الخ
حدیث کے شروع میں ہے کہ ہم کہا کرتے تھے خدا پر سلام ہو، جبریل پر سلام ہو، میکائیل پر سلام ہو، فلاں پر سلام ہو، آنحضرت ﷺ نے خدا پر سلام بھیجنے سے منع فرمایا اور اس کی جگہ خود پر سلام بھیجنے کا حکم دیا اس سے معلوم ہوا کہ یہ صرف واقعۂ معراج کی حکایت نہیں ہے،بلکہ اس میں خود سلام بھیجنا مقصود ہے-
دو سری بات یہاں یہ قابل غورہے کہ حدیث کے آخری حصہ میں ارشاد فرمایا:
السلام علینا و علی عباداللّٰہ الصالحین فانکم اذا قلتموھا اصابت کل عبداللّٰہ صالح فی السماء والارض
ترجمہ: ہمارے اوپر اور اللہ کے نیک بندوں پر سلام ہو، جب تم یہ کہوگے تو زمین و آسمان میں اللہ کے ہر نیک بندے کو یہ سلام پہنچے گا-
یہاں پر بھی اگرسلام کا ارادہ اور انشا مقصود نہ ہوتا اور صرف واقعۂ معراج میں وارد الفاظ کی نقل و حکایت مقصود ہوتی تو پھر ہر بندہ کو سلام پہنچنے کا کیا معنی ہوا-
امام غزالی فرماتے ہیں :
واحضر فی قلبک النبی ﷺ وشخصہ الکریم وقل السلام علیک ایھاالنبی ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ ولیصدق املک فی انہ یبلغہٗ ویرد علیک اوفٰی منہ-(۱۳)
ترجمہ : (اے نمازی) تو اپنے دل میں نبی کریم ﷺ اور آپ کی مقدس شخصیت کو حاضر کر، پھر السلام علیک ایھاالنبی ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہکہہ، یقینا تیری امید بر آئے گی، بایں طور کہ سلام حضور کی بارگا ہ میں پہنچے گا اور آپ ﷺ اس سے بہتر سلام کے ذریعہ جواب عطا فرمائیں گے-
ملا علی قاری فرماتے ہیں :
وجواز الخطاب من خصوصیاتہ علیہ السلام اذ لو قیل لغیرہ حاضرا اوغائبا السلام علیک بطلت صلاتہ (۱۴)
ترجمہ : نماز میں صیغۂ خطاب صرف آنحضرت ﷺ کے لیے جائز و روا ہے اور یہ آپ کے خصائص و فضائل سے ہے حضور کے علاوہ نماز میں کسی سے خطاب خواہ وہ حاضر ہو یا غائب نماز کو باطل کر دیتا ہے-
دراصل بعض حضرات کو اس بات سے غلط فہمی ہوئی کہ انھوں نے صرف یہ دیکھا کہ یہ الفاظ قصۂ معراج میں بھی ہیں اور تشہد میں بھی لہٰذا انھوں نے حدیث کے اول و آخر پر غور نہیں کیا اور یہ کہہ دیا کہ یہ واقعہ معراج کی حکایت ہے-
صحیح حدیث میں اس بات کی ایک اور قوی دلیل موجود ہے کہ تشہد میں جو السلام علیک ایھا النبی ہے وہ واقعۂ معراج کی حکایت نہیں ہے بلکہ اس سے خود سلام مقصود ہے- سنن نسائی میں ہے :
عن عبدالرحمن ابن ابی لیلٰی قال لقینی کعب بن عجرۃ فقال الا اھدی لک ھدیۃ سمعتھا من النبی ﷺ فقلت بلی فاھدھا لی فقال سألنا رسول اللّٰہ ﷺ فقلنا یا رسول اللّٰہ! کیف الصلوٰۃ علیکم اہل البیت فان اللّٰہ تعالٰی قد علمنا کیف نسلم علیک قال قولوا اللّٰہم صل علی محمد- الخ (۱۵)
ترجمہ : عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ فرماتے ہیں کہ مجھ سے کعب بن عجرہ کی ملاقات ہوئی، انھوں نے کہا کیا میں تمہیں وہ تحفہ نہ دوں جس کو میں نے نبی اکرم ﷺ سے حاصل کیا ہے؟ میں نے کہا کیوں نہیں، وہ تحفہ مجھے دو، تو کعب بن عجرہ نے کہا کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا یا رسول اللہ ﷺ آپ پر درود کس طرح بھیجیں، اللہ تعالیٰ نے ہمیں آپ پر سلام بھیجنے کا طریقہ تو تعلیم فرما دیا کہ ہم کس طرح آپ پر سلام بھیجیں ، حضور ﷺ نے فرمایا تم اس طرح کہو : اللّٰھم صلِّ علی محمدالخ
شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے لکھا ہے :
بتحقیق دانانید مارا کیفیت سلام فرستادن برتوکہ در التحیات تعلیم کردی و آن را تعلیم الٰہی گفتند زیرا کہ تعلیم آن حضرت تعلیم الٰہی است زیرا کہ وی نطق نمی کند در احکام مگر بوحی(۱۶)
ترجمہ : حضور پر سلام بھیجنے کی کیفیت و طریقہ التحیات میں ہمیں بتا دیا گیا اور صحابہ نے جو یہ کہا کہ اللہ نے سلام پڑھنے کا طریقہ ہمیں تعلیم کیا ہے، اس لیے کہ حضور ﷺ کا تعلیم فرمانا در حقیقت تعلیم الٰہی ہے کیونکہ حضور جو کچھ احکام شریعت میں فرماتے ہیں وہ وحی کے ذریعہ فرماتے ہیں-
ملا علی قاری مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں لکھتے ہیں:
فان اللّٰہ قد علمنا ای فی التحیات بواسطۃ لسانک کیف نسلم علیک ای بان نقول السلام علیک ایھا النبی کذا قیل وحاصلہ انّ اللّٰہ قد امرنا بالصلوٰۃ والسلام علیک وقد علمنا کیف السلام علیک والاظہر انہ علیہ السلام امرھم بالصلوٰۃ علیہ وعلٰی اہل بیتہ ولما لم یعرفوا کیفیتھا سألوہ عنھا مقرونا بالایماء الی انہ مستحق للسلام ایضا الا انہ معلوم عندھم بتعلیم ایاھم بلسانہ فارادوا تعلیم الصلوٰۃ ایضا علی لسانہ بان ثواب الوارد افضل و اکمل- (۱۷)
ترجمہ : خدا نے ہمیں تشہد میں آپ کی زبان مبارک کے توسط سے سلام کرنے کی کیفیت تعلیم کی ہے کہ ہم ایسے سلام پڑھیں السلام علیک ایھا النبی الخ اور اس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں آپ کی ذات گرامی پر درود اور سلام دونوں بھیجنے کا حکم فرمایا ہے اور ہمیں سلام کی کیفیت بھی تعلیم کر دی ہے اور ظاہر یہ ہے کہ حضور نے خود پر اور اپنے اہل بیت پر درود بھیجنے کا حکم فرمایا ہوگا- اب چونکہ صحابہ درود بھیجنے کا طریقہ نہیں جانتے تھے لہٰذا انھوں نے آپ سے دریافت کیا کہ درود بھیجنے کا طریقہ کیا ہے اس سوال میں یہ اشارہ بھی ہے کہ آپ سلام کے بھی مستحق ہیں مگر اس کا طریقہ تو حضور کی زبان مبارک سے ان کو معلوم ہو گیا ہے، اب درود کا طریقہ بھی وہ حضور ہی کی زبان سے سیکھنا چاہتے ہیں، اس لیے کہ جو چیز حضور کی زبان مبارک سے وارد ہوگی اس کا ثواب زیادہ افضل و اکمل ہوگا –
ملا علی قاری مرقاۃ میں مزید فرماتے ہیں :
قال ابن حجر وفیہ روایۃ للشیخین الااھدی لک ھدیۃً ان النبی ﷺ خرج علینا فقلنا یا رسول اللّٰہ قد علمنا کیف نسلم علیک فکیف نصلی علیک-وفی روایۃ سندھا جید لما نزلت ھذہ الاٰیۃ ’’انّ اللّٰہ وملائکتہ یصلون علی النبی یا ایھاالذین اٰمنواصلوا علیہ وسلموا تسلیماً‘‘ جاء رجل الی النبی ﷺ فقال یا رسول اللّٰہ ھذا السلام علیک قد عرفناہ فکیف الصلوۃ علیک قال ’’قولو اللّٰہم صل علی محمد ‘‘ الحدیث -وفی روایۃ المسلم وغیرہ امرنا اللّٰہ ان نصلی علیک فکیف نصلی علیک فسکت علیہ السلام حتی تمنینا انہ لم یسئل ثم قال قولوا اللّٰہم صل علی محمدٍ الخ وفی آخرہ والسلام کما علمتم- (۱۸)
ترجمہ : ابن حجر نے کہا کہ اس سلسلہ میں شیخین سے مروی ہے کہ’’ میں تمہیں ایک تحفہ نہ دوں؟ایک مرتبہ حضور ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے ہم نے کہا یا رسول اللہ ہم سلام کی کیفیت تو جانتے ہیں یہ بتائیے کہ درود کس طرح بھیجیں؟ ‘‘ایک اور روایت میں آیا ہے جس کی سند جید ہے کہ جب آیت کریمہ انّ اللّٰہ و ملائکتہ یصلون علی النبی الخ نازل ہوئی تو ایک شخص نے آ کر عرض کیا’’ یا رسول اللہ ﷺ ہم جان گئے کہ آپ پر سلام کس طرح بھیجیں اب آپ فرمائیں کہ ہم آپ پر درود کس طرح بھیجیں؟‘‘آپ نے فرمایا کہو اللّٰھم صل علی محمد الخ ایک دوسری روایت میں آیا ہے جو صحیح مسلم کی ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ نے ہمیں آپ پر درود بھیجنے کا حکم دیا ہے تو ہم کیسے درود بھیجیں ؟‘‘ حضور نے تھوڑا سا سکوت فرمایا تو ہمارے دل میں یہ خیال گزرا کاش حضور سے یہ سوال نہیں پوچھا جاتا، پھر حضور ﷺ نے فرمایا اس طرح کہو :اللّٰھم صل علی محمد ‘‘الخ اس حدیث کے آخر میں فرمایا کہ’’ رہا سلام تو ویسا ہی جیسا تم نے سیکھ لیا‘‘-
ان تمام روایتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ جس سلام کا حکم آیت کریمہ وسلموا تسلیمامیں دیا گیا ہے وہ تو تشہد میں معلوم ہو گیااب آپ درود پڑھنے کا طریقہ تعلیم فرمائیں-اور تشہد میں سلام کا جو طریقہ بتایا گیا ہے وہ وہی ہے جو پیچھے مذکور ہوا’’ السلام علیک ایہاالنبی‘‘ اس سے صاف ظاہر ہے کہ تشہد میں السلام علیک ایھاالنبی بطور نقل و حکایت نہیں ہے بلکہ اس سے خود سلام مقصود ہے-
(جامِ نور مارچ ۲۰۰۹ئ)
qqq
حواشی
(۱) الف: صحیح بخاری: بطریق شقیق بن سلمہ : عن ابن مسعود ،کتاب الاذان: باب التشہد فی الآخرۃ
ب:صحیح مسلم : بطریق ابی وائل عن ابن مسعود، کتاب الصلوٰۃ: باب التشہد فی الصلوٰۃ
(۲) مسند ابی عوانہ : ج ۱، ص: ۵۴۱، دارالمعرفہ بیروت
(۳) جامع ترمذی:کتاب الصلاۃ،باب ما جاء فی التشہد
(۴) فتح الباری : ج: ۲، ص: ۳۱۵، دارالمعرفۃ بیروت
(۵) مؤطا امام مالک: ج ۱، ص: ۹۰، باب التشہد فی الصلوٰۃ، داراحیاء التراث العربی ، قاہرہ
(۶) مرجع سابق
(۷) المحلی: ج ۴، ص: ۷۰۶، دارالآفاق الجدیدہ، بیروت
(۸) علامہ محمود صبیح: اخطأ ابن تیمیہ فی حق رسول اللہ: ص: ۳۹۵، دار جوامع الکلم، قاہرہ
(۹) معتصر المختصر : ج ۱، ص: ۵۳، ۵۴، مکتبہ المتنبی، القاہرہ
(۱۰) مرقاۃ شرح مشکوٰۃ: ج ۲، ص: ۵۸۱، کتاب الصلوٰۃ، باب التشہد، فیصل پریس، دیوبند ۲۰۰۵ء
(۱۱) صحیح بخاری: بطریق شقیق بن سلمہ : عن ابن مسعود ،کتاب الاذان: باب التشہد فی الآخرۃ
(۱۲) کتاب الاذان،باب ما یتخیر من الدعاء بعد التشہد ولیس بواجب
(۱۳) احیاء علوم الدین : امام غزالی، ج:۱/ص: ۱۷۵
(۱۴) مرقاۃ شرح مشکوٰۃ: ج ۲، ص: ۵۸۶، کتاب الصلوٰۃ باب التشہد، فیصل پریس، دیوبند ۲۰۰۵ء
(۱۵) سنن نسائی : باب کیف الصلوٰۃ علی النبی ، ج:۳/ص: ۴۸، مکتبۃ المطبوعات، حلب ۱۹۸۶ء
(۱۶) اشعۃ اللمعات شرح مشکوٰۃ : ج ۱، ص: ۳۶۱، کتاب الصلوٰۃ : باب الصلوٰۃ علی النبی ﷺ وفضلھا، مطبع نول کشور ۱۲۹۰ھ
(۱۷) مرقاۃ شرح مشکوٰۃ : ج ۳، ص: ۴، کتاب الصلوٰۃ : باب الصلوٰۃ علی النبی ﷺ وفضلھا
(۱۸) مرجع سابق
(۱۹) ترجمہ باختصاروتلخیص :احقاق حق :مولانافضل رسول بدایونی،ازص۴۳تاص۴۹،تاج الفحول اکیڈمی بدایوں۲۰۰۷ء

Leave a Reply

Enable Google Transliteration.(To type in English, press Ctrl+g)