میرے مرشد کریم حضرت قبلہ سید غلام حسین شاہ بخاری مدظلہ العالی شہنشاہ ولایت ، غوث الاعظم ، مجدد ِ دوراں کہ جن سے فیض حاصل کرنے والوں میں اولیاء ، علماء اور عام لوگ شامل ہیں کہ ہر وقت حضرت قبلہ کی درگاہ ِ عالیہ پر میلے کا سا سماء بندھا رہتا ہے۔ میں نے تو یہی دیکھا ہے کہ حضرت کے ہاں دو بہر ہمہ وقت جاری ہیں ایک شریعت کا اور دوسرا طریقت کا اور جو جس طلب میں وہاں جاتا ہے سب پاتا ہے۔تقوہ اور عاجزی میں آپ کا کوئی ثانی نہیں اس دور میں اور اگر میں یہ کہوں کے آپ امام المتقین ہیں تو یہ بے شک کہنا حق ہی ہے ۔ آپ کی شان تو آپ کو دیکھنے ہی سے ظاہر ہوجاتی ہے کہ اس قدر آپ کے چہرے پر نورانیت ہے کہ گویا نور کی مانند آفتاب روشن ہو۔ایک شیخ الحدیث سے میری ملاقات مدینہ منورہ پاک میں مسجد نبوی ﷺ کے اندر ہوئی تو میں نے جناب سے پوچھا کہ ہمارے مرشد کریم بھی یہاں آج کل تشریف فرما ہیں کیا آپ کی ملاقات ہوئی اُن سے ؟ تو فرمانے لگے کہ ابھی کچھ لمحے پہلے ہی ہوئی تھی اور میں بہت خوش ہوں ۔ انکے چہرے پر خوشی کہ آسار جھلک رہے تھے اور مسکراتے ہوئے اور جوش و جزبے کے ساتھ بتانے لگے کہ آپ کے مرشد کے چہرے میں اللہ نے ناجانے کیا شان پوشیدہ رکھی ہے کہ جو انکو دیکھتا ہے دیکھتا ہی رہ جاتا ہے ۔ سبحان اللہ۔
سن ۲۰۱۲ کے مارچ کے مہینے میں میرے ساتھ ایک بہت ہی عالیشان کرامت پیش آئی وہ آپ کو بھی سناتا ہوں ۔ مارچ کے مہینے میں حضرت قبلہ مرشد کریم عمرےکے لیئے روانہ ہوئے تو میری بہت کوشش تھی کہ میں بھی حضرت کے ساتھ وہاں کی حاضری کاشرف حاصل کروں چناچہ میں نے ہر ممکن کوشش کر کے عمرے کا ویزہ حاصل کرلیا اور آخر کار میں عمرہ کر کے دوسرے دن ہی مدینے کا مسافر بن گیا ۔ دوپہر کو میں کھانا کھا کر ایک دوست کی مدد سے ایک کار میں سوار ہوا جو کہ سواری کے حساب سے لوگوں کو مدینہ لے کر جاتے ہیں اور ہمارا سفر شروع ہوا جب میں مدینے پہنچا تو وہ لوگ سیدھے مسجد نبوی ﷺ کی طرف جانے لگے تو میرے دل میں خیال آیا کہ پہلے حضرت سائیں مرشد کریم کے ہوٹل جا کر ان کے ساتھ حاضر ی کا شرف حاصل کروں۔ تو میں مسجد سے کچھ پہلے ہی کار سے اُتر گیا اور میں نے اُترتے ہی واپس پلٹا اور بنگالی پاڑے کی جانب روانہ ہوا ۔ ابھی روڈ کراس کر کے جیسے ہی میں فوٹپاتھ پر پہنچا تو ایک شخص کھڑا تھا جو مجھ سے پوچھنے لگا کہ بھائی آپ کو ہوٹل چاہیے تو میں نے کہا نہیں تو کہنے لگا کہ سستا ہوٹل دلوادیتا ہوں میں نے کہا مجھے نہیں چاہیے تو کہنے لگا کس کو تلا ش کررہے ہو میں نے کہا میں اپنے مرشد کو تلاش کر رہا ہوں ۔ اس پر اُس نے دوبارہ پوچھا کیا آپ سائیں قمبر والے کو تلاش کر رہے ہو؟ میں خوش اور حیران ہوگیا کہ جی بھائی میں اُنہیں کو تلاش کرنے نِکلا ہوں تو کہنے لگا کہ میں آپ کو بتاتا ہوں کہ وہ کہاں ٹھرے ہوئے ہیں پھر تھوڑا آگے چل کر کہتا ہے کہ وہ سامنے جو ہوٹل ہے اس میں ٹھرے ہوئے ہیں قبلہ حضرت سائیں۔ میں بہت خوش ہوگیا کہ پچھلی بار تو بہت تلاش کرنا پڑھا تھا لیکن اب کی بار تو بہت آسانی سے مل گیا۔بڑی مہربانی ہوگئی مجھ پر ۔
چناچہ میں چلتے چلتے جب وہاں پہنچا تو جیسے ہی میں پارکنگ کے راستے ہوٹل میں داخل ہوا تو کیا دیکھتا ہوں حضرت سائیں باہر تشریف لا رہے ہیں ۔ میں نے بڑھ کر حضرت سائیں کے قدم چھوئے اور دست مبارک کا بوسا لیا تو حضرت سائیں نے میرے چہرے پر بوسا دیا اور فرمایا کہ بیٹا آپ ہمارے ساتھ ہی رہو تو میں خوش ہوگیا اور انہوں نے فرمایا جاؤ اپنا سامان رکھ کر آؤ ہم نماز کے لیے جارہے ہیں میں نے فوراً تیاری کی اور حضرت سائیں کے ساتھ مسجد روانہ ہوگیا ۔ نماز ادا کرنے سے پہلے حضرت تشریف فرما تھے کہ مجھے اپنے پاس بُلایا اور پوچھا کہ یہ بتاؤ آپ کو کس نے بتایا کہ میں اس ہوٹل میں ٹھرا ہوا ہوں تو میری آنکھوں میں آنسو آگئے اور میں نے پوری بات بتائی تو حضرت انتہائی مسرت اور مہربانی کے انداز میں مسکرائے اور میرے دل میں یہ بات روشن فرمادی اور میرا دل گواہی دینے لگا کہ یہ تو حضرت نے ہی بندہ کھڑا کیا تھا اپنے اس گناہگار غلام کے لیئے۔ سبحان اللہ کیا شان ہے میرے مرشد کی کہ ہر جگہ اور ہروقت اپنے غلاموں پر نظر فرماتے ہیں اور ہر مشکل میں دستگیری فرماتے ہیں۔
خدا کی قسم اللہ نے ہمیں اپنے ایسے دوست سے ملا دیا ہے کہ ہر فقیر اپنے مرشد کی کرامات کا مشاہدہ کر کے یقین کی بلندیوں پر پہنچا ہے اور ایک بات جو میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ علماء جو سابقہ زمانے کے اولیاء کی کرامات ممبر وں پر بیٹھ کر بیان کرتے ہیں اللہ کے جلال کی قسم ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔ ان کا یقین صرف علم تک محدود ہے اور ہم ظاہری طور پر مشاہدہ کرتے ہیں۔
کچھ لوگ اپنے مرشد کے بارے میں صرف کرامات بیان کرتے ہیں لیکن ان میں سے اکثریت نے کبھی کرامات کو دیکھا نہیں ہوتا اور اس در کی کیا بات ہے کہ کوئی بھی ایسا نہیں ملے گا جس نے خود کرامت کا مشاہدہ نہ کیا ہو۔
زندگی گردش ِ ایام اور تغّیر و تبدّل کا نام ہے ۔ ہزاروں محفلیں جمتی ہیں اور ہزاروں حلقہ یاراں بنتے ہیں ۔ اسکول کا دور ، کالج کا زمانہ اور پھر یونیورسٹی کی دلفیرب ذندگی۔ کتنے ہیں لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ اور کتنے ہی آئینہِ چشم سے گزر کر دل کی لوح پر ثبت ہوجاتے ہیں۔
جب یونیورسٹی میں داخلہ لیا تو نئے تعلقات کی شروعات ہوئیں ۔ بہت سے لوگ رویّوں کے ترازو سے گزر کر دوستی کی نہج پر پہنچے۔ ان ہی میں میرے ایک دوست محمد علی بھی تھے۔ نہایت ملنسار ، خوش طبع اور بااخلاق مگر مسلکی طور پر دیوبندی اور تبلیغی جماعت کے کارکن ۔ مسلکی تضاد کے باوجود ہماری دوستی ہوگئی۔ جب دوستی کے مراسم مضبوط ہوئے تو دل میں اس کی بھلائی اور آخرت کی فکر بھی زور پکڑتی گئی۔ مزید یہ کہ ۲ سال بعد ہم نے ایک ہی میجر سبجیکٹ منتخب کیا۔ یوں ہماری دوستی کا دورانیہ مزید دو سال بڑھ گیا۔ حافظ حماد جو کہ ہمارے بہت ہی مخلص ساتھی ہیں وہ بھی ان چار سالوں میں ہمارے کلاس میٹ رہے۔
میں شب و روز اپنے دوست محمد علی کے لئے دعا کرتا رہاکہ اے اللہ اسے راہ ہدایت عطاء فرما۔ اسی دوران اس کو اپنے مرشد کریم سیّد غلام حسین شاہ بخاری مدظلہ العالی و برکاتہم کی درگاہ شریف پر جانے کی دعوت بھی دی۔ چھٹے سیمسٹرمیں اس نے درگاہ شریف پر جانے کی حامی بھر لی یا شاید مجھ سے وقتی طور پر جان چھڑانا چاہی۔ لیکن میرے دل میں طلب مزید بڑھ گئی اور دعاؤں میں بھی شدّت و گداز مزید بڑھ گئی۔
پھر وہ گھڑی بھی آئی جب خالق ِ کائنات نے میری دعاؤں کی شرف ِ قبولیت بخشا۔ یہ ۸ جون ۲۰۱۰ ء کی رات تھی۔ میں سویا تو قسمت جاگ اٹھی۔ دعاؤں کی قبولیت کا وقت ہوتا ہے۔ کیا دیکھتا ہوں کہ میں اور محمد علی درگاہ شریف میں ایک جگہ لیٹے ہوئے ہیں ۔ وہ مجھے جگا کر مجھ سے کہتا ہے کہ پیر صاحب تشریف لائے ہیں ۔ میں اٹھتا ہوں اور دستار سر پر رکھتا ہوں اور حضرت سائیں کے صاحبزادے کے مزار شریف میں پہنچ جاتا ہوں ۔ محمد علی سائیں کے سامنے کھڑا ہے اور سائیں کریم اسکے قلب پر انگشت مبارک رکھ کر ذکر کی تلقین فرمارہے ہیں۔ میں آگے بڑھتا ہوں اور آہستہ سے سائیں کریم کو عرض کرتا ہوں۔ سائیں یہ لڑکا تیز طرار لوگوں کے ہتھے چڑھ گیا ہے اس پر خاص نظرِ کرم فرمائیں۔جواب بہت مختصر مگر قابل فراموش ملتا ہے ، فرمایا۔ بیٹا اسکا ( جدول) شیڈول بنادیا گیا ہے۔سبحان اللہ۔
اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی اور مندرجہ بالا فقرہ میرے کانوں میں گونج رہا تھا۔ میری خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی کیوں کہ مجھے منزل قریب نظر آرہی تھی۔
جون کے مہینے کے درمیان میں سمسٹر ختم ہوگیا تو میں نے دوبارہ محمد علی کو بڑی محبت اور چاہت کیساتھ درگاہ شریف پر جانے کی دعوت دی۔ لیکن وہ بہانے بنانے لگا کہ قمبر شریف بہت دور ہے ، بہت گرمی ہے پھر کبھی جائیں گے وغیرہ وغیرہ ۔ بہر حال میں اپنی آرزو کو سینے میں لئے گاؤں لوٹ گیا۔ لیکن اللہ کی قدرت دیکھئے کہ محمد علی کی تبلیغی ڈیوٹی رائے وِنڈ والوں نے حیدرآباد میں لگادی۔ لیٰذا جولائی میں اس نے مجھے فون کیا کہ ۱۸ جولائی کو حیدرآباد سے واپسی ہے اور قمبر شریف جانے کے لئے رضامند ہوگیا۔ میں نے ۱۷ جولائی کو خوشی خوشی پتوکی اسٹیشن سے روانہ ہوا اور ۱۸ جولائی کو میں پتوکی سے اور محمد علی حیدرآباد سے قمبر شریف پہنچ گئے۔ مغرب کا وقت تھا سائیں کریم نماز کے لئے تشریف لائے اور پھر روضہ شریف میں حسب معمول تلاوت و نعت کے بعد مرشد کریم نے دعاء فرمائی ۔ میں سوچ میں گم تھا کہ کیسے محمد علی کو سائیں سے ملِوا سکوں گا۔ دعاء کے بعد میں نے سائیں کریم کے خدمتگار مولوی و حافظ بشیر احمد کو متوجہ کیا ۔ انہوں نے مجھے بلایا اور میرے بولنے سے پہلے کہا ۔۔۔۔۔ابھی صرف ذکر ملے گا بیعت بعد میں کروانا۔سبحان اللہ۔
میری خوشی اور حیرانی کی حد نہ رہی۔ میں نے جلدی سے علی کو بلایا اور سائیں کریم نے اس کو ذکر دیا ۔ جیسا کہ میں نے خواب میں دیکھا تھا۔ یوں صرف ایک ماہ کے قلیل عرصہ میں محمدعلی کا شیڈیول مکمل ہوجاتا ہے۔ یونیورسٹی واپسی پر جو واقعات پیش آئے وہ ایک الگ داستان ہے۔
یوں رائے ونڈ کا باسی ، قمبر شریف پہنچ جاتا ہے ۔ وہ محبتوں کا داعی اور ادب کا پیکر بن جاتا ہے ۔ اور آج طارق ہال جامعہ زرعیہ فیصل آباد میں ہمہ وقت صلوٰۃ و سلام کے نغمے الاپتا نظر آتا ہے ۔ اللہ تعالٰی ہم سب کو اپنے بندوں کے دامن سے وابستگی عطاء فرمائے۔ (آمین)