زندگی گردش ِ ایام اور تغّیر و تبدّل کا نام ہے ۔ ہزاروں محفلیں جمتی ہیں اور ہزاروں حلقہ یاراں بنتے ہیں ۔ اسکول کا دور ، کالج کا زمانہ اور پھر یونیورسٹی کی دلفیرب ذندگی۔ کتنے ہیں لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ اور کتنے ہی آئینہِ چشم سے گزر کر دل کی لوح پر ثبت ہوجاتے ہیں۔
جب یونیورسٹی میں داخلہ لیا تو نئے تعلقات کی شروعات ہوئیں ۔ بہت سے لوگ رویّوں کے ترازو سے گزر کر دوستی کی نہج پر پہنچے۔ ان ہی میں میرے ایک دوست محمد علی بھی تھے۔ نہایت ملنسار ، خوش طبع اور بااخلاق مگر مسلکی طور پر دیوبندی اور تبلیغی جماعت کے کارکن ۔ مسلکی تضاد کے باوجود ہماری دوستی ہوگئی۔ جب دوستی کے مراسم مضبوط ہوئے تو دل میں اس کی بھلائی اور آخرت کی فکر بھی زور پکڑتی گئی۔ مزید یہ کہ ۲ سال بعد ہم نے ایک ہی میجر سبجیکٹ منتخب کیا۔ یوں ہماری دوستی کا دورانیہ مزید دو سال بڑھ گیا۔ حافظ حماد جو کہ ہمارے بہت ہی مخلص ساتھی ہیں وہ بھی ان چار سالوں میں ہمارے کلاس میٹ رہے۔
میں شب و روز اپنے دوست محمد علی کے لئے دعا کرتا رہاکہ اے اللہ اسے راہ ہدایت عطاء فرما۔ اسی دوران اس کو اپنے مرشد کریم سیّد غلام حسین شاہ بخاری مدظلہ العالی و برکاتہم کی درگاہ شریف پر جانے کی دعوت بھی دی۔ چھٹے سیمسٹرمیں اس نے درگاہ شریف پر جانے کی حامی بھر لی یا شاید مجھ سے وقتی طور پر جان چھڑانا چاہی۔ لیکن میرے دل میں طلب مزید بڑھ گئی اور دعاؤں میں بھی شدّت و گداز مزید بڑھ گئی۔
پھر وہ گھڑی بھی آئی جب خالق ِ کائنات نے میری دعاؤں کی شرف ِ قبولیت بخشا۔ یہ ۸ جون ۲۰۱۰ ء کی رات تھی۔ میں سویا تو قسمت جاگ اٹھی۔ دعاؤں کی قبولیت کا وقت ہوتا ہے۔ کیا دیکھتا ہوں کہ میں اور محمد علی درگاہ شریف میں ایک جگہ لیٹے ہوئے ہیں ۔ وہ مجھے جگا کر مجھ سے کہتا ہے کہ پیر صاحب تشریف لائے ہیں ۔ میں اٹھتا ہوں اور دستار سر پر رکھتا ہوں اور حضرت سائیں کے صاحبزادے کے مزار شریف میں پہنچ جاتا ہوں ۔ محمد علی سائیں کے سامنے کھڑا ہے اور سائیں کریم اسکے قلب پر انگشت مبارک رکھ کر ذکر کی تلقین فرمارہے ہیں۔ میں آگے بڑھتا ہوں اور آہستہ سے سائیں کریم کو عرض کرتا ہوں۔ سائیں یہ لڑکا تیز طرار لوگوں کے ہتھے چڑھ گیا ہے اس پر خاص نظرِ کرم فرمائیں۔جواب بہت مختصر مگر قابل فراموش ملتا ہے ، فرمایا۔ بیٹا اسکا ( جدول) شیڈول بنادیا گیا ہے۔سبحان اللہ۔
اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی اور مندرجہ بالا فقرہ میرے کانوں میں گونج رہا تھا۔ میری خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی کیوں کہ مجھے منزل قریب نظر آرہی تھی۔
جون کے مہینے کے درمیان میں سمسٹر ختم ہوگیا تو میں نے دوبارہ محمد علی کو بڑی محبت اور چاہت کیساتھ درگاہ شریف پر جانے کی دعوت دی۔ لیکن وہ بہانے بنانے لگا کہ قمبر شریف بہت دور ہے ، بہت گرمی ہے پھر کبھی جائیں گے وغیرہ وغیرہ ۔ بہر حال میں اپنی آرزو کو سینے میں لئے گاؤں لوٹ گیا۔ لیکن اللہ کی قدرت دیکھئے کہ محمد علی کی تبلیغی ڈیوٹی رائے وِنڈ والوں نے حیدرآباد میں لگادی۔ لیٰذا جولائی میں اس نے مجھے فون کیا کہ ۱۸ جولائی کو حیدرآباد سے واپسی ہے اور قمبر شریف جانے کے لئے رضامند ہوگیا۔ میں نے ۱۷ جولائی کو خوشی خوشی پتوکی اسٹیشن سے روانہ ہوا اور ۱۸ جولائی کو میں پتوکی سے اور محمد علی حیدرآباد سے قمبر شریف پہنچ گئے۔ مغرب کا وقت تھا سائیں کریم نماز کے لئے تشریف لائے اور پھر روضہ شریف میں حسب معمول تلاوت و نعت کے بعد مرشد کریم نے دعاء فرمائی ۔ میں سوچ میں گم تھا کہ کیسے محمد علی کو سائیں سے ملِوا سکوں گا۔ دعاء کے بعد میں نے سائیں کریم کے خدمتگار مولوی و حافظ بشیر احمد کو متوجہ کیا ۔ انہوں نے مجھے بلایا اور میرے بولنے سے پہلے کہا ۔۔۔۔۔ابھی صرف ذکر ملے گا بیعت بعد میں کروانا۔سبحان اللہ۔
میری خوشی اور حیرانی کی حد نہ رہی۔ میں نے جلدی سے علی کو بلایا اور سائیں کریم نے اس کو ذکر دیا ۔ جیسا کہ میں نے خواب میں دیکھا تھا۔ یوں صرف ایک ماہ کے قلیل عرصہ میں محمدعلی کا شیڈیول مکمل ہوجاتا ہے۔ یونیورسٹی واپسی پر جو واقعات پیش آئے وہ ایک الگ داستان ہے۔
یوں رائے ونڈ کا باسی ، قمبر شریف پہنچ جاتا ہے ۔ وہ محبتوں کا داعی اور ادب کا پیکر بن جاتا ہے ۔ اور آج طارق ہال جامعہ زرعیہ فیصل آباد میں ہمہ وقت صلوٰۃ و سلام کے نغمے الاپتا نظر آتا ہے ۔ اللہ تعالٰی ہم سب کو اپنے بندوں کے دامن سے وابستگی عطاء فرمائے۔ (آمین)
MashALLAH Subhan Allah !