سیّد کی محبت و تعظیم

 

صحیح حدیث میں ہے :ستّۃ لعنتھم لعنھم اﷲ وکل نبی مجاب الزائد فی کتاب اﷲ والمکذب بقدراﷲ والمستحل من عترتی ماحرم اﷲ الحدیث۲؎۔

 چھ شخص ہیں جن پرمیں نے لعنت کی  اﷲ اُن پرلعنت کرے، اور نبی کی دعاقبول ہے ازانجملہ ایک وہ جوکتاب اﷲ میں اپنی طرف سے کچھ بڑھائے اور وہ جوخیروشر سب کچھ اﷲ کی تقدیر سے ہونے کاانکار کرے اور وہ جومیری اولاد سے اس چیز کو حلال رکھے جو اﷲ نے حرام کیا۔

(۲؎سنن الترمذی   کتاب القدر حدیث ۲۱۶۱دارالفکر بیروت    ۴ /۶۱)

 اور ایک حدیث میں کہ ارشاد فرماتے ہیں صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم :من لم یعرف حق عترتی فلاحدی ثلث امّا منافق وامّا ولدزانیۃ  واما حملتہ امّہ علٰی غیر طھر ۱؎۔جومیری اولاد کاحق نہ پہچانے وہ تین
باتوں میں سے ایک سے خالی نہیں، یا تومنافق ہے یاحرام یاحیضی بچہ۔

 (۱؎ کنزالعمال     حدیث ۳۴۱۹۹    مؤسسۃ الرسالہ بیروت    ۲ /۱۰۴)

 مجمع الانہرمیں ہے :من قال لعالم عویلم اولعلوی علیوی استخفافا فقد کفر۲؎۔جو کسی عالم کو مولویا یاسید کومیرو اس کی تحقیر کے لئے کہے وہ کافرہے۔

 (۲؎ مجمع الانہرشرح ملتقی الابحرباب المرتدثم ان الفاظ الکفرانواع     داراحیاء التراث العربی بیروت    ۱ /۲۹۵)

 

اور اس میں شک نہیں جوسید کی تحقیربوجہ سیادت کرے وہ مطلقاً کافرہے اس کے پیچھے نماز محض باطل ہے ورنہ مکروہ، اور جوسید مشہورہو اگرچہ واقعیت معلوم نہ ہو اسے بلادلیل شرعی کہہ دینا کہ یہ صحیح النسب نہیں اگرشرائط قذف کاجامع ہے توصاف کبیرہ ہے اور ایساکہنے والا اسّی کوڑوں کاسزاوار، اور اس کے بعد اس کی گواہی ہمیشہ کو مردود، اور اگر شرط قذف نہ ہو توکم ازکم بلاوجہ شرعی ایذائے مسلم ہے اور بلاوجہ شرعی ایذائے مسلم حرام،
قال اﷲ تعالٰی :
والذین یؤذون المؤمنین والمؤمنٰت بغیرما اکتسبوا فقداحتملوا بھتانا واثما مبینا۳؎۔

جولوگ ایماندار مردوں اورایماندارعورتوں بغیراس کے کہ انہوں نے (کوئی معیوب کام) کیاہو ان کادل دکھاتے ہیں توبیشک انہوں نے اپنے سرپربہتان باندھنے اور صریح گناہ کابوجھ اٹھالیا(ت)

 (۳؎ القرآن الکریم     ۳۳ /۵۸)

 

یہ فقیر ذلیل بحمدہ تعالٰی حضرات ساداتِ کرام کا ادنٰی غلام وخاکپاہے۔ ان کی محبت و عظمت ذریعہ نجات وشفاعت جانتا ہے،اپنی کتابوں میں چھاپ چکا ہے کہ سیّد اگربدمذہب بھی ہوجائے تو اس کی تعظیم نہیں جاتی جب تک
بدمذہب حدِ کفر تک نہ پہنچے ،ہاں بعدِکفر سیادت ہی نہیں رہتی،پھر اس کی تعظیم حرام ہوجاتی ہے۔ اور یہ بھی فقیر بار ہا فتوٰی دے چکا ہے کہ کسی کو سید سمجھنے اور اس کی تعظیم کرنے کے لیے ہمیں اپنے ذاتی علم سے اسے سید
جاننا ضروری نہیں،جو لوگ سید کہلائے جاتے ہیں ہم ان کی تعظیم کریں گے،  ہمیں تحقیقات کی حاجت نہیں،  نہ سیادت کی سند مانگنے کا ہم کو حکم دیا گیا ہے۔ اور خوا ہی نخواہی سند دکھانے پر مجبور کرنا اور نہ دکھائیں
تو بُرا کہنا مطعون کرنا ہرگز جائے نہیں۔

 

  الناس امنأعلی انسابھم(لوگ اپنے نسب پرامین ہیں)،ہاں جس کی نسبت ہمیں خوب تحقیق معلوم ہوکہ یہ سیّد نہیں اور وہ سید بنے اس کی ہم تعظیم نہ کریں گے نہ اسے سید کہیں گے اور مناسب ہوگا کہ ناواقفوں کو اس
کے فریب سے مطلع کردیا جائے۔

میرے خیال میں ایک حکایت ہے جس پر میرا عمل ہے کہ ایک شخص کسی سیّد سے الجھا،  انہوں نے فرمایا میں سیّد ہوں کہا۔کیا سند ہے تمہارے سیّد ہونے کی۔ رات کو زیارتِ اقدسﷺ سے مشرف ہوا کہ معرکہ حشر ہے یہ
شفاعت خواہ ہوا،اعراض فرمایا : اس نے عرض کی: میں بھی حضور کا امتی ہوں۔ فرمایا : کیاسند ہے تیرے امتی ہونے کی۔

 امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ۔ فتاوی رضویہ

Leave a Reply

Enable Google Transliteration.(To type in English, press Ctrl+g)