بسم اﷲ الرحمن الرحیم ط
حضرت علمائے کرام اہلسنت کیا فرماتے ہیں اس مسئلہ میں کہ زید (عہ)دعوٰی کرتا ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو حق تعالٰی نے علم غیب عطا فرمایا ہے، دنیا میں جو کچھ ہوا اور ہوگا حتی کہ بدئ الخلق سے لے کر دوزخ و جنت میں داخل ہونے تک کا تمام حال اور اپنی امت کا خیر و شر تفصیل سے جانتے ہیں۔ اور جمیع اولین و آخرین کو اس طرح ملاحظہ فرماتے ہیں جس طرح اپنے کفِ دست مبارک کو، اور اس دعوے کے ثبوت میں آیات و احادیث و اقوالِ علماء پیش کرتا ہے۔
( عہ : زید سے مراد جناب مولانا ہدایت رسول صاحب لکھنوی مرحوم ہیں )
بکر اس عقیدے کو کفر و شرک کہتا ہے اور بکمال درشتی دعوٰی کرتا ہے کہ حضور سرور عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کچھ نہیں جانتے، حتی کہ آپ کو اپنے خاتمے کا حال بھی معلوم نہ تھا، او ر اپنے اس دعوے کے اثبات میں کتاب تقویۃ الایمان کی عبارتیں پیش کرتا ہے اور کہتا ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی نسبت یہ عقیدہ کہ آپ کو علمِ ذاتی تھا خواہ یہ کہ خدا نے عطا فرمادیا تھا۔ دونوں طرح شرک ہے۔
اب علمائے ربانی کی جناب میں التماس ہے کہ ان دونوں سے کون برسرِ حق موافق عقیدہ سلف صالح ہے اور کون بدمذہب جہنمی ہے، نیز عمرو کا دعوٰی ہے کہ شیطان کا علم معاذ اﷲ حضور سرور کائنات صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے علم سے زیادہ ہے۔ اس کا گنگوہی مرشد اپنی کتاب براھین قاطعہ کے صفحہ ۴۷ پر یوں لکھتا ہے کہ ” شیطان کو وسعتِ علم نص سے ثابت ہوئی فخر عالم کی وسعتِ علم کی کون سی نصف قطعی ہے۔۱ ؎ ۔
( ۱ ؎ البراہین القاطعہ بحث علمِ غیب مطبع لے بلاسا واقع ڈھور ص ۵۱)
الجواب
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اللھم لک الحمد سرمداً صل وسلم وبارک علٰی من علمتہ الغیب و نزھتہ من کل عیب وعلی اٰلہ وصحبہ ابداً رب انی اعوذ بک من ھمزات الشیاطین واعوذبک رب ان یحضرون
اے اﷲ تمام تعریفیں ہمیشہ ہمیشہ تیرے لیے ہیں، درود و سلام اور برکت نازل فرما اس پر جس کو تو نے غیب کا علم عطا فرمایا ہے اور اس کو ہر عیب سے پاک بنایا ہے اور اس کی آل و اصحاب پر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے۔ اے میرے پرورگار ! تیری پناہ شاطین کے وسوسوں سے، اور اے میرے پروردگار ! تیری پناہ کہ وہ میرے پاس آئیں۔(ت)
زید کا قول حق و صحیح اور بکر کا زعم مردود و قبیح ہے۔ بے شک حضرت عزت عزت عظمۃ نے اپنے حبیب اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو تمامی اولین و آخرین کا علم عطا فرمایا۔ شرق تا غرب ، عرش تا فرش سب انہیں دکھایا۔ملکوت السموت والارضکا شاہد بنایا، روزِ اول سے روزِ آخر تک سبماکان ومایکونانہیں بتایا، اشیائے مذکورہ سے کوئی ذرہ حضور کے علم سے باہر نہ رہا۔ علم عظیم حبیب کریم علیہ افضل الصلوۃ والتسلیم ان سب کو محیط ہوا۔ نہ صرف اجمالاً بلکہ صغیر و کبیر، ہر رطب و یابس، جو پتّہ گرتا ہے، زمین کی اندھیریوں میں جو دانہ کہی پڑا ہے سب کو جدا جدا تفصیلاً جان لیا، ﷲ الحمد کثیراً۔ بلکہ یہ جو کچھ بیان ہوا ہرگز ہرگز محمد رسول اﷲ کا پورا علم نہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وصحبہ اجمعین و کّرم ، بلکہ علم حضور سے ایک چھوٹا حصہ ہے، ہنوز احاطہ علم محمدی میں وہ ہزار دو ہزار بے حد و کنار سمندر لہرا رہے ہیں جن کی حقیقت کو وہ خود جانیں یا ان کا عطا کرنے والا ان کامالک و مولٰی جل و علا الحمد ﷲ العلی الاعلٰی۔
کُتب حدیث و تصانیف علمائے قدیم و حدیث میں اس کے دلائل کا بسط شافی اور بیان وافی ہے اور اگر کچھ نہ ہو تو بحمداﷲ قرآن عظیم خود شاہد عدل و حکم فصل ہے۔
آیاتِ قُرآنی
قال اﷲ تعالٰی (اﷲ تعالٰی نے فرمایا ۔ت) :ونزلنا علیک الکتٰب تبیاناً لکل شیئ وھدی ورحمۃ وبشرٰی للمسلمین” ۱ ؎۔ اتاری ہم نے تم پر کتاب جو ہر چیز کا روشن بیان ہے اور مسلمانوں کے لیے ہدایت و رحمت و بشارت۔
(۱ ؎ القرآن الکریم ۱۶ /۸۹)
قال اﷲ تعالٰی (اﷲ تعالٰی نے فرمایا ۔ت) :ماکان حدیثا یفترٰی ولکن تصدیق الذی بین یدیہ وتفصیل کل شیئ ” ۲ ؎۔ قرآن وہ بات نہیں جو بنائی جائے بلکہ اگلی کتابوں کی تصدیق ہے اور ہر شے کا صاف جدا جدا بیان ہے۔
(۲ ؎ القرآن الکریم ۱۳ /۱۱۱)
وقال اﷲ تعالٰی ( اﷲ تعالٰی نے فرمایا۔ت) :مافرطنا فی الکتب من شیئ ۳ ؎۔ ہم نے کتاب میں کوئی شے اٹھا نہیں رکھی۔
(۳ ؎ القرآن الکریم ۶/ ۳۸)
اقول : وباﷲ التوفیق ( میں کہتا ہوں اﷲ تعالٰی کی توفیق کے ساتھ۔ت) جب فرقان مجید میں ہر شے کا بیان ہے اور بیان بھی کیسا ، روشن اور روشن بھی کس درجہ کا، مفصل ، اور اہلسنت کے مذہب میں شے ہر موجود کو کہتے ہیں، تو عرش تا فرش تمام کائنات جملہ موجودات اس بیان کے احاطے میں داخل ہوئے اور منجملہ موجودات کتابت لوحِ محفوظ بھی ہے تابالضرورت یہ بیانات محیط، اس کے مکتوب بھی بالتفصیل شامل ہوئے۔ اب یہ بھی قرآن عظیم سے ہی پوچھ دیکھئے کہ لوحِ محفوظ میں کیا لکھا ہے۔
قال اﷲ تعالٰی” (اﷲ تعالٰی نے فرمایا۔ت) :وکل صغیر وکبیر مستطر ۴ ؎ ہرچھوٹی بڑی چیز لکھی ہوئی ہے۔
(۴ ؎القرآن الکریم ۵۴ /۵۳)
وقال اﷲ تعالٰی ” ( اور اﷲ تعالٰی نے فرمایا ۔ت) :” وکل شیئ احصینٰہ فی امام مبین ” ۱ ؎ ۔ ہر شَے ہم نے ایک روشن پیشوا میں جمع فرمادی ہے۔
(۱ ؎ القرآن الکریم ۳۶ /۱۲)
وقال اﷲ تعالٰیاور اﷲ تعالٰی نے فرمایا ۔ت) :“ولا حبّۃ فی ظلمٰت الارض ولارطب ولایا بس الا فی کتٰب مبین ” ۲ ؎ ۔ کوئی دانہ نہیں زمین کی اندھیریوں میں اور نہ کوئی تر اور نہ کوئی خشک مگر یہ کہ سب ایک روشن کتاب میں لکھا ہے۔
( ۲ ؎ القرآن الکریم ۶/ ۵۹)
اور اصول میں مبرہن ہوچکا کہ نکرہ حیز نفی میں مفید عموم ہے اور لفظ کُل تو ایسا عام ہے کہ کبھی خاص ہو کر مستعمل ہی نہیں ہوتا اور عام افادہ استغراق میں قطعی ہے، اور نصوص ہمیشہ ظاہر پر محمول رہیں گی۔ بے دلیل شرعی تخصیص و تاویل کی اجازت نہیں۔ ورنہ شریعت سے امان اٹھ جائے، نہ احادیث احاد اگرچہ کیسے ہی اعلٰی درجے کی ہوں ، عمومِ قرآن کی تخصیص کرسکیں بلکہ اس کے حضور مضمحل ہوجائیں گی بلکہ تخصیص متراخی نسخ ہے اور اخبار کا نسخ ناممکن اور تخصیص عقلی عام کو قطعیت سے نازل نہیں کرتی نہ اس کے اعتماد پر کسی ظنی سے تخصیص ہوسکے تو بحمد اﷲ تعالٰی کیسے نص صحیح قطعی سے روشن ہوا کہ ہمارے حضور صاحبِ قرآن صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو اﷲ عزوجل نے تمام موجودات جملہ ماکان ومایکون الٰی یوم القیمۃ جمیع مندرجاتِ لوح محفوظ کا علم دیا اور شرق و غرب و سماء و ارض و عرش فرش میں کوئی ذرہ حضور کے علم سے باہر نہ رہا ۔وﷲ الحجۃ الساطعۃاور جب کہ یہ علم قران عظیم کےتبیانا لکل شیئ ۳۔ ( ہر چیز کا روشن بیان ۔ت) ہونے نے دیا،
(۳ ؎ القرآن الکریم ۱۶ /۸۹)
اور پُر ظاہر کہ یہ وصف تمام کلام مجید کا ہے، نہ ہر آیت یا سورت کا، تو نزول جمیع قرآن شریف سے پہلے اگر بعض انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کی نسبت ارشاد ہو” لم نقصص علیک ” ۴ ؎۔ ( ان کا قصّہ ہم نے آ پ پر بیان نہیں کیا۔ت) یا منافقین کے با ب میں فرمایا جائے :لاتعلمھم ۵ ؎۔ (آپ ان کو نہیں جانتے۔ت) ہر گز ان آیات کے منافی اور علمِ مصطفوی کا نافی نہیں۔
(۴ ؎ القرآن الکریم ۴۰/ ۷۸) (۵ ؎ القرآن الکریم ۹ /۱۰۱)
الحمدﷲ جس قدر قصص و روایات و اخبار و حکایاتِ علم عظیم محمد رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے گھٹانے کو آیاتِ قطعیہ قرآنیہ میں پیش کی جاتی ہیں ان سب کا جواب انہیں دو فقروں میں ہوگیا ہے دو حال سے خالی نہیں، یا تو ان قصص سے تاریخ معلوم ہوگی یا نہیں، اگر نہیں تو ان سے استدلال درست نہیں کہ جب تاریخ مجہول تو ان کا تمامی نزولِ قرآن سے پہلے ہونا صاف معقول اور اگر ہاں تو دو حال سے خالی نہیں یا وہ تاریخ تمامی نزول سے پہلے کی ہوگی یا بعد کی،
پہلی صورت میں استدلال کرنا درست نہیں، برتقدیر ثانی اگر مدعائے مخالف میں نص صریح نہ ہو تو استناد محض خرط القتاد، مخالفین جو پیش کرتے ہیں سب انہیں اقسام کی ہیں۔ ان آیات کے خلاف پر اصلاً ایک دلیل صحیح صریح قطعی الافادہ نہیں دکھا سکتے، اور اگر بفرض غلط تسلیم ہی کرلیں تو ایک یہی جواب جامع و نافع و نافی و قامع سب کے لیے شافی و کافی ، کہ عموم آیاتِ قطعیہ قرآنیہ کی مخالفت میں اخبار احاد سے استناد محض غلط ہے۔ اس مطلب پر تصریحاتِ آئمہ اصول سے احتجاج کروں اس سے یہی بہتر ہے کہ خود مخالفین کے بزرگوں کی شہادت پیش کروں۔ع
مدعی لاکھ پرہ بھاری ہے گواہی تیری
نصوص قطعیہ قرآن عظیم کے خلاف پر احادیث احاد کا سُنا جانا بالائے طاق، یہ بزرگوار صاف تصریح کرتے ہیں کہ یہاں خبر واحد سے استدلال ہی جائز نہیں، نہ اصلاً اس پر التفات ہوسکے، اسی براہن قاطعہ ما امر اﷲ بہ ان یوصل میں اسی مسئلہ علم غیب کی تقریریوں لکھتے ہیں : ” عقائد مسائل قیاسی نہیں کہ قیاس سے ثابت ہوجائیں ، بلکہ قطعی ہیں، قطعیات نصوص سے ثابت ہوتے ہیں کہ خبرِ واحد یہاں بھی مفید نہیں، لہذا اس کا اثبات اس وقت قابلِ التفات ہو کہ قطعیات سے اس کو ثابت کرے۔” ۱ ؎۔
(۱ ؎ البراہین القاطعہ بحث علم غیب مطبع لے بلاسا واقع ڈھور ص۵۱)
نیز صفحہ ۸۱ پر لکھا: ” اعتقادات میں قطعیات کا اعتبار ہوتا ہے، نہ ظنیاتِ صحاح کا۔۲ ؎۔
صفحہ ۸۷ پر ہے: ” احاد صحاح بھی معتبرنہیں، چنانچہ فنِ اصول میں مبرہن ہے۔” ۳ ؎۔
(۲ ؎ البراہین القاطعہ شب جمعہ میں ارواح کے اپنے گھر آنے کے اثبات میں روایات سب مخدوش ہیں ص۸۹)
(۳ ؎ البراہین القاطعہ مسئلہ فاتحہ اعتقادیہ ہے اس میں ضعاف کیا احادِ صحاح بھی قابلِ اعتماد نہیں ص ۹۶)
الحمدُ ﷲ تمام مخالفین کو دعوتِ عام ہے” فاجمعوا شرکاء کم ” (اپنے شرکاء کو جمع کرلو۔ت) چھوٹے بڑے سب اکٹھے ہو کر ایک آیت قطعی الدلالۃ یا ایک حدیث متواتر یقینی الافادہ چھانٹ لائیں جس سے صاف صریح طور پر ثابت ہو کہ تمام نزولِ قرآن عظیم کے بعد بھی اشیائے مذکورہ ماکان ومایکون سے فلاں امر حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم پر مخفی رہا جس کا علم حضور کو دیا ہی نہ گیا۔
فان لم تفعلواولن تفعلوا ۱ فاعلموا ان اﷲ لایھدی کیدالخائنین۲ ؎ ۔ اگر ایسی نص نہ لاسکو اور ہم کہے دیتے ہیں کہ ہر گز نہ کرسکو گے، تو خوب جان لو کہ اﷲ راہ نہیں دیتا دغا بازوں کے مکر کو۔
(۱ ؎القرآن الکریم ۲/ ۲۴) (۲ ؎ القرآن الکریم ۱۲ /۵۲)
والحمدﷲ رب العالمین (اور سب تعریفیں اﷲ کے لیے ہیں جو پروردگار ہے تمام جہانوں کا۔ت) یہی مولوی رشید احمد صاحب پھر لکھتے ہیں : ” خودِ فخر عالم علیہ ا لسلام فرماتے ہیں “واﷲ لاادری مایفعل بی ولا بکم ” (الحدیث)( اور بخدا میں نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا ہوگا اور تمہارے ساتھ کیا ہوگا۔ ت)
اورشیخ عبدالحق روایت کرتے ہیں کہ مجھ کو دیوار کے پیچھے کا بھی علم نہیں ” ۳ ؎۔
(۳ ؎ البراہین القاطعہ بحث علمِ غیب مطبع لے بلاسا واقع ڈھور ص ۵۱)
قطع نظر اس سے کہ اس آیت و حدیث کے کیا معنی ہیں اور قطع نظر اس سے کہ یہ کس وقت کے ارشاد ہیں اور قطع نظر اس سے کہ خود قرآن عظیم و احادیثِ صحیحہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں اس کا ناسخ موجود کہ جب آیۃ کریمہ :”لیغفرلک اﷲ ماتقدم من ذنبک وماتاخر ” ۴ ؎۔ (تاکہ اﷲ بخش دے تمہارے واسطے سے سب اگلے پچھلے گناہ) نازل ہوئی تو صحابہ نے عرض کی :ھنیأ لک یارسول اللہ لقدبیّن اﷲ لک ماذا یُفعل بک فماذا اُیفعل بنا ” ۱ ؎ ۔ یارسول اﷲ ! آپ کو مبارک ہو، خدا کی قسم ! اﷲ عزوجل نے یہ تو صاف بیان فرمادیا کہ حضور کے ساتھ کیا کرے گا، اب رہا یہ کہ ہمارے ساتھ کیاکرے گا۔
(۴ ؎القرآن الکریم ۴۸ /۲)
(۱ ؎ صحیح البخاری کتاب المغازی ۲ /۶۰۰ و سنن الترمذی کتاب التفسیر حدیث۳۲۷۴ ۵ /۱۷۶)
اس پر یہ آیت اُتری :لیدخل المؤمنین والمؤمنٰت جنّٰت تجری من تحتہا الانھر خٰلدین فیہا ویکفر عنھم سٰیاتھم وکان ذٰلک عنداﷲ فوزًا اعظیما۲ ؎ ۔ تاکہ داخل کرے اﷲ ایمان والے مردوں اور ایمان والی عورتوںکو باغوں میں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں ہمیشہ رہیں گے ان میں اور مٹا دے ان سے ان کے گناہ ، اور یہ اللہ کے یہاں بڑی مراد پانا ہے۔
(۲ ؎ القرآن الکریم ۴۸ /۵)
یہ آیت اور ان کے امثال بے نظیر اور یہ حدیث جلیل و شہیر۔
رہا شیخ عبدالحق کا حوالہ، قطع نظر اس سے کہ روایت و حکایت میں فرق ہے، اس بے اصل حکایت سے استناد اور شیخ محقق قدس سرہ العزیز کی طرف اسناد کیسی جرات و وقاحت ہے، شیخ رحمۃ اﷲ علیہ نے مدارج شریف میں یوں فرمایا ہے :اینجا اشکال می آرند کہ در بعض روایات آمدہ است کہ گفت آں حضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم من بندہ ام نمی دانم آں چہ درپس ایں دیوارست، جوابش آنست کہ ایں سخن اصلے نہ دارد، وروایت بداں صحیح نشدہ است ۳ ؎ ۔ اس موقعہ پر ایک اعتراض کیا جاتا ہے کہ بعض روایات میں ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میں بندہ ہوں مجھے معلوم نہیں کہ اس دیوار کے پیچھے کیا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اسکی کوئی اصل نہیں اور یہ روایت صحیح نہیں۔
(۳ ؎ مدارج النبوت ” لاعلم ماورای جداری ایں سخنے اصل ندارد ” مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۱ /۷)
ایسا ہی” لاتقربواالصلوۃ ” ( نماز کے قریب مت جاؤ ۔ت) پر عمل کرو گے تو خوب چین سے رہو گےع
اس آنکھ سے ڈرئیے جو خدا سے نہ ڈرے آنکھ
امام ابن حجر عسقلانی ( رحمۃ اﷲ تعالٰی علیہ ) فرماتے ہیں ۔” لَااَصْلَ لَہ” ۴ ؎ ۔ یہ حکایت محض بے اصل ہے۔
(۴ ؎المواہب الدنیۃ المقصد الثالث الفصل الاول المکتب الاسلامی بیروت ۲ /۲۲۸)
امام ابن حجر مکی نے افضل القرٰی میں فرمایا :” لم یُعرف سَنَد” ۱ ؎ ۔ اس کے لیے کوئی سند نہ پہنچانی گئی۔
(۱ ؎ افضل القرا لقراء ام القرٰی)
افسوس اسی منہ سے مقام اعتقادیات بتانا، احادیثِ صحیحہ بھی نامقبول ٹھہرنا، اسی منہ سے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا علمِ عظیم گھٹا کر ایسی بے اصل حکایت سے سند لانا اور ملمع کاری کے لیے شیخ محقق کا نام لکھ جانا جو صراحۃً فرمارہے ہیں کہ اس حکایت کی جڑ نہ بنیاد ، آپ اس کے سوا کیا کہیے کہ ایسوں کی داد نہ فریاد۔ اﷲ اﷲ نبی صل اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے مناقب عظیمہ اور باب فضائل سے نکلوا کر اس تنگنائے میں داخل کرائیں تاکہ صحیحیں بخاری و مسلم کی حدیثیں بھی مردود بنائیں اور حضور کی تنقیص شان میں یہ فراخی دکھائیں کہ بے اصل بے سند مقولے سب سما جائیں۔ع
حال ایمان کا معلوم ہے بس جانے دو
بالجملہ بحمداﷲ تعالٰی زید سُنی حفظہ اﷲ تعالٰی کا دعوٰی آیات قطعیہ قرآنیہ سے ایسے جلیل و جمیل طور سے ثابت جس میں اصلاً مجال دم زدن نہیں، اگر یہاں کوئی دلیل ظنّی تخصیص سے قائم بھی ہوتی تو عموم قطعی قرآن عظیم کے حضور مضمحل ہوجاتی ۔ نہ کہ صحیح مسلم و صحیح بخاری وغیرہا سُنن وصحاح و مسانید و معاجیم کی احادیث صریحہ ، صحیحہ ، کثیرہ ، شہیرہ اس عموم و اطلاق کی اور تاکید وتائید فرمارہی ہیں۔
احادیثِ مبارکہ :
صحیحین بخاری و مسلم میں حضرت حذیفہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے ہے :قام فینا رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم مقاماً ماترک شیئا یکون فی مقامہ ذٰلک الٰی قیام الساعۃ الّاحدّث بہ حفظہ من حفظہ ونسیہ من نسیہ ” ۲ ؎۔
رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ایک بار ہم میں کھڑے ہو کر ابتدائے آفرنیش سے قیامت تک جو کچھ ہونے والا تھا سب بیان فرمادیا، کوئی چیز نہ چھوڑی، جسے یاد رہا یاد رہا، جو بھول گیا بھول گیا۔
(۲ ؎مشکوۃ المصابیح برمز متفق علیہ کتاب الفتن الفصل الاول مطبع مجتبائی دہلی ص ۴۶۱)
(صحیح مسلم کتاب الفتن قدیمی کتب خانہ کراچی ۲ /۳۹۰)
(مسند احمد بن حنبل عن حذیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ المکتب الاسلامی بیروت ۵ /۳۸۵ و ۳۸۹)
یہی مضمون احمد نے مسند ، بخاری نے تاریخ، طبرانی نے معجم کبیر میں حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کیا۔
صحیح بخاری شریف میں حضرت امیر المومنین عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے :”قام فینا النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم مقاماً فاخبرنا عن بدء الخلق حتی دخل اھل الجنۃ منازلھم و اھل النار منازلھم حفظ ذٰلک من حفظہ ونسیہ من نسیہ “۱ ؎۔
ایک بار سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ہم میں کھڑے ہو کر ابتدائے آفرنیش سے لے کر جنتیوں کے جنت اور دوزخیوں کے دوزخ جانے تک کا حال ہم سے بیان فرمادیا۔ یاد رکھا جس نے یاد رکھا اور بھول گیا جو بھول گیا۔
(۱ ؎ صحیح البخاری کتاب بدء الخلق باب ماجاء فی قول اﷲ وھو الذی یبدء الخلق الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۴۵۳)
صحیح مسلم شریف میں حضرت عمر و بن اخطب انصاری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہے : ایک دن رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے نمازِ فجر سے غروبِ آفتاب تک خطبہ فرمایا، بیچ میں ظہر و عصر کی نمازوں کے علاوہ کچھ کام نہ کیا “فاخبرنا بما ھو کائن الی یوم القیمۃ فاعلمنا احفظہ ” ۲ ؎ ۔ اس میں سب کچھ ہم سے بیان فرمادیا جو کچھ قیامت تک ہونے والا تھا ہم میں زیادہ علم والا وہ ہے جسے زیادہ یاد رہا۔
(۲ ؎ صحیح مسلم کتاب الفتن قدیمی کتب خانہ کراچی ۲ /۳۹۰)
جامع ترمذی شریف وغیرہ کتب کثیرئہ آئمہ حدیث میں باسانید عدیدہ و طرق متنوعہ دس صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم سے ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :فرأیتہ عزّوجل وضع کفّہ بین کتفّی فوجدت برد انا ملہ بین ثدّی فتجلّٰی لی کل شیئ وعرفت۳ ؎ ۔ میں نے اپنے رب عزوجل کو دیکھا اس نے اپنا دستِ قدرت میر ی پشت پر رکھا کہ میرے سینے میں اس کی ٹھنڈک محسوس ہوئی اسی وقت ہر چیز مجھ پر روشن ہوگئی اور میں نے سب کچھ پہچان لیا۔
(۳ ؎ سنن الترمذی کتاب التفسیر حدیث ۳۲۴۶ دارالفکر بیروت ۵ /۱۶۰)
امام ترمذی فرماتے ہیں :ھذا حدیث حسن سألت محمد بن اسمٰعیل عن ھذا الحدیث فقال صحیح” ۱ ؎ ۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے ، میں نے امام بخاری سے اس کا حال پوچھا، فرمایا صحیح ہے۔
(۱ ؎ سنن الترمذی کتاب التفسیر حدیث ۳۲۴۶ دارالفکر بیروت ۵ /۱۶۱)
اسی میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے اسی معراجِ منامی کے بیان میں ہے رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا :” فعلمت مافی السمٰوٰت وما فی الارض” ۲ ؎ ۔ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب میرے علم میں آگیا۔
(۲؎ سنن الترمذی کتاب التفسیر حدیث ۳۲۴۴ دارالفکر بیروت ۵ /۱۵۹)
شیخ محقق رحمۃ اﷲ علیہ شرح مشکوۃ میں اس حدیث کے نیچے فرماتے ہیں :پس دانستم ہر چہ در آسمانہا وہرچہ در زمین ہا بود عبارت است از حصولِ تمامہ علوم جزوی و کلّی واحاطہ آں۳ ؎ ۔ چنانچہ میں نے جان لیا جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمینوں میں ہے یہ تعبیر ہے تمام علوم کے حصول اور ان کے احاطہ سے چاہے وہ علوم جزوی ہوں یا کلُی ۔(ت)
(۳ ؎ اشعۃ اللمعات کتاب الصلوۃ باب المساجد و مواضع الصلوۃ مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۱ /۳۳۳)
امام احمد مسند اور ابن سعد طبقات اور طبرانی معجم میں بسند صحیح حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ تعالٰی عنہ اور ابویعلٰی وابن منیع و طبرانی حضرت ابودرداء رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی :لقد ترکنارسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم وما یحّرک طائر جناحیہ فی السمّاء الّا ذکر لنا منہ علما۴ ؎ ۔ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں اس حال پر چھوڑا کہ ہوا میں کوئی پرندہ پَر مارنے والا ایسا نہیں جس کا علم حضور نے ہمارے سامنے بیان نہ فرمادیا ہو۔
(۴ ؎ مسند احمد بن حنبل عن ابی ذر غفار ی رضی اللہ عنہ المکتب الاسلامی بیروت ۵/۱۵۳)
(مجمع الزوائد عن ابی الدرداء کتاب علامات النبوۃ باب فیما اوقی من العلم، الخ دارالکتاب ۸ /۲۶۴)
نسیم الریاض شرح شفاء قاضی عیاض و شرح زرقانی للمواہب میں ہے :ھذا تمثیل لبیان کل شیئ تفصیلاً تارۃً واجمالاً اُخرٰی۱۔یہ ایک مثال دی ہے اس کی کہ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ہر چیز بیان فرمادی، کبھی تفصیلاً کبھی اجمالاً ۔
(۱ ؎ نسیم الریاض فی شرح شفاء القاضی عیاض فصل و من ذٰلک مااطلع الخ مرکز اہلسنت برکایت رضا گجرات ۳ /۱۵۳)
(شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیہ المقصدالثامن الفصل الثالث القسم الثانی دارالمعرفۃ بیروت ۷ /۲۰۶)
مواہب امام قسطلانی میں ہے :ولا شک ان اﷲ تعالٰی قد اطلعہ علٰی اَزْیَدَمن ذٰلک والقٰی علیہ علم الاوّلین والاخرین۲؎۔ اور کچھ شک نہیں کہ اﷲ تعالٰی نے حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو اس سے زیادہ علم دیا اور تمام اگلے پچھلوں کا علم حضور پر القاء کیا، صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم۔
(۲ ؎ المواہب اللدنیہ المقصدالثامن الفصل مااخبربہ صلی اللہ علیہ وسلم من الغیب المکتب الاسلامی بیروت ۳ /۵۶۰)
طبرانی معجم کبیر اور نصیم بن حماد کتاب الفتن اور ابونعیم حلیہ میں حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی، رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :ان اﷲ قدرفع لی الدنیا فانا انظر الیہا والٰی ما ھوکائن فیہا الٰی یوم القیامۃ کانمّا انظر الٰی کفی ھذہ جلیان من اﷲ جلاّہ لنبیّہ کما جلّاہ لنبیّن من قبلہ ۳ ؎۔ بے شک میرے سامنے اﷲ عزوجل نے دنیا اٹھالی ہے اور میں اسے اور جو کچھ اس میں قیامت تک ہونے والا ہے سب کچھ ایسا دیکھ رہا ہوں جیسے اپنی ہتھیلی کو دیکھ رہا ہوں ، اس روشنی کے سبب جو اﷲ تعالٰی نے اپنے نبی کے لیے روشن فرمائی جیسے محمد سے پہلے انبیاء کے لیے روشن کی تھی۔صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم۔
(۳ ؎ حلیۃ الاولیاء ترجمہ ۳۳۸ حدید بن کریب دارلکتاب العربی بیروت ۶ /۱۰۱)
(کنزالعمال حدیث ۳۱۸۱۰ و ۳۱۹۷۱ موسستہ الرسالہ بیروت ۱۱ /۳۷۸ و ۴۲۰)
اس حدیث ہے کہ جو کچھ سماوات وارض میں ہے اور جو قیامت تک ہوگا اس سب کا علم اگلے انبیاء کرام علیہم السلام کو بھی عطا ہوا تھا اور حضرت عزت عزوجلالہ نے اس تمام ماکان ومایکون کو اپنے ان محبوبو ں کے پیش نظر فرمادیا، مثلاً مشرق سے مغرب تک سماک سے سمک تک ، ارض سے فلک تک اس وقت جو کچھ ہورہا ہے ، سیدنا ابراہیم خلیل علیہ الصلوۃ والسلام والتسلیم ہزار ہا برس پہلے اس سب کو ایسا دیکھ رہے تھے گویا اس وقت ہر جگہ موجود ہیں، ایمانی نگاہ میں یہ نہ قدرتِ الہی پر دشوار اور نہ عزت و وجاہت انبیاء کے مقابل بسیار، مگر معترض بیچارے جن کے یہاں خدائی کی حقیقت اتنی ہو کہ ایک پیڑ کے پتّے گنِ دیئے وہ آپ ہی ان حدیثوں کو شرکِ اکبر کہنا چاہیں اور جو آئمہ کرام و علمائے اعلان ان سے سند لائے ، انہیں مقبول مسلم رکھتے آئے، جیسے امام خاتم الحفاظ جلال الملّۃ والدین سیوطی مصنف خصائص کبری و امام شہاب احمد محمد خطیب قسطلانی صاحب مواہب لدنّیہ وامام ابوالفضل شہاب ابن حجر مکی ہیثمی شارح ہمزیہ و علامہ شہاب احمد مصری خفا جی صاحب نسیم الریاض شرح شفاء قاضی عیاض و علامہ محمد عبدالباقی زرقانی شارح مواہب وغیرہم رحمہم اﷲ تعالٰی انہیں مشرک کہیں۔والعیاذ باﷲ رب العالمین۔
صحیح مسلم و مسند امام احمد و سُنن ابنِ ماجہ میں ابوذر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہے رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :عرضت علیّ امتی باعمالہا حسنہا وقبیحھا۱ ؎۔ میری ساری اُمت اپن سب اعمالِ نیک و بد کے ساتھ میرے حضور پیش کی گئی۔
(۱ ؎ صحیح مسلم کتاب المساجد باب النہی عن البصاق فی المسجد قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۲۰۷)
(مسند احمد بن حنبل عن ابی ذر رضی اللہ عنہ المکتب الاسلامی بیروت ۵ /۱۸۰)
طبرانی اور ضیاء مختارہ میں حذیفہ بن اُسید رضی اللہ تعالٰی عنہا سے راوی، رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :”عرضت علٰی امتی البارحۃ لدی ھٰذہ الحجرۃ حتی لانا اعرف بالرّجل منھم من احد کم بصاحبہ” ۲ ؎۔ گزشتہ رات مجھ پر میری اُمّت اس حجرے کے پاس میرے سامنے پیش کی گئی بے شک میں ان کے ہر شخص کو اس سے زیادہ پہچانتا ہوں جیسا تم میں کوئی اپنے ساتھی کو پہچانے۔والحمدﷲ ربّ العالمین (سب تعریفیں اﷲ کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔ت)
(۲ ؎ المعجم الکبیر حدیث ۳۰۵۴ المکتبۃ الفیصلیۃبیروت ۳ /۱۸۱)
(کنزالعمال حدیث ۳۱۹۱۱ موسستہ الرسال بیروت ۱۱ /۴۰۸)
اقوال ائمہ کرام
امام اجل سیّدی بوصیری قدس سرہ، ام القرٰی میں فرماتے ہیں :وسع العالمین علماً وحکمًا ۱ ؎۔ رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا علم و حکمت تمام جہان کو محیط ہوا۔
(۱ ؎ مجموع المتون متن قصیدۃ الہمزیۃ فی مدح خیر البریۃ الشؤن الدینیہ دولتہ قطر ص ۱۸)
امام ابن حجر مکی اس کی شرح افضل القرٰی میں فرماتے ہیں :لانّ اﷲ تعالٰی اطلعہ علی العالم فعلم علم الاولین والاٰخرین وماکان ومایکون ۲ ؎۔ یہ اس لیے کہ بے شک عزوجل نے حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو تمام جہان پر اطلاع بخشی تو سب اگلے پچھلوں اور ماکان ومایکون کا علم حضور پر نور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو حاصل ہوگیا۔
(۲افضل القراء لقراء ام القرٰی )
امام جلیل قدوۃ المحد ثین سیدی زین الدین عراقی استاذ امام حافظ الشان ابن حجر عسقلانی شرح مہذب میں پھر علامہ خفا جی نسیم الریاض میں فرماتے ہیں : ان صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم عرضت علیہ الخلائق من لدن اٰدم علیہ الصلوۃ والسلام الی قیام الساعۃ فعرفھم کلھم کما عُلّم ادم الاسماء ۳ ؎۔ حضرت آدم علیہ الصلوۃ والسلام سے لے کر قیامِ قیامت تک کی تمام مخلوقات الہٰی حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو پیش کی گئی حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے جمیع مخلوقات گزشتہ اور آئندہ سب کو پہچان لیا۔ جس طرح آدم علیہ الصلوۃ والسلام کو تمام نام سکھائے گئے تھے۔
(۳ ؎ نسیم الریاض الباب الثالث الفصل الاول فیما ورومن ذکر مکانتہ مرکز اہلسنت برکات رضا گجرات الہند۲ /۲۰۸)
علامہ عبدالرؤف مناوی تیسیر میں فرماتے ہیں :النفوسُ القدسیّۃ اذا تَجَرَّدَتْ عن العلائق البدنیۃ اتصلت بالملاء الاعلٰی ولم یبق لہا حجاب فترٰی وتسمع الکل کالمشاھد۱ ؎ ۔پاکیزہ جانیں جب بدن کے علاقوں سے جدا ہو کر عالمِ بالا سے ملتی ہیں ان کے لیے کوئی پردہ نہیں رہتا ہے وہ ہر چیز کو ایسا دیکھتی اور سنتی ہیں جیسے پاس حاضر ہیں۔
(۱ ؎ التیسیر شرح الجامع الصغیر تحت حدیث حیثما کنتم فصلوا علیّ الخ مکتبۃ الامام الشافعی ریاض ۱ /۵۰۲)
امام ابن الحاج مکی مدخل امام قسطلانی مواہب میں فرماتے ہیں : قد قال علماء ُ نار حمھم اﷲ تعالٰی لا فرق بین موتہ وحیاتہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فی مشاھدتہ لامّتہ و معرفتہ باحوالھم و نیاتھم وعزائمھم وخواطر ھم وذٰلک جلی عندہ، لاخِفاء بہ۲ ؎۔ بے شک ہمارے علمائے کرام رحمہم اﷲ تعالٰی نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی حالت دنیوی اور اس وقت کی حالت میں کچھ فرق نہیں ہے اس بات میں کہ حضور اپنی امت کو دیکھ رہے ہیں ان کے ہر حال، ان کی ہر نیت ، ان کے ہر ارادے ، ان کے دلوں کے ہر خطرے کو پہچانتے ہیں، اور یہ سب چیزیں حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم پر ایسی روشن ہیں جن میں اصلاً کسی طرح کی پوشیدگی نہیں۔
(۲ ؎ المدخل لابن الحاج فصل فی الکلام علٰی زیارۃ سیدالمرسلین دارالکتاب العربی بیروت ۱ /۲۵۲)
(المواہب اللدنیۃ المقصد العاشر الفصل الثانی المکتب الاسلامی العربی بیروت ۴ /۵۸۰)
یہ عقیدے ہیں علمائے ربانیین کے محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی جناب ارفع میں، جل جلالہ، وصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم۔
شیخ شیوخ علمائے ہند مولانا شیخ محقق نور اﷲ تعالٰی مرقدہ المکرم مدارج شریف میں فرماتے ہیں :ذکر کن اُو را ودرود بفرست بروے صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم، وباش در حال ذکر گویا حاضر ست پیش او در حالتِ حیات و می بینی تو او رامتادب باجلال و تعظیم و ہیبت و امید بداں کہ وے صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم می بیند ومی شنود کلام ترا زیرا کہ وے صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم متصف است بصفات اﷲ ویکے از صفات الہی آنست کہ انا جلیس من ذکرنی ۱ ؎۔ ان کی یاد کر اور ان پر درود بھیج، اور ذکر کے وقت ایسے ہوجاؤ گویا تم ان کی زندگی میں ان کے سامنے حاضر ہو اور ان کو دیکھ رہے ہو ، پورے ادب اور تعظیم سے رہو، ہیبت بھی ہو اور امید بھی، اور جان لو کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم تمہیں دیکھ رہے ہیں اور تمہارا کلام سن رہے ہیں۔ کیونکہ وہ صفاتِ الہیہ سے متصف ہیں اور اللہ کی ایک صفت یہ ہے کہ جو مجھے یاد کرتا ہے میں اس کے پاس ہوتا ہوں۔
(۱ ؎مدارج النبوۃ باب یاز دہم وصل نوع ثانی کہ تعلق معنوی است الخ مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۲ /۲۶۱)
اﷲ تعالٰی کی بے شمار رحمتیں شیخ محقق پر، جب نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا دیکھنا ہمیں بیان کیا بدانکہ بڑھایا تاکہ اسے کوئی گویاکے نیچے داخل نہ سمجھے، غرض ایمانی نگاہوں کے سامنے اس حدیث پاک کی تصویر کھینچ دی کہ :اعبدِ اﷲ کانّک تراہ فان لم تکن تراہ فانہ یراک۲ ؎۔ ﷲ تعالٰی کی عبادت کر، گویا تُو اسے دیکھ رہا ہے اور اگر تو اسے نہ دیکھے تو وہ تو یقینا تجھے دیکھتا ہے۔
(۲ ؎ صحیح بخاری کتاب الایمان باب سوال جبریل النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم عن الایمان قدیمی کتب خانہ ۱ /۱۲)
(صحیح مسلم کتاب الایمان باب سوال جبریل النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۲۹)
نیز فرماتے ہیں :ہر چہ درد نیا است زمانِ آدم تانفحہ اولٰی بروے صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم منکشف ساختند تاہمہ احوال رااز اول تاآخر معلوم کرد و یاران خود رانیز بعضے از اں احوال خبر داد ۳ ؎۔ جو کچھ دنیا میں زمانہئ آدم سے پہلے صور پھونکے جانے تک ہے ان ( صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ) پر منکشف کردیا یہاں تک کہ انہیں اول سے آخر تک تمام احوال معلوم ہوگئے۔ انہوں نے بعض اصحاب کو ان احوال میں سے بعض کی اطلاع دی۔
(۳ ؎مدارج النبوۃ کتاب الایمان باب پنجم وصل خصائص آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۱ /۱۴۴)
نیز فرماتے ہیں :وھو بکل شیئ علیم o ووے صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم دانا است ہمہ چیز از شیونات ذات الہٰی و احکام صفاتِ حق و اسماء وافعال و آثار و جمیع علومِ ظاہر و باطن اول و آخر احاطہ نمودہ و مصداق فوق کل ذی علم علیم oعلیہ من الصلوت افضلہا من التحیات اتمہاواکملہا۱ ؎۔”
وھو بکل شیئ علیم ، اور وہ ( صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم) سب چیزوں کو جاننے والے ہیں، احوالِ احکام الہٰی احکامِ صفاتِ حق، اسماء افعال آثار، تمام علوم ظاہر و باطن، اول و آخر کا احاطہ کیے ہوئے ہیں۔ اور” فوق کل ذی علم علیم”کے مصداق ہیں، آ پ پر افضل درود اور اتم وواکمل سلام ہو۔ت)
(۱ ؎ مدارج النبوۃ مقدمۃ الکتاب مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۱ /۲ و ۳)
شاہ ولی اﷲ دہلوی ، فیوض الحرمین میں لکھتے ہیں :فاضَ علیّ من جنابہِ المقدّس صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم کیفیۃُ ترقی العبدِ من حَیزہ الٰی حیزا لقدسِ فیتجلّٰی لہ حینئذٍ کُلُّ شَیئٍ کما اخبرعن ھٰذاا المشھد فی قصّۃِ المعراج المنامی” ۲ ؎۔ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ اقدس سے مجھ پر اس حالت کا علم فائض ہوا کہ بندہ اپنے مقام سے مقامِ قدس تک کیونکر ترقی کرتا ہے کہ اس پر ہر چیز روشن ہوجاتی ہے جس طرح حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اس مقام سے معراجِ خواب کے قصے میں خبر دی۔
(۲ ؎ فیوض الحرمین مشہد اﷲ تعالٰی مخلوق کی طرف کتاب نازل کرنے کے لیے وقت کیا کرتا ہے محمد سعید اینڈ سنز کراچی ۱۶۹)
قرآن وحدیث و اقوالِ آئمہ حدیث سے اس مطلب پر دلائل بے شمار ہیں اور خدا انصاف دے تو یہی اقل قلیل کہ مذکور ہوئے بسیار ہوئے، غرض شمس وامس کی طرح روشن ہوا کہ عقیدہ مذکورئہ زید کو معاذ اﷲ کفر و شرک کہنا خود قرآن عظیم پر تہمت رکھنا اور احادیث صحیحہ صریحہ شہیرہ کثیرہ کو رَد کرنا اور بہ کثرت آئمہئ دین و اکابر علمائے عاملین واعظم علمائے کاملین رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین ، یہاں تک کہ شاہ ولی اللہ ، شاہ عبدالعزیز صاحب کو بھی عیاذًا باﷲ کافر و مشرک بنانا اور بحکم ظواہر احادیث صحیحہ و روایات معتمدہ فقیہہ خود کافر و مشرک بننا ہے اس کے متعلق احادیث و روایات و اقوالِ آئمہ و ترجیحات و تصریحات فقیر کے رسالہالنھی الاکید عن الصلوۃ وراء عدی التقلید و رسالہ الکوکبۃ الشہابیۃ علٰی کفریات ابی الوہابیۃ وغیرھامیں ملاحظہ کیجئے۔
افسوس کہ ان شرک فروش اندھوں کو اتنا نہیں سوجھتا کہ علمِ الہی ذاتی ہے اور علمِ خلق عطائی، وہ واجب یہ ممکن، وہ قدیم یہ حادث، وہ نامخلوق یہ مخلوق وہ نامقدور یہ مقدور، وہ ضروری البقا یہ جائز الفنا، وہ ممتنع التغیر یہ ممکن التبدّل ۔ ان عظیم تفرقوں کے بعد احتمال شرک نہ ہوگا مگر کسی مجنون کو، بصیرت کے اندھے اس علم ماکان ومایکون بمعنی مذکور ثابت جاننے کو معاذ اﷲ علمِ الہٰی سے مساوات مان لینا سمجھتے ہیں حالانکہ العظمۃُ ﷲ علمِ الہٰی تو علمِ الہٰی جس میں غیر متناہی علوم تفصیلی فراوانی بالفعل کے غیر متناہی سلسلے غیر متناہی یا وہ جسے گویا مصطلح حساب کے طور پر غیر متناہی کا مکعب کہئے بالفعل وبالدوام ازلاً ابداً موجود ہیں۔ یہ شرق تا غرب و سماوات وارض وعرش تا فرشوماکان ومایکون من اوّل یوم الٰی اٰخر الایامسب کے ذرے ذرّے کا حال تفصیل سے جاننا وہ بالجملہ جملہ مکتوبات لوح و مکنونات قلم کو تفصیلاً محیط ہونا علوم محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم سے ایک چھوٹا سا ٹکڑا ہے، یہ تو ان کے طفیل سے ان کے بھائیوں حضرات مرسلین، کرام علیہ وعلیہم افضل الصلوۃ واکمل السلام بلکہ ان کی عطا سے ان کے غلاموں (ف) ، بعض اعاظم اولیائے عظام قدست اسرار ہم کو ملا، اور ملتا ہے ہنوز علومِ محمدیہ میں وہ بجارذخارنا پیدا کنار ہیں جن پر ان کی افضلیت کلیہ اور افضلیت مطلقہ کی بناء ہے۔
ف : تمام ماکان ومایکون کا علم علومِ حضور سے ایک علم ہے ، یہ تو ان کی عطا سے ان کے غلاموں اکابر اولیاء کو بھی ملتا ہے ۱۲ منہ ۔
اﷲ عزوجل کے بے شمار رحمتیں امام اجل محمد بوصیری شرف الحق والدین رحمۃ اﷲ علیہ پر قصیدہ بردہ شریف میں فرماتے ہیں ۔فانّ من جودک الدّنیا وضرّتھاومن علومک علم اللّوح والقلم۱ ؎۔ یعنی یارسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم دنیا و آخرت دونوں حضور کے خوانِ جودو کرم سے ایک ٹکڑا ہیں اور لوح و قلم کا تمام علم جن میںماکان و مایکونمندرج ہے حضور کے علوم سے ایک حصہ “صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم وعلٰی اٰلک وصحبک وبارک وسلم “
(۱ مجموع المتون متن قصیدۃ البردۃ الشئون الدینیۃ دولۃ قطر ص ۱۰)
مولانا علی قاری علیہ الرحمۃ الباری زبدہ شرح بردہ میں فرماتے ہیں :توضیحہ ان المراد بعلم اللّوح ما اثبت فیہ من النقوش القدسیۃ و الصور الغیبیۃ وبعلم القلم ما اثبت فیہ کما شاء والا ضافۃ لادنی ملابسۃ وکون علمھما من علومہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم انّ علومہ تتنوع الی الکلیات والجزئیات وحقائق ومعارف وعوارف تتعلق بالذات والصفات وعلمھما انما یکون سطراً من سطور علمہ ونہراً من بحور علمہ ثم مع ھذا ھو من برکۃ وجودہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم۱ ؎۔
یعنی توضیح اس کی یہ ہے کہ علمِ لوح سے مراد نقوشِ قدس وصور غیب ہیں جو اس میں منقوش ہوئے، اور قلم کے علم سے مراد وہ ہیں جو اﷲ عزوجل نے جس طرح چاہا اس میں ودیعت رکھے، ان دونوں کی طرف علم کی اضافت ادنی علاقے یعنی محلیت نقش و اثبات کے باعث ہے اور ان دونوں میں جس قدر علوم ثبت ہیں ان کا علم علوم محمدیہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے ایک پارہ ہونا، اس لیے کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے علوم بہت اقسام کے ہیں، ، علوم کلیہ، علوم جزئیہ، علوم حقائق اشیاء و علومِ اسرار خفیہ اور وہ علوم اور معرفتیں کہ ذات و صفات حضرت عزت جل جلالہ، سے متعلق ہیں اور لوح و قلم کے جملہ علوم علومِ محمدیہ کی سطروں سے ایک سطر، اور ان کے دریاؤں سے ایک نہر ہیں، پھر بہ ایں ہمہ وہ حضور ہی کی برکت وجود سے توہیں۔ کہ اگر حضور نہ ہوتے تو نہ لوح و قلم ہوتے نہ اُن کے علوم،صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وصحبہ وبارک وسلم۔
(۱ الذبدۃ العمدۃ فی شرح البردۃ ناشر جمعیت علماء سکندریہ خیرپور سندھ ص ۱۱۷)
منکرین کو صدمہ ہے کہ محمد رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے لیے روزِ اول سے قیامت تک کے تمام ماکان ومایکون کا علم تفصیلی ماناجاتا ہے لیکن بحمدﷲ تعالٰی وہ جمیع علم ماکان ومایکون علومِ محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے عظیم سمندر وں سے ایک نہر بلکہ بے پایاں موجوں سے ایک لہر قرار پاتا ہے۔
والحمد ﷲ رب العٰلمین o وخسر ھنالک المبطلون o فی قلوبھم مرض فزادھم اﷲ مرضا، وقیل بُعدًا للقوم الظّٰلمین oاور تمام تعریفیں اﷲ کے لیے ہیں جو پروردگار ہے تمام جہانوں کا اور باطل والوں کا وہاں خسارہ ہے، ان کے دلوں میں بیماری ہے تو اﷲ نے ان کی بیماری اور بڑھائی اور فرمایا گیا کہ دور ہوں ے انصاف لوگ (ت)
نصوصِ حصر
یعنی جن آیات واحادیث میں ارشاد ہوا ہے کہ علمِ غیب خاصہ خدا تعالٰی ہے، مولٰی عزوجل کے سوا کوئی نہیں جانتا، قطعاً حق اور بحمداﷲ تعالٰی مسلمان کے ایمان ہیں مگر منکر متکبر کا اپنے دعوائے باطلہ پر ان سے استدلال اور ا س کی بنا پر حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے علم ماکان ومایکون بمعنی۔ مذکور ماننے والے پر حکمِ کفر و ضلال ، نصِ جنون و خام خیال بلکہ خود مستلزمِ کفر و ضلال ہے۔
علم بہ اعتبار منشا دو قسم ہے : ذاتی کہ اپنی ذا ت سے بے عطائے غیر ہو، اور عطائی کہ اﷲ عزوجل کا عطیہ ہو، اور بہ اعتبارِمتعلق بھی دو قسم ہے، علم مطلق یعنی محیط حقیقی ، تفصیلی فعلی فروانی کہ جمیع معلوماتِ الہٰیہ عزوعلاء کو جن میں غیر متناہی معلومات کے سلاسل وہ بھی غیر متناہیہ وہ بھی غیر متناہی بار داخل اور خود کنہ ذات الہی و احاطہ تامِ صفاتِ الہٰیہ نامتناہی سب کو شامل فرداً فرداً تفصیلاً مستغرق ہو اور مطلق علم یعنی جاننا، اگر محیط باحاطہ حقیقیہ نہ ہو، ان تقسیمات میں علم ذاتی و علم مطلق یعنی مذکور بلاشبہ اﷲ عزوجل کے لیے خاص ہیں اور ہر گز کسی غیر خدا کے لیے ان کے حصول کا کوئی بھی قائل نہیں ہے۔
ہم ابھی بیان کر آئے کہ علم ماکان و مایکون بمعنی مسطور اگرچہ کیسا ہی تفصیلی بروجہ اتم واکمل ہو علومِ محمدیہ کی وسعت عظیمہ کو نہیں پہنچتا ، پھر علوم محمدیہ تو علومِ الٰہیہ ہیں، جل و علا وصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم، مطلق علم ہرگز حضرت حق عزوعلا سے خاص نہیں بلکہ قسم عطائی تو مخلوق ہی کے ساتھ خاص ہے۔
مولٰی عزوجل کا علم عطائی ہونے سے پاک ہے، تو نصوصِ حصر میں یقیناً قطعاً وہی قسمِ اوّل مراد ہوسکتی ہے۔ نہ کہ قسمِ اخیر، اور بداہۃً ظاہر کہ علم تفصیل جملہ ذرّات ماکان ومایکون بمعنی مزبور بلکہ اس سے ہزار در ہزار ازید وافزوں علم بھی کہ بہ عطائے الہٰی مانا جائے اسی قسم اخیر سے ہوگا۔ تو نصوصِ حصر کو مدعائے مخالف سے اصلاً مس نہیں بلکہ وہ اس کی صریح جہالت پر نص ہیں، وﷲ الحمد، یہ معنی بآنکہ خودبدیہی وواضح ہے، آئمہ دین نے اس کی تصریح بھی فرمائی۔
امام اجل ابوزکریا نووی رحمۃ اﷲ علیہ اپنے فتاوٰی پھر امام ابنِ حجر مکی رحمۃ اﷲ تعالٰی علیہ اپنے فتاوٰی حدیثیہ میں فرماتے ہیں : لایعلم ذٰلک استقلالاً وعلم احاطۃٍ بکل المعلومات الا اﷲ تعالٰی اما المعجزات والکرامات فباعلام اﷲ تعالٰی اما المعجزات والکرامات فبا علام اﷲ تعالٰی لھم علمت و کذا ماعُلِمَ باجراء العادۃ ۱ ؎۔
یعنی آیت میں غیر خدا سے نفی علمِ غیب کے یہ معنی ہیں کہ غیب اپنی ذات سے بے کسی کے بتائے جاننا اور ایسا علم کہ جمیع معلومات الہیہ کو محیط ہوجائے یہ اللہ تعالٰی کے سوا کسی کو نہیں رہے انبیاء کے معجزات اور اولیاء یہ تو اﷲ عزوجل کے بتانے سے انہیں علم ہوا ہے یونہی وہ باتیں کہ عادت کی مطابقت سے جن کا علم ہوتا ہے۔
( ۱ ؎فتاوی حدیثیہ مطلب فی حکم ما اذا قال قائل فلان یعلم الغیب مصطفی البابی مصر ص ۲۲۸)
مخالفین کا استدلال محض باطل و خےال محال ہونا تو یہیں سے ظاہر ہوگیا، مگر فقیر نے اپنے رسائل میں ثابت کیا ہے کہ یہ استدلال ان ضلّال کے خود اقراری کفر و ضلال کا تمغہ ہے، نیز انہیں میں روشن کیا کہ خلق کے لیے ادعائے علم غیب پر فقہا کا حکم کفر بھی درجہ اولائے حقیقت حق میں اسی صورت علم ذاتی اور درجہ اخرائے طرزِ فقہاء میں علم مطلق بمعنی مرقوم کے ساتھ مخصوص ہے، جیسا کہ محققین کے کلام میں منصوص ہے۔
بکر پر مکر کا وہ زعم مردود جس میں حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی نسبت ” کچھ نہیں جانتے(ف)” کا لفظ ناپاک ہے وہ بھی کلمہ کفر و ضلال بیباک ہے بکر نے جس عقیدے کو کفر و شرک کہا اور اس کے رد میں یہ کلما بدفر جام بکا، خود اس میں تصریح ہے کہ رسول اللہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کو حضرت حق جل شانہ نے یہ علم عطا فرمایا ہے ، لاجرم بکر کی یہ نفی مطلق شاملِ علم عطائی بھی ہے اور خود بعض شیاطین الانس کے قول سے استناد بھی اس تعلیم پر دلیل جلی ہے کہ اس قول میں خواہ یوں اور خواہ یوں، دونوں صورت پر حکم شرک دیا ہے، اب اس لفظ قبیح کے کلمہ کفر صریح ہونے میں کیا تامل ہوسکتا ہے۔ قرآن عظیم کی روشن آیتوں کی تکذیب بلکہ سارے قرآن کی تکذیب رسالت نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا انکار بلکہ نبوت تمام انبیاء کا انکار، سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی تنقیص مکان بلکہ رب العزۃ جلالہ کی توہین شان، ایک دو کفر ہوں توگِنے جائیں۔والعیاذ باﷲ رب العالمین۔
ف : اپنے خاتمے کا حال حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو معلوم نہ ماننا صریح کفر ہے۔
یوں ہی اس کا قول کہ “اپنے خاتمے کا بھی حال معلوم نہ تھا” صریح کلمہ ئ کفر و خسار اور بیشمار آیاتِ قرآنیہ و احادیثِ متواتر ہ کا انکار ہے۔ آیہ کریمہ” لیغفرلک اﷲ “مع حدیث صحیحین بخاری و مسلم ،بعض اور سنئے،قال اﷲ تعالٰی (اﷲ تعالٰی نے فرمایا ۔ت) :وللٰاخرۃ خیرلک من الاولٰی” ۱ ؎۔ اے نبی ! بے شک آخرت تمہارے لیے دنیا سے بہتر ہے۔
وقال اﷲ تعالٰی (اللہ تعالٰی نے فرمایا۔ ت) :“ولسوف یعطیک ربک فترضٰی”۲ ؎۔ بے شک نزدیک ہے کہ تمہارا رب تمہیں اتنا عطا فرمائے گا کہ تم راضی ہوجاؤ گے۔
وقال اﷲ تعالٰی (اﷲ تعالٰی نے فرمایا۔ت):“یوم لایخزی اﷲ النبی والذین اٰمنوا معہ نورھم یسعٰی بین ایدیھم وبایمانھم” ۱ ؎۔ جس دن اﷲ رسوانہ کرے گا نبی اور ان کے صحابہ کو ان کا نور ان کے آگے اور داہنے جوالان (عہ)کرے گا۔
عہ : دوڑے گا۔۱۲
وقال اﷲ تعالٰی ( اﷲ تعالٰی نے فرمایا ۔ت):“عسٰی ان یبعثک ربک مقاماً محمودا ” ۲ ؎۔ قریب ہے کہ تمہارا رب تمہیں تعریف کے مکان میں بھیجے گا جہاں اولین و آخرین سب تمہاری حمد کریں گے۔
وقال اﷲ تعالٰی ( اور اﷲ تعالٰی نے فرمایا ۔ت):” تبرٰک الذی ان شآ ء جعل لک خیرا من ذٰلک جنّات تجری من تحتھا الانھٰر ویجعل لک قصورا o ۳ ؎۔ بڑی برکت والا ہے وہ جس نے اپنی مشیت سے تمہارے لیے اس خزانہ و باغ سے ( جس کی طلب یہ کافر کررہے ہیں) بہتر چیزیں کردیں جنتیں جن کے نیچے نہریں رواں اور وہ تمہیں بہشت بریں کے اونچے اونچے محل بخشے گا۔
( ۱ ؎ القرآن الکریم ۹۳ /۴) (۲ ؎ القرآن الکریم ۹۳/ ۵ )
(۱ ؎ القرآن الکریم ۶۶ /۸) (۲ ؎ القرآن الکریم ۱۷ /۷۹)
(۳ ؎ القرآن الکریم ۲۵ /۱۰)
علٰی قراء ۃ الرفع قراۃ بن کثیر وابن عامر ورِوایۃ ابی بکر عن عاصم، الٰی غیر ذلک من الاٰیات ۔یجعل کو مرفوع پڑھنے کی تقدیر پر جو کہ ابن کثیر اور ابن عامر کی قراء ۃ ہے اور ابوبکر کی عاصم سے یہ روایت ہے اس کے علاوہ اور بھی متعدد آیات ہیں۔(ت)
اور احادیثِ کریمہ میں تو جس تفصیل جلیل سے حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے فضائل و خصائص وقتِ وفاتِ مبارک و برزخ مطہر و حشر منور و شفاعت و کوثر و خلافتِ عظمٰی و سیادتِ کبرٰی ودخولِ جنت و رویت وغیرہا وارد ہیں، انہیں جمع کیجئے تو ایک دفتر طویل ہوتا ہے۔ یہاں صرف ایک حدیث تبرکاً سُن لیجئے۔
جامع ترمذی وغیرہ میں انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہے، رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتےہیں:انا اول الناس خروجا اذا بعثوا و انا خطیبھم اذا وفدوا، وانا خطیبھم اذا اُنصتوا، وانا مستشفعھم اذا حُبِسوا، وانا مبشرھم اذا یئسوا لِکرامۃٍ و المفاتیح یومئذٍ بیدی، وانا اکرم ولد اٰدم علی ربی یطوف علیّ الف خادمٍ کانھم بیض مکنون اولؤلؤ منثور ۱؎۔
جب لوگوں کا حشر ہوگا تو سب سے پہلے میں مزار اطہر سے باہر تشریف لاؤں گا، اور جب وہ سب دم بخود رہیں گے تو اُن کا خطبہ خواں میں ہوں گا، اور جب وہ رو کے جائیں گے تو ان کا شفاعت خواہ میں ہوں گا۔ اور جب وہ نا امید ہوجائیں گے تو ان کا بشارت دینے والا میں ہوں گا، عزت کے لیے اور تمام کنجیاں اس دن میرے ہاتھ ہوں گی ، لواء الحمد اس دن میرے ہاتھ میں ہوگا، بارگاہِ عزت میں میری عزت تمام اولادِ آدم سے زائد ہے، ہزار خدمتگار میرے اردگرد گھومیں گے گویا وہ گردو غبار سے پاکیزہ انڈے ہیں محفوظ رکھے ہوئے یاجگمگاتے موتی ہیں بکھیرے ہوئے۔
(۱ ؎ جامع الترمذی ابواب المناقب باب منہ امین کمپنی دہلی ۲ /۲۰۱)
(دلائل النبوۃ ذکر الفضیلۃ الرابعۃ باقسام اﷲ بحیاتہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم عالم الکتب بیروت ص ۱۳)
(سنن الدارمی باب مااعطی النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم حدیث ۴۹ دارالمحاسن للطباعۃ ۱ /۳۰)
(الدرالمنثور بحوالہ ابن مردویۃ عن انس رضی اللہ عنہ مکتبہ آیۃ العظمی قم ایران ۶ /۳۰۱)
بالجملہ بکر پر مکر کے گمراہ و بددین ہونے میں اصلاً شُبہہ نہیں ، اور اگر کچھ نہ ہوتا تو صرف اتنا ہی کہ تقویۃ الایمان پر جو حقیقتاً تفویۃ الایمان ہے اس کا ایمان ہے، یہی اس کا ایمان سلامت نہ رکھنے کو بس تھا، جیسا کہ فقیر کے رسالہ الکوکبۃ الشھابیۃ وغیرہا کے مطالعے سے ظاہر ہے۔ع
اذاکان الغراب دِلّیْل قومٍ سیھدیھم طریق الہا لکینا۲ ( جب کّوا کسی قوم کا رہبر ہو تو وہ اس کو ہلاکت کی راہ پر ڈال دے گا۔ت) والعیاذ باﷲ تعالٰی۔
(۲ ؎ )
وہ شخص جو شیطان کے علم ملعون کو علمِ اقدس حضور پر نور عالمِ ماکان ومایکون صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے زائد ہے اس کا جواب اس کفرستانِ ہند میں کیا ہوسکتا ہے،ان شاء اﷲ القہار (اگر بہت قہر فرمانے والا خدا نے چاہا۔ ت) روزِ جزا وہ ناپاک ناہنجار اپنے کیفر کفری گفتار کو پہنچے گا۔
وسیعلم الذین ظلموا ای منقلب ینقلبون ۱ ؎۔ (اب جانا چاہتے ہیں ظالم کہ کون سی کروٹ پر پلٹا کھائیں گے۔ت)
(۱ ؎ القرآن الکریم ۲۷ /۲۲۷ )
یہاں اسی قدر کافی ہے کہ یہ ناپاک کلمہ صراحتاً محمد رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو عیب لگانا ہے، اور حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو عیب لگانا کلمہ کفر نہ ہوا تو اور کیا کلمہ کفر ہوگا۔والذین یؤذون رسول اﷲ لھم عذاب الیم ” ۲ ؎۔ اور جو لوگ رسول اﷲ کو ایذا دیتے ہیں ان کے لیے دکھ کی مار ہے۔
(۲ ؎ القرآن الکریم ۹ /۶۱)
ان الذین یؤذون اﷲ وسولہ لعنھم اﷲ فی الدنیا والاخرۃ واعدلھم عذاباً مھینا ۳ ؎۔ جو لوگ ایذا دیتے ہیں اﷲ تعالٰی اور اس کے رسول کو، اﷲ نے اُن پر لعنت فرمائی ہے دنیا اور آخرت میں ، اور ان کے لیے تیار کررکھی ہے ذلت والی مار۔
(۳؎القرآن الکریم ۳۳ /۵۷)
شفائے امامِ اجل قاضی عیاض اور شرح علامہ شہاب خفا جی مسمّٰی بہ نسیم الریاض میں ہے :جمیع من سبّ النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم بشتمۃ اوعابہ ھو اعم من السب فان من قال فلان اعلم منہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فقد عابد و نقصہ وان لم یسبہ (فھو ساب والحکم فیہ حکم الساب) من غیر فوق بینھما (لانستثنی منہ) (فصلاً ) اَی صورۃً (ولا نمتری) فیہ تصریحاً کان اوتلویحاً وھذا کلّہ اجماع من العلماء وائمۃ الفتوٰی من لدن الصحابۃ رضی اﷲ تعالٰی علٰی عنھم الٰی ھلّم جرًّا ۱ ا ھ مختصراً ۔
یعنی جو شخص نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو گالی دے یا حضور کو عیب لگائے اور یہ گالی دینے سے علم تر ہے کہ جس نے کسی کی نسبت کہا کہ فلاں کا علم نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے علم سے زیادہ ہے اس نے ضرور حضور کو عیب لگایا، حضور کی توہین کی، اگرچہ گالی نہ دی، یہ سب گالی دینے والے کے حکم میں ہے، ان کے اور گالی دینے والے کے حکم میں کوئی فرق نہیں، نہ ہم اس سے کسی صورت کا استثناء کریں نہ اس میں شک وتردد کو راہ دیں، صاف صاف کہا ہو یا کنایہ سے، ان سب احکام پر تمام علماء اور آئمہ فتوٰی کا اجماع ہے کہ زمانہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے آج تک برابر چلا آیا ہے۔ اھ مختصراً
(۱ ؎ نسیم الریاض القسم الرابع الباب الاول مرکز اھل سنت برکاتِ رضا گجرات ہند ۴ /۳۳۵ و ۳۳۶)
نسأل اﷲ العفووالعافیۃ فی الدنیا والاخرۃ ونعوذ بہ من الحور بعد الکور ولاحول ولاقوۃ الا باﷲ العلی العظیم وصلی اللہ تعالٰی علیہ سید المرسلین واﷲ سبحانہ تعالی اعلم ۔
ہم اﷲ تعالٰی سے دنیاو آخرت میں معافی اور عافیت چاہتے ہیں اور کثرت کے بعد قلت سے اس کی پناہ چاہتے ہیں نہ گناہ سے بچنے کی طاقت ہے اور نہ ہی نیکی کرنے کی قوت مگر بلندی و عظمت والے خدا کی توفیق سے اور درود نازل فرمائے اﷲ تعالٰی رسولوں کے سردار پر ، اور اﷲ سبحنہ و تعالٰی خوب جانتا ہے۔(ت)
فقیر غفرلہ المولی القدیر نے اس سوال کے ورود پر ایک مسبوط کتاب ” بحرعباب” منقسم بہ چار باب مسمّٰی بہ نام تاریخی” مائی الحبیب بعلوم الغیب ” (۱۳۱۸ھ)کی طرح ڈالی۔
باب اول : فصوص یعنی فوائد جلیلہ و نفائس جزیلہ کہ ترصیف دلائل اہلسنت کے مقدمات ہوں۔
باب دوم : نصوص یعنی اپنے مدعا پر دلائل جلائل قرآن وحدیث و اقوالِ آئمہ قدیم و حدیث۔
باب سوم : عموم و خصوص کہ احاطہئ علومِ محمدیہ میں تحریر محل نزاع کرے۔
باب چہارم :قطع اللصوص یعنی اس مسئلے میں تمام مہملات نجدیہئ نو وکہن کی سرفگنی و تکبر شکنی، مگر فصوص ونصوص کے ہجوم و وفور نے ظاہر کردیا کہ اطالت تاحدّ ملالت متوقع،
لہذا باذن اﷲ تعالٰی نفع عامّہ کے لیے اس بحرذخار سے ایک گوہرشہوار لامع الانوار گویا خزائن الاسرار سے درمختار مسمّی بہ نام تاریخی”اللؤلؤ المکنون فی علم البشیر ما کان ومایکون” (۱۳۱۸ھ) (پوشیدہ موتی بشیر صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے علمِ ماکان ومایکون کے بارے میں۔ت) چنُ لیا جس نے جمع و تلفیق کے عوض نفع و تحقیق کی طرف بحمداﷲ زیادہ رُخ کیا۔ اس کے ایک ایک نور نے نورالسمٰوت والارض جل جلالہ کے عون سے وہ تابشیں دکھائیں کہ ظلماتِ باطلہ کا فور ہوتی نظر آئیں۔
یہ چند حرفی فتوٰی کہ اس کے لمعات سے ایک شعشہ اور بلحاظ تاریخبنام ابناء المصطفٰی بحال سّرواخفی ( مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو پوشیدہ اور پوشیدہ ترین کے حال کی خبر دینا ۔ت) مسمّٰی ہے۔ اس کے تمام اشارات خفیہ کا بیان مفصل اسی پر محول ذی علم ماہر تو ان ہی چند حروف سے اِنشاء اﷲ تعالٰی سب خرافات و جزافات مخالفین کو کیفر چشانی کرسکتا ہے مگر جو صاحب تفصیل کے ساتھ دست نگر ہوں بعونہ تعالٰی رسائل مذکور ہ کے لآلی متلالی سے بہرہ ور ہوں، حضراتِ مخالفین سے بھی گزارش ہے کہ اگر توفیقِ الہی مساعدت کرے یہی حرفِ مختصر ہدایت کرے تو ازیں چہ بہتر، ورنہ اگر بوجہ کوتاہی فہم و غلبہئ وہم و قلتِ تدرّب و شدتِ تعصب اپنی تمام جہالاتِ فاحشہ کی پردہ دری ان مختصر سطور میں نہ دیکھ سکیں۔ تو اسی مہر جہاں تاب کا انتظار کریں۔ جو بہ عنایت الہٰی و اعانت رسالت پناہی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ان کی تمام ظلمتوں کی صبح کردے گا۔ ان کا ہر کاسہ سوال آبِ زلال رَدو ابطال سے بھردے گا۔
الا انّ موعد ھم الصبح الیس الصبح بقریب ط وما توفیقی الاّ باﷲ علیہ توکلت والیہ اُنیب ط۔خبردار ! بے شک ان کا وعدہ صبح کے وقت ہے کیا صبح قریب نہیں، اور میری توفیق اﷲ ہی کی طرف سے ہے، میں نے اسی پر بھروسہ کیا اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں۔(ت)
کیا فائدہ کہ اس وقت آپ کا خواب غفلت کچھ ہذیات (بے ہودہ گوئی) کا رنگ دکھائے، اور جب صبح ہدایت افق سعادت سے طالع ہو تو کھل جائے کہ ۔۔۔۔۔۔ع
خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو کہا افسانہ تھا
معہذا طائفہ ارانب وثعالب کو یہی مناسب کہ جب شیر ژیاں کو چہل قدمی کرتا دیکھ لیں سامنے سے ٹل جائیں اپنے اپنے سوراخوں میں جان چھپائیں، نہ یہ کہ اس وقت اس کے خرام نرم پر غرّہ ہو کر آئیں اس کی آتشِ غضب کو بھڑکائیں اپنی موت اپنے منہ بلائیں ،ع
نصیحت گوش کن جاناں کہ از جاں دور تر خواہندشغالانِ ہزیمت مند خشم شیر ہیجارا (اے دوست ! نصیحت سُن کہ اپنی جان سے دور چاہتے ہیں، شکست پسند گیدڑ بپھرے ہوئے شیر کے غصےکو۔ت)
اقول : قولی ھذا واستغفراﷲ لی ولسائر المؤمنین والمؤمنات و الصلوۃ الزاکیات والتحیّات النامیات علٰی سید نا محمدٍ نبی المغیبات مظھر الخفیات وعلٰی الہ وصحبہ الاکارم السادات واﷲ سبحنہ تعالٰی اعلم وعلمہ جل مجدہ اَتَمُّ واحکم”میں کہتا ہوں یہ میرا قول ہے، اور میں اﷲ تعالٰی سے اپنے لیے اور تمام مومن مردوں اور عورتوں کے لیے مغفرت طلب کرتا ہوں، پاکیزہ درود اور بڑھنے والے سلام ہوںہمارے سردار محمد پر جو غیب کی خبریں دینے والے اور پوشیدہ باتوں کو ظاہر فرمانے والے ہیں اور آپ کی آل و اصحاب پر جو بزرگی والے سردار ہیں، اور اﷲ سبحانہ و تعالٰی خوب جانتا ہے اور اﷲ جل مجدہ، کا کلام اتم اور مستحکم ہے۔(ت)
ماشاللہ . الله آپکو جزا دے .
ماشاللہ . الله آپکو جزا دے