حضرت سائیں کے مُرید کا وہابی کو آگ پر مباحلہ کا چیلنج (محمد پناہ ٹوٹانی)

panah

یہ کہانی ہے اُس سالکِ راہ خدا کی جو ایک معمولی سا ٹریکٹر چلانے والا ہےاور ذات کا ٹوٹانی ہے اور جو کسی بھی علم سے ناواقف تھا لیکن اس کا ایمان تھا کہ جو ہمارے مُرشد کریم فرماتے ہیں وہی حق ہے اور یہ واقعہ جو میں اب لکھنے کی سعادت حاصل کر رہا ہوں اس واقع کو میں ایک ویڈیو سے سُن کر لکھ رہا ہوں۔ یہ واقعہ 1998 میں لاڑکانہ کے قریب ایک گاؤں ‘وارا’ میں پیش آیاجہاں حضرت سائیں حسین شاہ دامت برکاتہم العالی کے ایک مُرید نے وہابی عقیدہ رکھنے والے ہارون کو مباحلہ کی دعوت دی اوراللہ تبارک و تعالٰی نے بے شمار لوگوں کے سامنے اس کو گستاخی رسولﷺکرنے پر اُسکی سزا (جو آخرت میں ان بدنصیبوں کا نصیب ہے) کی جھلک دکھلادی اور اللہ کے حبیب محمد ﷺ سے محبت کرنے کا نتیجہ بھی دکھلا دیا کہ محمد ﷺ کے غلاموں کا آگ بھی کچھ نہیں بگاڑ سکتی ۔ انشاء اللہ عزوجل۔

محمد پنا ہ ٹوٹانی فرماتے ہیں ۔۔۔۔ میرا نام محمد پناہ ہے ہمارے علاقے کا نام محمد ملوح ہے۔ میں ٹریکٹر کا ڈرائیور ہوں۔ شہر میں ۳ ، ۴ دن کام کرنے کے لیئے آیا تھا ٹرالی کے ساتھ مٹی بھرنے کے لیے ۔ وارا کے قریب ایک گاؤں میں میرا گزر ہوا تو وہاں ہارون نامی شخص موجود تھا اس کی داڑھی دیکھ کر مجھے گمان گزرا کہ یہ کوئی ہمارے مرشد کا مُرید ہوگا کیوں کہ ساری دنیا میں حضرت سائیں کے بے شمار مُرید ہوتے ہیں تو اس نے مجھے روکا اور کہا مجھے بھی آگے جانا ہے تو میں نے اس کو کہا کہ پیچھے والی ٹرالی میں بیٹھ جاؤ۔ ہارون بھی وہاں ٹرالی ہی کا کام کرتا تھا تو میری ٹرالی میں میرے ساتھی مزدورں کے ساتھ بیٹھ گیا۔ جب اس کا اسٹاپ آیا تو اس نے اُترنے کو کہا تو میں نے ٹریکٹر روک دیا اور وہ اُتر کر جانے لگا۔ میرے ساتھی مزدوروں نے بتایا کہ یہ ہمارے مدینے والے سائیں ﷺ کے علم غیب و حاضر ناظر شان کا انکار کررہا تھا اور یہ منافق ہے تومیں نےکہا کہ یہ ہمارا کیا کرے گا۔ تو دوسروں نے کہا کہ کرے گا تو کچھ نہیں لیکن اس نے شان اقدس ﷺ کا انکار بھی کیا ہے اور ساتھ ساتھ بدتمیزی بھی کی ہے۔ تو میں نے کہا کہ ان جیسے منافقوں کا یہی کام ہوتا ہے لعنت بھیجو۔

یہ کہہ کر میں نے اپنے ٹریکٹر کا کلچ دبایا اور سلف دیا اور گیر لگایا تو جب کلچ چھوڑا تو میری گاڑی چل ہی نہیں رہی تھی بہت کوشش کی لیکن وہ چلنے کو تیار ہی نہ ہوئی تو میرے دل میں خیال ہوا کہ شاید قدرت چاہتی ہے کہ مجھے اس سے بات کرنی چاہیے ۔ یہ سوچ کر میں اُترا اور اس سے ملا تو کہنے لگا کہ تم ابھی تک گئے نہیں ؟۔ میں نے اس سے کہا کہ تم میری گاڑی میں بیٹھ کر کیا کہہ رہے تھے کہ مدینے والے سائیں ﷺ کو علمِ غیب بھی نہیں ہے اور تم نے ان کی شان میں بدتمیزی بھی کی ہے۔ وہ کہنے لگا کہ بدتمیزی کی بات نہیں کی لیکن مدینے والے سائیں کو علم غیب بھی نہیں ہے اور نہ ہی وہ حاضر ناظر ہیں ۔ ہارون نے دلیل کے طور پر قرآن کی آیتیں پڑھنی شروع کردیں ۔ میں کوئی عالم نہیں ہوں لیکن میرے مرشد کا دیا ہوا اس حلیہ سے لوگوں کو ظاہر ہوتا ہے کہ میں عالم ہوں۔ داڑھی اور امامہ جو تم دیکھ رہے ہو میرے پاس علم کوئی نہیں ہے یہ بس مرشد کی مہربانی ہے اور آقا علیہ صلوٰۃ والسلام کی محبت ہے ۔ میں نے خواب کےعالم میں مرشد سے کچھ آیتیں یاد کی تھیں جو کہ میرے مرشد کی کرامت ہے اور میں قرآن پاک زیادہ پڑھا نہیں ہوں ورنہ تجھے اس آیت کا جواب قرآن کی آیت میں دے دوں میں نے وہ آیتیں اس کو سنائیں ۔

میں نے اس سے کہا کہ تم مدینے والے سائیں ﷺکے علم ِ غیب کے بارے میں انکار کرتے ہو میں تجھے کیا کروں ۔ پھر وہ بہت سی آیتیں پڑھنے لگا علم غیب کے انکار میں ۔ میں نے اس سے کہا کہ قرآن الحمد سے والناس تک سارا کلامِ پاک شان ِ رسول ﷺ سے بھرا ہوا ہے۔ تم اس میں سے شان کے بارے میں پڑھ کر نہیں سُناتے ہو تو میں تمہارا کیا کروں۔ وہ کہنے لگا کہ تم مانتے نہیں ہو اور کہتے ہو کہ اُنکو علمِ غیب بھی ہے اور وہ حاضر ناظر بھی ہیں۔ بات یہ ہے کہ تم لوگ بدعتی ہو حالانکہ مدینے والے سائیں ﷺ کو دیوار کے پیچھے کی بھی کوئی خبر نہیں ۔  معاذ اللہ۔

حالات بدل گئے پتہ نہیں کیا ہوگیا تھا مجھے ۔ میرا سینا ایسا کھُل گیا تھا کہ میں نے اس سے کہا کہ تم کہہ رہے ہو کہ مدینے والے سائیں ﷺ کو علم غیب نہیں اور دیوار کے پیچھے کا علم نہیں ۔ بالکہ جو تُو نے پچھلے آٹھ 8 دن کے دوران جو کھانا کھایا ہے میں تجھے بتاؤں؟۔۔۔۔۔  میرے مُرشد کی مہربانی تھی میرا کچھ بھی نہیں بس ان کی نظر سے میرا سینا کھل گیا ۔ وہ کہنے لگا کہ تم جو کچھ بھی کہو لیکن قرآن پاک میں مدینے والے سائیں ﷺ علم کے بارے میں کچھ لکھا ہی نہیں ہے ایسا۔ میں نے دلیل کے طور پر کہا کہ اوّل تا آخر سارا علمِ قائنات قرآن پاک میں ہے اور سارا قرآن پاک میرے آقا ﷺ کے سینے پر ناز ل ہوا ہےقلب اطہر پر ۔ تو وہ سارا علم ِ غیب جو قرآن میں ہے وہ بھی اللہ پاک نے ہمارے آقا ﷺکو عطاء کیا ہے۔ میں نے کہا علم ِ غیب اللہ پاک نے نبی ﷺکو دیا ہے تو وہ کہنے لگا کہ قرآن پاک میں ایسا لکھا ہی نہیں ہے۔ میں نے کہا میں بھی مسلمان ہوں تم بھی اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہو ۔ ایسا کرتے ہیں کہ آگ لگاتے ہیں دونوں اس میں جاتے ہیں جو سچا ہوگا وہ صحیح سلامت نکلے گا اور جھوٹا ہوگا وہ جل کر نکلے گا۔ وہ کہنے لگا کہ آگ میں مومن نہیں جاتا کافر جاتے ہیں ۔

میں نے کہا کہ تم کہہ رہے ہو کہ تم مومن ہو تو تمہیں آگ کچھ نہیں کہے گی اور میں کہہ رہا ہوں کہ میں مومن ہوں تو آگ مجھے کچھ نہیں کہے گی۔ تم کہتے ہو میں بدعتی ہوں اور میں کہہ رہا ہوں کہ تم بدعتی ہو پتا کیسے چلے کا کہ کون اصل میں بدعتی ہے ۔ جس ٹریکٹر پر وہ ہارون کام کرتا تھا اچانک وہ ٹریکٹر بھی وہاں آگیا جس میں ہاروں کے اپنے چچا ، ماسڑا اور بقیہ کچھ رشتے دار بیٹھے تھے وہ یہ سمجھے کہ یہ لوگ ہمارے بندے سے لڑائی کر رہے ہیں وہ دوڑ کر پہنچے اور پوچھنے لگے کہ کیا بات ہے تو میں نے اُن کو بتایا کہ یہ آپ کا بندہ مدینے والے سائیں ﷺ کے علم غیب اور حاضر و ناظر کا انکار کرتا ہے ۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ کے پاس ماچس ہے تو اُس نے کہا ہاں ہے تو میں نے کہا آگ پرمباحلہ کرتے ہیں۔ وہ کہنے لگا کہ یہ نہ کرو آپ آگ کو چھوڑو ۔ میرے سامنے بھی ہاتھ جوڑے اور ہارون کے سامنے بھی ہاتھ جوڑے کہ خدا کے لیے ایسا نہ کرو۔ پھر وہ ہارون کو لے کر اپنی گاڑی پر سوار ہوئے اور چل دیئے۔

جب وہ جانے لگے تو ہم نے نارا حیدری لگایا وہ لوگ رُک گئے اور ہمارے پاس آ کر کہنے لگے کہ ہاں اب تم بدعتی ہوگئے۔ تم نے علی کے نارے لگائے ہیں تم تو بدعتی مشرک ہوگئے آؤ اب میں تمہیں آگ میں جلاتا ہوں۔ میں نے کہا آگ میں جاتے ہیں اور خدا کی قسم مجھے یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ آگ میں جانے سے پہلے کیا پڑھتے ہیں مجھے تو صرف یہی معلوم تھا کہ صلوٰۃ ولسّلام پڑھ کر آگ میں جاؤں گا۔ ہارون نے اپنا رومال سر سے اُتار کر اپنے گردن میں باندھا اور قرآن کی آیتیں اور نوافل پڑھےلگا میں بیٹھ کر اُسی کو دیکھتا رہا۔ میں کہنے لگا کہ یہ کیا کررہا ہے تو میں بھی اُٹھا اور اس کو دیکھ کر نماز پڑھنے شروع ہوگیا۔ میں نے بھی دو نفل پڑھے۔ پھر سوچا کہ نمازپڑھ کر کیا کروں گا نماز تو قبول ہی اُس وقت ہوتی ہے جب رسول اللہ ﷺ کی محبت ہوگی۔

اس کو کیا دیکھوں۔ میں نے دل میں سوچا کہ میں وہ کام کیوں نہ کروں جو اللہ تعالٰی اور اسکے ملائکہ بھی کر رہے ہیں۔ میں نے صلوٰۃ والسلام پڑھنا شروع کردیا۔ پھر اپنے پروردگار سے دعاء کی یا اللہ میں کچھ بھی نہیں ہوں میں تو ایک ناپاک نطفے کا قطرہ ہوں میں کچھ بھی نہیں۔ میں تو ایک گناہگار ہوں یااللہ مجھ پر کرم کیجئے نہ مجھ میں کوئی علم ہے نہ ہی مجھ میں کوئی اہلیت ہے۔ مدینے والے سائیں ﷺ کو پُکارا یا رسول اللہ ﷺ اُنظر حالنا—-يا حبيب الله اسمع قالنا—- انني في بحر هم مغرق —-خذ يدي سهل لنا اشكالنا ۔۔ پھر میں نے کہا یارسول اللہ ﷺ اگر آپ حاضر و ناظر ہیں تو آئیے مجھے بچائیے۔ آئیے مجھے بچائیے۔

پھر سامنے میں نے دیکھا کہ میرے سامنے گنبد خضرا تھا ۔ یہ تصّور بالکل سامنے آیا میں سامنے دیکھتا رہا۔ روضہ رسول ﷺ کو دیکھ رہا تھا اور جب آسمان پر دیکھا تو اس کا رنگ ایسا تھا جیسے سبز رنگ کا ہو۔ میرا ایمان اور بھی مضبوط ہوا ۔ میں نے خوشی میں کہا کہ حضور ﷺ آگئے ہیں اور پھر میں نے اپنے مرشد کو پکارا مرشد حسین ، رہبر حسین آئیے اور میری مدد کیجئے ، مرشد کامل میں نے آپ کا دامن پکڑا ہے آپ میری مدد کیجئے۔ تو میں نے دیکھا سامنے میرے مرشد بھی آگئے ۔ آگ جلائی گئی اور وہ ہارون نفل اور قرآن پڑھ کر اپنے آپ پر دم کرنے لگا۔ جب وہ اُٹھا تو میں نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا تو اُس نے کہا کہ پہلے تم جاؤ گے تو میں کہا کہ دونوں اکھٹے جاتے ہیں۔ تو کہنے لگا کہ تم پہلے جاؤ۔

اتنے میں میرے کانوں میرے مُرشد کی آواز آئی کہ بیٹا آپ گبھرا ؤ نہیں میں آپ کے ساتھ ہوں۔ میں جب آگ میں گیا تو کچھ دیر آگ میں رہا تو آگ بجھ گئی، میں نے کہا کہ یہ آگ تو بجھ گئی ہے اس کے چاروں طرف آگ لگائی جائے۔ پھر لوگوں نے چاروں طرف سے آگ لگائی اور پھر میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر آگ میں گیا ۔ جب ہم دونوں آگ میں پہنچےتو آگ نہ مجھے جلاتی رہی تھی اور نہ ہی اسکو جلارہی تھی۔ وہ کبھی ادھر جاتا کبھی اُدھر جاتا اور باھر جانے کی کوشش بھی کرتا تھا۔ میں بہت حیران تھا کہ آگ نہ اسکو جلاتی ہے اور نہ مجھے جلاتی ہے ۔ اچانک تصوّر میں مجھے مرشدکریم کی آواز آئی کہ بیٹا اس نمرود کا ہاتھ چھوڑئیے آپ سے اُس کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔ جیسے ہی میں نے اس کا ہاتھ چھوڑ ا تو آگ نے اس پر حملہ کردیا اور صرف 2 یا 3 سیکنڈ میں اُس وہابی کا بُرا حال ہوگیا اور وہ بھاگ کر باہر نکلا ۔ تو میں بھی اُسکے پیچھے باہر نکلا۔ جس سائیڈ پر میرا ہاتھ تھا اسکی وہ طرف والی سائیڈ نہیں جلی اور دوسری والی سائیڈ سے داڑھی ، چہرا اور ہاتھ اور ٹانگ جل گئی ۔ مجھے دیکھ کر اُس کےرشتے دار کہنے لگے کہ یہ تو جلا ہی نہیں ۔۔۔ یہ سن کر مجھےزوردار جزب کی کیفیت طاری ہوئی تو میں چھلانگ لگا کر پھر آگ میں گھس گیا اور بہت دیر تک اُسی میں رہا ۔ سبحان اللہ
جب محمد پنا آگ سے نکلا تو وہاں موجود لوگ حیران رہ گئے کہ اس کے ہاتھ پاؤں داڑھی اور کپڑے نا صرف سلامت تھے بالکہ نور کی طرح چمکنے لگے تھے اور وہاں موجود لوگوں نے یہ دیکھ کر اُس کو کندھوں پر اُٹھا لیا اور نارے لگا تے ہوئے چل پڑے اور دوسری طرف وہ وہابی ابو لہب کی اولاد جو کہ بُری طرح جل چکا تھا اس کو اُسکے رشتے دار ہسپتال لے کر بھاگے۔
سبحان اللہ حق کی فتح ساری دنیا کے سامنے آشکار ہوگئی ۔ جب 1998 میں یہ واقع اخبارات میں چھپا تو میں نے اس وقت تک حضرت قبلہ سید غلام حسین شاہ بخاری نقشبندی دامت برکاتہم العالی کے دست پاک پر بیعت نہیں کی تھی لیکن اُس خبر کو ہم نے اپنی مسجد کے بوڑد پر بھی چسپا کیا اور اس کا خوب چرچا کیا کیوں کہ ہمیں حقانیت کی ایک زندہ جاوید دلیل مل گئی تھی ۔ پاکستان کی تمام اہلسنت مساجد میں اس واقعے کا چرچا ہونے لگا اور بہت سے علماء نے اس بات کی تصدیق کرنے کی خاطر وہاں کا سفر بھی کیا اور پھر اس تصدیق کے ساتھ سارے علماء اپنے مسلک کے حق ہونے پر ایک اور دلیل بیان کرنے لگے۔ الحمد للہ اس واقعہ کو آج تک وہابی بھی تسلیم کرتے ہیں کیوں کہ اگر ایسا نہ ہوا ہوتا تو وہ اس خبر کے خلاف ہمیں جھوٹا ثابت کرنے کی آڑ میں خوب جلسے جلوس نکالتے اور اور ہارون کو سامنے لا کر کہتے کہ دیکھو یہ اہلسنت والے جھوٹ بیان کرتے ہیں۔ اس حق کو ناصرف وہ مانتے ہیں اور بالکہ اس کے خلاف بات بھی نہیں کرتے کیوں کہ انکو معلوم ہے کہ اس بات کے گواہ بے شمار موجود ہیں کس کس کو وہ منہ دیں گے۔

امام احمد رضا کیا خوب فرماتے ہیں۔

آج لے اُنکی پناہ ، آج مدد مانگ اُن سے

  کل نہ مانیں گے ، قیامت میں اگر مان گیا

news of panah

 

 

 

 

 

 

 

 

2 Responses to “حضرت سائیں کے مُرید کا وہابی کو آگ پر مباحلہ کا چیلنج (محمد پناہ ٹوٹانی)”

  • Faheem Taskhir Osto:

    یا الله مجھے سچا پکا اور نیک بندا بنا اور میری والدہ کی طبیعت ٹھیک فرما اپنے نبی محمّد کے واسطے مجھ کو اور میری فیملی کو اپنے حفظ و امن میں رکھ اور مجھ بیروزگار کو ہلال روزگار اتا کر اور ہمارے پریشانیو کو دور کر ور ہمیں اپنے سیدھے راستے پر چلنے کی توفقے اتا کر امین سم امین

  • Abid Shah:

    سبحان الله

Leave a Reply

Enable Google Transliteration.(To type in English, press Ctrl+g)