Author Archive
سوانح حیات حضرت پیر مٹھا سائیں رحمۃ اللہ علیہ
الحمدللہ رب العالمین، والصلاۃ والسلام علٰی اشرف الانبیاءِ والمرسلین
وعلٰی آلہِ وصحبہِ اجمعین وبعد
پیرطریقت ، آفتابِ ولایت، قطبِ عالم غوث زمان سیدی و مرشدی حضرت خواجہ محمد عبدالغفار عرف پیر مٹھا رحمۃ اللہ علیہ کی نورانی شخصیت محتاجِ تعارف نہیں۔ آپ عالم، عابد و زاہد ، متقی تھے۔آپ نہ صرف عاشقِ خدا اور صوفی با صفا تھے بلکہ جید عالمِ دین، مفسر ، محدث اور فقیہ بھی تھے۔
آپ علمبردارِ عشقِ رسول ﷺ تھے۔ قافلہ عُشاق کے سالارتھے۔ سلسلہ عالیہ نقشبندیہ کے تاجدار تھے۔ ظاہری و باطنی علوم کے مجمع البحار تھے۔ اپنی نورانی نگاہوں سے لاکھوں دلوں کو زکرِ الٰہی سے سرشار کیا۔ لاکھوں انسانوں کی زندگیوں کو بدل کر رکھ دیا۔ سندھ کی فضاء اللہ اللہ کی ضربوں سے گونج اٹھی۔
خانوادہ پیر مٹھا سائیں رحمۃ اللہ علیہ
قطب ِ عالم حضرت پیر مٹھا سائیں رحمتہ اللہ علیہ کا تعلق برصغیر کے معزز و محترم گھرانے چنڑ قبیلہ سے تھا۔آپ کا نسب سولہ واسطوں سے قطب الاولیاء حضرت مخدوم عماد الدین عرف چنن پیر یا چنڑ پیر رحمۃ اللہ علیہ کے بھائی محمد اُویس رحمۃ اللہ علیہ سے ملتا ہے ، جن کی مزار صوبہ پنجاب کے شہر بھاولپور کے جنوب مشرق میں چالیس کلومیٹر کے فاصلہ پر ریگستانی علاقہ میں ریت کے ایک ٹیلے پر واقع ہے ۔ آپ پنجاب کے بھٹائی تھے کیوں کہ آپ کا مزار ایک بھٹ پر واقع ہے ۔ آپ بڑے پایہ کے ولی تھے۔
حضرت مخدوم چنڑ پیر کے خانوادہ میں سے کچھ افراد بستی لنگر میں آکر قیام پزیر ہوئے جو ضلع ملتان کے تحصیل جلالپور پیر والا کے قریب واقع ہے۔ ماضی میں یہ علاقہ دو دریاؤں چناب اور سُتلج کے درمیان ہونے کی وجہ سے دھلی اور ایران کی آبی گزر گاہ تھی ۔ یہ علاقہ اپنی تہزیب تمدن کے اعتبار سے بڑی قدیم اور سلجھی ہوئی تہذیببوں میں شمار ہوتا ہے۔ اس علاقہ کو سرائیکی وسیب بھی کہتے ہیں۔ یہاں کے لوگ طبعاً سخی فیاض مہمان نواز ہیں ان کی زبان سرائیکی ہے ۔ یہاں کی زمینیں بڑی سرسبز و شاداب ہیں۔
ابوالعلماء حضرت مولانا یار محمد رحمۃ اللہ علیہ۔
علم و معرفت فقر و درویشی حضرت چنن پیر رحمۃاللہ علیہ کے اس خاندان کا علمی ورثہ تھا۔ آپ کی پندرھویں پشت میں ایک خوشنصیب فرد پیدا ہوا جسکا نام یار محمد تھا۔ رب قدیر نے انکو علمی و روحانی دولت سے مزین فرمایا تھا۔ آپ کتب کثیرہ کے مصنف اور موئلف بھی تھے۔ معراج نامہ ، رسالہ نصیحت ، چھل حدیث ، قصص الانبیاء وغیرہ انکی قلمی کاوش تھی۔
حضرت مولانا یارمحمد رحمۃ اللہ علیہ کی شادی اپنے ہی خاندان کی ایک عابدہ زاہدہ بی بی من بھانونی سے ہوئی جن کے بطن مبارک سے انہیں چار فرزند پیدا ہوئے۔ جو کہ چاروں عالم و فاضل تھے۔
۔۱ مولانا اشرف
۔۲ مولانا عبدلرحمن
۔۳ مولانا حضرت پیر عبدالغفار عرف پیر مٹھا سائیں
۔۴ مولانا عبدالستار
ولادت باسعادت
حضرت قبلہ عبدالغفار رحمۃ اللہ علیہ آج سے کوئی ایک سو بیس سال قبل لنگر شریف میں ولادت ہوئی ۔ آپ کے پہلے استاد آپ کے والد گرامی حضرت مولانا یار محمد رحمۃ اللہ علیہ تھے جو بڑے پایہ کے عالم تھے۔ بڑے خوشخو و خوش مزاج تھے۔ کچھ عرصے بڑے بھائی مولانا اشرف کے زیرِ تعلیم رہے ۔
دورۂ حدیث آپ نے شیخ الاسلام مفتی ٔ ہند علامہ عاقل محمد رحمۃاللہ علیہ (ولادت :1813 وفات :1923) کے پاس مکمل کیا، جن کا سلسلہ نسب اکیسویں پشت میں حضرت غوث بہاوالحق ملتانی رحمۃ اللہ علیہ سے ملتا ہے، جو عرب کے مشہور عالم حضرت شیخ احمد زینی و دھلان کے شاگرد تھے۔ علامہ دھلان حضرت مولانا احمد رضافاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ اور خواجہ محمد حسن جان سرہندی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ کے بھی استاز تھے۔ اس نسبت سے اعلٰی حضرت اور حضرت پیر مٹھا سائیں ایک ہی استاز کے فیضِ علم سے بہرور ہوئے ۔ آپ دھلان کے شاگرد کے شاگرد تھے۔
علم طریقت کا حصول
حضرت پیر مٹھا سائیں رحمۃ اللہ علیہ ظاہری علوم سے فراغت کے بعد حضرت حافظ فتح محمد قادری رحمۃاللہ علیہ (ولادت:1835 وفات :1917) کے صحبتوں میں جایا کرتے تھے جو آپ کے خاندان کے پیر و مرشد تھے۔ حضرت حافظ صاحب مستجاب دعوات ، عالم با عمل متّقی متوکل بزرگ تھے۔
حضرت پیر مٹھا سائیں رحمۃ اللہ علیہ ابھی علم سلوک میں تشنۂ تکمیل تھے کہ حافظ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا انتقال ہوگیا۔ پھر آپ روحانیت کے متلاشی ہی تھے کہ مولانا الٰہی بخش بیٹ کیچ والے کی زبانی حضرت پیر فضل علی قریشی رحمۃاللہ علیہ (ولادت:1270ھ وفات :1354ھ) کی تعریف سُنی اور انکے روحانی تصرفات کے چرچے سنے، جو اُن دنوں سیکڑوں گاؤں میں قیام پزیر تھے۔ روحانی کشش آپ کو کشاں کشاں حضرت قریشی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں لائی۔ جوں ہی آکر ذکر قلبی حاصل کیا تو دل میں ذکر الٰہی جاری ہوگیا۔ رگ و پے میں اللہ اللہ کی آوازیں آنے لگیں محض قلبی ذکر کرنے سے سلطان الاذکار بھی جاری ہوگیا۔ آپ کے جسم پر لرزہ طاری ہوگیا۔ آنکھوں کی نیند اڑگئی اورایک عشق و مستی کی کیفیت ہر وقت طاری ہونے لگیں۔ اس طرح تین سال تک یہی کیفیات ِ عشق و محبت جاری رہیں۔
آپ کو اپنے پیر و مرشد سے والہانہ محبت تھی۔ اکثر اوقات آپ کی صحبتوں میں رہتے تھے۔ دیس و پردیس آپ کے رفیق و یار غار رہتے اور اکتساب فیوضاتِ روحانی کرتے رہتے تاآنکہ حضرت قریشی کریم نے آپ کو خلعت خلافت سے سرفراز فرمایا۔ حضرت قریشی کے خلفاء تو بہت تھے مگر جو مقام حضرت پیر مٹھا سائیں رحمۃ اللہ علیہ کو ملا وہ کسی کو نہیں مل سکا۔آپ نے اپنی مورثی زمین زرعی ایراضی اپنے مرشد کو ھبہ کردی۔ اپنی بیٹی اپنے پیر کے حبالہ ء نکاح میں دے دی ۔ ہر وقت خدمت گزار رہتے۔ قریشی کریم کے لنگر خانہ اور مہمانوں کی خدمت مین ھمہ تن گوش مصروف رہتے۔
آپ نے ایک جگہ سکونت اختیار نہیں کی۔ جہاں جہالت کا اندھیرا دیکھا وہاں مسکن بنالیا ۔ پورا علاقہ آپ کے روحانی فیوضات سے مستفیذ ہوا۔ تبلیغی مقاصد مکمل ہوئے تو پھر کسی اور مقام کا انتخاب فرمایا۔ اس طرح آپ نے سندھ ، پنجاب اور بلوچستان میں سترا (17) جگہوں پر قیام فرمایا۔
گو خلافت و اجازت کے بعد تبلیغ کے سلسلہ میں آپ بکثرت سندھ میں تشریف لاتے تھے ، لیکن عاشق آباد نامی مستقل مرکز پنجاب ہی میں بنایا تھا، جہاں حضرت قریشی بھی تشریف فرماہوئے تھے۔ اس دوران سندھ کے بہت سارے فقراء سندھ اور پنجاب کے تبلیغی سفر میں ساتھ ہوتے اور مرکز عاشق آباد کی تعمیر میں عملی طور پر شامل رہے۔
لیکن ان کے دل کی خواہش یہی تھی کہ کسی صورت حضرت پیر مٹھا سندھ میں مستقل قیام فرمائیں چناچہ جب فقراء کی دعوت پر چند مرتبہ دریائے سندھ کے مغربی کنارے مقیم مسکین فقراء کے یہاں تشریف فرماہوئے ، جو مختلف بستیوں سے نقل مکانی کرکے محض زکرو فکر اور شریعت پر عمل کرنے کی خاطر چھوٹی سی بستی بناکررہ رہے تھے۔ فقراء کی محبت ، شریعت مطہرہ پر عمل و استقامت دیکھ کر آپ بہت خوش ہوئے اور انکی گزارش پر خود بھی پنچاب سے نقل مکانی کرکے وہاں آکر آباد ہوئے اور اس بستی کا نام دین پور تجویز کیا گیا۔
رحمت پور شریف کا قیام
اُنڑ پور قیام کے بعد جیسے ہی آپ دین پور جانے کے لئے رادھن اسٹیشن پر پہنچے ، دریائی سیلاب کی وجہ سے دین پور جانے کا راستہ بند ہوچکا تھا۔ کچھ دن رادھن اسٹیشن پر قیام فرمانے کے بعد لاڑکانہ کے فقراء کی دعوت پر لاڑکانہ تشریف لے گئے۔ جتنے دن لاڑکانہ میں قیام فرمایا،دُور و نزدیک کے فقراء مسلسل آتے رہے، تبلیغ دین کا کام بھی خوب ہوا۔ مقامی فقراء نے موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے مستقل طور پر لاڑکانہ میں رہنے کی خواہش کی کہ یہ بڑا شہر ہے ۔ آمدورفت کی تمام سہولتیں موجود ہیں، اس لیئے دین پور سے بڑھ کر یہاں دین کا کام ہوسکتا ہے ۔ ان کی یہ تجویز چونکہ للّٰہیت پر مبنی تھی اور آپ کی زندگی ویسے بھی دین کی اشاعت و خدمت کے لیئے وقف تھی، آپ نے حامی بھر لی اور اس طرح درگاہ رحمت پور کا قیام عمل میں آیا۔
درگاہ رحمت پور شریف کے قیام کے دوران آپ نے شریعت و طریقت کی ترویج و اشاعت کے لیئے کارہائے نمایاں انجام دیئے۔ اندرونِ ملک کے علاوہ بنگال اور ایران تک آپ کا پیغام پہنچا۔ لاکھوں کی تعداد میں دین سے دور ، نفس و شیطان کے پھندوں میں جکڑے ہوئے افراد کی اصلاح ہوئی۔ نہ معلوم کتنے چور، ڈاکو ، شرابی تائب ہوکر متقی و پرہیزگار بنے۔ نیز آپ کے خلفاء کرام جن کی تعداد 140 بتائی جاتی ہے ۔ سندھ ، پنجاب، سرحد و بلوچستان میں تبلیغی خدمات انجام دیتے رہے اور ہر جگہ غیر معمولی مقبولیت حاصل ہوتی رہی۔ آپ کو امّت محمدیہ ﷺ کی اصلاح کا اس قدر فکر دامن گیر رہتا تھا کہ مسلسل کئی کئی گھنٹے خطاف کرنا آپ کے معمولات میں شامل تھا۔
اکثر و بیشتر روزانہ نمازِ فجر کے بعد ذکر اللہ کا حلقہ مراقبہ کرانے کے بعد جیسے ہی وعظ شروع فرماتے ، گیارہ بجے تک مسلسل خطاب جاری رہتا تھا۔ اس دوران یکے بعد دیگر ے سامعین ضروریات کے لیئے اٹھتے تھے لیکن آپ پر تبلیغی محویت کا یہ عالم ہوتا تھا کہ بعض اوقات ظہر کی نماز تک یہ سلسلہ جاری رہتا اور آپ نماز ظہر اد ا فرما کر حویلی مبارک میں تشریف لیے جاتے تھے۔ بعض اوقات فرماتے تھے کہ مجھے مجلس ذکر سے اٹھنے کے لئے صرف دو چیزیں مجبور کرتی ہیں (1) نماز (2) سامعین کی تھکاوٹ کا احساس ، سبحان اللہ۔ ظہر سے عصر تک گھر تشریف فرمارہنے کے بعد نماز عصر کے لیئے مسجد تشریف لاتے اور عصر کے بعد سے مغرب تک وعظ فرماتےتھے۔
عمر رسیدہ ہونے کے باوجود آپ کے ان معمولات میں نہ فقط یہ کہ فرق نہیں آیا بلکہ مزید اضافہ ہوتا رہا۔ یہاں تک کہ بعض اوقات نمازِ عشاء کے وقت تک کھڑے کھڑے کئی گھنٹہ خطاب فرمایا۔ مرض الموت میں جامع مسجد رحمت پور شریف میں بروزِ جمعہ مسلسل چھ گھنٹے خطاب فرمایا۔ حالانکہ نقاہت اور کمزوری کا یہ عالم تھا کہ چلنے پھرنے کی سکت مطلقاً نہ تھی ۔ نماز کے لیئے پہیوں والی کرسی (وہیل چیئر) پر لائے گئے تھے۔ پھر بھی نمازِ باجماعت اور تبلیغ دین میں فرق آنے نہیں دیا۔
اوصاف حمیدہ
توکّل، تقویٰ، صبر و شکر ، خدمتِ خلق و دیگر اوصافِ حمیدہ آپ کے پاکیزہ خمیر میں شامل تھی۔ چناچہ عام بازار کی بنی ہوئ چیزوں مثلاً مٹھائی، گُڑ ، ہوٹل کے کھانے اور مارکیٹ کے گوشت سے مکمل پرہیز کرتے تھے۔ گو یہ چیزیں حلال ہیں لیکن عام طور پر ان میں ضروری پاکیزگی اور صفائی کا خیال نہیں رکھا جاتا، اس لیئے یہ مشتبہ کے زمرہ میں آتی ہیں، جن سے بچنے کے لیئے خود رسول اللہ ﷺ نے تاکید فرمائی ہے۔ آپ کے اس تقویٰ کا جماعت پر بھی نمایاں اثر پایا جاتا تھا۔ خلفاء کرام سفر میں جاتے وقت ستو، میٹھی روٹی (جوکہ کئی دن تک استعمال کی جاسکتی ہے ) اور نمک مرچ اپنے پاس رکھتے جسے بطور سالن استعمال کرتے تھے لیکن کھانے کا سوال کسی سے نہیں کرتے تھے۔
توکّل: حضرت پیر مٹھا کمال درجہ کے متوکّل تھے ۔ فقراء کی آمد مسلسل رہتی تھی۔ سو ، دو سو مسافر روزانہ ہوتے تھے، گیارہویں شریف کے جلسے میں ہزاروں کی تعداد میں اہل ذکر ہوتے تھے۔ کوئی دو دن رہتاکوئی ایک ہفتہ ، لیکن تمام مہمانوں کے لیے ایک ہی قسم کا لنگر ہوتا۔ کسی سے سوال کرنا تو کچا ، خود جلسوں کے موقع پر عموماً یہ اعلان فرماتے تھے کہ آپ بکثرت تشریف لائیں ، مل کر اللہ اللہ کریں ، آپ بے فکر رہیں ، قیامت تک آپ سے سوال نہیں کیا جائے گا۔ زکوٰۃ ، صدقات، خیرات بھی اپنے پڑوس والوں اور رشتہ داروں کو دیں، دربار شریف پر جس قدر زیادہ جماعت آتی، آپ اسی قدر زیادہ خوش ہوتے تھے۔ کوئی کتنا ہی بڑا آدمی کیوں نہ ہوتا ، آپ کے نزدیک اس کی حیثیت ایک سیدھے سادھے مسکین سے زیادہ نہیں ہوتی تھی بلکہ غریبوں مسکینوں سے آپ کو اور زیادہ محبت ہوتی تھی۔ مستغنی اس قدر کہ لاڑکانہ کے بڑے بڑے رئیس دعاء کے لئے حاضر ہوتے تو آپ صاف صاف الفاظ میں نماز ، داڑھی ، خوفِ خدا ، غریبوں سے ہمدردی کی تلقین فرماکر دعا کرتے لیکن کبھی ان سے ایک پیسے کا بھی دنیا وی فائدہ حاصل نہیں کیا۔ آپ اپنے متعلقین و احباب کو توکّل و استغنا کا امر کرتے اور کسی سے سوال ، چندہ کرنے سے سختی سے منع فرماتے تھے۔ چناچہ آپ کے ملفوظات (جو کہ مولانا مفتی عبدالرحمن صاحب نے جمع کئے) میں ہے کہ ایک مرتبہ دوران خطاب ارشاد فرمایا: مجھے مکانات بنانے اور عمدہ مکانات میں رہنے کی رغبت نہیں اور سوال کرنے سے سخت بیزار اور اس کا مخالف ہوں۔ گھر میں اہلخانہ کو قرآن مجید پر ہاتھ رکھوا کر عہد لیا کہ کسی سے سوال نہیں کریں گے۔ اگر کسی قسم کا کام ہوتو مجھے بتادیں۔ اگر مناسب ہوگا تو میں خود انتظام کردوں گا ورنہ نہیں۔ باقی خلفاء یا کسی فقیر کو درگاہ شریف کے کام کے سلسلے میں (بھی) نہیں کہیں۔
اتباعِ سنت: بلاشبہ آپ سر تا پا سنتِ رسول ﷺ کے عملی نمونہ تھے۔ اور یہی آپ کی سب سے بڑی کرامت تھی۔
درگاہ رحمت پور شریف میں تو آپ نے عملی طور پر نظامِ مصطفٰی ﷺ نافذ کرکھا تھا۔ لیکن بیرون درگاہ رہنے والے اہل ذکر فقراء بھی داڑھی ، نماز باجماعت ، مسواک ، عمامہ کے پابند تھے اور خلافِ شرع رسم و رواج سے پرہیز کرتے اور اہل ذکر خواتین ، شرعی پردہ کا اس قدر اہتمام کرتیں کہ بہت سے علماء بھی یہ دیکھ کر دنگ رہ جاتے ۔ نیز یہ حقیقت اور بھی زیادہ اہم اور قابل قدر ہے کہ آپ کی جماعت میں آکر ، خواتین و حضرات یکساں مستفیذ ہوئے، جب کہ مردوں کی اصلاح کے لیئے تو الحمدللہ پہلے بھی بہت سے علماء اور پیروں نے اصلاحی کوششیں کی تھیں،لیکن خواتین کی اصلاح اور ان میں نیکی، تقویٰ کا شوق ، شریعت مطہرہ کے عین مطابق شرعی پردہ کا اہتمام جو آپ کی جماعت میں پایا جاتا تھا اور آج تک پایا جاتا ہے ، کم از کم آج تک کہیں اور نظر نہیں آیا۔ شریعت مطہر ہ کی پابندی اور آپ کے خلوص و للّٰہیت کا عمدہ ثمر تھا کہ بڑے بڑے با اثر افراد کی مخالفت اور تمام تر توانائیاں صرف کرنے کے باوجود آپ کی خداداد مقبولیت میں زرّہ بھر کمی نہ ہوئی بلکہ اسمیں برابر اضافہ ہوتا رہا اور آج تک بالواسطہ آپ کے فیوض و برکات اندرون و بیرون ملک پھیلتے ہی جا رہے ہیں۔ فَال حَمدُ لِللہِ عَلیٰ ذالِک
انتقال پر ملال
عمر مبارک کے آخری ایام میں آپ اکثر و بیشتر یہ قطعہ پڑھا کرتے تھے
سرتے پھلاں کھاری، کوئی ونجن والا ہووے سجنا میں ونجاں واری
آخری ایام میں جوں جسمانی عوارضات نے گھیرا تو آپ کا جوش تبلیغ بڑھتا گیا۔ مسلسل چار پانچ گھنٹے تبلیغ کرتے رہتے۔ بالآخر شعبان المعظم 1384ھ رات کو ساڑھے گیارہ بجے لاکھوں عشاق کو داغ مفارقت دیکر اللہ سے جاملے۔ اِنَّا لِللہِ وَاِنَّا اِلَیہِ رَاجِعُون۔
آپ کی دختر مخدومہ کے بقول جو آخری الفاظ آپ کی زبان ِ مبارک سے ادا ہوئے وہ یہ تھے۔
رَبَّنَا ہَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَ ذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعْیُنٍ وَّ اجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیۡنَ اِمَامًا
قطعہ تاریخ
مولانا نورالدین “انور” فضل آبادی نے حروف ابجد میں یہ قطعہ لکھا ہے:
“فیاض، عارف ، طبیب ، احسن ” عجیب عامل قرآن تھا-1384ھ
“غفار ، عاشق ، امین ، سالک” خطیب کامل بیان تھا -1964ء
آپ کی نماز جنازہ آپ کے فرزند دلبند خواجہ محمد خلیل الرحمن رحمۃ اللہ علیہ نے پڑھائی اور آپ کا جسد عنبرین آپ کی مسجد غفاری کے جنوب میں دفنایا گیا۔ جہاں آپ کی مزار پرانوار دربار رحمت پور لاڑکانہ میں آج بھی زیارت گاہ عام و خواص ہے۔
اولاد
ایک بیٹا : خواجہ محمد خلیل الرحمن رحمۃ اللہ علیہ
تین بیٹیاں
۔۱ بی بی آسیہ (زوجہ خواجہ فضل علی قریشی رحمۃاللہ علیہ)۔
۔۲ بی بی غلامِ بتول (زوجہ مولانا محمد سعید)۔
۔۳ بی بی آمتہ الکریم (والدہ محترمہ جناب دیدہ دل )۔
مزکورہ معلومات کتاب دیوانِ غفاریہ سے لی گئی ہے جسے حضرت دیدۂ دل نواسلہ پیر مٹھا رحمۃ اللہ نے مرتب کیا ہے۔
(حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام بھیجنے کی فضیلت)
احادیث مبارکہ معہ حوالا جات
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے تو اﷲتعالیٰ اس پر دس مرتبہ درود (رحمت) بھیجتا ہے۔ اور امام ترمذی نے ان الفاظ کا اضافہ کیا : اور اﷲتعالیٰ اس کے لئے دس نیکیاں بھی اس (درود پڑھنے) کے بدلے میں لکھ دیتا ہے۔
الحديث رقم 31 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : الصلاة، باب : الصلاة علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم بهذا التشهد، 1 / 306، الرقم : 408، والترمذي في السنن، أبواب : الوتر عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : ماجاء في فضل الصلاة علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم، 2 / 353، 354، الرقم : 484 – 485، والنسائي في السنن، کتاب : السهو، باب : الفضل في الصلاة علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم، 3 / 50، الرقم : 1296، وفي السنن الکبري، 1 / 384، الرقم : 1219، والدارمي في السنن، 2 / 408، الرقم : 2772، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 375، الرقم : 8869 – 10292، وابن حبان في الصحيح، 3 / 187، الرقم : 906، وابن أبي شيبة في المصنف، 2 / 253، الرقم : 8702، والطبراني في المعجم الصغير، 2 / 126، الرقم : 899، وأبويعلي بإسناده في المسند، 11 / 380، الرقم : 6495، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 / 211، الرقم : 1559، وأبو عوانة في المسند، 1 / 546، الرقم : 2040.
———————————————————————————————————————————————–
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے، اس کے دس گناہ معاف کیے جاتے ہیں اور اس کے لئے دس درجات بلند کیے جاتے ہیں۔
الحديث رقم 32 : أخرجه النسائي في السنن، کتاب : السهو، باب : الفضل في الصلاة علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم، 4 / 50، الرقم : 1297، وفي السنن الکبري، 1 / 385، الرقم : 1220 / 10194، وفي عمل اليوم والليلة، 1 / 296، الرقم : 362، والبخاري في الأدب المفرد، 1 / 224، الرقم : 643، وابن أبي شيبة في المصنف، 2 / 253، والرقم : 8703، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 102، الرقم : 12017، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 / 210، الرقم : 1554، والحاکم في المستدرک، 1 / 735، الرقم : 2018.
———————————————————————————————————————————————–
حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : قیامت کے روز لوگوں میں سے میرے سب سے زیادہ قریب وہ شخص ہو گا جو (اس دنیا میں) ان میں سے سب سے زیادہ مجھ پر درود بھیجتا ہے۔
الحديث رقم 33 : أخرجه الترمذي في السنن أبواب : الوتر عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : ماجاء في فضل الصلاة علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم، 2 / 354، الرقم : 484، وابن حبان في الصحيح، 3 / 192، الرقم : 911، والبيهقي في السنن الکبري، 3 / 249، الرقم : 5791، وفي شعب الإيمان، 2 / 212، الرقم : 1563، وأبويعلي في المسند، 8 / 427، الرقم : 5011، والديلمي في مسند الفردوس، 1 / 81، الرقم : 250، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 327، الرقم : 2575.
———————————————————————————————————————————————–
حضرت عبداﷲ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بلا شبہ اﷲ تعالیٰ کی زمین میں بعض گشت کرنے والے فرشتے ہیں جو مجھے میری امت کا سلام پہنچاتے ہیں۔
الحديث رقم 34 : أخرجه النسائي في السنن کتاب : السهو، باب : السلام علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم، 3 / 43، الرقم : 1282، وفي السنن الکبري، 1 / 380، الرقم : 1205، 6 / 22، الرقم : 9894، وفي عمل الليوم والليلة، 1 / 67، الرقم : 66، والدارمي في السنن، 2 / 409، الرقم : 2774، وابن حبان في الصحيح، 3 / 195، الرقم : 914، والحاکم في المستدرک، 2 / 456، الرقم : 3576، والبزار في المسند، 5 / 307، الرقم : 4210، 4320، وأبويعلي في المسند، 9 / 137، الرقم : 5213، والطبراني في المعجم الکبير، 10 / 219، الرقم : 10528. 10530، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 / 217، الرقم : 1582، وابن شيبة في المصنف، 2 / 253، الرقم : 8705، 31721، وعبد الرزاق في المصنف، 2 / 215، الرقم : 3116، والشاشي في المسند، 2 / 252، ، الرقم : 825. 826، وابن حيان في العظمة، 3 / 990، الرقم : 513، وابن المبارک في الزهد، 1 / 364، الرقم : 1028، والديلمي عن أبي هريرة رضي الله عنه في مسند الفردوس، 1 / 183، الرقم : 686، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 326، الرقم : 2570.
———————————————————————————————————————————————–
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (میری امت میں سے کوئی شخص) ایسا نہیں جو مجھ پر سلام بھیجے مگر اﷲتعالیٰ نے مجھ پر میری روح واپس لوٹا دی ہوئی ہے یہاں تک کہ میں ہر سلام کرنے والے کے سلام کا جواب دیتا ہوں۔
الحديث رقم 35 : أخرجه أبوداود في السنن، کتاب : المناسک، باب : زيارة القبور، 2 / 218، الرقم : 2041، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 527، الرقم : 10867، والطبراني في المعجم الأوسط، 3 / 262، الرقم : 3092، 9329، والبيهقي في السنن الکبري، 5 / 245، الرقم : 10050، وفي شعب الإيمان، 2 / 217، الرقم : 5181. 4161، وابن راهويه في المسند، 1 / 453، الرقم : 526، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 326، الرقم : 2573، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 162.
———————————————————————————————————————————————–
حضرت حسن بن علی رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم جہاں کہیں بھی ہو مجھ پر درود بھیجا کرو، بیشک تمہارا درود مجھے پہنچ جاتا ہے۔
الحديث رقم 36 : أخرجه أحمد بن حنبل عن أبي هريرة رضي الله عنه في المسند، 2 / 367، الرقم : 8790، والطبراني في المعجم الکبير، 3 / 82، الرقم : 2729، وفي المعجم الأوسط، 1 / 17، الرقم : 365، والديلمي في مسند الفردوس، 5 / 15، الرقم : 7307 والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 326، الرقم : 2571.
———————————————————————————————————————————————–
حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک مرتبہ تشریف لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ اقدس پر خوشی ظاہر ہو رہی تھی.آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ابھی ابھی جبرائیل علیہ السلام میرے پاس آئے اور انہوں نے کہا : آپ کا رب فرماتا ہے : اے محمد! کیا آپ اس بات پر راضی نہیں کہ آپ کی امت میں سے جو شخص ایک مرتبہ آپ پر درود بھیجے، میں اس پر دس رحمتیں بھیجوں؟ اور آپ کی امت میں سے کوئی آپ پر ایک مرتبہ سلام بھیجے تو میں اس پر دس مرتبہ سلام بھیجوں۔
الحديث رقم 37 : أخرجه النسائي في السنن کتاب : السهو، باب : الفضل في الصلاة علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم 3 / 50، الرقم 1295، والدارمي في السنن 2 / 408، الرقم : 2773، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 30، وابن المبارک في کتاب الزهد، 1 / 364، الرقم : 1067، والطبراني في المعجم الکبير، 5 / 100، الرقم : 4720، وابن أبي شيبة في المصنف، 2 / 252، الرقم : 8695.
———————————————————————————————————————————————–
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ یقیناً دعا اس وقت تک زمین اور آسمان کے درمیان ٹھہری رہتی ہے اور اس میں سے کوئی بھی چیز اوپر نہیں جاتی جب تک تم اپنے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود نہ پڑھ لو۔
الحديث رقم 38 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : الصلاة عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : ماجاء في فضل الصلاة علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم، 2 / 356 الرقم 486، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 330، الرقم : 2590.
———————————————————————————————————————————————–
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہر دعا اس وقت تک پردہ حجاب میں رہتی ہے جب تک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پراور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہلِ بیت پر درود نہ بھیجا جائے۔
الحديث رقم 39 : أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 1 / 220، الرقم : 721، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 / 216، الرقم : 1575، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 330، الرقم : 2589 وقال رواته ثقات، والديلمي في مسند الفردوس، 3 / 255، الرقم : 4754، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 160.
———————————————————————————————————————————————–
حضرت عبد اﷲ بن عمرو رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں کہ جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے، اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے اس پر ستر مرتبہ (بصورتِ رحمت) درود بھیجتے ہیں۔
الحديث رقم40 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 2 / 172، 187، الرقم : 6605. 6754، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 325، الرقم : 2566 وقال : إِسْنَادُهُ حَسَنٌ، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 160، وقال : رواه أحمد وَإِسْنَادُهُ حَسَنٌ.
———————————————————————————————————————————————–
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو لوگ کسی مجلس میں اکٹھے ہوئے اور پھر (اس مجلس میں) اللہ تعالیٰ کا ذکر اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود پڑھے بغیر وہ منتشر ہو گے تو وہ مجلس ان کے لئے قیامت کے روز باعث حسرت (و باعثِ خسارہ) بننے کے سوا اور کچھ نہیں ہو گی۔
الحديث رقم 41 : أخرجه ابن حبان في الصحيح، 2 / 351، الرقم : 590، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 446، الرقم : 9763، وابن المبارک في الزهد، 1 / 342، الرقم : 962، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 79 وقال الهيثمي : رواه أحمد ورجاله رجال الصحيح
———————————————————————————————————————————————–
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کوئی قوم کسی بیٹھنے کی جگہ (یعنی مجلس میں) بیٹھے اور اس میں اللہ تعالیٰ کا ذکر نہ کرے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود نہ بھیجے تو وہ مجلس روزِ قیامت ان کے لئے حسرت (و خسارہ) کا باعث ہونے کے سوا کچھ نہیں ہوگی اگرچہ وہ لوگ جنت میں بھی داخل ہو جائیں (لیکن انہیں ہمیشہ اس بات کا پچھتاوا رہے گا)۔
الحديث رقم 42 : أخرجه ابن حبان في الصحيح، 2 / 352، الرقم : 591، وابن أبي عاصم في کتاب الزهد، 1 / 27، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 263، الرقم : 2331، والهيثمي في موارد الظمآن، 1 / 577، الرقم : 2322، وفي مجمع الزوائد، 10 / 79.
———————————————————————————————————————————————–
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود پڑھتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتوں کا نزول فرماتا ہے اور جو شخص مجھ پر دس مرتبہ درود پڑھتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر سو رحمتیں نازل فرماتا ہے اور جو شخص مجھ پر سو مرتبہ درود پڑھتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان (یعنی پیشانی پر) منافقت اور آگ (دونوں) سے ہمیشہ کے لئے آزادی لکھ دیتا ہے اور روزِ قیامت اس کا قیام (اور درجہ) شہداء کے ساتھ ہو گا۔
الحديث رقم 43 : أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 7 / 188، الرقم : 7235، وفي المعجم الصغير، 2 / 126، الرقم : 899، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 323، الرقم : 2560، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 163.
———————————————————————————————————————————————–
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مجھ پر درود پڑھا کرو بلاشبہ (تمہارا) مجھ پر درود پڑھنا تمہارے لئے (روحانی و جسمانی) پاکیزگی کا باعث ہے۔
الحديث رقم 44 : أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 2 / 253، الرقم : 8704، وأبو يعلي في المسند، 11 / 298، الرقم : 6414، والحارث في المسند (زوائد الهيثمي)، 2 / 962، الرقم : 1062، وهناد في الزهد، 1 / 117، الرقم : 147.
———————————————————————————————————————————————–
حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص صبح کے وقت اور شام کے وقت مجھ پر دس دفعہ درود بھیجے گا اسے قیامت کے روز میری شفاعت نصیب ہو گی۔
الحديث رقم 45 : أخرجه المنذري في الترغيب والترهيب، 1 / 261، الرقم : 987، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 120، وَقَالَ المُنذرِيُّ وَالْهَيْثَميُّ : رواه الطبراني بإسنادين أحدهما جيد ورجاله وثقوا.
شان اولیاء اللہ
شان اولیا اللہ
حدیث نمبر -1
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالٰی فرماتا ہے۔ جو میرے کسی ولی سے دشمنی رکھے میں اس کے خلاف اعلان جنگ کرتا ہوں اور میرا بندہ ایسی کسی چیز کے زریعے قرب حاصل نہیں کرتا جو مجھے پسند ہیں اور میں نے اس پر فرض کی ہیں بلکہ میرا بندہ برابر نوافل کے زریعے میرا قُرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اُس سے محبت کرنے لگتا ہوں۔ اور جب میں اس سے محبت کرتا ہوں تو اس کی سماعت بن جاتا ہوں جس کے ساتھ وہ سنتا ہے اور اُسکی بصارت بن جاتا ہوں جس کے ساتھ وہ دیکھتا ہے اور اسکا ہاتھ بن جاتا ہوں جسکے ساتھ وہ پکڑتا ہے اور اُسکا پیر بن جاتا ہوں جسکے ساتھ وہ چلتا ہے اگر وہ مجھ سے سوال کرے تو میں ضرور اُسے عطاء فرماتا ہوں اور اگر وہ میرے پناہ پکڑے تو ضرور میں اُسے پناہ دیتا ہوں اور کِسی کام میں مجھے تردّد نہیں ہوتا جسکو میں کرتا ہوں مگر مومن کی موت کو بُرا سمجھنے میں کیونکہ میں اُسکے اس بُرا سمجھنے کو بُرا سمجھتا ہوں۔
بخاری شریف کتاب الرقاق
حدیث نمبر -2
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ایک شخص نے ننانوے آدمیوں کو قتل کیا پھر وہ یہ پوچھتا پھرتا تھا کہ کیا اِسکی توبہ قبول ہوسکتی ہے؟ اس نے ایک راہب (عیسائیوں میں تارک الدنیا عبادت گزار) کے پاس جا کر یہ سوال کیا: کیا اسکی توبہ ہے؟ راہب نے کہا : تمہاری توبہ نہیں ہوسکتی، اُس نے راہب کو بھی قتل کر دیا۔ اِس نے پھر سوال کرنا شروع کیا اور وہ اُس بستی سے نکل کر دوسری بستی کی طرف جانے لگا۔ جس میں کچھ نیک لوگ (اولیاء اللہ) رہتے تھے ۔ جب اس نے راستے کا کچھ حصّہ طے کیا تھا تو اسکو مو ت نے آلیا، اس نے اپنا سینہ کچھ دور کردیا ، پھر مرگیا، پھر رحمت کے فرشتوں اور عذاب کے فرشتوں میں بحث ہوئی ، وہ ایک بالشت کے برابر نیک آدمیوں (اولیاء اللہ) کی بستی کے قریب تھا، سو اس کو اس بستی والوں سے لاحق کر دیا گیا۔
صحیح مسلم ، کتاب التوبہ
حدیث نمبر -3
حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ ریع کی بہن ام حارثہ نے کسی انسان کو زخمی کر دیا ۔ انہوں نے اس کا مقدمہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس پیش کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا قصاص یعنی بدلہ لیا جائے گا ام ربیع نے عرض کیا اے اللہ کے رسول کیا فلاں سے بدلہ لیا جائے گا؟ اللہ کی قسم! اس سے بدلہ نہیں لیا جائے گا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ پاک ہے۔ اے ام ربیع بدلہ لینا اللہ کی کتاب (کا حکم) ہے۔ اس نے کہا اللہ کی قسم اس سے کبھی بدلہ نہ لیا جائے گا۔ راوی کہتے ہیں وہ مسلسل اسی طرح کہتی رہی۔ یہاں تک کہ ورثاء نے دیت قبول کرلی۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ کے بندوں میں سے بعض ایسے ہوتے ہیں کہ اگر وہ اللہ پر قسم اٹھالیں تو اللہ ان کی قسم کو پورا فرما دیتا ہے۔
متعلقه احاديث
صحيح مسلم : 758 | 3181
صحيح البخاري : 4166 | 6416
سنن النسائى الصغرى : 1126 | 4697
سنن الدارمي : 1433
سنن ابن ماجه : 1413 | 1414 | 1412
جامع الترمذي : 354
السنن الكبرى للنسائي : 720 | 6709 | 6712 | 6714 | 7979
محبوب خدا صلی للہ علیہ وسلم کی عرش تک رسائی اوردیدار الہٰی کےبارےمیں مطلوب سےخبردار کرنیوالا
محبوب خدا صلی للہ علیہ وسلم کی عرش تک رسائی اوردیدار الہٰی کےبارےمیں مطلوب سےخبردار کرنیوالا
بسم اللہ الرحمن الرحیم
مسئلہ: کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ شب معراج نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا اپنے رب کو دیکھنا کس حدیث سے ثابت ہے ؟
الجواب
الاحادیث المرفوعہ (مرفوع حدیثیں)
امام احمد اپنی مسند میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے راوی :قال قال رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم رأیت ربی عزوجل۱ ۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں میں نے اپنے رب عزوجل کو دیکھا۔
(۱مسند احمد بن حنبل عن عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما المکتب الاسلامی بیروت ۱ /۲۸۵)
امام جلال الدین سیوطی خصائص کبرٰی اورعلامہ عبدالرؤف مناوی تیسیرشرح جامع صغیر میں فرماتے ہیں :
یہ حدیث بسند صحیح ہے
۱۔ (۱ التیسیر شرح الجامع الصغیر تحت حدیث رأیت ربی مکتبۃ الامام الشافعی ریاض ۲ /۲۵)
(الخصائص الکبرٰی حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہما مرکز اہلسنت برکات رضا گجرات ہند ۱ /۱۶۱)
ابن عساکر حضرت جابربن عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہما سے راوی ، حضور سیدالمرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں :لان اللہ اعطی موسی الکلام واعطانی الرؤیۃ لوجہہ وفضلنی بالمقام المحمود والحوض المورود۲۔ بیشک اللہ تعالٰی نے موسٰی کو دولت کلام بخشی اورمجھے اپنا دیدار عطافرمایا مجھ کو شفاعت کبرٰی وحوض کوثر سے فضیلت بخشی ۔
(۲کنزالعمال بحوالہ ابن عساکر عن جابر حدیث ۳۹۲۰۶مؤسسۃ الرسالۃ بیروت ۱۴ /۴۴۷ )
وہی محدث حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی :قال قال رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم قال لی ربی نخلت ابرٰھیم خلتی وکلمت موسٰی تکلیما واعطیتک یا محمد کفاحا۳۔
یعنی رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں مجھے میرے رب عزوجل نے فرمایا میں نے ابراہیم کو اپنی دوستی دی اورموسٰی سے کلام فرمایا اورتمہیں اے محمد!مواجہ
بخشا کہ بے پردہ وحجاب تم نے میرا جمال پاک دیکھا ۔
(۳تاریخ دمشق الکبیر باب ذکر عروجہ الی السماء واجتماعہ بجماعۃ من الانبیاء داراحیاء التراث العربی بیروت ۳ /۲۹۶ )
فی مجمع البحار کفاحا ای مواجھۃً لیس بینھما حجاب ولارسول۴ ۔
مجمع البحار میں ہے کہ کفاح کا معنٰی بالمشافہ دیدار ہے جبکہ درمیان میں کوئی پردہ اورقاصد نہ ہو۔ (ت)
(۴مجمع بحار الانوار باب کف ع تحت اللفظ کفح مکتبہ دارالایمان مدینہ منورہ ۴ /۴۲۴)
ابن مردویہ حضرت اسماء بنت ابی بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہما سے راوی :سمعت رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم وھو یصف سدرۃ المنتہٰی (وذکر الحدیث الی ان قالت ) قلت یارسول اللہ مارأیت عندھا ؟قال أیتہ عندھا یعنی ربہ ۱۔ یعنی میں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سدرالمنتہٰی کا وصف بیان فرماتے تھے میں نے عرض کی یارسول اللہ !حضو ر نے اس کے پاس کیا دیکھا ؟فرمایا : مجھے اس کے پاس دیدار ہوایعنی رب کا۔
(۱الدرالمنثور فی التفسیر بالماثور بحوالہ ابن مردویہ تحت آیۃ ۱۷/۱ داراحیاء التراث العربی بیروت ۵ /۱۹۴)
اٰثار الصحابہ
ترمذی شریف میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے مروی:اما نحن بنوھا شام فنقول ان محمدا رای ربہ مرتین ۲۔
ہم بنی ہاشم اہلبیت رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم تو فرماتے ہیں کہ بیشک محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اپنے رب کو دوبار دیکھا۔
(۲جامع الترمذی ابو اب التفسیر سورئہ نجم امین کمپنی اردو بازا ر دہلی ۲ /۱۶۱) )
الشفاء بتعریف حقوق المصطفٰی فصل وامارؤیۃ لربہ المطبعۃ الشرکۃ الصحافیۃ فی البلاد العثمانیہ ۱/ ۱۵۹)
ابن اسحٰق عبداللہ بن ابی سلمہ سے راوی :ان ابن عمر ارسل الٰی ابن عباس یسألہ ھل راٰی محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ربہ ،فقال نعم۳۔
یعنی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے دریافت کرابھیجا : کیا محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اپنے رب کو
دیکھا ؟ا نہوں نے جواب دیا: ہاں ۔
(۳الدرالمنثور بحوالہ ابن اسحٰق تحت آیۃ ۵۳ /۱۸داراحیاء التراث العربی بیروت ۷ /۵۷۰)
جامع ترمذی ومعجم طبرانی میں عکرمہ سے مروی :واللفظ للطبرانی عن ابن عباس قال نظر محمد الی ربہ قال عکرمۃ فقلت لابن باس نظر محمد الی ربہ قال
نعم جعل الکلام لموسٰی والخلۃ لابرٰھیم والنظر لمحمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم۱(زاد الترمذی )فقد رای ربہ مرتین۲۔
یعنی طبرانی کے الفاظ ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما نے فرمایا : محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا۔ عکرمہ ان کے شاگردکہتے ہیں : میں نے عرض کی : کیا محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا؟فرمایا : ہاں اللہ تعالٰی نے موسٰی کے لئے کلام رکھا اورابراہیم کے لئے دوستی اورمحمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے لئے دیدار۔ (اورامام ترمذی نے یہ زیادہ کیا کہ ) بیشک محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اللہ تعالٰی کو دوبار دیکھا۔
(۱المعجم الاوسط حدیث ۹۳۹۲مکتبۃ المعارف ریاض ۱۰ /۱۸۱) (۲جامع الترمذی ابواب التفسیر سورۃ نجم امین کمپنی اردوبازار دہلی ۲/ ۱۶۰)
امام ترمذی فرماتے ہیں : یہ حدیث حسن ہے ۔ امام نسائی اورامام خزینہ وحاکم وبیہقی کی روایت میں ہے :واللفظ للبیہقی أتعجبون ان تکون الخلۃ لابراھیم
والکلام لموسٰی والرؤیۃ لمحمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۔
کیاابراہیم کے لئے دوستی اورموسٰی کے لئے کلام اورمحمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے لئے دیدار ہونے میں تمہیں کچھ اچنبا ہے ۔ یہ الفاظ بیہقی کے ہیں۔ حاکم۳ نے
کہا: یہ حدیث صحیح ہے ۔ امام قسطلانی وزرقانی نے فرمایا : اس کی سند جید ہے ۴۔
(۳المواہب اللدنیۃ بحوالہ النسائی والحاکم المقصد الخامس المکتب الاسلامی بیروت ۳ /۱۰۴)
(الدرالمنثور بحوالہ النسائی والحاکم تحت الآیۃ ۵۳ /۱۸داراحیاء التراث العربی بیروت ۷ /۵۶۹)
(المستدرک علی الصحیحین کتاب الایمان راٰی محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ربہ دارالفکر بیروت ۱ /۶۵)
(السنن الکبری للنسائی حدیث ۱۱۵۳۹دارالکتب العلمیۃ بیروت ۶ /۴۷۲)
(۴شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیہ المقصد الخامس دارالمعرفۃ بیروت ۶ /۱۱۷)
طبرانی معجم اوسط میں راوی :عن عبداللہ بن عباس انہ کان یقول ان محمدا صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم راٰی ربہ مرتین مرۃ ببصرہ ومرۃ بفوادہ۵۔ یعنی حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما فرمایا کرتے بیشک محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے دوبار اپنے رب کو دیکھا ایک بار اس آنکھ سے
اورایک بار دل کی آنکھ سے ۔
(۵المواہب اللدنیۃ بحوالہ الطبرانی فی الاوسط المقصد الخامس المکتب الاسلامی بیروت ۳ /۱۰۵)
(المعجم الاوسط حدیث ۵۷۵۷مکتبۃ المعارف ریاض ۶ /۳۵۶)
امام سیوطی وامام قسطلانی وعلامہ شامی علامہ زرقانی فرماتے ہیں : اس حدیث کی سند صحیح ہے ۱۔
(۱ المواہب اللدنیۃ المقصد الخامسالمکتب الاسلامی بیروت ۳ /۱۰۵)
(شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیہ المقصد الخامسدارالمعرفہ بیروت ۶ /۱۱۷)
امام الائمہ ابن خزیمہ وامام بزار حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی :ان محمد ا صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم راٰی ربہ عزوجل۲ ۔
بیشک محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اپنے رب عزوجل کو دیکھا۔
(۲ المواہب اللدنیۃ بحوالہ ابن خزیمہ المقصد الخامس المکتب الاسلامی بیروت ۳ /۱۰۵)
امام احمد قسطلانی وعبدالباقی زرقانی فرماتے ہیں : اس کی سند قوی ہے۳ ۔
(۳المواہب اللدنیۃ بحوالہ ابن خزیمہ المقصد الخامس المکتب الاسلامی بیروت ۳ /۱۰۵)
(شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیہ المقصد الخامسدارالمعرفہ بیروت ۶ /۱۱۸)
محمد بن اسحٰق کی حدیث میں ہے :ان مروان سأل ابا ھریرۃ رضی اللہ تعالٰی عنہ ھل راٰی محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ربہ فقال نعم۴۔
یعنی مروان نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے پوچھا : کیا محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اپنے ر ب کو دیکھا؟فرمایا : ہاں
(۴شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ بحوالہ ابن اسحٰق دارالمعرفہ بیروت ۶ /۱۱۶)
(الشفاء بتعریف حقوق المصطفٰی بحوالہ ابن اسحٰق فصل وما رؤیۃ لربہ المطبعۃ الشرکۃ الصحافیۃ فی البلاد العثمانیہ ۱ /۱۵۹)
اخبار التابعین
مصنف عبدالرزاق میں ہے :عن معمر عن الحسن البصری انہ کان یحلف باللہ لقد راٰ ی محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۵۔
یعنی امام حسن بصری رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ قسم کھاکر فرمایا کرتے بیشک محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا۔
(۵الشفاء بتعریف حقوق المصطفٰی بحوالہ عبدالرزاق عن معمر عن الحسن البصری فصل واما رویۃ لربہ المطبعۃ الشرکۃ الصحافیۃ فی البلاد العثمانیہ ۱ /۱۵۹)
اسی طرح امام ابن خزیمہ حضرت عروہ بن زیبر سے کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے پھوپھی زاد بھائی کے بیٹے اورصدیق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے نواسے ہیں راوی کہ وہ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو شب معراج دیدار الہٰی ہونا مانتے :وانہ یشتد علیہ انکارھا ۱ اھ ملتقطا۔
اوران پر اس کا انکار سخت گراں گزرتا ۔
(۱شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ بحوالہ ابن خزیمہ المقصد الخامس دارالمعرفۃ بیروت ۱/۱۱۶)
یوں ہی کعب احبار عالم کتب سابقہ وامام ابن شہاب زہری قرشی وامام مجاہد مخزومی مکی وامام عکرمہ بن عبداللہ مدنہ ہاشمی وامام عطا بن رباح قرشی مکی ۔ استاد امام ابو حنیفہ
وامام مسلم بن صبیح ابوالضحی کو فی وغیرہم جمیع تلامذہ عالم قرآن حبر الامہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہم کا بھی یہی مذہب ہے ۔
امام قسطلانی مواہب لدنیہ میں فرماتے ہیں : اخرج ابن خزیمۃ عن عروہ بن الزبیر اثباتھا وبہ قال سائر اصحاب ابن عباس وجزم بہ کعب الاحبار والزھری ۲الخ۔
ابن خزیمہ نے عروہ بن زبیر رضی اللہ تعالٰی عنہاسے اس کا اثبات روایت کیاہے ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما کے تمام شاگردوں کا یہی قول ہے ۔ کعب احبار
اورزہری نے اس پر جزم فرمایا ہے ۔ الخ۔(ت)
(۲ المواہب اللدنیۃ المقصد الخامس المکتب الاسلامی بیروت ۳ /۱۰۴)
اقوال من بعدھم من ائمّۃ الدین
امام خلّال کتاب السن میں اسحٰق بن مروزی سے راوی ، حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالٰی رؤیت کو ثابت مانتے اوراس کی دلیل فرماتے:قول النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم رأیت ربی ۳اھ مختصراً۔
نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا ارشاد ہے میں نے اپنے رب کو دیکھا۔
(۳المواہب اللدنیۃ بحوالہ الخلال فی کتاب السن المقصد الخامس المتکب الاسلامی بیرو ت۳ /۱۰۷)
نقاش اپنی تفسیر میں اس امام سند الانام رحمہ اللہ تعالٰی سےراوی : انہ قال اقول بحدیث ابن عباس بعینہ راٰی ربہ راٰہ راٰہ راٰہ حتی انقطع نفسہ۔۴
یعنی انہوں نے فرمایا میں حدیث ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما کا معتقد ہوں نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اپنے رب کو اسی آنکھ سے دیکھا دیکھا دکھا ، یہاں
تک فرماتے رہے کہ سانس ٹوٹ گئی ۔
(۴الشفاء بتعریف حقوق المصطفٰی بحوالہ النقاش عن احمد وامام رؤیۃ لربہ المکتبۃ الشرکۃ الصحافیۃ ۱ /۱۵۹)
امام ابن الخطیب مصری مواہب شریف میں فرماتے ہیں : جزم بہ معمر واٰخرون وھوقول الاشعری وغالب اتباعہ۱۔ یعنی امام معمر بن راشد بصری اوران کے سوا اورعلماء نے اس پر جزم کیا ، اوریہی مذہب ہے امام اہلسنت امام ابوالحسن اشعری اوران کے غالب پَیروؤں کا۔
(۱المواہب اللدنیہ المقصد الخامس المکتب الاسلامی بیروت ۳ /۱۰۴)
علامہ شہاب خفاجی نسیم الریاض شرح شفائے امام قاضی عیاض میں فرماتے ہیں :الاصح الراجح انہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم رای ربہ بعین راسہ حین اسری بہ کما ذھب الیہ اکثر الصحابۃ۲۔ مذہب اصح وراجح یہی ہے کہ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے شب اسرا اپنے رب کو بچشم سردیکھا جیسا کہ جمہور صحابہئ کرام کا یہی مذہب ہے۔
(۲نسیم الریاض شرح شفاء القاضی عیاض فصل واما رؤیۃ لربہ مرکز اہلسنت برکات رضا گجرات ہند ۲ /۳۰۳)
امام نووی شرح صحیح مسلم میں پھر علامہ محمدبن عبدالباقی شرح مواہب میں فرماتے ہیں :الراجح عند اکثر العلماء انہ طرای ربہ بعین راسہ لیلۃ المعراج۳۔
جمہور علماء کے نزدیک راجح یہی ہے کہ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے شب معراج اپنے رب کو اپنے سر کی آنکھوں سے دیکھا۔
(۳شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ المقصد الخامس دارالمعرفۃ بیروت ۶ /۱۱۶)
ائمہ متاخرین کے جدا جدااقوال کی حاجت نہیں کہ وہ حد شمار سے خارج ہیں اورلفظ اکثر العلماء کہ منہاج میں فرمایا کافی ومعنی ۔ واللہ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ۳۷ :از کانپور محلہ بنگالی محل مرسلہ حدم علی خاں وکاطم حسین ۱۱محرم الحرام ۱۳۲۰ھ کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ہمارے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا شبِ معراج مبارک عرش عظیم تک تشریف لے جانا علمائے کرام وائمہ اعلام نے تحریر فرمایا ہے یا نہیں ؟زید کہتاہے یہ محض جھوٹ ہے ، اس کا یہ کہنا کیسا ہے ؟بینوا توجروا(بیان فرماؤ اجردئے جاؤ گے ۔ت)
الجواب : بیشک علمائے کرام ائمہ دین عدول ثقات معتمدین نے اپنی تصنیف جلیلہ میں اس کی اور اس سے زائد کی تصریحات جلیلہ فرمائی ہیں ، اوریہ سب احادیث ہیں، اگرچہ احادیث مرسل یا ایک اصطلاح پر معضل ہیں،اورحدیث مرسل ومعضل باب فضائل میں بالاجماع مقبول ہے خصوصاً جبکہ ناقلین ثقات عدول ہیں اوریہ امر ایسا نہیں جس میں رائے کو دخل ہوتو ضرور ثبوت سند پر محمول ، اورمثبت نافی پر مقدم، اورعدم اطلاع اطلاع عدم نہیں تو جھوٹ کہنے والا محض جھوٹا مجازف فی الدین ہے ۔
امام اجل سید ی محمد بوصیری قدس سرہ، قصیدہ بردہ شریف میں فرماتے ہیں : عسریت من حرم لیلا الی حرم کما سری البدر فی داج من الظلم وبت ترقی الی ان نلت منزلۃ من قاب قوسین لم تدرک ولم ترم خفضت کل مقام بالاضافۃ اذ نودیت بالرفع مثل المفرد العلم فخرت کل فخار غیر مشترک وجزت کل مقام غیر مزدحم۱ یعنی یارسول اللہ!حضور رات کے ایک تھوڑے سے حصے میں حرم مکہ معظمہ سے بیت الاقصٰی کی طرف تشریف فرماہوئے جیسے اندھیری رات میں چودھویں کا چاند چلے ، اورحضور اس شب میں ترقی فرماتے رہے یہاں تک کہ قاب قوسین کی منزل پہنچے جو نہ کسی نے پائی نہ کسی کو اس کی ہمت ہوئی ۔ حضور نے اپنی نسبت سے تمام مقامات کو پست فرمادیا، جب حضور رفع کےلئے مفرد علم کی طرح ندافرمائے گئے حضور نے ہر ایسا فخر جمع فرمالیا جو قابل شرکت نہ تھا اور حضور ہر اس
مقام سے گزرگئے جس میں اوروں کا ہجوم نہ تھا یا یہ کہ حضور نے سب فخر بلا شرکت جمع فرمالئے اورحضور تمام مقامات سے بے مزاحم گزرگئے ۔
(۱ الکواکب الدریۃ فی مدح خیر البریۃ (قصیدہ بردہ )الفصل السابع مرکز اہلسنت گجرات ہند ص۴۴تا۴۶)
یعنی عالم امکان میں جتنے مقام ہیں حضور سب سے تنہا گزر گئے کہ دوسرے کو یہ امر نصیب نہ ہوا ۔ علامہ علی قاری اس کی شرح میں فرماتے ہیں :ای انت دخلت
الباب وقطعت الحجاب الی ان لم تترک غایۃ للساع الی السبق من کمال القرب المطلق الی جناب الحق ولا ترکت موضع رقی وصعود وقیام وقعود لطالب رفعۃ فی عالم الوجود بل تجاوزت ذٰلک الٰی مقام قاب قوسین اوادنٰی فاوحٰی الیک ربک ما اوحٰی۱۔
یعنی حجور دروازہ میں داخل ہوئے اورآپنے یہاں تک حجاب طےفرمائے کہ حضر ت عزت کی جناب میں قرب مطلق کامل کے سبب کسی ایسے کے لئے جو سبقت کی طرف دوڑے کوئی نہایت نہ چھوڑی اورتما م عالم وجود میں کسی طالب بندلی کے لئے کوئی جگہ عروج وترقی یا اٹھنے بیٹھنے کی باقی نہ رکھی بلکہ حضور عالم مکان سے تجاوز فرما کر
مقام قاب وقوسین اوادنٰی تک پہنچے تو حضور کے رب نے حضور کو وحی فرمائی جو وحی فرمائی ۔
(۱الزبدۃ العمدۃ فی شرح القصیدۃ البردۃ الفصل السابع جمعیت علماءسکندریہ خیر پور سندھ ص۹۶)
نیز امام ہمام ابو عبداللہ شرف الدین محمد قدس سرہ، ام القرٰی میں فرماتے ہیں :وترقی بہ الٰی قاب قوسین وتلک السیادۃ القعسا رتب تسقط الاما فی حسرٰی دونھا ماوراھن وراء۲ حضور کو قاب قوسین تک ترقی ہوئی اوریہ سرداری لازوال ہے یہ وہ مقامات ہیں کہ آرزوئیں ان سے تھک کرگرجاتی ہیں ان کے اس طرف کوئی مقام ہی نہیں ۔
(۲ام القرٰی فی مدح خیر الورٰی الفصل الرابع حز ب القادریۃ لاہور ص۱۳)
امام ابن حجر مکی قدس سرہ الملکی اس کی شرح افضل القرٰی میں فرماتے ہیں :قال بعض الائمۃ والماریج لیلۃ الاسراء عشرۃ ، سبعۃ فی السمٰوٰت والثامن الی سدرۃ المنتھٰی والتاسع الی المستوی والعاشر الی العرش۳الخ ۔
بعض ائمہ نے فرمایا شب اسراء دس معراجیں تھیں ، سات ساتوں آسمانوں میں ، اورآٹھویں سدرۃ المنتہٰی ، نویں مستوٰی ، دسویں عرش تک۔
(۳افضل القرٰی لقراء ام القری تھت شعر۷۳ المجعم الثقافی ابو ظبی ۱/ ۴۰۴)
سید علامہ عارف باللہ عبدالغنی نابلسی قدس سرہ القدسی نے حدیقہ ندیہ شرح طریقہ محمدیہ میں اسے نقل فرما کر مقرر رکھا :قال الشھاب المکی فی شرح ھمزیۃ لامام وصیری عن بعض الائمۃ ان المعاریج عشرۃ الٰی قولہ والعاشر الی العرش والرؤیۃ۴ ۔ فرمایا ، امام شہاب مکی نے شرح ہمزیہ امام بوصیرہ میں کہا بعض آئمہ سے منقول ہے کہ معراجین دس ہیں،
(۴ الحدیقۃ الندیہ شرح الطریقۃ المحمدیہ بحوالہ شرح قصیدہ ہمزیہ المکتبۃ النوریۃ الرضویہ لائلپور ۱ /۲۷۲)
دسویں عرش ودیدار تک ۔
نیز شرح ہمزیہ امام مکی میں ہے :لما اعطی سلیمٰن علیہ الصلٰوۃ والسلام الریح التی غدوھا شھر ورواحھا شھر اعطی نبینا صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم البراق فحملہ من الفرش الی العرش فی لحظۃ واحدۃ واقل مسافۃ فی ذٰلک سبعۃ اٰلاف سنۃ ۔ وما فوق العرش الی المستوی والرفرف لایعلمہ الا اللہ تعالٰی ۱ ۔
جب سلیمان علیہ الصلٰوۃ والسلام کو ہوادی گئی کہ صبح شام ایک ایک مہینے کی راہ پر لے جاتی ۔ ہمارے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو براق عطا ہوا کہ حضور کو فرش سے عرش تک ایک لمحہ میں لے گیا اوراس مین ادنٰی مسافت (یعنی آسمان ہفتم سے زمین تک ) سات ہزار برس کی راہ ہے ۔اوروہ جو فوق العرش سے مستوٰی اورفرف تک رہی اسے توخدا ہی جانے ۔
(۱افضل القرٰی لقرء ام القرٰی)
اسی میں ہے :لمااعطی موسٰی علیہ الصلٰوۃ والسلام الکلام اعطی نبینا صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم مثلہ لیلۃ الاسراء وزیادۃ الدنو والرویۃ بعین البصر وشتان مابین جبل الطور الذی نوجی بہ موسٰی علیہ الصلٰوۃ والسلام موما فوق العرش الذی نوجی بہ نبینا صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۲۔
جب موسٰی علیہ الصلٰوۃ والسلام کو دولت کلام عطاہوئی ہمارے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو ویسی ہی شب اسراملی اورزیادت قرب اورچشم سر سے دیدارالٰہی اس کے علاوہ ۔ اوربھلاکہاں کو ہ طور جس پر موسٰی علیہ الصلوۃ والسلام سے مناجات ہوئی اورکہاں مافوق العرش جہاںہمارے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے کلام ہوا۔
(۲افضل القرٰی لقرء ام القرٰی)
اسی میں ہے : رقیہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ببدنہ یقظۃ بمکۃ لیلۃ ولاسراء الی السماء ثم الی سدرۃ المنتھٰی ثم الی المستوی الی العرش والرفرف والرویۃ۳ ۔
نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اپنے جسم پاک کے ساتھ بیداری میں شب اسراآسمانوں تک ترقی فرمائی ، پھر سدرۃ لمنتہٰی ، پھر مقام مستوٰی ، پھر عرش ورفرف ودیدار تک۔
(۳افضل القرٰی لقراء ام القرٰی تحت شعرا ۱المجمع الثقافی ابوظبی ۱/ ۱۱۶و۱۱۷)
علامہ احمد بن محمد صاوی مالکی خلوتی رحمۃ اللہ تعالٰی تعلیقاتِ افضل القرٰی میں فرماتے ہیں :الاسراء بہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم علی یقظۃ بالجسد والروح من المسجد الحرام الی المسجد الاقصی ثم عرج بہ الی السمٰوٰت العلی ثم الی سدرۃ المنتہٰی ثم الی المستوی ثم الی العرش والرفرف۱۔ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو معراج بیداری میں بدن ورُوح کے ساتھ مسجد حرامِ سے مسجدِ اقصٰی تک ہوئی ،پھر آسمانوں ، پھر سدرہ ، پھر مستوٰی ، پھرعرش ورفرف تک۔
(۱ تعلیقات علی ام القرٰی للعلامۃ احمد بن محمد الصاوی علی ھامش الفتوحات الاحمدیۃ المکتبۃ التجاریۃ الکبری مصرص۳)
فتوحات احمدیہ شرح الہمزیہ للشیخ سلیمان الجمل میں ہے : رقیہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم لیلۃ الاسراء من بیت المقدس الی السمٰوٰت السبع الی حیث شاء اللہ تعالٰی لکنہ لم یجاوز العرش علی الراجح۲۔ حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی ترقی شب اسراء بیت المقدس سے ساتوں آسمانوں اوروہاں سے اس مقام تک ہے جہاں تک اللہ عزوجل نے چاہا مگر راجح یہ ہے کہ عرش سے آگے تجاوز نہ فرمایا ۔
(۲ الفتوحات الاحمدیۃ بالمنح المحمدیۃ شرح الھمزیۃالمکتبۃ التجاریۃ الکبرٰی قاہرہ مصر ص۳)
اسی میں ہے :المعاریج لیلۃ الاسراء عشرۃ سبعۃ فی السمٰوٰت والثامن الی سدرۃ المنتھٰی والتاسع الی المستوٰی والعاشر الی العرش لکن لم یجاوز العرش کما ھو التحقیق عند اھل المعاریج۳۔ معراجیں شب اسراء دس ہوئیں، سات آسمانوں میں ،اورآٹھویں سدرہ، نویں مستوٰی ، دسویں عرش تک۔ مگر راویان معراج کے نزدیک تحقیق یہ ہے کہ عرش سے اوپرتجاوز نہ فرمایا ۔
(۳الفتوحات الاحمدیۃ بالمنح المحدیۃ شرح الھمزیۃ المکتبۃ التجاریۃ الکبرٰی قاہرہ مصرص۳۰)
اسی میں ہے :بعد ان جاوز السماء السابعۃ رفعت لہ سدرۃ المنتھٰی ثم جاو زھا الی مستوٰی ثم زج بہ فی النور فخرق سبعین الف حجاب من نور مسیرۃ کل حجاب خمسائۃ عام ثم دلی لہ رفرف اخضر فارتقی بہ حتی وصل الی العرش ولم یجاوزہ فکان من ربہ قاب قوسین او ادنٰی۱۔
جب حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم آسمان ہفتم سے گزرے سدرہ حضور کے سامنے بلند کی گئی اس سے گزر کر مقام مستوٰی پر پہنچے ، پھر حضور عالم نور میں ڈالے گئے وہاں ستر ہزار پردے نور کے طے فرمائے ، ہر پردے کی مسافت پانسو برس کی راہ۔ پھر ایک سبز بچھونا حضور کے لئے لٹکایا گیا ، حضور اقدس اس پر ترقی فرماکر عرش تک پہنچے ، اورعرش سے ادھر گزر نہ فرمایا وہاں اپنے رب سے قاب قوسین اوادنٰی پایا۔
(۱ الفتوحات الاحمدیۃ بالمنح المحدیۃ شرح الھمزیۃ المکتبۃ التجاریۃ الکبرٰی قاہرہ مصرص۳۱)
اقول (میں کہتاہوں۔ت) شیخ سلیمٰن نے عرش سے اوپر تجاوز نہ فرمانے کوترجیح دی، اورامام ابن حجر مکی وغیرہ کی عبارت ماضیہ وآتیہ وغیرہا میں فوق العرش ولامکان کی تصریح ہے ، لامکان یقینا فوق العرش ہے اورحقیقۃً دونوں قولوں میں کچھ اختلاف نہیں ، عرش تک منتہائے مکان ہے ، اس سے آگے لامکان ہے ، اورجسم نہ ہوگا مگر مکان میں ، تو حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم جسم مبارک سے منتہائے عرش تک تشریف لے گئے اورروح اقدس نے وراء الوراء تک ترقی فرمائی جسے ان کا رب جانے جو لے گیا، پھر وہ جانیں جو تشریف لے گئے ، اسی طرف کلام امام شیخ اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ میں اشارہ عنقریب آتاہے کہ ان پاؤں سے سیر کا منتہٰی عرش ہے ، تو سیر قدم عرش پر ختم ہوئی ، نہ اس لئے کہ سیر اقدس میں معاذاللہ کوئی کمی رہی ، بلکہ اس لئے کہ تمام اماکن کا احاطہ فرمالیا،اوپرکوئی مکان ہی نہیں جسے کہئے کہ قدم پاک وہاں نہ پہنچا اوسیر قلب انور کی انتہاء قاب قوسین ، اگر وسوسہ گزرے کہ عرش سے وراء کیا ہوگا کہ حضور نے اس سے تجاوز فرمایاتو امام اجل سید علی وفا رضی اللہ تعالٰی عنہ کا ارشاد سنئے جسے امام عبدالوہاب شعرانی نے کتاب الیواقیت والجواہر فی عقائد الاکابر میں نقل فرمایا کہ فرماتے ہیں :لیس الرجل من یقیدہ العرش وما حواہ من الافلاک والجنۃ والنار وانما الرجل من نفذ بصرہ الی خارج ھٰذا الوجود کلہ وھناک یعرف قدرعظمۃ موجدہ سبحٰنہ وتعالٰی ۲۔
مَرد وہ نہیں جسے عرش اورجو کچھ اس کے احاطہ میں ہے افلاک وجنت ونار یہی چیزیں محدود ومقید کرلیں، مرد وہ ہے جس کی نگاہ اس تمام عالم کے پار گزر جائے وہاں اسے موجد عالم جل جلالہ کی عظمت کی قدر کھلے گی۔
(۲الیواقیت والجواہرالمبحث الرابع والثلاثوںداراحیاء التراث العربی بیروت ۲ /۳۷۰)
امام علامہ احمد قسطلانی مواہب لدنیہ ومنح محمدیہ میں اور علامہ محمد زرقانی اس کی شرح میں فرماتے ہیں :(ومنہا انہ راٰی اللہ تعالٰی بعینیہ) یقظۃ علی الراجح (وکلمہ اللہ تعالٰی فی الرفیع الا علی) علی سائر الامکنۃ وقدروی ابن عساکر عن انس رضی اللہ تعالٰی عنہ مرفوعا لما اسری لی قربنی ربی حتی کان
بینی وبینہ قاب قوسین اوادنی ۱۔
نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے خصائص سے ہے کہ حضور نے اللہ عزوجل کو اپنی آنکھوں سے بیداری میں دیکھا، یہی مذہب راجح ہے ، اوراللہ عزوجل نے حضور سے اس بلند وبالا تر مقام میں کلام فرمایا جو تمام امکنہ سے اعلٰی تھا اوربیشک ابن عساکر نے انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا : شب اسراء مجھے میرے رب نے اتنا نزدیک کیا کہ مجھ میں اوراس میں دوکمانوں بلکہ اس سے کم کا فاصلہ رہ گیا۔
( ۱ المواہب اللدنیۃ المقصد الرابع الفصل الثانی المکتب الاسلامی بیروت ۲ /۶۳۴) (شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیہ المقصد الرابع الفصل الثانی دارالمعرفۃ بیروت ۵ /۲۵۱و۲۵۲)
اسی میں ہے : قد اختلف العلماء فی الاسراء ھل ھوا اسراء واحد او اثنین مرۃ بروحہ وبدنہ یقظۃ ومرۃ مناما او یقظۃ بروحہ وجسدہ من المسجدالحرام الی المسجد الاقصی ثم منا ما من المسجدالاقصٰی الی العرش۲۔
علماء کو اختلاف ہوا کہ معراج ایک ہے یا دو، ایک بار روح وبدن اقدس کے ساتھ بیداری میں اورایک بارخواب میں یا بیداری میں روح وبدن مبارک کے ساتھ مسجد الحرام سے مسجد اقصٰی تک، پھر خواب میں وہاں سے عرش تک ۔
(۲ المواہب اللدنیۃ المقصد الخامس المکتب الاسلامی بیروت ۳ /۷)
فالحق انہ اسراء واحد بروحہ وجسدہ یقظۃ فی القصۃ کلھا والی ھذا ذھب الجمہور من علماء المحدثین والفقہاء والمتکلمین ۳۔
اورحق یہ ہے کہ وہ ایک اسراء ہے اورسارے قصے میں یعنی مسجد الحرام سے عرش اعلٰی تک بیداری میں روح وبدن اطہر ہی کے ساتھ ہے ۔ جمہور علماء ومحدثین وفقہاء
ومتکلمین سب کا یہی مذہب ہے ۔
(۳المواہب اللدنیۃ المقصد الخامس المکتب الاسلامی بیروت ۳ /۷)
(المواہب اللدنیۃ المقصد الخامس المکتب الاسلامی بیروت ۳ /۱۲)
اسی میں ہے :المعاریج عشرۃ (الٰی قولہ )العاشر الی العرش ۱۔معراجیں دس ہوئیں ، دسویں عرش تک۔
(۱المواہب اللدنیۃ المقصد الخامس مراحل المعراج المکتب الاسلامی بیروت ۳ /۱۷)
اسی میں ہے : قدروردفی الصحیح عن انس رضی اللہ تعالٰی عنہ قال لما عرج بی جبریل الی سدرۃ المنتہٰی ودنا الجبار رب العزۃ فتدلی فکان قاب
قوسین او ادنٰی ۲ وتدلیہ علی ما فی حدیث شریک کان فوق العرش ۳۔
صحیح بخاری شریف میں انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں : میرے ساتھ جبریل نے سدرۃ المنتہٰی تک عروج کیا اور جبار رب العزۃ جل وعلانے دنو وتدلیّ فرمائی تو فاصلہ دو کمانوںبلکہ ان سے کم کا رہا، یہ تدلی بالائے عرش تھی ، جیسا کہ حدیث شریک ہے ۔
(۲المواہب اللدنیۃ المقصد الخاس ثم دنٰی فتدلٰی المتکب الاسلامی بیروت ۳ /۸۸)
(المواہب اللدنیۃ المقصد الخاس ثم دنٰی فتدلٰی المتکب الاسلامی بیروت ۳ /۹۰)
علامہ شہاب خفاجی نسیم الریاض شرح شفائے قاضی عیاض میں فرماتے ہیں : وردفی المعراج انہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم لما بلغ سدرۃ المنتہٰی جاء ہ بالرفرف جبریل علیہ الصلٰوۃ والسلام فتناولہ فطاربہ الی العرش۴۔
حدیث معراج میں وارد ہوا کہ جب حضو راقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سدرۃ المنتہٰی پہنچے جبریل امین علیہ الصلٰوۃ والتسلیم رفرف حاضر لائے وہ حضو کر لے کر عرش
تک اڑگیا۔
(۴نسیم الریاض شرح شفاء القاضی عیاض فصل واماما ورد فی حدیث الاسراء مرکز اہلسنت گجرات ہند ۲ /۳۱۰)
اسی میں ہے :علیہ یدل صحیح الاحادیث الاحاد الدالۃ علی دخولہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم الجنۃ ووصولہ الی العرش اوطرف العالم کما سیأتی کل ذٰلک بجسدہ یقظہ ۱۔
صحیح احادیثیں دلالت کرتی ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم شب اسراء جنت میں تشریف لے گئے اورعرش تک پہنچے یا علم کے اس کنارے تک کہ آگے لامکان ہے اوریہ سب بیداری میں مع جسم مبارک تھا۔
(۱نسیم الریاض فی شرح شفاء القاضی عیاض فصل ثم اختلف السلف والعلماء مرکز اہلسنت گجرات ہند ۲ /۲۶۹،۲۷۰)
حضرت سیدی شیخ اکبرامام محی الدین ابن عربی رضی اللہ تعالٰی عنہ فتوحاتِ مکیہ شریف باب ۳۱۶میں فرماتے ہیں :اعلم ان رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم لما کان خلقہ القراٰن وتخلق بالاسماء وکان اللہ سبحٰنہ وتعالٰی ذکر فی کتاب العزیز انہ تعلاٰی استوی علی العرش علی طریق التمدح والثناء علی نفسہ اذ کان العرش اعظم الاجسام فجعل لنبیہ علیہ الصلٰوۃ والسلام من ھذا الاستواء نسبۃ علی طریق التمدح والثناء علیہ بہ حیث کان اعلی مقام ینتہی الیہ من اسری بہ من الرسل علیھم الصلٰوۃ والسلام وذٰلک یدل علی انہ اسری بہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم بجسمہ ولو کان الاسراء بہ رؤیا لما کان الاسراء ولا الوصلو الی ھذا المقام تمدحا ولا وقع من الاعرافی حقہ انکار علی ذٰلک۲۔
تو جان لے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا خلق عظیم قرآن تھا اورحضور اسماء الٰہیہ کی خووخصلت رکھتے تھے اوراللہ سبحٰنہ وتعالٰی قرآن کریم میں اپنی صفات مدح سے عرش پر استواء بیان فرمایا تو اس نے اپنے حبیب صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو بھی اس سفت استواعلی العرش کے پر تو سے مدح ومنقبت بخشی کہ عرش وہ اعلٰی مقام ہے جس تک رسولوں کا اسراء منتہی ہو ، اوراس سے ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا اسراء مع جسم مبارک تھا کہ اگر خواب ہوتا تو اسرااوراس مقام استواء علی العرش تک پہنچنا مدح نہ ہوتا نہ گنواراس پر انکار کرتے ۔
(۲ الفتوحات المکیۃ الباب السادس داراحیاء التراث العربی بیروت ۳ /۶۱)
امام علامہ عارف باللہ سید ی عبدالوہاب شعرانی قدس سرہ الربانی کتاب الیواقیت والجواہر میں حضرت موصوف سے ناقل :انما قال صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم علی سبیل التمدح حتی ظھرت لمستوی اشارۃ لما قلنا من ان متھی السیر بالقدم المحسوس للعرش ۱۔
نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا بطور مدح ارشاد فرمانا کہ یہاں تکہ کہ میں مستوی پر بلند ہوا اسی امر کی طرف اشارہ ہے کہ قدم جسم سے سیر کا منتہٰی عرش ہے ۔
(۱ الیواقیت والجواہر المبحث الرابع والثلاثونداراحیاء التراث العربی بیروت ۲ /۳۷۰)
مدارج النبوۃ شریف میں ہے :فرمود صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پس گسترانیدہ شد برائے من رفرف سبز کہ غالب بود نور او پر نور نورآفتاب پس درخشید بآن نور بصر من ونہادہ شدم من برآں رفرف وبرداشتہ شدم تابرسید بعرش۲۔
نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: پھر میرے لئے سبز بچھونا بچھایا گیا جس کا نور آفتاب کے نور پر غالب تھا چنانچہ اس نور کے سبب میری آنکھوں کا نور چمک اٹھا ، پھر مجھے رفرف پر سوار کر کے بلندی کی طرف اٹھایا گیا یہاں تک کہ میں عرش پر پہنچا۔(ت)
(۲مدارج النبوۃ باب پنجم وصل دررؤیت الٰہی مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر۱/۱۶۹)
اسی میں ہے : آوردہ اند کہ چوں رسید آں حضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم بعرش دست زد بدامان اجلال وے ۳۔ منقول ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم عرش پر پہنچے تو عرش آپ کا دامن اجلال تھام لیا۔(ت)
(۳مدارج النبوۃ باب پنجم وصل دررؤیت الٰہی مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر۱ /۱۷۰)
اشعۃ اللمعات شرح مشکوٰۃ شریف میں ہے :جز حضرت پیغمبرما صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم بالاترازاں ہیچ کس نہ رفتہ وآنحضرت بجائے رفت کہ آنجاجانیست ؎
ہمارے نبی اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے علاوہ عرش سے اوپر کوئی نہیں گیا، آپ اس جگہ پہنچے جہاں جگہ نہیں۔برداشت از طبیعت امکاں قدم کہ آں اسرٰی بعبدہٖ است من المسجد الحرام تاعرصہ وجوب کہ اقتضائے عالم ست کابخانہ جاست ونے جہت ونے نشاں نہ نام۱
طبیعت امکان سے قدم مبارک اٹھالئے کہ اللہ تعالٰی نے اپنے خاص بندے کو سیرکرائی مسجد حرام سے صحرائے وجوب تک جو عالم کا آخری کنارہ ہے کہ وہاں نہ مکان ہے نہ جہت، نہ نشان اورنہ نام ۔(ت)
(۱اشعۃ اللمعات باب المعراج مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر۴ /۵۳۸)
نیز اسی کے باب رؤیۃ اللہ تعالٰی فصل سوم زیر حدیث قد راٰی ربہ مرتین (تحقیق آپ نے اپنے رب کو دوبارہ یکھا۔ت) ارشاد فرمایا :بتحقیق دیدآنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پروردگارخود را جل وعلا دوبار، یکے چوں نزدیک سدرۃ المنتہٰی بود،دوم چوں بالائے عرش برآمد۲۔
تحقیق آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اپنے پروردگارجل وعلاکو دوباردیکھا ، ایک بار جب آپ سدرہ کے قریب تھے ، اوردوسری بار جب آپ عرش پرجلوہ گرہوئے ۔(ت)
(۲اشعۃ اللمعات کتاب الفتن باب رؤیۃ اللہ تعالٰی الفصل الثالث مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر۴ /۴۴۲تا۴۲۹ )
مکتوبات حضرت شیخ مجدد الف ثانی جلد اول ، مکتوب ۲۸۳میں ہے : آں سرورعلیہ الصلٰوۃ والسلام دراں شب چوں از دائرہ مکان وزمان بریون جست وازتنگی امکان برآمد ازل وابدراں آں واحد یافت وبدایت ونہایت رادریک نطقہ متحد دید۳۔ اس رات سرکار دوعالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم مکان وزمان کے دائرہ سے باہر ہوگئے ،اور تنگی امکان سے نکل کر آپ نے ازل وابد کو ایک پایا اورابتداء کو انتہا کو ایک نقطہ میں متحد دیکھا۔(ت)
(۳مکتوبات امام ربانی مکتوب ۲۸۳نولکشورلکھنؤ ۱/ ۳۶۶)
نیز مکتوب ۲۷۲میں ہے : محمدرسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کہ محبوب رب العالمین ست وبہترین موجودات اولین وآخرین باوجودآنکہ بدولت معراج بدنی مشرف شد واز عرش وکرسی درگزشت وازامکان وزمان بالارفت۴۔
محمدرسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم جو کہ رب العالمین کے محبوب ہیں اور تمام موجودات اولین وآخرین سے افضل ہیں ، جسمانی معراج سے مشرف ہوئے اورعرش وکرسی سے آگے گزر گئے اورمکان وزمان سے اوپر چلے گئے ۔ (ت)
( ۴ مکتوبات امامربانی مکتوب ۲۷۲نولکشورلکھنؤ ۱ /۳۴۸)
امام ابن الصلاح کتاب معرفۃ انواع علم الحدیث میں فرماتے ہیں :قول المصنفین من الفقہاء وغیرہم ”قال رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کذا وکذا”ونحو ذٰلک کلہ من قبیل المعضل وسماہ الخطیب ابوبکر الحافظ فی بعض وکلامہ مرسلا وذٰلک علی مذھب من یسمی کل مالایتصل مرسلاً۱۔
فقہاء وغیرہ ومصنفین کا قول کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ایسا ایسا فرمایا ہے یا اس کی مثل کوئی کلمہ یہ سب معضل کے قبیل سے ہے ۔ خطیب ابو بکر حافظ نے اس کا نام مرسل رکھا ہے اوریہ اس کے مذہب کے مطابق ہے جو ہر غیر متصل کا نام مرسل رکھتاہے ۔(ت)
(۱معرفۃ انواع علم الحدیث النوع الحادی عشردارالکتب العلمیۃ بیروت ص۱۳۸)
تلویح وغیرہ میں ہے :ان لم یذکر الواسطۃ اصلا فمرسل۲۔ اگر واسطہ بالکل مذکور نہ ہوتو وہ مرسل ہے ۔(ت)
(۲التوضیح والتلویح الرکن الثانی فی السنۃ فصل فی الانقطاع نورانی کتب خانہ پشاور ص۴۷۴)
مسلم الثبوت میں ہے : المرسل قول العدل قال علیہ الصلٰوۃ والسلام کذا۳۔ مرسل یہ ہے عادل کہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے یوں فرمایا۔(ت)
(۳مسلم الثبوت مسئلہ تعریف المرسل مطبع انصاری دہلی ص۲۰۱)
فواتح الرحموت میں ہے :الکل داخل فی المرسل عند اھل الاصول۴۔ اصولیوں کے نزدیک سب مرسل میں داخل ہیں۔(ت)
(۴فواتح الرحموت شرح مسلم الثبوت بذیل المستصفی مسئلہ فی الکلام علی المرسل منشورات الشریف الرضی قم ۲ /۱۷۴)
انہیں میں ہے :المرسل ان کان من صحابی یقبل مطلقا اتفاقا وان کان من غیرہ فالاکثر ومنھم الامام ابوحنیفۃ والامام مالک والامام احمد رضی اللہ تعالٰی عنہم قالو یقبل مطلقا اذا کان الراوی ثقۃ ۵الخ۔
مرسل اگر صحابی سے ہو مطلقاً مقبول ہے اوراگر غیر صحابی سے ہو تو اکثرائمہ بشمول امام اعظم،امام مالک اورامام احمد رضی اللہ عنہم فرماتے ہیں کہ مطلقامقبول ہے بشرطیکہ راوی ثقہ ہو الخ۔ (ت)
(۵فواتح الرحموت شرح مسلم الثبوت بذیل المستصفی مسئلہ فی الکلام علی المرسل منشورات الشریف الرضی قم ۲ /۱۷۴)
مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں ہے : لایضرذٰلک فی الاستدلال بہ ھٰھنا لان المقطع یعمل بہ فی الفضائل اجماعا۱۔ اس سے استدلال کرنا یہاں مضر نہیں کیونکہ فضائل میں منقطع بالاجماع قابل عمل ہے ۔(ت)
(۱ مرقاۃ المفاتیح باب الرکوع الفصل الثانی تحت الحدیث ۸۸۰المکتبۃ الحبیبیہ کوئٹہ ۲ /۶۰۲)
شفائے امام قاضی عیاض میں ہے :اخبر صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم لقتل علی وانہ قسیم النار۲۔
رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے قتل کے بارے میں خبر دیتے ہوئے فرمایا کہ بیشک وہ قسیم النار ہیں۔(ت)
(۲الشفاء بتعریف حقوق المصطفٰی فصل ومن ذلک مااطلع علیہ من الغیوب المطبعۃ الشرکۃ الصحافیۃ ۱ /۲۸۴)
نسیم الریاض میں فرمایا :ظاھر ھذان ھذا مما اخبربہ النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم الا انھم قالوا لم یروہ احدمن المحدثین الا ان ابن الاثیر قال فی النہایۃ الا ان علیا رضی اللہ تعالٰی عنہ قال انا قسیم النار قلت ابن الاثیر ثقۃ وما ذکرہ علی لایقال من قبل الرائ فھو فی حکم المرفوع ۳ اھ ملخصاً۔ ظاہر اس کا یہ ہےکہ بیشک یہ ان امور میں سے ہے جن کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے خبر دی مگر انہوں نےکہاکہ اس کو محدثین میں سے کسی نے روایت نہیں کیا مگر ابن اثیر نے نہایہ میں کہا: بیشک حضرت علی مرتضٰی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ میں قسیم نار ہوں ۔ میں کہتاہوں کہ ابن اثیر ثقہ ہے اورجو کچھ سیدنا علی المرتضٰی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ذکر فرمایا وہ قیاس سے نہیں کہا جاسکتا لہذ ا وہ مرفوع کے حکم میں ہے اھ تلخیص(ت)
(۳نسیم الریاض فی شرح شفاء القاضی عیاض ومن ذلک ما اطلع علیہ من الغیوب مرکز اہلسنت گجرات الہند ۳ /۱۶۳)
امام ابن الہمام فتح القدیر میں فرماتے ہیں :عدم النقل لاینفی الوجود۱۔ عدم نقل وجود کی نفی نہیں کرتا۔ (ت)واللہ تعالٰی اعلم
( ۱ فتح القدیر کتاب الطہارت مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۱ /۲۰)
حضور پُر نور ﷺ کی بہت پیاری سنت – مسواک کرنا
حضور پُر نور ﷺ کی بہت پیاری سنت (مسواک کرنا)
سرکارِ دو عالم تاجدارِ مدینہﷺکی سنت مبارکہ مسواک کرنا جسے آپ ﷺ نے نہایت پسند فرمایا اور ظاہری زندگی کےآخری دن تک اس کا استعمال جاری رکھا ۔ مسواک کرنا ایسی سنت ہے جسے ہرزمانے کے اولیاء اللہ نے بھی نا صرف خود اپنا یا بلکہ اپنے مریدین کو بھی اس پر عمل پیرا رہنے کی تعلیم دی۔حضرت قبلہ مرشد کریم دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالی اپنے مریدوں کومسواک کے بارے میں اکثر و بیشتر تلقین فرماتے ہیں۔ دورانِ بیعت آپ جناب عالی طالبین کو مسواک کی بھی تلقین فرماتے ہیں ، حضرت ِ والا کو مسواک سے نہایت محبت ہے اور کیوں نہ ہو کہ یہ ہمارے پیار ے سرکارِ دو عالمﷺ کی پسندیدہ سنت مبارکہ ہے۔مندرجہ زیل احادیث کے زریعے آپ ﷺ کی مسواک سے محبت کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ (آخری روز) نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حضرت عبدالرحمٰن بن ابو بکر حاضر ہوئے اور میں آپ کو سینے سے لگائے ہوئے تھی، حضرت عبدالرحمٰن کے پاس گیلی لکڑی کی مسواک تھی۔ جب رسول اللہ ﷺ نے اسکی جانب دیکھا تو میں نے ان سے مسواک لے لی ، اسے چبایا، نرم کیا اور پھر صاف کرکے نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں پیش کردی۔ آپ نے خوب مسواک کی اور اس سے پہلےاتنی خوبصورتی کے ساتھ مسواک کرتے ہوئے میں نے آپ ﷺ کو ہرگز نہیں دیکھا تھا۔ جب اس سے فارغ ہوگئے تو تھوڑی دیر بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دست مبارک یا انگشت مبارک آسمان کی جانب اٹھا کر کہا۔ اعلی کی رفاقت میں ۔ تین مرتبہ یہی کہا اور پھر انتقال فرماگئے۔ حضرت صدیقہ (رضی اللہ عنہا) فرماتی تھیں کہ بوقت وصال سرمبارک میری ہنسلی اور ٹھوڑی کے درمیان تھا۔
رواه البخاري کتاب المغازی
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہاسے رو ایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ تعا لی علیہ وسلم جب کاشانئہ اقدس میں تشریف لاتے توپہلے مسواک فرماتے ۔
۴۲۹۔ الصحیح لمسلم ، الطہارۃ، ۱/۱۲۸ السنن لابی داؤد ، الطہارۃ، ۱/۸ الجامع الصغیر للسیوطی ، ۲/۴۱۴ السنن لابن ماجہ، الطہارۃ، ۲۵۱
اگر میں اپنی اُمت پر باعثِ دُشواری نہ سمجھتا تو اُنہیں ہر نماز میں دانتوں کی صفائی کا حکم دیتا۔
(صحيح البخاري، 1 : 122)
(سنن النسائي، 1 : 6)
حضرت حزیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ جب رات کو تہجد کے لئے اٹھتے تو اپنا منہ مبارک مسواک سے صاف فرماتے تھے۔ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
اخرجہ البخاری فی الصحیح ، ابواب التھجد، باب طول القیام فی صلاۃ اللیل
مسلم فی الصحیح ، کتاب الطھارۃ، باب السواک
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺنے فرمایا: اگر مجھے میری اُمت یا لوگوں پر مشقت میں پڑجانے کا خیال نہ ہوتا تو میں اُنہیں ہر نماز کے ساتھ مسواک کا حکم دیتا۔ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
اخرجہ البخاری فی الصحیح ، کتاب الجمعہ باب السواک یوم الجمعہ مسلم فی الصحیح ، کتاب الطھارۃ، باب السواک
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺنے فرمایا:مجھے مسواک کرنے کا حکم (اس قدر تاکید کے ساتھ) دیا گیا کہ میں نے گمان کیا اس کے متعلق (مجھ پر ) قرآن احکام نازل ہوں گے۔ اس حدیث کو امام احمد اور ابو یعلی نے روایت کیاہے۔
اٗخرجہ احمد بن حنبل فی المسند ابو یعلی فی المسند
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مداومت کے ساتھ مسواک فرمایا کرتے تھے۔ آپ مسواک ہمیشہ اُوپر سے نیچے اور نیچے سے اُوپر کی طرف فرمایا کرتے تھے۔ یہی وہ طریقہ ہے جسے آجکل تجویز کیا جاتا ہے۔
مسواک کی لمبائی کم از کم ایک بالشت ہونی چاہیئے، حاشیہ طحطاویہ علٰی مراقی الفلاح میں فرماتے ہیں ۔۔۔۔
یکون طول شبرعــــــہ مستعملہ لان الزائد یرکب علیہ الشیطان۱؎مسواک جو استعمال کرنے والاہے اس کی بالشت بھرہونی چاہئے اس لئے کہ جو زیادہ ہو اس پر شیطان بیٹھتا ہے ۔(ت)
(۱؎ حاشیۃ طحطاوی علی مراقی الفلاح،کتاب الطہارۃ ،فصل فی سنن الوضوء، دار الکتب العلمیہ بیروت۱ /۴۰)
اگر چہ علامہ طحطاوی نے حاشیہ در میں فرمایا :لعل المراد من ذلک انہ ینسیہ استعمالہ اویوسوس لہ اھ ۱؎شاید اس سے مرادیہ ہے کہ وہ اسے استعمال کرنا بھلادیتا ہے یا اسے وسوسہ میں مبتلا کرتا ہے اھ ۔
( ۱؎ حاشیۃ الطحطاوی علی الدرالمختار کتاب الطہارۃ مکتبۃ العربیۃ کوئٹہ ۱ /۷۰)
جو شخص کھانا کھائے اُسے خلال کرنا چاہئے۔
(سنن الدارمي، 2 : 35)
دانتوں کے تمام ڈاکٹر بھی معیاری ٹوتھ پکس کے ساتھ خلال کو ضروری قرار دیتے ہیں کیونکہ اُس سے دانتوں کے درمیان پھنسے کھانے کے چھوٹے ذرّات نکل جاتے ہیں، جس سے بندہ منہ اور معدہ کے بہت سے اَمراض سے محفوظ رہتا ہےسرکارِ دو عالم،شاہ بنی آدم،تاجدارِ مدینہﷺنے خلال کرنے کی تعلیم دے کر اُمت کو بہت سے ممکنہ اَمراض سے محفوظ فرما دیا۔
ایک دفعہ عاجز فقیر خود حضور مرشد کریم کی بارگاہ میں حاضر تھا اور آپ وضو ءفرمارہے تھے دوران مسواک آپ نے میری جانب توجہ فرمائی اور پوچھا کہ مسواک کرتے ہو تو میں نہایت مودبانہ عرض کی کہ حضور اکثرو بیشتر کرتا ہوں جب مسواک میرے پاس موجود نہیں ہوتا تو کرنا رہ جاتا ہے تو آپ نے انتہائی رہنمائی کے انداز میں فرمایا کہ مسواک لازمی کیا کرو اس میں 70 سے زائد فوائد پوشیدہ ہیں۔ الحمدللہ مسواک کی سنت پر عمل پیرا ہونے کی توفیق مرشد کی توجہ سے حاصل ہوگئی۔
ایک پیر بھائی کی حیثیت سے آپ کو مشورہ دیتا ہوں کہ آپ بھی اسے اپنائیں اور اس کے فوائد حاصل کریں اور حدیث کا مفہوم کچھ اس طرح سے ہے کہ ‘جس نے میری (آپ ﷺ کی) ایک سنت کو زندہ کیا اسے ۱۰۰ شہیدوں کا ثواب ملے گا۔’ مسواک کو ہمیشہ جیب میں رکھیں اور جس طرح موبائل ہمیشہ جیب میں ہوسکتا ہے بالکل اسی طرح مسواک کو بھی رکھا جا سکتا ہے تاکید کے ساتھ۔ اس طرح آپ مرشد کے فرمان پر بھی عمل پیرا ہوجائیں گے۔ اللہ ہمیں عمل کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین ثم آمین بجاہ النبی رحمۃ اللعلمین صلی اللہ علیہ وآلہ واصحبہ اجمعین۔
سوانح حیات کی اشاعت
حضرت مرشد کریم قبلہ سید غلام حسین شاہ دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالیہ سے متعلق سوانح حیات جلد مرتب ہوگی اور ہماری ویب سائیٹ پر تعارفِ مرشد کے سیکشن میں شائع ہوگی، جسکے لیئے عالم اسلام کے معتبر عالم دین حضرت مولوی محمد علی صاحب کی خدمات لی جائیں گی جوکہ جلد حضرتِ والا کے بارے میں ہمیں معلومات فراہم کریں گے۔
آذان میں اسم محمد صلی اللہ علیہ وسلم سنکر انگوٹھے چومنا
سوال ۔ اہل سنت اذان و اقامت میں نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا اسم گرامی سن کر انگوٹھے چومتے ہیں ، اس کی کیا دلیل ہے ؟ بعض لوگ اس مسئلے میں بھی شدید مخالفت کرتے ہیں ۔
جواب ۔ اذان میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسم گرامی سن کر اپنے دونوں انگوٹھے چوم کر آنکھوں سے لگانا جائز و مستحب اور باعث خیر و برکت ہے۔ اس کے جواز پر متعدد احادیث اعلی حضرت محدث بریلوی رحمہ اللہ نے اپنی تصنیف (منیر العین فی حکم تقبیل الابہامین) میں نقل فرمائی ہیں جبکہ اس سے ممانعت پو کوئی دلیل نہیں ہے۔
علامہ اسماعیل حقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں، (اللہ تعالی نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے جمال کو حضرت آدم علیہ السلام کے دونوں انگوٹھوں کے ناخنوں میں مثل آئینہ ظاہر فرمایا۔ حضرت آدم علیہ السلام نے اپنے انگوٹھوں کو چوم کر آنکھوں پر پھیرا ، پس یہ سنت ان کی اولاد میں جاری ہوئی)۔ (تفسیر روح البیان جلد ۴ ص ۶۴۹)
امام ابو طالب محمد بن علی مکی رحمہ اللہ اپنی کتاب قوت القلوب میں ابن عینیہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نماز جمعہ ادا کرنے کے لیے دس محرم کو مسجد میں تشریف لائے اور ستون کے قریب بیٹھ گئے۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اذان میں آپ کا نام سن پر اپنے انگوٹھوں کے ناخنوں کو اپنی آنکھوں پر پھیرا ، اور کہا ، (قرہ عینی بک یا رسول اللہ) ۔ (یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آ پ میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہیں) ۔
جب حضرت بلال رضی اللہ عنہ اذان سے فارغ ہوئے تو آقا و مولی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اے ابو بکر ! جو تمہاری طرح میرا نام سن کر انگوٹھے آنکھوں پر پھیرے اور جو تم نے کہا وہ کہے، اللہ تعالی اس کے تمام نئے پرانے، ظاہر و باطن گناہوں سے درگزر فرمائے گا۔ (ایضا ، صفحہ ۶۴۸)
امام سخاوی ، امام دیلمی کے حوالے سے فرماتے ہیں، (حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے جب موذن سے (اشھد ان محمدا رسول اللہ) سنا تو یہی جواب میں کہا اور اپنی شہادت کی انگلیاں زیریں جانب سے چوم کر آنکھوں سے لگائیں۔ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جو میرے اس پیارے دوست کی طرح کرے اس کے لیے میری شفاعت حلال ہوگئی۔
(المقاصد الحسنہ)
امام سخاوی، امام محمد بن صالح مدنی کی تاریخ سے نقل فرماتے ہیں کہ انہوں نے امام مجد دمصری کو یہ فرماتے سنا کہ جو شخص آذان میں آقا و مولی صلی اللہ علیہ وسلم کا نام مبارک سن کر درود پڑھے اور اپنی شہادت کی انگلیاں اور انگوٹھے ملا کر انکو بوسہ دے اور آنکھوں پر پھیرے ، اس کی آنکھیں کبھی نہ دکھیں گی۔ (ایضا)
فقہ کی مشہور کتاب رد المختار جلد اول صفحہ ۳۷۰ پر ہے ، ( مستحب ہے کہ اذان میں پہلی بار شہادت سن کر ( صلی اللہ علیک یارسول اللہ ) اور دوسری بار شہادت سن کر ( قرہ عینی بک یا رسول اللہ ) کہے ، پھر اپنے انگوٹھے چوم کر اپنی آنکھوں پر پھیرے اور یہ کہے ، ( اللھم متعنی بالسمع والبصر ) تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم اسے اپنے ساتھ جنت میں لے جائیں گے ۔ ایسا ہی کنز العباد امام قہستانی میں اور اسی کی مثل فتاوی صوفیہ میں ہے)۔
اسی طرح کتاب الفردوس ، شرح نقایہ ، طحطاوی اور بحر الرئق کے ہواشی رملی میں ہے اور حاشیہ تفسیر جلالین میں یوں ہے کہ (ہم نے اس مسئلے پر اس لیے طویل گفتگو کی کیونکہ بعض لوگ جہالت کی وجہ سے اس مسئلے میں اختلاف کرتے ہیں) ۔ حنفی علماء کے علاوہ شافعی علماء اور مالکی علماء نے بھی انگوٹھے چومنے کو مستحب قرار دیا ہے۔
بعض لوگ یہ اعتراض کر تے ہیں کہ اس بارے میں کوئی صحیح مرفوع حدیث نہیں ہے، سب احادیث ضعیف ہیں۔ لہذا ضعیف حدیث شرعی دلیل نہیں بن سکتی۔ یہ اعتراض فن حدیث سے جہالت پر مبنی ہے۔ محدثین کا یہ فرمانا کہ(یہ احادیث رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک مرفوع ہو کر صحیح نہیں) یہ ثابت کرتا ہے کہ یہ احادیث موقوف صحیح نہ ہونے سے ضعیف ہونا لازم نہیں آتا۔ ان کے علا و ہ بھی احادیث کے کئی درجے ہیں جن میں بد تر درجہ موضوع ہے جبکہ (فضائل اعمال میں ضعیف حدیث بالا جماع مقبول ہے)۔ (مرقاہ ، اشعتہ اللمعات)
انگوٹھے چومنے سے متعلق حدیث موقوف صحیح ہے چنانچہ محدث علی قادری رحمہ اللہ فرماتے ہیں، (میں کہتا ہوں جب اس حدیث کا رفع حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ تک ثابت ہے تو عمل کے لیے کافی ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے، میں تم پر لازم کرتا ہوں اپنی سنت ار و اپنے خلفاء راشدین کی سنت)۔ (موضوعات کبیر ص ۶۴)
عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، ولی کامل ، اعلی حضرت بریلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ،
لب پا آجاتا ہے جب نام جناب ، منہ میں گھل جاتا ہے شہد نایاب
وجد میں ہو کے ہم اے جان بیتاب ، اپنے لب چوم لیا کرتے ہیں
رسالہ
(۱۳۰۱) منیر العین فی حکم تقبیل الابھامین (۱۳۰۱) فتاوی رضویہ
آیا ہے بُلاوا مجھے دربار نبی ﷺ سے
فقیرو جھوم اٹھو ماشاء اللہ الحمدللہ حضرت قبلہ سائیں مرشد کریم دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالیہ جلد عمرہ کے سفر پر روانہ ہونے والے ہیں ، دعا فرمائیں آپ قبلہ مرشدِ پاک خیر و عافیت کے ساتھ تمام ارکانِ عمرہ کو پورا فرمائیں اور صحت و سلامتی کہ ساتھ واپس تشریف لائیں۔ حضورمرشد کریم کرم فرماتے ہوئے ہم غریبوں، فقیروں اور غمخواروں کو بھی اپنی دعاء میں ضرور یاد فرمائیں گے۔
نور محمد صلی اللہ علیہ وسلم
شیخ الاسلام حضرت ڈاکٹر محمد طاہر القادری (دامت برکاتہم) کی بہت ہی اعلی تصنیف ( ںور محمدﷺ )۔