سوانح حیات حضرت پیر مٹھا سائیں رحمۃ اللہ علیہ

logo

الحمدللہ رب العالمین، والصلاۃ والسلام علٰی اشرف الانبیاءِ والمرسلین
وعلٰی آلہِ وصحبہِ اجمعین وبعد

 

پیرطریقت ، آفتابِ ولایت، قطبِ عالم غوث زمان سیدی و مرشدی حضرت خواجہ محمد عبدالغفار عرف پیر مٹھا رحمۃ اللہ علیہ کی نورانی شخصیت محتاجِ تعارف نہیں۔ آپ عالم، عابد و زاہد ، متقی تھے۔آپ نہ صرف عاشقِ خدا اور صوفی با صفا تھے بلکہ جید عالمِ دین، مفسر ، محدث اور فقیہ بھی تھے۔
آپ علمبردارِ عشقِ رسول ﷺ تھے۔ قافلہ عُشاق کے سالارتھے۔ سلسلہ عالیہ نقشبندیہ کے تاجدار تھے۔ ظاہری و باطنی علوم کے مجمع البحار تھے۔ اپنی نورانی نگاہوں سے لاکھوں دلوں کو زکرِ الٰہی سے سرشار کیا۔ لاکھوں انسانوں کی زندگیوں کو بدل کر رکھ دیا۔ سندھ کی فضاء اللہ اللہ کی ضربوں سے گونج اٹھی۔

خانوادہ پیر مٹھا سائیں رحمۃ اللہ علیہ
قطب ِ عالم حضرت پیر مٹھا سائیں رحمتہ اللہ علیہ کا تعلق برصغیر کے معزز و محترم گھرانے چنڑ قبیلہ سے تھا۔آپ کا نسب سولہ واسطوں سے قطب الاولیاء حضرت مخدوم عماد الدین عرف چنن پیر یا چنڑ پیر رحمۃ اللہ علیہ کے بھائی محمد اُویس رحمۃ اللہ علیہ سے ملتا ہے ، جن کی مزار صوبہ پنجاب کے شہر بھاولپور کے جنوب مشرق میں چالیس کلومیٹر کے فاصلہ پر ریگستانی علاقہ میں ریت کے ایک ٹیلے پر واقع ہے ۔ آپ پنجاب کے بھٹائی تھے کیوں کہ آپ کا مزار ایک بھٹ پر واقع ہے ۔ آپ بڑے پایہ کے ولی تھے۔
حضرت مخدوم چنڑ پیر کے خانوادہ میں سے کچھ افراد بستی لنگر میں آکر قیام پزیر ہوئے جو ضلع ملتان کے تحصیل جلالپور پیر والا کے قریب واقع ہے۔ ماضی میں یہ علاقہ دو دریاؤں چناب اور سُتلج کے درمیان ہونے کی وجہ سے دھلی اور ایران کی آبی گزر گاہ تھی ۔ یہ علاقہ اپنی تہزیب تمدن کے اعتبار سے بڑی قدیم اور سلجھی ہوئی تہذیببوں میں شمار ہوتا ہے۔ اس علاقہ کو سرائیکی وسیب بھی کہتے ہیں۔ یہاں کے لوگ طبعاً سخی فیاض مہمان نواز ہیں ان کی زبان سرائیکی ہے ۔ یہاں کی زمینیں بڑی سرسبز و شاداب ہیں۔

ابوالعلماء حضرت مولانا یار محمد رحمۃ اللہ علیہ۔
علم و معرفت فقر و درویشی حضرت چنن پیر رحمۃاللہ علیہ کے اس خاندان کا علمی ورثہ تھا۔ آپ کی پندرھویں پشت میں ایک خوشنصیب فرد پیدا ہوا جسکا نام یار محمد تھا۔ رب قدیر نے انکو علمی و روحانی دولت سے مزین فرمایا تھا۔ آپ کتب کثیرہ کے مصنف اور موئلف بھی تھے۔ معراج نامہ ، رسالہ نصیحت ، چھل حدیث ، قصص الانبیاء وغیرہ انکی قلمی کاوش تھی۔
حضرت مولانا یارمحمد رحمۃ اللہ علیہ کی شادی اپنے ہی خاندان کی ایک عابدہ زاہدہ بی بی من بھانونی سے ہوئی جن کے بطن مبارک سے انہیں چار فرزند پیدا ہوئے۔ جو کہ چاروں عالم و فاضل تھے۔
۔۱ مولانا اشرف
۔۲ مولانا عبدلرحمن
۔۳ مولانا حضرت پیر عبدالغفار عرف پیر مٹھا سائیں
۔۴ مولانا عبدالستار

ولادت باسعادت
حضرت قبلہ عبدالغفار رحمۃ اللہ علیہ آج سے کوئی ایک سو بیس سال قبل لنگر شریف میں ولادت ہوئی ۔ آپ کے پہلے استاد آپ کے والد گرامی حضرت مولانا یار محمد رحمۃ اللہ علیہ تھے جو بڑے پایہ کے عالم تھے۔ بڑے خوشخو و خوش مزاج تھے۔ کچھ عرصے بڑے بھائی مولانا اشرف کے زیرِ تعلیم رہے ۔
دورۂ حدیث آپ نے شیخ الاسلام مفتی ٔ ہند علامہ عاقل محمد رحمۃاللہ علیہ (ولادت :1813 وفات :1923) کے پاس مکمل کیا، جن کا سلسلہ نسب اکیسویں پشت میں حضرت غوث بہاوالحق ملتانی رحمۃ اللہ علیہ سے ملتا ہے، جو عرب کے مشہور عالم حضرت شیخ احمد زینی و دھلان کے شاگرد تھے۔ علامہ دھلان حضرت مولانا احمد رضافاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ اور خواجہ محمد حسن جان سرہندی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ کے بھی استاز تھے۔ اس نسبت سے اعلٰی حضرت اور حضرت پیر مٹھا سائیں ایک ہی استاز کے فیضِ علم سے بہرور ہوئے ۔ آپ دھلان کے شاگرد کے شاگرد تھے۔

علم طریقت کا حصول
حضرت پیر مٹھا سائیں رحمۃ اللہ علیہ ظاہری علوم سے فراغت کے بعد حضرت حافظ فتح محمد قادری رحمۃاللہ علیہ (ولادت:1835 وفات :1917) کے صحبتوں میں جایا کرتے تھے جو آپ کے خاندان کے پیر و مرشد تھے۔ حضرت حافظ صاحب مستجاب دعوات ، عالم با عمل متّقی متوکل بزرگ تھے۔
حضرت پیر مٹھا سائیں رحمۃ اللہ علیہ ابھی علم سلوک میں تشنۂ تکمیل تھے کہ حافظ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا انتقال ہوگیا۔ پھر آپ روحانیت کے متلاشی ہی تھے کہ مولانا الٰہی بخش بیٹ کیچ والے کی زبانی حضرت پیر فضل علی قریشی رحمۃاللہ علیہ (ولادت:1270ھ وفات :1354ھ) کی تعریف سُنی اور انکے روحانی تصرفات کے چرچے سنے، جو اُن دنوں سیکڑوں گاؤں میں قیام پزیر تھے۔ روحانی کشش آپ کو کشاں کشاں حضرت قریشی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں لائی۔ جوں ہی آکر ذکر قلبی حاصل کیا تو دل میں ذکر الٰہی جاری ہوگیا۔ رگ و پے میں اللہ اللہ کی آوازیں آنے لگیں محض قلبی ذکر کرنے سے سلطان الاذکار بھی جاری ہوگیا۔ آپ کے جسم پر لرزہ طاری ہوگیا۔ آنکھوں کی نیند اڑگئی اورایک عشق و مستی کی کیفیت ہر وقت طاری ہونے لگیں۔ اس طرح تین سال تک یہی کیفیات ِ عشق و محبت جاری رہیں۔

آپ کو اپنے پیر و مرشد سے والہانہ محبت تھی۔ اکثر اوقات آپ کی صحبتوں میں رہتے تھے۔ دیس و پردیس آپ کے رفیق و یار غار رہتے اور اکتساب فیوضاتِ روحانی کرتے رہتے تاآنکہ حضرت قریشی کریم نے آپ کو خلعت خلافت سے سرفراز فرمایا۔ حضرت قریشی کے خلفاء تو بہت تھے مگر جو مقام حضرت پیر مٹھا سائیں رحمۃ اللہ علیہ کو ملا وہ کسی کو نہیں مل سکا۔آپ نے اپنی مورثی زمین زرعی ایراضی اپنے مرشد کو ھبہ کردی۔ اپنی بیٹی اپنے پیر کے حبالہ ء نکاح میں دے دی ۔ ہر وقت خدمت گزار رہتے۔ قریشی کریم کے لنگر خانہ اور مہمانوں کی خدمت مین ھمہ تن گوش مصروف رہتے۔
آپ نے ایک جگہ سکونت اختیار نہیں کی۔ جہاں جہالت کا اندھیرا دیکھا وہاں مسکن بنالیا ۔ پورا علاقہ آپ کے روحانی فیوضات سے مستفیذ ہوا۔ تبلیغی مقاصد مکمل ہوئے تو پھر کسی اور مقام کا انتخاب فرمایا۔ اس طرح آپ نے سندھ ، پنجاب اور بلوچستان میں سترا (17) جگہوں پر قیام فرمایا۔
گو خلافت و اجازت کے بعد تبلیغ کے سلسلہ میں آپ بکثرت سندھ میں تشریف لاتے تھے ، لیکن عاشق آباد نامی مستقل مرکز پنجاب ہی میں بنایا تھا، جہاں حضرت قریشی بھی تشریف فرماہوئے تھے۔ اس دوران سندھ کے بہت سارے فقراء سندھ اور پنجاب کے تبلیغی سفر میں ساتھ ہوتے اور مرکز عاشق آباد کی تعمیر میں عملی طور پر شامل رہے۔

لیکن ان کے دل کی خواہش یہی تھی کہ کسی صورت حضرت پیر مٹھا سندھ میں مستقل قیام فرمائیں چناچہ جب فقراء کی دعوت پر چند مرتبہ دریائے سندھ کے مغربی کنارے مقیم مسکین فقراء کے یہاں تشریف فرماہوئے ، جو مختلف بستیوں سے نقل مکانی کرکے محض زکرو فکر اور شریعت پر عمل کرنے کی خاطر چھوٹی سی بستی بناکررہ رہے تھے۔ فقراء کی محبت ، شریعت مطہرہ پر عمل و استقامت دیکھ کر آپ بہت خوش ہوئے اور انکی گزارش پر خود بھی پنچاب سے نقل مکانی کرکے وہاں آکر آباد ہوئے اور اس بستی کا نام دین پور تجویز کیا گیا۔

رحمت پور شریف کا قیام
اُنڑ پور قیام کے بعد جیسے ہی آپ دین پور جانے کے لئے رادھن اسٹیشن پر پہنچے ، دریائی سیلاب کی وجہ سے دین پور جانے کا راستہ بند ہوچکا تھا۔ کچھ دن رادھن اسٹیشن پر قیام فرمانے کے بعد لاڑکانہ کے فقراء کی دعوت پر لاڑکانہ تشریف لے گئے۔ جتنے دن لاڑکانہ میں قیام فرمایا،دُور و نزدیک کے فقراء مسلسل آتے رہے، تبلیغ دین کا کام بھی خوب ہوا۔ مقامی فقراء نے موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے مستقل طور پر لاڑکانہ میں رہنے کی خواہش کی کہ یہ بڑا شہر ہے ۔ آمدورفت کی تمام سہولتیں موجود ہیں، اس لیئے دین پور سے بڑھ کر یہاں دین کا کام ہوسکتا ہے ۔ ان کی یہ تجویز چونکہ للّٰہیت پر مبنی تھی اور آپ کی زندگی ویسے بھی دین کی اشاعت و خدمت کے لیئے وقف تھی، آپ نے حامی بھر لی اور اس طرح درگاہ رحمت پور کا قیام عمل میں آیا۔

درگاہ رحمت پور شریف کے قیام کے دوران آپ نے شریعت و طریقت کی ترویج و اشاعت کے لیئے کارہائے نمایاں انجام دیئے۔ اندرونِ ملک کے علاوہ بنگال اور ایران تک آپ کا پیغام پہنچا۔ لاکھوں کی تعداد میں دین سے دور ، نفس و شیطان کے پھندوں میں جکڑے ہوئے افراد کی اصلاح ہوئی۔ نہ معلوم کتنے چور، ڈاکو ، شرابی تائب ہوکر متقی و پرہیزگار بنے۔ نیز آپ کے خلفاء کرام جن کی تعداد 140 بتائی جاتی ہے ۔ سندھ ، پنجاب، سرحد و بلوچستان میں تبلیغی خدمات انجام دیتے رہے اور ہر جگہ غیر معمولی مقبولیت حاصل ہوتی رہی۔ آپ کو امّت محمدیہ ﷺ کی اصلاح کا اس قدر فکر دامن گیر رہتا تھا کہ مسلسل کئی کئی گھنٹے خطاف کرنا آپ کے معمولات میں شامل تھا۔

اکثر و بیشتر روزانہ نمازِ فجر کے بعد ذکر اللہ کا حلقہ مراقبہ کرانے کے بعد جیسے ہی وعظ شروع فرماتے ، گیارہ بجے تک مسلسل خطاب جاری رہتا تھا۔ اس دوران یکے بعد دیگر ے سامعین ضروریات کے لیئے اٹھتے تھے لیکن آپ پر تبلیغی محویت کا یہ عالم ہوتا تھا کہ بعض اوقات ظہر کی نماز تک یہ سلسلہ جاری رہتا اور آپ نماز ظہر اد ا فرما کر حویلی مبارک میں تشریف لیے جاتے تھے۔ بعض اوقات فرماتے تھے کہ مجھے مجلس ذکر سے اٹھنے کے لئے صرف دو چیزیں مجبور کرتی ہیں (1) نماز (2) سامعین کی تھکاوٹ کا احساس ، سبحان اللہ۔ ظہر سے عصر تک گھر تشریف فرمارہنے کے بعد نماز عصر کے لیئے مسجد تشریف لاتے اور عصر کے بعد سے مغرب تک وعظ فرماتےتھے۔

عمر رسیدہ ہونے کے باوجود آپ کے ان معمولات میں نہ فقط یہ کہ فرق نہیں آیا بلکہ مزید اضافہ ہوتا رہا۔ یہاں تک کہ بعض اوقات نمازِ عشاء کے وقت تک کھڑے کھڑے کئی گھنٹہ خطاب فرمایا۔ مرض الموت میں جامع مسجد رحمت پور شریف میں بروزِ جمعہ مسلسل چھ گھنٹے خطاب فرمایا۔ حالانکہ نقاہت اور کمزوری کا یہ عالم تھا کہ چلنے پھرنے کی سکت مطلقاً نہ تھی ۔ نماز کے لیئے پہیوں والی کرسی (وہیل چیئر) پر لائے گئے تھے۔ پھر بھی نمازِ باجماعت اور تبلیغ دین میں فرق آنے نہیں دیا۔

اوصاف حمیدہ
توکّل، تقویٰ، صبر و شکر ، خدمتِ خلق و دیگر اوصافِ حمیدہ آپ کے پاکیزہ خمیر میں شامل تھی۔ چناچہ عام بازار کی بنی ہوئ چیزوں مثلاً مٹھائی، گُڑ ، ہوٹل کے کھانے اور مارکیٹ کے گوشت سے مکمل پرہیز کرتے تھے۔ گو یہ چیزیں حلال ہیں لیکن عام طور پر ان میں ضروری پاکیزگی اور صفائی کا خیال نہیں رکھا جاتا، اس لیئے یہ مشتبہ کے زمرہ میں آتی ہیں، جن سے بچنے کے لیئے خود رسول اللہ ﷺ نے تاکید فرمائی ہے۔ آپ کے اس تقویٰ کا جماعت پر بھی نمایاں اثر پایا جاتا تھا۔ خلفاء کرام سفر میں جاتے وقت ستو، میٹھی روٹی (جوکہ کئی دن تک استعمال کی جاسکتی ہے ) اور نمک مرچ اپنے پاس رکھتے جسے بطور سالن استعمال کرتے تھے لیکن کھانے کا سوال کسی سے نہیں کرتے تھے۔

توکّل: حضرت پیر مٹھا کمال درجہ کے متوکّل تھے ۔ فقراء کی آمد مسلسل رہتی تھی۔ سو ، دو سو مسافر روزانہ ہوتے تھے، گیارہویں شریف کے جلسے میں ہزاروں کی تعداد میں اہل ذکر ہوتے تھے۔ کوئی دو دن رہتاکوئی ایک ہفتہ ، لیکن تمام مہمانوں کے لیے ایک ہی قسم کا لنگر ہوتا۔ کسی سے سوال کرنا تو کچا ، خود جلسوں کے موقع پر عموماً یہ اعلان فرماتے تھے کہ آپ بکثرت تشریف لائیں ، مل کر اللہ اللہ کریں ، آپ بے فکر رہیں ، قیامت تک آپ سے سوال نہیں کیا جائے گا۔ زکوٰۃ ، صدقات، خیرات بھی اپنے پڑوس والوں اور رشتہ داروں کو دیں، دربار شریف پر جس قدر زیادہ جماعت آتی، آپ اسی قدر زیادہ خوش ہوتے تھے۔ کوئی کتنا ہی بڑا آدمی کیوں نہ ہوتا ، آپ کے نزدیک اس کی حیثیت ایک سیدھے سادھے مسکین سے زیادہ نہیں ہوتی تھی بلکہ غریبوں مسکینوں سے آپ کو اور زیادہ محبت ہوتی تھی۔ مستغنی اس قدر کہ لاڑکانہ کے بڑے بڑے رئیس دعاء کے لئے حاضر ہوتے تو آپ صاف صاف الفاظ میں نماز ، داڑھی ، خوفِ خدا ، غریبوں سے ہمدردی کی تلقین فرماکر دعا کرتے لیکن کبھی ان سے ایک پیسے کا بھی دنیا وی فائدہ حاصل نہیں کیا۔ آپ اپنے متعلقین و احباب کو توکّل و استغنا کا امر کرتے اور کسی سے سوال ، چندہ کرنے سے سختی سے منع فرماتے تھے۔ چناچہ آپ کے ملفوظات (جو کہ مولانا مفتی عبدالرحمن صاحب نے جمع کئے) میں ہے کہ ایک مرتبہ دوران خطاب ارشاد فرمایا: مجھے مکانات بنانے اور عمدہ مکانات میں رہنے کی رغبت نہیں اور سوال کرنے سے سخت بیزار اور اس کا مخالف ہوں۔ گھر میں اہلخانہ کو قرآن مجید پر ہاتھ رکھوا کر عہد لیا کہ کسی سے سوال نہیں کریں گے۔ اگر کسی قسم کا کام ہوتو مجھے بتادیں۔ اگر مناسب ہوگا تو میں خود انتظام کردوں گا ورنہ نہیں۔ باقی خلفاء یا کسی فقیر کو درگاہ شریف کے کام کے سلسلے میں (بھی) نہیں کہیں۔

اتباعِ سنت: بلاشبہ آپ سر تا پا سنتِ رسول ﷺ کے عملی نمونہ تھے۔ اور یہی آپ کی سب سے بڑی کرامت تھی۔
درگاہ رحمت پور شریف میں تو آپ نے عملی طور پر نظامِ مصطفٰی ﷺ؀ نافذ کرکھا تھا۔ لیکن بیرون درگاہ رہنے والے اہل ذکر فقراء بھی داڑھی ، نماز باجماعت ، مسواک ، عمامہ کے پابند تھے اور خلافِ شرع رسم و رواج سے پرہیز کرتے اور اہل ذکر خواتین ، شرعی پردہ کا اس قدر اہتمام کرتیں کہ بہت سے علماء بھی یہ دیکھ کر دنگ رہ جاتے ۔ نیز یہ حقیقت اور بھی زیادہ اہم اور قابل قدر ہے کہ آپ کی جماعت میں آکر ، خواتین و حضرات یکساں مستفیذ ہوئے، جب کہ مردوں کی اصلاح کے لیئے تو الحمدللہ پہلے بھی بہت سے علماء اور پیروں نے اصلاحی کوششیں کی تھیں،لیکن خواتین کی اصلاح اور ان میں نیکی، تقویٰ کا شوق ، شریعت مطہرہ کے عین مطابق شرعی پردہ کا اہتمام جو آپ کی جماعت میں پایا جاتا تھا اور آج تک پایا جاتا ہے ، کم از کم آج تک کہیں اور نظر نہیں آیا۔ شریعت مطہر ہ کی پابندی اور آپ کے خلوص و للّٰہیت کا عمدہ ثمر تھا کہ بڑے بڑے با اثر افراد کی مخالفت اور تمام تر توانائیاں صرف کرنے کے باوجود آپ کی خداداد مقبولیت میں زرّہ بھر کمی نہ ہوئی بلکہ اسمیں برابر اضافہ ہوتا رہا اور آج تک بالواسطہ آپ کے فیوض و برکات اندرون و بیرون ملک پھیلتے ہی جا رہے ہیں۔ فَال حَمدُ لِللہِ عَلیٰ ذالِک

انتقال پر ملال
عمر مبارک کے آخری ایام میں آپ اکثر و بیشتر یہ قطعہ پڑھا کرتے تھے
سرتے پھلاں کھاری، کوئی ونجن والا ہووے سجنا میں ونجاں واری
آخری ایام میں جوں جسمانی عوارضات نے گھیرا تو آپ کا جوش تبلیغ بڑھتا گیا۔ مسلسل چار پانچ گھنٹے تبلیغ کرتے رہتے۔ بالآخر شعبان المعظم 1384ھ رات کو ساڑھے گیارہ بجے لاکھوں عشاق کو داغ مفارقت دیکر اللہ سے جاملے۔ اِنَّا لِللہِ وَاِنَّا اِلَیہِ رَاجِعُون۔

آپ کی دختر مخدومہ کے بقول جو آخری الفاظ آپ کی زبان ِ مبارک سے ادا ہوئے وہ یہ تھے۔
رَبَّنَا ہَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَ ذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعْیُنٍ وَّ اجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیۡنَ اِمَامًا

قطعہ تاریخ
مولانا نورالدین “انور” فضل آبادی نے حروف ابجد میں یہ قطعہ لکھا ہے:
“فیاض، عارف ، طبیب ، احسن ” عجیب عامل قرآن تھا-1384ھ
“غفار ، عاشق ، امین ، سالک” خطیب کامل بیان تھا -1964ء
آپ کی نماز جنازہ آپ کے فرزند دلبند خواجہ محمد خلیل الرحمن رحمۃ اللہ علیہ نے پڑھائی اور آپ کا جسد عنبرین آپ کی مسجد غفاری کے جنوب میں دفنایا گیا۔ جہاں آپ کی مزار پرانوار دربار رحمت پور لاڑکانہ میں آج بھی زیارت گاہ عام و خواص ہے۔

اولاد
ایک بیٹا : خواجہ محمد خلیل الرحمن رحمۃ اللہ علیہ
تین بیٹیاں
۔۱ بی بی آسیہ               (زوجہ خواجہ فضل علی قریشی رحمۃاللہ علیہ)۔
۔۲ بی بی غلامِ بتول      (زوجہ مولانا محمد سعید)۔
۔۳ بی بی آمتہ الکریم   (والدہ محترمہ جناب دیدہ دل )۔

مزکورہ معلومات کتاب دیوانِ غفاریہ سے لی گئی ہے جسے حضرت دیدۂ دل نواسلہ پیر مٹھا رحمۃ اللہ نے مرتب کیا ہے۔

 

 

One Response to “سوانح حیات حضرت پیر مٹھا سائیں رحمۃ اللہ علیہ”

  • faqeer Asghar hussaini:

    سبحان الله حضرت پیر میٹھا سائیں رہمتاللہ علیہ جو کے
    ہمارے پیر حضرت سید غلام حسسیں شاہ بخاری کے مرشد ہیں جن کا تذکرہ پڑھتے ہمارا دل باغ بہار ہو گیا ، الله کریم آپ کی اس کوشش کو اپنے محبوب کے صدقے قبول فرماے ، اور قیامت کے دیں آقا وہ مولا کی شفاعت نصیب فرماے .آمین
    آپ سے ہماری ایک گزارش ہے کے ہمارے مرشد کریم حضرت قبلہ سید غلام حسسیں شاہ بخاری قمبر شریف والے کی زندگی کے بارے مین مواد بھجیں . شکریہ …….. عرضدار فقیر اصغر علی ابڑو حسسینی حیدرآباد .

Leave a Reply

Enable Google Transliteration.(To type in English, press Ctrl+g)