Author Archive
ا س ذات اقدس کے سائے کی نفی جس کے نور سے ہر مخلوق منور ہوئی
(ا س ذات اقدس کے سائے کی نفی جس کے نور سے ہر مخلوق منور ہوئی)
مسئلہ۴۳ : کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہ وسلم کے لئے سایہ تھایانہیں ؟ بینواتوجروا (بیان فرمائیے اجردئے جاؤ۔ت)
الجواب
ہم اللہ کی حمدبیان کرتے ہیں اوراس کے رسول کریم پر درود بھیجتے ہیں ۔ تمام تعریفیں اللہ تعالٰی کیلئے ہیں جس نے تمام اشیاء سے قبل ہمارے نبی کے نور کو اپنے نور سے بنایا ، اورتمام نوروں کے آپ کے ظہور کے جلووں سے بنایا۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم تمام نوروں کے نور اورہر شمس وقمر کے ممدہیں ۔ آپ کے رب نے اپنی کتاب کریم میں آپ کانام نور اورسراج منیر رکھا ہے ۔ اگر آپ جلوہ فگن نہ ہوتے تو سورج روشن نہ ہوتا ، نہ آج کل سے ممتاز ہوتااورنہ ہی خمس کے لئے وقت کا تعین ہوتا۔ اللہ تعالٰی آپ پر درودنازل فرمائے اور آپ کے نور سے مستنیر ہونے والوں پر جو مٹ جانے سے محفوظ ہیں۔ اللہ تعالٰی ہمیں ان سے بنائے دنیا میں اوراس دن جس میں نہیں سنائی دے گی مگر بہت آہستہ آواز۔(ت)
بیشک اس مہر سپہر اصطفاء ماہ منیر اجتباء صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے لئے سایہ نہ تھا،اور یہ امر احادیث واقوال علماء کرام سے ثابت اوراکابر ائمہ وجہابذفضلاء مثل حافظ رزین محدث وعلامہ ابن سبع صاحب شفاء الصدور وامام علامہ قاضی عیاض صاحب کتاب الشفاء فی تعریف حقوق المصطفٰی وامام عارف باللہ سیدی جلال الملۃ والدین محمد بلخی رومی قدس سرہ، وعلامہ حسین بن دیار بکری واصحاب سیرت شامی وسیرت حلبی وامام علامہ جلال الملّۃ والدین سیوطی وامام شمس الدین ابوالفرج ابن جوزی محدث صاحب کتاب الوفاء وعلامہ شہاب الحق والدین خفاجی صاحب نسیم الریاض وامام احمد بن محمد خطیب قسطلانی صاحب مواہب لدنیہ ومنہج محمدیہ وفاضل اجل محمد زرقانی مالکی شارح مواہب وشیخ محقق مولانا عبدالحق محدث دہلوی وجناب شیخ مجدد الف ثانی فاروقی سرہندی وبحرالعلوم مولانا عبدالعلی لکھنوی وشیخ الحدیث مولانا شاہ عبدالعزیز صاحب دہلوی وغیرہم اجلہ فاضلین ومقتدایان کہ آج کل کے مدعیان خام کا رکوان کی شاگردی بلکہ کلام سمجھنے کی بھی لیاقت نہیں ، خلفاً عن سلف دائماً اپنی تصنیف میں اس کی تصریح کرتے آئے اورمفتی عقل وقاضی نقل نے باہم اتفاق کر کے اس کی تاسیس وتشیید کی۔
فقد اخرج الحکیم الترمذی عن ذکوان ان رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم لم یکن یرٰی لہ ظل فی شمس ولا قمر ۱۔
حکیم ترمذی نے ذکوان سے روایت کی کہ سرورعالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا سایہ نظر نہ آتا تھا دھوپ میں نہ چاندنی میں ۔
(۱الخصائص الکبرٰی بحوالہ الحکیم الترمذی باب الآیۃ فی انہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم لم یکن یرٰی لہ ظل مرکز اہلسنت گجرات ہند ۱ /۶۸)
سیدنا عبداللہ بن مبارک اورحافظ علامہ ابن جوزی محدث رحمہمااللہ تعالٰی حضرت سیدنا وابن سید نا عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہماسے روایت کرتے ہیں :
قال لم یکن لرسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ظل ، ولم یقم مع شمس قط الاغلب ضؤوہ ضوء الشمس ، ولم یقم مع سراج قط الاغلب ضوؤہ علی ضوء السراج۱۔
یعنی رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے لئے سایہ نہ تھا ، اور نہ کھڑے ہوئے آفتاب کے سامنے مگر یہ ان کا نور عالم افروز خورشید کی روشنی پر غالب آگیا، اورنہ قیام فرمایا چراغ کی ضیاء میں مگر یہ کہ حضورکے تابش نور نے اس کی چمک کو دبالیا۔
(۱الوفاء باحوال المصطفٰی الباب التاسع والعشرون مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آباد ۲ /۴۰۷)
امامِ علام حافظ جلال الملۃ والدین سیوطی رحمہ اللہ تعالٰی نے کتاب خصائصِ کُبرٰی میں اس معنی کے لئے ایک باب وضع فرمایا اوراس میں حدیث ذکوان ذکر کے نقل کیا:قال ابن سبع من خصائصہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ان ظلہ کان لایقع علی الارض وانہ کان نورا فکان اذا مشٰی فی الشمس اوالقمر لاینظر لہ ظل قال بعضھم ویشھد لہ حدیث قول صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فی دعائہ واجعلنی نورا۲۔
یعنی ابن سبع نے کہا حضور کے خصائص کریمہ سے ہے کہ آپ کا سایہ زمین پر نہ پڑتا اورآپ نو رمحض تھے ، تو جب دھوپ یا چاندنی میں چلتے آپ کا سایہ نظر نہ آتا ۔ بعض علماء نے فرمایا اس کی شاہد ہے وہ حدیث کہ حضور نے اپنی دعا میں عرض کیا کہ مجھے نور کردے۔
(۲الخصائص الکبرٰی باب الآیۃ انہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم لم یکن یرٰی لہ ظل مرکز اہلسنت برکات رضا گجرات ہند ۱ /۶۸)
نیز انموذج اللبیب فی خصائص الحبیب صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم باب ثانی فصل رابع میں فرماتے ہیں :لم یقع ظلہ علی الارض ولارئی لہ ظل فی شمس ولا قمر قال ابن سبع لانہ کان نوراقال رزین لغلبۃ انوارہ۳۔
نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا سایہ زمین پر نہ پڑا ، حضور کا سایہ نظر نہ آیا نہ دھوپ میں نہ چاندنی میں ۔ ابن سبع نے فرمایا اس لئے کہ حضور نور ہیں ۔امام رزین نے فرمایا اس لئے کہ حضور کے انوار سب پر غالب ہیں۔
(۳انموذج اللبیب)
امام علامہ قاضی عیاض رحمہ اللہ تعالٰی شفاء شریف میں فرماتے ہیں :وما ذکر من انہ کان لاظل لشخصہ فی شمس ولا قمر لانہ کان نوراً ۱۔
یعنی حضور کے دلائل نبوت وآیات رسالت سے ہے وہ بات جو مذکور ہوئی کہ آپ کے جسم انور کا سایہ نہ دھوپ میں ہوتا نہ چاندنی میں اس لئے کہ حضور نور ہیں۔
(۱الشفاء بتعریف حقوق المصطفٰی فصل ومن ذٰلک ماظہر من الآیات دارالکتب العلمیۃ بیروت ۱ /۲۲۵)
علامہ شہاب الدین خفاجی رحمہ اللہ تعالٰی اس کی شرح نسیم الریاض میں فرماتے ہیں : دھوپ اورچاندنی اورجو روشنیاں کہ ان میں بسبب اس کے کہ اجسام ، انوار کے حاجب ہوتے ہیں لہذا ان کا سایہ نہیں پڑتا جیساکہ انوار حقیقت میں مشاہدہ کیا جاتاہے ۔ پھر حدیث کتاب الوفاء ذکر کر کے اپنی ایک رباعی انشاد کی جس کا خلاصہ یہ ہے کہ سایہ احمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا دامن بسبب حضور کی کرامت وفضیلت کے زمین پر نہ کھینچا گیا اورتعجب ہے کہ باوجود اس کے تمام آدمی ان کے سایہ میں آرام کرتے ہیں ۔ پھر فرماتے ہیں : بہ تحقیق قرآن عظیم ناطق ہے کہ آپ نور روشن ہیں اورآپ کا بشر ہونا اس کے منافی نہیں جیسا کہ وہم کیا گیا، اگر تو سمجھے تو وہ نور علی نور ہیں۔وھذا ما نصّہ الخفاجی (خفاجی کی عبارت یہ ہے ) (و) ومن دلائل نبوتہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم (ماذکر) بالبناء للمجہول والذی ذکرہ ابن سبع (من انہ) بیان لما الموصولۃ (لاظل لشخصہ )ای لجسدہ الشریف اللطیف اذا کان (فی شمس ولاقمر)مما ترٰی فیہ الظلال لحجب الاجسام ضوء النیراین ونحوھما وعلل ذٰلک ابن سبع بقولہ (لانہ ) صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم (کان نورا)والانوار شفافۃ لطیفۃ لاتحجب غیر ھا من الانوار فلاظل لھا کما ھو مشاھد فی الانوار الحقیقۃ وھذا رواہ صاحب الوفاء عن ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ قال لم یکن لرسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ظل ولم یقم مع شمس الا غلب ضوؤہ ضوئھا ولا مع سراج الا غلب ضوؤہ ضوؤہ وقد تقدم ھٰذا والکلام علیہ ورباعیتھافیہ
وھی : ؎ ماجر لظل احمد اذیال
فی الارض کرامۃ کما قد قالوا
ھذا عجب وکم بہ من عجب
والناس بظلہ جمیعا قالوا”
وقالواھذا من القیلولۃ وقد نظق القراٰن بانہ النورالبمین وکونہ بشرا لا ینافیہ کما توھم فان فھمت فھو نور علی نور فان النور ھو الظاھر بنفسہ المظھر لغیرہ وتفصیلہ فی مشکوٰۃ الانوار ۱ انتھٰی۔
حضور پرنور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے دلائل نبوت سے ہے وہ جو کہ مذکورہوا ، اوروہ جو ابن سبع نے ذکر فرمایا کہ آپ کے تشخص یعنی جسم اطہر ولطیف کا سایہ نہ ہوتا جب آپ دھوپ اورچاندنی میں تشریف فرماہوتے یعنی وہ روشنیاں جن میں سائے دکھائی دیتے ہیں کیونکہ اجسام، شمس وقمر وغیرہ کی روشنی کے لئے حاجب ہوتے ہیں ۔ ابن سبع نے اس کی علت یہ بیان کی کہ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نور ہیں اورانوار شفاف ولطیف ہوتے ہیں وہ غیر کے لئے حاجت نہیں ہوتے اوران کا سایہ نہیں ہوتا جیسا کہ انوار حقیقت میں دیکھاجاتاہے ۔ اس کو صاحب وفاء نے ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کیا ۔ آپ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا سایہ نہ تھا ، نہ کھڑے ہوئے آپ کبھی سورج کے سامنے مگر آپ کا نور سورج پر غالب آگیا، اورنہ قیام فرمایا آپ نے چراغ کے سامنے مگر آپ کا نور چراغ کی روشنی پر غالب آگیا۔یہ اوراس پر کلام پہلے گزر چکا ہے اوراس سلسلہ میں رباعی جو کہ یہ ہے : ”حضرت امام الانبیاء احمد مجتبٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے سایہئ اقدس نے آپ کی کرامت وفضیلت کی وجہ سے دامن زمین پر نہیں کھینچاجیسا کہ لوگوں نے کہا ۔یہ کتنی عجیب بات ہے کہ عدم سایہ کے باوجود سب لوگ آپ کے سایہ رحمت میں آرام کرتے ہیں ۔”
یہاں قالوا، قیلولہ سے مشتق ہے (نہ کہ قول سے ) تحقیق قرآن عظیم ناطق ہے کہ آپ نور روشن ہیں اورآپ کا بشرہونا اس کے منافی نہیں جیسا کہ وہم کیا گیا ۔ اگر تو سمجھے توآپ نور علی نور ہیں ،کیونکہ نور وہ ہے جو خود ظاہر ہوں اوردوسروں کو ظاہر کرنے والا ہو۔ اس کی تفصیل مشکوۃ الانوار میں ہے ۔ (ت)
(۱نسیم الریاض فی شرح شفاء القاضی عیاض مرکز اہلسنت برکات رضا گجرات ہند ۳ /۲۸۲)
حضرت مولوی معنوی قدس سرہ القوی دفتر پنجم مثنوی شریف میں فرماتے ہیں : ؎
چوں فنانش از فقر پیرایہ شود
اومحمد داربے سایہ شود۱
(جب اس کی فنا فقر سے آراستہ ہوجاتی ہے تو وہ محمدمصطفی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی طرح بغیر سایہ کے ہوجاتاہے ۔ت)
(۱مثنوی معنوی درصفت آں بیخود کہ دربقای حق فانی شدہ است دفترپنجم نورانی کتب خانہ پشاور ص۱۹)
مولانا بحرالعلوم نے شرح میں فرمایا :درمصرع ثانی اشارہ بمعجزئہ آن سرور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کہ آن سرور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم راسایہ نمی افتاد۲۔
دوسرے مصرعے میں سرورعالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے معجزے کی طرف اشارہ ہے کہ آپ کا سایہ زمین پر نہیں پڑتاتھا۔(ت)
امام علامہ احمد بن محمد خطیب قسطلانی رحمہ اللہ تعالٰی مواہب لدنیہ ومنہج محمدیہ میں فرماتے ہیں :رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے لئے سایہ نہ تھا دھوپ میں نہ چاندی میں ۔ اسے حکیم ترمذی نے ذکوان سے پھر ابن سبع کا حضور کے نور سے استدلال اورحدیث اجعلنی نوراً (مجھے نور بنادے ۔ ت) سے استشہادذکر کیا۔حیث قال(امام قسطلانی نے فرمایا۔ت) :لم یکن لہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فی شمس ولا قمر رواہ الترمذی عن ذکوان ، وقال ابن سبع کان صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نوراً فکان اذا مشٰی فی الشمس اوالقمر لایظھر لہ ظل قال غیرہ ویشھد لہ قولہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فی دعائہ واجعلنی نورا۳۔
دھوپ اورچاندنی میں آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کاسایہ نہ ہوتا ۔ اس کو ترمذی نے ذکوان سے روایت کیا۔ ابن سبع نے کہا کہ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نور تھے ، جب آپ دھوپ اورچاندنی میں چلتے تو سایہ ظاہر نہ ہوتا ۔ اس کے گیر نے کہا اس کا شاہد نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا وہ قول ہے جو آپ دعا میں کہتے کہ اے اللہ ! مجھے نور بنادے۔(ت)
(۳المواھب اللدنیۃ المقصد الثالث الفصل الاول المکتب الاسلامی بیروت ۲ /۳۰۷)
اسی طرح سیرت شامی میں ہے :وزاد عن الامام الحکیم قال معناہ لئلایطأعلیہ کافر فیکون مذلۃ لہ۱۔
یعنی امام ترمذی نے یہ اضافیہ کیا: اس میں حکمت یہ تھی کہ کوئی کافر سایہ اقدس پر پاؤں نہ رکھے کیونکہ اس میں آپ کی توہین ہے۔
(۱سبل الہدٰی والرشادالباب العشرون فی مشیہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم دارالکتب العلمیۃ بیروت ۲ /۹۰)
اقول : سیدنا عبداللہ بن عمررضی اللہ تعالٰی عنہما تشریف لئے جاتے تھے ، ایک یہودی حضرت کے گرد عجب حرکات اپنے پاؤں سے کرتاجاتاتھااس سے دریافت فرمایا،بولا :بات یہ ہے کہ اورتوکچھ قابو ہم تم پر نہیں پاتے جہاں جہاں تمہاراسایہ پڑتاہے اسے اپنے پاؤں سے روندتا چلتاہوں۔ ایسے خبیثوں کی شرارتوں سے حضرت حق عزجلالہ، نے اپنے حبیب اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو محفوظ فرمایا۔ نیز اسی طرح سیرت حلبیہ میں قدرمافی شفاء الصدور۔
محمد زرقانی رحمہ اللہ تعالٰی شرح میں فرماتے ہیں : حضور کے لئے سایہ نہ تھا اور وجہ اس کی یہ ہے کہ حضور نور ہیں ، جیسا کہ ابن سبع نے کہا اورحافظ رزین محدث فرماتے ہیں :سبب اس کا یہ تھا کہ حضور کا نور ساطع تمام انوار عالم پر غالب تھا ، اور بعض علماء نے کہا کہ حکمت اس کی رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو بچانا ہے اس سے کہ کسی کافر کا پاؤں ان کے سایہ پر نہ پڑے ۔وھذا کلامہ برمہ (زرقانی کی اصل عبارت) : (ولم یکن لہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ظل فی شمس ولاقمر لانہ کان نورا کما قال ابن سبع وقال رزین لغلبۃ انوارہ قیل وحکمۃ ذالک صیانتہ عن ان یطأکافر علی ظلہ (رواہ الترمذی الحکم عن ذکوان )ابی صالح السمان الزیات المدنی اوابی عمرو المدنی مولی عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا وکل منھما ثقۃ من التابعین فھو مرسل لکن روی ابن المبارک وابن الجوزی عن ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما لم یکن للنبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ظل ولم یقم مع الشمس قط الاغلب ضوؤہ ضوء الشمس ولم یقم مع سراج قط الا غلب ضوؤہ ضوء السراج (وقال ابن سبع کان صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نور افکان اذا مشٰی فی الشمس والقمر لایظھر لہ ظل) لان النور لا ظل لہ (قال غیرہ ویشھدلہ قولہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فی دعائہ)لما سئل اللہ تعالٰی ان یجعل فی جمیع اعضائہ وجہاتہ نوراً ختم بقولہ (واجعلنی نورا)والنور لاظل لہ وبہ یتم الا ستشہاد ۱ انتہٰی ۔)
حضورانور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا سایہ نہ تھا نہ دھوپ میں اورنہ ہی چاندنی میں ، کیونکہ آپ نور ہیں جیسا کہ ابن سبع نے فرمایا ۔ رزین نے فرمایا عدم سایہ کا سبب آپ کے انوار کا غلبہ ہے ۔ کہا گیا ہے کہ اس کی حکمت آپ کو بچانا ہے اس بات سے کہ کوئی کافر آپ کے سایہ پر اپنا پاؤں رکھے ۔ اس کو حکیم ترمذی نے روایت کیا ہے زکوان ابوصالح السمان زیات المدنی سے یاسیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے آزاد کردہ غلام ابو عمروالمدنی سے اوروہ دونوں ثقہ تابعین میں سے ہیں ، چنانچہ یہ حدیث مرسل ہوئی ، مگر ابن مبارک اورابن جوزی نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا سایہ نہ تھا ، آپ کبھی بھی سورج کے سامنے جلوہ افروز نہ ہوئے مگر آپ کا نور سوج کے نور پر غالب آگیا اور نہ ہی کبھی آپ چراغ کے سامنے کھڑے ہوئے مگر آپ کی روشنی چراغ کی روشنی پرغالب آگئی ۔ابن سبع نے کہا کہ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نور تھے۔ آپ جب دھوپ اورچاندنی میں چلتے تو آپ کا سایہ نمودار نہ ہوتا کیونکہ نور کا سایہ نہیں ہوتا ، اس کے غیر نے کہا حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے دعائیہ کلمات اس کے شاہد ہیں جب آپ نے اللہ تعالٰی سے سوال کیا کہ وہ آپ کے تمام اعضاء اورجہات کو نور بنادے ، اورآخر میں یوں کہا اے اللہ ! مجھے نور بنادے اور نور کا سایہ نہیں ہوتا۔ اسی کے ساتھ استدلال تام ہوا۔ (ت)
(۱شرح الزرقانی المواھب اللدنیۃ المقصد الثالث الفصل الاول دارالمعرفۃ بیروت ۴ /۲۲۰)
علامہ حسین بن محمد دیار بکری کتاب الخمیس فی احوال انفس نفیس ( صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم )النوع الرابع ما اختص صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم بہ من الکرامات
میں فرماتے ہیں :لم یقع ظلہ علی الارض ولارئی لہ ظل فی شمس ولا قمر۲ ۔
حضور کا سایہ زمین پر نہ پڑتا ، نہ دھوپ میں نہ چاندنی میں نظر آتا۔
(۲تاریخ الخمیس القسم الثانی النوع الرابع مؤسسۃ الشعبان بیروت ۱ /۲۱۹)
بعینہٖ اسی طرح کتاب”نورالابصار فی مناقب آل بیت النبی الاطہار ”میں ہے ۔
اما م نسفی تفسیر مدارک شریف میں زیرقولہٖ تعالٰی :لو لا اذ سمعتموہ ظن المؤمنون والمؤمنٰت بانفسھم خیرا۳۔(کیوں نہ ہوا جب تم نے اسے سنا تھا کہ مسلمان مردوں اورمسلمان عورتوں نے اپنوں پر نیک گمان کیاہوتا۔ت)
(۳القرآن الکریم ۲۴ /۱۲)
فرماتے ہیں :قال عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ ان اللہ مااوقع ظلک علی الارض لئلایضع انسان قدمہ علی ذٰلک الظل۱ ۔
امیر المومنین عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے عرض کی بے شک اللہ تعالٰی نے حضور کا سایہ زمین پر نہ ڈالا کہ کوئی شخص اس پر پاؤں نہ رکھ دے ۔”
(۱مدارک التنزیل (تفسیر النسفی)تحت الآیۃ ۲۴ /۱۲ دارالکتاب العربی بیروت ۳ /۱۳۵)
امام ابن حجرمکی افضل القرٰی میں زیر قول ماتن قدس سرہ، : ؎لم یساووک فی علاک وقدحا
ل سنا منک دونھم وسناء۲
انبیاء علیہم الصلٰوۃ والسلام فضائل میں حضور کے برابر نہ ہوئے حضور کی چمک اوررفعت حضور تک ان کے پہنچنے سے مانع ہوئی ۔
(۲ام القرٰی فی مدح خیر الورٰی الفصل الاول حزب القادریۃ لاہور ص۶)
فرماتے ہیں:ھذا مقتبس من تسمیتہ تعالٰی لنبیہ نورا فی نحو”قدجاء کم من اللہ نور وکتب مبین ”وکان صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم یکثر الدعا بان اللہ تعالٰی یجعل کلا من حواسہ واعضائہ وبدنہ نوراً اظہار الوقوع ذٰلک وتفضل اللہ تعالٰی علیہ بہ لیز داد شکرہ وشکر امتہ علی ذٰلک کما امرنا بالدعاء الذی فی اٰخر سورۃ البقرۃ مع وقوعہ وتفضل اللہ تعالٰی بہ لذٰلک ومما یؤیدانہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم صارنورا انہ کان اذا مشٰی فی الشمس اوالقمر لم یظھر لہ ظل لانہ لایظھر الالکثیف وھو صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم قد خلصہ اللہ من سائر الکثائف الجسمانیۃ وصیرہ نورا صرفا لایظھر لہ ظل اصلا ۱۔
یعنی یہ معنٰی اس سے لئے گئے ہیں کہ اللہ عزوجل نے اپنے حبیب صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا نام نور رکھا مثلاً اس آیت میں کہ بیشک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے نور تشریف لائے اورروشن کتاب ۔ اورحضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم بکثرت یہ دعا فرماتے کہ الہٰی !میرے تمام حواس واعضاء سارے بدن کو نور کردے ۔ اوراس دعاسے یہ مقصود نہ تھا کہ نور ہونا ابھی حاصل نہ تھا اس کا حصول مانگتے تھے بلکہ یہ دعا اس امر کے ظاہر فرمانے کے لئے تھی کہ واقع میں حضور کا تمام جسم پاک نور ہے اوریہ فضل اللہ عزوجل نے حضور پر کردیا تاکہ آپ اورآپ کی امت اس پر اللہ تعالٰی کا زیادہ شکر ادا کریں ۔جیسے ہمیں حکم ہوا کہ سورہ بقرشریف کے آخر کی دعا عرض کریں وہ بھی اسی اظہار وقوع وحصول فضل الہٰی کے لئے اورحضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے نور محض ہوجانے کی تائید اس سے ہے کہ دھوپ یا چاندنی میں حضور کا سایہ نہ پیدا ہوتا اس لئے کہ سایہ تو کثیف کا ہوتاہے اورحضو راللہ تعالٰی نے تمام جسمانی کثافتوں سے خالص کر کے نرانور کردیا لہذا حضور کے لئے سایہ اصلاً نہ تھا۔
(۱افضل القرٰی لقراء ام القرٰی (شرح ام القرٰی) شرح شعر ۲ المجمع الثقانی ابوظبی ۱ /۱۲۸و۱۲۹)
علامہ سلیمان جمل فتوحات احمدیہ شرح ہمزیہ میں فرماتے ہیں :لم یکن لہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ظل یظھر فی شمس ولا قمر۲ ۔
نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا سایہ نہ دھوپ میں ظاہر ہوتا نہ چاندنی میں ۔
(۲ الفتوحات الاحمدیۃ علی متن الہمزیۃ سلیمان جم المکتبۃ التجاریۃ الکبرٰی مصر ص۵)
فاضل محمد بن فہمیہ کی”اسعاف الراغبین فی سیرۃ المصطفٰی واھل بیتہ الطاھرین ”میں ذکر خصائص نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم میں ہے :وانہ لافیئ لہ۳۔حضور کا ایک خاصہ یہ ہے کہ حضور کے لئے سایہ نہ تھا۔
(۳اسعاف الراغبین فی سیرۃ المصطفٰی والہ بیتہ الطاہرین علی ہامش الابصار دارالفکر بیروت ص۷۹)
مجمع البحار میں برمزش یعنی زبدہ شرح شفاء شریف میں ہے :من اسمائہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم قیل من خصائصہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم انہ اذا مشٰی فی الشمس والقمر لایظھر لہ ظل۴۔
حضور کا ایک نام مبارک ”نور”ہے ، حضور کے خصائص سے شمار کیا گیا کہ دھوپ اورچاندنی میں چلتے تو سایہ نہ پیداہوتا۔
(۴مجمع بحار الانوار باب نون تحت لفظ ”النور”مکتبہ دارالایمان مدینۃ المنورۃ ۴ /۸۲۰)
شیخ محقق مولانا عبدالحق محدث دہلوی قدس سرہ العزیز مدارج النبوۃ میں فرماتے ہیں :ونبودمرآنحضرت را صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سایہ نہ در آفتاب ونہ در قمر رواہ الحکیم الترمذی عن ذکوان فی نوادر الاصول وعجب است ایں بزرگان کہ کہ ذکر نکر دند چراغ راونور یکے از اسمائے آنحضرت است صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ونور راسایہ نمی باشد انتہٰی۱۔
سرکاردوعالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا سایہ سورج اورچاند کی روشنی میں نہ تھا ۔ بروایت حکیم ترمذی از ذکوان ، اورتعجب یہ ہے ان بزرگوں نے اس ضمن میں چراغ کا ذکر نہیں کیا اور ”نور”حضور کے اسماء مبارکہ میں سے ہے اور نور کا سایہ نہیں ہوتا۔ (ت)
(۱مدارج النبوۃ باب اول بیان سایہ مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر۱ /۲۱)
جناب شیخ مجدد جلد سوم مکتوبات ، مکتوبات صدم میں فرماتے ہیں :او را صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سایہ نبود درعالم شہادت سایہ ہرشخص از شخص لطیف تر است وچوں لطیف ترے ازوے صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم درعالم نباشد اورا سایہ چہ صورت دارد ۲
آں حضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا سایہ نہ تھا، عالم شہادت میں ہر شخص کا سایہ اس سے بہت لطیف ہوتاہے ، اورچونکہ جہان بھر میں آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے کوئی چیز لطیف نہیں ہے لہذا آپ کا سایہ کیونکر ہوسکتاہے!(ت)
(۲مکتوبات امام ربانی مکتوب صدم نولکشور لکھنؤ ۳ /۱۸۷)
نیز اسی کے آخر مکتوب ۱۲۲میں فرماتے ہیں :واجب راتعالٰی چراظل بود کہ ظل موہم تولید بہ مثل است ومنبی از شائبہ عدم کمال لطافت اصل ، ہرگاہ محمدرسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم را از لطافت ظل نبود خدائے محمدراچگونہ ظل باشد۳۔
اللہ تعالٰی کا سایہ کیونکر ہو، سایہ تو وہم پیدا کرتاہے کہ اس کی کوئی مثل ہے اور یہ کہ اللہ تعالٰی میں کمال لطافت نہیں ہے ، دیکھئے محمدرسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا لطافت کی وجہ سے سایہ نہ تھا تو محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا سایہ کیونکر ممکن ہے۔(ت)
(۳مکتوبات امام ربانی مکتوب ۱۲۲ نولکشورلکھنؤ ۳ /۲۳۷)
مولانا شاہ عبدالعزیز صاحب تفسیر عزیزی سورہ والضحٰی میں لکھتے ہیں :سایہ ایشاں برزمیں نمی افتاد۱۔
آپ کا سایہ زمین پر نہ پڑا۔
(۱فتح القدیر (تفسیر عزیزی)پ عم سورۃ الضحٰی مسلم بک ڈپو، لا ل کنواں ، دہلی ص۳۱۲)
فقیر کہتاہے غفراللہ لہ، استدلال ابن سبع کا حضور کے سراپا نور ہونے سے جس پر بعض علماء نےحدیث واجعلنی نورا (مجھے نور بنادے ۔ ت) سے استشہاد اورعلمائے لاحقین نے اسے اپنے کلمات میں بنظر احتجاج یاد کیا۔
ہمارے مدعا پر دلالتِ واضحہ یہ ہے ، دلیل شکل اول بدیہی الانتاج دو مقدموں سے مرکب ، صغرٰی یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نور ہیں ، اورکبرٰی یہ کہ نور کے لئے سایہ نہیں ، جوان دونوں مقدموں کو تسلیم کرے گا نتیجہ یعنی رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے لئے سایہ نہ تھا ، آپ ہی پائے گا: مگر دونوں مقدموں میں کوئی مقدمہ ایسا نہیں جس میں مسلمان ذی عقل کو گنجائش گفتگو ہو، کبرٰی توہرعاقل کے نزدیک بدیہی اورمشاہد ہ بصروشہادت بصیرت سے ثابت، سایہ اس جس کا پڑے گا جو کثیف ہو اور انوار کو اپنے ماوراء سے حاجب ، نور کا سایہ پرے تو تنویر کون کرے۔ اس لئے دیکھو آفتاب کے لئے سایہ نہیں ، اور صغرٰی یعنی حضور والا کا نورہونا مسلمان کا تو ایمان ہے ، حاجت بیان حجت نہیں مگر تبکیت معاندین کے لئے اس قدر اشارہ ضرور کہ حضرت حق سبحانہ، وتعالٰی فرماتاہے :یآیھا النبی انا ارسلنٰک شاھداً ومبشرا ونذیر اوداعیاً الی اللہ باذنہ وسراجاً منیراً۲۔اے نبی ! ہم نے تمہیں بھیجاگواہ اور خوشخبری دینے والا اور ڈر سنانے والا اور خدا کی طرف بلانے والا اور چراغ چمکتا۔
(۲القرآن الکریم ۳۳ /۴۵)
یہاں سراج سے مراد چراغ ہے یا ماہ یا مہر ، سب صورتیں ممکن ہیں ، اور خود قرآن عظیم میں آفتاب کو سراج فرمایا :وجعل القمر فیھن نورا وجعل الشمس سراجا ۳۔اوربنایا پروردگار نےچاند کو نور آسمانوں میں اوربنایا سورج کو چراغ۔(ت)
(۳القرآن الکریم ۷۱ /۱۶)
اورفرماتاہے :قدجاء کم من اللہ نور وکتاب مبین ۱۔بتحقیق آیا تمہارے پاس خدا کی طرف سے ایک نور اورکتاب روشن ۔
(۱القرآن الکریم ۵ /۱۵)
علماء فرماتے ہیں : نور سے مراد محمدمصطفی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ہیں۔
اسی طرح آیہ کریمہوالنجم اذا ھوٰی۲۔ (اس پیارے چمکتے تارے محمد کی قسم جب یہ معراج سے اترے۔ ت)میں امام جعفر صادق اورآیہ کریمہوما ادرٰک ما الطارق النجم الثاقب۳۔(اورکچھ تم نے جانا وہ رات کو آنے والا کیاہے ، چمکتا تارا۔ت) میں بعض مفسرین نجم اور نجم الثاقب سے ذات پاک سید لولاک مراد لیتے ہیں ۴صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ۔
(۲القرآن الکریم ۵۳ /۱)
(۳القرآن الکریم ۸۶/ ۲و۳)
(۴الشفاء بتعریف حقوق المصطفٰی الفصل الرابع دارالکتب العلمیۃ بیروت ۱ /۳۰)
بخاری ومسلم وغیرہما کی احادیث میں بروایت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما حضور سرورعالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے ایک دعا منقول جس کا خلاصہ یہ ہے :اللھم اجعل فی قلبی نور اوفی بصری نوراً وفی سمعی نوراً وفی عصبی نور اوفی لحمی نورًا وفی دمی نورا وفی شعری نورا وفی بشری نورا وعن یمینی نور ا وعن شمالی نورا وامان می نورا وخلفی نور ا وفوقی نورا وتختی نورا واجعلنی نوراً۵۔
الہٰی!میرے دل اور میری جان اورمیر ی آنکھ اورمیرے کان اورمیرے گوشت وپوست وخون واستخوان اورمیرے زیر وبالا وپس وپیش وچپ وراست اورہرعضو میں نور اورخود مجھے نور کردے ۔
(۵صحیح البخاری کتاب الدعوات باب الدعاء قدیمی کتب خانہ کراچی ۲ /۹۳۵)
( صحیح مسلم کتاب صلٰوۃ المسافرین باب صلٰوۃ النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۲۶۱)
(جامع الترمذی ابواب الدعوات باب منہ امین کمپنی دہلی ۲ /۱۷۸)
جب وہ یہ دعا فرماتے اوران کے سننے والے نے انہیں ضیائے تابندہ ومہر درخشندہ ونور الٰہی کہا پھر اس جناب کے نور ہونے میں مسلمان کو کیا شبہ رہا ، حدیث ابن عباس میں ہے کہ ان کا نور چراغ وخوشید پر غالب آتا ۔ اب خدا جانے غالب آنے سے یہ مراد کہ ان کی روشنیاں اس کے حضور پھیکی پڑ جائیں جیسے چراغ پیش مہتاب یا یکسر ناپدید وکالعدم ہوجاتیں جیسے ستارے حضور آفتاب۔
ابن عباس کی حدیث میں ہے :واذاتکلم رئی کالنور یخرج من بین ثنایاہ ۱۔
جب کلام فرماتے دانتوں سے نور چھنتا نظر آتا۔
(۱تاریخ دمشق الکبیر باب ماروی فی فصاحۃ لسانہ داراحیاء التراث العربی بیروت ۴ /۸ ،۹)
( الشفاء بتعریف حقوق المصطفٰی الباب الثانی فصل وان قلت اکرمک اللہ دارالکتب العلمیۃ بیروت ۱/ ۴۶)
( شمائل الترمذی باب ماجاء فی خلق رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم امین کمپنی دہلی ص۳)
وصاف کی حدیث میں وارد ہے :یتلأ لؤ وجھہ تلألؤالقمر لیلا البدراقنی العرنین لہ نوریعلوہ یحسبہ من لم یتأملہ اشم انور المتجرد۲۔
یعنی حضور کا چہر ہ چودھویں رات کے چاند کی طرح چمکتا ، بلند بینی تھی اوراس پر ایک نور کا بُکّامتجلی رہتاکہ آدمی خیال نہ کرے تو ناک ماس روشن نور کے سبب بہت اونچی معلوم ہو، کپڑوں سے باہر جو بدن تھا یعنی چہر ہ اورہتھیلیاں وغیرہ، نہایت روشن وتابندہ تھا۔صلی ا للہ تعالٰی علٰی کل عضو من جسمہ الانوار الاعطر وبارک وسلم (اللہ تعالٰی آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے جسم انور معطر کے ہر عضو پر درود وسلام اوربرکت نازل فرمائے ۔ ت)
(۲شمائل الترمذی باب ماجاء فی خلق رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم امین کمپنی دہلی ص۲)
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں :کان الشمس تجری فی وجھہ۳۔
گویاآفتاب ان کے چہرے میں رواں تھا۔
(۳الشفاء بتعریف حقوق المصطفٰی الباب الثانی فصل ان قلت اکرمک اللہ دارالکتب العلمیۃ بیروت ۱ /۴۶)
اورفرماتے ہیں :واذاضحک یتلألؤفی الجدر ۴۔
جب حضور ہنستے دیواریں روشن ہوجاتیں۔
(۴الشفاء بتعریف حقوق المصطفٰی الباب الثانی فصل ان قلت اکرمک اللہ دارالکتب العلمیۃ بیروت ۱ /۴۶)
ربیع بنت معوذ فرماتی ہیں :لورأیت لقلت الشمس طالعۃ۱۔اگر تو انہیں دیکھتا ، کہتا آفتاب طلوع کر رہا ہے ۔
(۱المواھب اللدنیۃ عن ربیع بنت معوذ المقصد الثالث الفصل الاول المکتب الاسلامی بیروت ۲ /۲۲۳)
ابو قرصافہ کی ماں اور خالہ فرماتی ہیں :رأینا کان النور یخرج من فیہ۲۔
ہم نے نور سانکلے دیکھا ان کےدہان پاک سے۔
(۲مجمع الزوائد بحوالہ الطبرانی کتاب علامات النبوۃ باب صفۃ صلی اللہ علیہ وسلم دارالکتاب بیروت ۸ /۲۸۰)
احادیث کثیرہ مشہورہ میں وارد، جب حضور پیداہوئے ان کی روشنی سے بصرہ اورروم وشام کے محل روشن ہوگئے ۔
چند روایتوں میں ہے :اضاء لہ ما بین المشرق والمغرب ۳
آپ کے لئے شرق سے غرب تک منور ہوگیا۔
(۳المواھب اللدنیۃ المقصد الاول احادیث اخری فی المولد المکتب الاسلامی بیروت ۱ /۱۳۰)
اوربعض میں ہے :امتلأت الدنیاکلھانوراً۴۔
تمام دنیا نور سے بھر گئی ۔
(۴الخصائص الکبرٰی باب ماظہر فی لیلۃ مولدہ صلی اللہ علیہ وسلم من المعجزات الخ مرکز اہلسنت گجرات ہند ۱ /۴۷)
آمنہ حضور کی والدہ فرماتی ہیں :رأیت نور اساطعا من رأسہ قد بلغ السماء ۵۔
میں نے ان کے سر سے ایک نور بلند ہوتا دیکھا کہ آسمان تک پہنچا۔
(۵الخصائص الکبرٰی باب ماظہر فی لیلۃ مولدہ صلی اللہ علیہ وسلم من المعجزات الخ مرکز اہلسنت گجرات ہند ۱ /۴۹)
ابن عساکر نے ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے روایت کی : ”میں سیتی تھی ، سوئی گر پڑی ، تلاش کی ، نہ ملی ، اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم تشریف لائے ، حضور کے نور رُخ کی شعاع سے سوئی ظاہر ہوگئی ۶۔”
(۶ الخصائص الکبرٰی بحوالہ ابن عساکر باب الآیۃ فی وجہہ الشریف صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم مرکز اہلسنت گجرات ہند۱/۶۲و۶۳)
علامہ فاسی مطالع المسرات میں ابن سبع سے نقل کرتے ہیں :کان النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم یضیئ البیت المظلم من نورہ۱
نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے نور سے خانہ تاریک روشن ہوجاتا۔
(۱مطالع المسرات شرح دلائل الخیرات مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آباد ص۳۹۳)
اب نہیں معلوم کہ حجور کے لئے سایہ ثابت نہ ہونے میں کلام کرنے والا آپ کے نور ہونے سے انکار کرے گا یا انوار کے لئے بھی سایہ مانے گا یا مختصر طور پر یوں کہئے کہ یہ تو بالیقین معلوم کہ سایہ جسم کثیف کا پڑتا ہے نہ جسم لطیف کا ، اب مخالف سے پوچھنا چاہئے تیرا ایمان گواہی دیتاہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا جسم اقدس لطیف نہ تھا عیاذاً باللہ ، کثیف تھا اور جو اس سے تحاشی کرے تو پھر عدم سایہ کا کیوں انکار کرتاہے؟
بالجملہ جبکہ حدیثیں اوراتنے اکابر ائمہ کی تصریحیں موجود کہ اگر مخالف اپنے کسی دعوے میں ان میں سے ایک کا قول پائے ، کس خوشی سے معرض استدعلال میں لائے ، جاہلانہ انکار، مکاربرہ وکج بحثی ہے ، زبان ہر ایک کی اس کے اختیار میں ہے چاہے دن کو رات کہہ دے یا شمس کو ظلمات ، آخر کار مخالف جو سایہ ثابت کرتاہے اس کے پاس بھی کوئی دلیل ہے یا فقط اپنے منہ سے کہہ دیا جیسے ہم حدیثیں پیش کرتے ہیں اس کے پاس ہوں وہ بھی دکھائے ، ہم ارشادات علماء سند میں لاتے ہیں وہ بھی ایسے ہی ائمہ کے اقوال سنائے ، یا نہ کوئی دلیل ہے نہ کوئی سند ، گھر بیٹھے اسے الہام ہوا کہ حضور کا سایہ تھا۔
مجرد ماوشما پر قیاس تو ایمان کے خلاف ہے ع
چہ نسبت خاک را بہ عالم پاک
(مٹی کو عالم پاک سے کیا نسبت ۔ت)
وہ بشر ہیں مگر عالم علوی سے لاکھ درجہ اشرف اورجسم انسانی رکھتے ہیں مگر ارواح وملائکہ سے ہزارجگہ الطف ۔ وہ خود فرماتے ہیں:
لست کمثلکم۲
میں تم جیسا نہیں ۔
(۲المصنف لعبدالرزاق کتاب الصیام باب الوصال حدیث ۷۷۵۲المکتب الاسلامی بیروت ۴ /۲۶۷)
(صحیح البخاری کتاب الصوم باب الوصال قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۲۶۳)
(صحیح مسلم کتاب الصیام باب النہی عن الوصال قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۳۵۱و۳۵۲)
ویروٰی لست کھیئتکم ۳
میں تمہاری ہیئت پر نہیں۔
(۳صحیح مسلم کتاب الصیام باب النہی عن الوصال قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۳۵۱و۳۵۲)
( صحیح بخاری کتاب الصوم باب الوصال قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۲۶۳و۲۶۴)
ویروٰی ، ایکم مثلی۱
تم میں کون ہے مجھ جیسا۔
(۱صحیح مسلم کتاب الصیام باب النہی عن الوصال قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۳۵۱)
(صحیح البخاری کتاب الصوم باب الوصال قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۲۶۳)
آخر علامہ خفاجی کا ارشاد نہ سنا کہ : ”حضور کا بشر ہونا نور رخشندہ ہونے کے منافی نہیں کہ اگر تو سمجھے تو وہ نور علی نور ہیں۲۔
(۲نسیم الریاض فی شرح شفاء القاضی عیاض فصل ومن ذالک ماظہر من الآیات الخ مرکز اہلسنت برکات رضا گجرات ہند ۳ /۲۸۲)
پھر صرف اس قیاس فاسد پرکہ ہم سب کا سایہ ہوتاہے ان کے بھی ہوگا ، ثبوت سایہ ماننا یااس کی نفی میں کلام کرنا عقل وادب سے کس قدر دور پڑتا ہے ؎
الا ان محمد ابشرلاکالبشر
بل ھو یاقوت بین الحجر۳
(خبردار !محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم بشرہیں مگر کسی بشر کی مثل نہیں ، بلکہ وہ ایسے ہیں جیسے پتھروں کے درمیان یاقوت ۔ ت)( صلی اللہ تعالٰی علیہ وعلٰی اٰلہ واصحابہ اجمعین وبارک وسلم )
(۳افضل الصلٰوۃ علی سید السادات فضائل درود مکتبہ نبویہ ، لاہور ص۱۵۰)
فقیر کو حیرت ہے ان بزرگواروں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے معجزات ثابتہ وخصائص صحیحہ کے انکار میں اپنا کیا فائدہ دینی ودنیاوی تصور کیا ہے ، ایمان بے محبت رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے حاصل نہیں ہوتا ۔ وہ خود فرماتے ہیں:لایؤمن احد کم حتی اکون احب الیہ من والدہ و ولد والناس اجمعین۴ ۔تم میں سے کوئی مسلمان نہیں ہوگاجب تک میں اسے اس کے ماں باپ ،اولاد اورسب آدمیوں سے زیادہ پیارا نہ ہوں۔
(۴صحیح البخاری کتاب الایمان باب حب الرسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۷)
(صحیح مسلم کتاب الایمان باب وجوب محبۃ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۴۹)
اورآفتاب نیم روز کی طرح روشن کہ آدمی ہمہ تن اپنے محبوب کے نشر فضائل وتکثیر مدائح میں مشغول رہتاہے ، سچی فضیلتوں کا مٹانا اورشام وسحر نفی محاسن کی فکر میںہونا کام دشمن کا ہے نہ کہ دوست کا۔
جان برادر!تو نے کبھی سنا ہے کہ تیرامحب تیرے مٹانے کی فکر میں رہے ، اورپھر محبوب بھی کیسا،جان ایمان وکان احسان ، جسے اس کے مالک نے تمام جہان کے لئے رحمت بھیجا اوراس نے تمام عالم کا بارتن نازک پر اٹھالیا ۔
تمہارے غم میں دن کاکھانا ، رات کا سونا ترک کردیا۔ تم رات دن لہو ولعب اور ان کی نافرمانیوں میں مشغول ، اوروہ شب وروز تمہاری بخشش کے لئے گریاں وملول۔
جب وہ جان رحمت وکان رأفت پیداہوا بارگاہ الٰہی میں سجدہ کیاارب ھب لی امتی۔ (یا اللہ !میری امت کو بخش دے ۔ ت)
جب قبر شریف میں اتار الب جاں بخش کو جنبش تھی ، بعض صحابہ نے کان لگا کر سنا ،آہستہ آہستہامتی ۔ (میری امت۔ت) فرماتے تھے ،
قیامت میں بھی انہیں کے دامن میں پناہ ملے گی، تمام انبیاء علیہم السلام سےنفسی نفسی اذھبواالی غیری۳ (آج مجھے اپنی فکر ہے کسی اور کے پا س چلے جاؤ ۔ ت) سنو گے اوراس غمخوار امت کے لب پریارب امتی۴ (اے رب !میری امت کو بخش دے۔ ت)کا شورہوگا۔
(۳صحیح مسلم کتاب الایمان باب اثبات الشفاعۃ الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۱۱)
(۴صحیح مسلم کتاب الایمان باب اثبات الشفاعۃ الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۱۱)
بعض روایات میں ہے کہ حضور ارشاد فرماتے ہیں : جب انتقال کروں گا صور پھونکنے تک قبر میں امتی امتی پکاروں گا۔ کان بجنے کا یہی سبب ہے کہ وہ آواز جانگداز اس معصوم عاصی نواز کی جو ہروقت بلند ہے ، گاہے ہم سے کسی غافل ومدہوش کے گوش تک پہنچتی ہے ، روح اسے ادراک کرتی ہے ، اسی باعث اس وقت درود پڑھنا مستحب ہوا کہ جو محبوب ہرآن ہماری یا دمیں ہے ، کچھ دیر ہم ہجراں نصیب بھی اس کی یاد میں صَرف کریں۔
وائے بے انصافی !ایسے غمخوار پیارے کے نام پر جاں نثارکرنا اوراس کی مدح وستائش ونشر فضائل سے آنکھوں کی روشنی ، دل کو ٹھنڈک دینا واجب یا یہ کہ حتی الوسع چاند پر خاک ڈالے اوربے سبب ان کی روشن خوبیوں میں انکار نکالے۔
اے عزیز!چشم خرد بین میں سرمہ انصاف لگااورگوش قبول سے پنبہ اعتساف نکال، پھر یہ تمام اہل اسلام بلکہ ہر مذہب وملت کے عقلاء سے پوچھنا ، پھر اگر ایک منصف ذی عقل بھی تجھ سے کہہ دے کہ نشر محاسن وتکثیر مدائح نہ دوستی کا مقتضٰی نہ رد فضائل ونفی کمالات غلامی کے خلاف، تو تجھے اختیار ہے ورنہ خدا ورسول سے شرمااوراس حرکت بے جا سے باز آ ، یقین جان لے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی خوبیاں تیرے مٹائے نہ مٹیں گی۔
جان برادر! اپنے ایمان پر رحم کر ، سمجھ ، دیکھ کر خداسے کسی کا کیا بس چلے گا، اورجس کی شان وہ بڑھائے اسے کوئی گھٹا سکتاہے ، آئندہ تجھے اختیار ہے ، ہدایت کا فضل الٰہی پر مدار ہے ۔
ہم پر بلا غ مبین تھا ، اس سے بحمداللہ فراغت پائی ،ا ور جواب بھی تیرے دل میں کوئی شک وشبہ یاہمارے کسی دعوے پردلیل یا کسی اجمال کی تفصیل درکاہوتو فقیر کا رسالہ مسمّٰی بہ”قمر التمام فی نفی الظل عن سید الانام”علیہ وعلٰی اٰلہ الصلٰوۃ والسلام ، جسے فقیر نے بعد وروداس سوال کے تالیف کیا،مطالعہ کرے ، ان شاء اللہ تعالٰی بیان شافی پائے گا اورمرشد کافی ، ہم نے اس رسالہ میں اس مسئلہ کی غایت تحقیق ذکر کی ہے اورنہایت نفیس دلائل سے ثابت کردیا ہے کہ حضورسراپا نور تابندہ درخشندہ ذی شعاع واضاء ت بلکہ معدن انواروافضل مضیئات بلکہ درحقیقت بعد جناب الٰہی نام”نور”انہیں کو زیبا، اوران کے ماوراء کو اگر نور کہہ سکتے ہیں توانہیں کی جناب سے ایک علاقہ وانتساب کے سبب ، اوریہ بھی ثابت کیا ہے کہ ثبوت معجزات صرف اسی پر موقوف نہیں کہ حدیث یا قرآن میں بالتصریح ان کا ذکر ہوبلکہ ان کے لئے تین طریقے ہیں ، اوریہ بھی بیان کردیا ہے پیشوایان دین کا داب ان معاملات میں ہمیشہ قبول وتسلیم رہاہے ۔ اگرکہیں قرآن وحدیث سے ثبوت نہ ملا تو اپنی نظر کا قصور سمجھا ، نہ یہ کہ باوجود ایسے ثبوت کافی کے کہ حدیثیں اورائمہ کی تصریحیں اورکافی دلیلیں ، سب کچھ موجود ،پھر بھی اپنی ہی کہے جاؤ ، انکار کے سواکچھ زبان پر نہ لاؤ ، اور اس کے سوا اور فوائد شریفہ وابحاث لطیفہ ہیں، جو دیکھے گا ان شاء اللہ تعالٰی لطف جانفزا پائے گا ،ولا حول ولا قوۃ الاباللہ العلی العظیم وصلی اللہ تعالٰی علٰی سیدنا ومولٰنا محمد واٰلہ واصحابہ واصھارہٖ وانصارہٖ واتباعہ اجمعین الٰی یوم الدین اٰمین والحمدللہ رب العٰلمین ۔
سیّد کی محبت و تعظیم
صحیح حدیث میں ہے :ستّۃ لعنتھم لعنھم اﷲ وکل نبی مجاب الزائد فی کتاب اﷲ والمکذب بقدراﷲ والمستحل من عترتی ماحرم اﷲ الحدیث۲؎۔
چھ شخص ہیں جن پرمیں نے لعنت کی اﷲ اُن پرلعنت کرے، اور نبی کی دعاقبول ہے ازانجملہ ایک وہ جوکتاب اﷲ میں اپنی طرف سے کچھ بڑھائے اور وہ جوخیروشر سب کچھ اﷲ کی تقدیر سے ہونے کاانکار کرے اور وہ جومیری اولاد سے اس چیز کو حلال رکھے جو اﷲ نے حرام کیا۔
(۲؎سنن الترمذی کتاب القدر حدیث ۲۱۶۱دارالفکر بیروت ۴ /۶۱)
اور ایک حدیث میں کہ ارشاد فرماتے ہیں صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم :من لم یعرف حق عترتی فلاحدی ثلث امّا منافق وامّا ولدزانیۃ واما حملتہ امّہ علٰی غیر طھر ۱؎۔جومیری اولاد کاحق نہ پہچانے وہ تین
باتوں میں سے ایک سے خالی نہیں، یا تومنافق ہے یاحرام یاحیضی بچہ۔
(۱؎ کنزالعمال حدیث ۳۴۱۹۹ مؤسسۃ الرسالہ بیروت ۲ /۱۰۴)
مجمع الانہرمیں ہے :من قال لعالم عویلم اولعلوی علیوی استخفافا فقد کفر۲؎۔جو کسی عالم کو مولویا یاسید کومیرو اس کی تحقیر کے لئے کہے وہ کافرہے۔
(۲؎ مجمع الانہرشرح ملتقی الابحرباب المرتدثم ان الفاظ الکفرانواع داراحیاء التراث العربی بیروت ۱ /۲۹۵)
اور اس میں شک نہیں جوسید کی تحقیربوجہ سیادت کرے وہ مطلقاً کافرہے اس کے پیچھے نماز محض باطل ہے ورنہ مکروہ، اور جوسید مشہورہو اگرچہ واقعیت معلوم نہ ہو اسے بلادلیل شرعی کہہ دینا کہ یہ صحیح النسب نہیں اگرشرائط قذف کاجامع ہے توصاف کبیرہ ہے اور ایساکہنے والا اسّی کوڑوں کاسزاوار، اور اس کے بعد اس کی گواہی ہمیشہ کو مردود، اور اگر شرط قذف نہ ہو توکم ازکم بلاوجہ شرعی ایذائے مسلم ہے اور بلاوجہ شرعی ایذائے مسلم حرام،
قال اﷲ تعالٰی :والذین یؤذون المؤمنین والمؤمنٰت بغیرما اکتسبوا فقداحتملوا بھتانا واثما مبینا۳؎۔
جولوگ ایماندار مردوں اورایماندارعورتوں بغیراس کے کہ انہوں نے (کوئی معیوب کام) کیاہو ان کادل دکھاتے ہیں توبیشک انہوں نے اپنے سرپربہتان باندھنے اور صریح گناہ کابوجھ اٹھالیا(ت)
(۳؎ القرآن الکریم ۳۳ /۵۸)
یہ فقیر ذلیل بحمدہ تعالٰی حضرات ساداتِ کرام کا ادنٰی غلام وخاکپاہے۔ ان کی محبت و عظمت ذریعہ نجات وشفاعت جانتا ہے،اپنی کتابوں میں چھاپ چکا ہے کہ سیّد اگربدمذہب بھی ہوجائے تو اس کی تعظیم نہیں جاتی جب تک
بدمذہب حدِ کفر تک نہ پہنچے ،ہاں بعدِکفر سیادت ہی نہیں رہتی،پھر اس کی تعظیم حرام ہوجاتی ہے۔ اور یہ بھی فقیر بار ہا فتوٰی دے چکا ہے کہ کسی کو سید سمجھنے اور اس کی تعظیم کرنے کے لیے ہمیں اپنے ذاتی علم سے اسے سید
جاننا ضروری نہیں،جو لوگ سید کہلائے جاتے ہیں ہم ان کی تعظیم کریں گے، ہمیں تحقیقات کی حاجت نہیں، نہ سیادت کی سند مانگنے کا ہم کو حکم دیا گیا ہے۔ اور خوا ہی نخواہی سند دکھانے پر مجبور کرنا اور نہ دکھائیں
تو بُرا کہنا مطعون کرنا ہرگز جائے نہیں۔
“ الناس امنأعلی انسابھم(لوگ اپنے نسب پرامین ہیں)،ہاں جس کی نسبت ہمیں خوب تحقیق معلوم ہوکہ یہ سیّد نہیں اور وہ سید بنے اس کی ہم تعظیم نہ کریں گے نہ اسے سید کہیں گے اور مناسب ہوگا کہ ناواقفوں کو اس
کے فریب سے مطلع کردیا جائے۔
میرے خیال میں ایک حکایت ہے جس پر میرا عمل ہے کہ ایک شخص کسی سیّد سے الجھا، انہوں نے فرمایا میں سیّد ہوں کہا۔کیا سند ہے تمہارے سیّد ہونے کی۔ رات کو زیارتِ اقدسﷺ سے مشرف ہوا کہ معرکہ حشر ہے یہ
شفاعت خواہ ہوا،اعراض فرمایا : اس نے عرض کی: میں بھی حضور کا امتی ہوں۔ فرمایا : کیاسند ہے تیرے امتی ہونے کی۔
امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ۔ فتاوی رضویہ
حسنینِ کریمین رضی اللہ تعالٰی عنھما
وَ يُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰى حُبِّهٖ مِسْكِيْنًا وَّ يَتِيْمًا وَّ اَسِيْرًا۰۰۸
اور کھانا کھلاتے ہیں اس کی محبّت پر مسکین اور یتیم اور اسیر کو – (مترجم : امام احمد رضا بریلوی)
خزائن العرفان مفسر : حضرت علامہ نعیم الدین مرآدآبادی رحمۃ اللہ علیہ
یعنی ایسی حالت میں جب کہ خود انہیں کھانے کی حاجت و خواہش ہو اور بعض مفسّرین نے اس کے یہ معنٰی لئے ہیں کہ اللہ تعالٰی کی محبّت میں کھلاتے ہیں ۔ شانِ نزول: یہ آیت حضرت علیِ مرتضٰی رضی اللہ تعالٰی عنہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا اور ان کی کنیز فضّہ کے حق میں نازل ہوئی ، حسنینِ کریمین رضی اللہ تعالٰی عنھما بیمار ہوئے ، ان حضرات نے ان کی صحت پر تین روزوں کی نذر مانی ، اللہ تعالٰی نے صحت دی ، نذر کی وفا کا وقت آیا ، سب صاحبوں نے روزے رکھے ، حضرت علیِ مرتضٰی رضی اللہ تعالٰی عنہ ایک یہودی سے تین صاع (صاع ایک پیمانہ ہے) جَو لائے ، حضرت خاتونِ جنّت نے ایک ایک صاع تینوں دن پکایا لیکن جب افطار کاوقت آیا اور روٹیاں سامنے رکھیں تو ایک روز مسکین ، ایک روز یتیم ، ایک روز اسیر آیا اور تینوں روز یہ سب روٹیاں ان لوگوں کو دے دی گئیں اور صرف پانی سے افطار کرکے اگلا روزہ رکھ لیا گیا ۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہلِ بیت اور قرابت داروں کے مناقب
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں خطبہ دینے کے لئے مکہ اور مدینہ منورہ کے درمیان اس تالاب پر کھڑے ہوئے جسے خُم کہتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اﷲ تعالیٰ کی حمدو ثناء اور وعظ و نصیحت کے بعد فرمایا : اے لوگو! میں تو بس ایک آدمی ہوں عنقریب میرے رب کا پیغام لانے والا فرشتہ (یعنی فرشتہ اجل) میرے پاس آئے گا اور میں اسے لبیک کہوں گا۔ میں تم میں دو عظیم چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں، ان میں سے پہلی اﷲ تعالیٰ کی کتاب ہے جس میں ہدایت اور نور ہے۔ اﷲ تعالیٰ کی کتاب پر عمل کرو اور اسے مضبوطی سے تھام لو، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کتاب اﷲ (کی تعلیمات پر عمل کرنے کی) ترغیب دی اور اس کی طرف راغب کیا پھر فرمایا : اور (دوسرے) میرے اہلِ بیت ہیں میں تمہیں اپنے اہل بیت کے متعلق اﷲ کی یاد دلاتا ہوں، میں تمہیں اپنے اہلِ بیت کے متعلق اﷲ کی یاد دلاتا ہوں۔ میں تمہیں اپنے اہلِ بیت کے متعلق اﷲ کی یاد دلاتا ہوں۔
الحديث رقم 15 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : من فضائل علي بن أبي طالب رضي الله عنه، 3 / 1873، الرقم : 2408، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 366، الرقم : 19265، وابن حبان في الصحيح، 1 / 145، الرقم : 123، وابن خزيمة في الصحيح، 4 / 62، الرقم : 2357، واللالکائي في اعتقاد أهل السنة، 1 / 79، الرقم : 88، والبيهقي في السنن الکبري، 2 / 148، الرقم : 2679، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 3 / 487.
—————————————————————————————————————————————————–
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں تم میں ایسی دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں کہ اگر تم نے انہیں مضبوطی سے تھامے رکھا تو میرے بعد ہر گز گمراہ نہ ہوگے۔ ان میں سے ایک دوسری سے بڑی ہے۔ اﷲتعالیٰ کی کتاب آسمان سے زمین تک لٹکی ہوئی رسی ہے اور میری عترت یعنی اہلِ بیت اور یہ دونوں ہرگز جدا نہ ہوں گی یہاں تک کہ دونوں میرے پاس (اکٹھے) حوض کوثر پر آئیں گی پس دیکھو کہ تم میرے بعد ان سے کیا سلوک کرتے ہو؟
أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : في مناقب أهل بيت النبي صلي الله عليه وآله وسلم، 5 / 663، الرقم : 3788 / 3786، والنسائي في السنن الکبري، 5 / 45، الرقم : 8148، 8464، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 14، 26، 59، الرقم : 11119، 11227، 11578، والحاکم في المستدرک، 3 / 118، الرقم : 4576، وأبويعلي في المسند، 2 / 303، الرقم : 10267، 1140، والطبراني عن أبي سعيد رضي الله عنه في المعجم الأوسط، 3 / 374، الرقم : 3439، وفي المعجم الصغير، 1 / 226، الرقم : 323، وفي المعجم الکبير، 3 / 65، الرقم : 2678، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 133، الرقم : 30081، وابن أبي عاصم في السنة، 2 / 644، الرقم : 1553.
—————————————————————————————————————————————————–
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے سنا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما رہے تھے : اے لوگو! میں تمہارے درمیان ایسی چیزیں چھوڑ رہا ہوں کہ اگر تم انہیں پکڑے رکھو گے تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے۔ (ان میں سے ایک) اﷲ تعالیٰ کی کتاب اور (دوسری) میرے اہلِ بیت (ہیں)۔
أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : في مناقب أهل بيت النبي صلي الله عليه وآله وسلم، 5 / 662، الرقم : 3786، والطبراني في المعجم الأوسط، 5 / 89، الرقم : 4757، وفي المعجم الکبير، 3 / 66، الرقم : 2680، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 4 / 114.
—————————————————————————————————————————————————–
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صبح کے وقت ایک اونی منقش چادر اوڑھے ہوئے باہر تشریف لائے تو آپ کے پاس حضرت حسن بن علی رضی اﷲ عنہما آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں اُس چادر میں داخل کر لیا، پھر حضرت حسین رضی اللہ عنہ آئے اور وہ بھی ان کے ہمراہ چادر میں داخل ہو گئے، پھر سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا آئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انھیں بھی اس چادر میں داخل کر لیا، پھر حضرت علی کرم اﷲ وجہہ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں بھی چادر میں لے لیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت مبارکہ پڑھی : ’’اہلِ بیت! تم سے ہر قسم کے گناہ کا مَیل (اور شک و نقص کی گرد تک) دُور کر دے اور تمہیں (کامل) طہارت سے نواز کر بالکل پاک صاف کر دے۔
أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : فضائل أهل بيت النّبي صلي الله عليه وآله وسلم، 4 / 1883، 2424، والحاکم في المستدرک، 3 / 159، الرقم : 4707. 4709، وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ، والبيهقي في السنن الکبري، 2 / 149، الرقم : 2680، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 370، الرقم : 32102.
—————————————————————————————————————————————————–
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پروردہ حضرت عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب اُم المؤمنین اُم سلمہ رضی اﷲ عنہا کے گھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر یہ آیت ’’اہلِ بیت! تم سے ہر قسم کے گناہ کا مَیل (اور شک و نقص کی گرد تک) دُور کر دے اور تمہیں (کامل) طہارت سے نواز کر بالکل پاک صاف کر دے۔‘‘ نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدہ فاطمہ اور حسنین کریمین سلام اﷲ علیہم کو بلایا اور انہیں ایک کملی میں ڈھانپ لیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بھی کملی میں ڈھانپ لیا، پھر فرمایا : اے اﷲ! یہ میرے اہل بیت ہیں، پس ان سے ہر قسم کی آلودگی دور فرما اور انہیں خوب پاک و صاف کر دے۔ سیدہ اُم سلمہ رضی اﷲ عنہا نے عرض کیا : اے اللہ کے نبی! میں (بھی) ان کے ساتھ ہوں، فرمایا : تم اپنی جگہ رہو اور تم تو بہتر مقام پر فائز ہو۔
أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : تفسير القرآن عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : ومن سورة الأحزاب، 5 / 351، الرقم : 3205، وفي کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : فضل فاطمة بنت محمد صلي الله عليه وآله وسلم، 5 / 699، الرقم : 3871، والطبراني في المعجم الأوسط، 4 / 134، الرقم : 3799.
—————————————————————————————————————————————————–
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب آیتِ مباہلہ نازل ہوئی : ’’آپ فرما دیں کہ آ جاؤ ہم (مل کر) اپنے بیٹوں کو اور تمہارے بیٹوں کو اور اپنی عورتوں کو اور تمہاری عورتوں کو اور اپنے آپ کو بھی اور تمہیں بھی (ایک جگہ پر) بلا لیتے ہیں۔‘‘ تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حسین علیہم السلام کو بلایا، پھر فرمایا : یا اﷲ! یہ میرے اہلِ بیت ہیں۔
أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : من فضائل علي بن أبي طالب رضي الله عنه، 4 / 1871، الرقم : 2404، والترمذي في السنن، کتاب : تفسير القرآن عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : ومن سورة آل عمران، 5 / 225، الرقم : 2999، وفي کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : (21)، 5 / 638، الرقم : 3724، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 185، الرقم : 1608، والنسائي في السنن الکبري، 5 / 107، الرقم : 8399، والبيهقي في السنن الکبري، 7 / 63، الرقم : 13169 – 13170، والحاکم في المستدرک، 3 / 163، الرقم : 4719.
—————————————————————————————————————————————————–
حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اﷲ عنھما سے مروی ہے کہ میں نے بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں عرض کیا : یا رسول اللہ! قریش جب آپس میں ملتے ہیں تو حسین مسکراتے چہروں سے ملتے ہیں اور جب ہم سے ملتے ہیں تو (جذبات سے عاری) ایسے چہروں کے ساتھ ملتے ہیں جنہیں ہم نہیں جانتے۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ سن کر شدید جلال میں آگئے اور فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! کسی بھی شخص کے دل میں اس وقت تک ایمان داخل نہیں ہو سکتا جب تک اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور میری قرابت کی خاطر تم سے محبت نہ کرے۔
ایک روایت میں ہے کہ فرمایا : ’’خدا کی قسم! کسی شخص کے دل میں اس وقت تک ایمان داخل نہ ہوگا جب تک اللہ تعالیٰ، اس کے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور میری قرابت کی وجہ سے تم سے محبت نہ کرے۔
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 207، الرقم : 1772، 1777، 17656، 17657، 17658، والحاکم في المستدرک، 3 / 376، الرقم : 5433، 2960، والنسائي في السنن الکبري، 5 / 51 الرقم : 8176، والبزار في المسند، 6 / 131، الرقم : 2175، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 / 188، الرقم : 1501، والديلمي في مسند الفردوس، 4 / 361، الرقم : 7037.
—————————————————————————————————————————————————–
حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اﷲ عنھما بیان فرماتے ہیں کہ ہم جب قریش کی جماعت سے ملتے اور وہ باہم گفتگو کر رہے ہوتے تو گفتگو روک دیتے ہم نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں اس امر کی شکایت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : لوگوں کو کیا ہو گیا ہے جب میرے اہل بیت سے کسی کو دیکھتے ہیں تو گفتگو روک دیتے ہیں؟ اﷲ رب العزت کی قسم! کسی شخص کے دل میں اس وقت تک ایمان داخل نہیں ہوگا جب تک ان (یعنی میرے اہلِ بیت) سے اﷲ تعالیٰ کے لیے اور میری قرابت کی وجہ سے محبت نہ کرے۔
أخرجه ابن ماجه في السنن، المقدمة، باب : فضل العباس بن عبد المطلب رضي الله عنه، 1 / 50، الرقم : 140، والحاکم في المستدرک، 4 / 85، الرقم : 6960، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 8 / 382، الرقم : 472، والديلمي في مسند الفردوس، 4 / 113، الرقم : 6350.
—————————————————————————————————————————————————–
حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرے اہلِ بیت کی مثال حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کی طرح ہے جو اس میں سوار ہوگیا وہ نجات پاگیا اور جو اس سے پیچھے رہ گیا وہ غرق ہو گیا۔
اور ایک روایت میں حضرت عبداﷲ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ فرمایا : جو اس میں سوار ہوا وہ سلامتی پا گیا اور جس نے اسے چھوڑ دیا وہ غرق ہو گیا۔
أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 12 / 34، الرقم : 2388، 2638، 2638، 2636، وفي المعجم الأوسط، 4 / 10، الرقم : 3478 : 5 / 355، الرقم : 5536 : 6 / 85، الرقم : 5870، وفي المعجم الصغير، 1 / 240، الرقم : 391 : 2 / 84، الرقم : 825، والحاکم في االمستدرک، 3 / 163، الرقم : 4720، والبزار في المسند، 9 / 343، الرقم : 3900، والديلمي في مسند الفردوس، 1 / 238، الرقم : 916.
—————————————————————————————————————————————————–
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے : قیامت کے دن میرے حسب و نسب کے سواء ہر سلسلہ نسب منقطع ہو جائے گا۔
أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 153، الرقم : 4684، والطبراني في المعجم الکبير، 3 / 44، الرقم : 2633، 2634 – 2635، وفي المعجم الأوسط، 5 / 376، الرقم : 5606، وعبد الرزاق في المصنف، 6 / 163، الرقم : 10354، والبيهقي في السنن الکبري، 7 / 63، الرقم : 13171، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 1 / 197، الرقم : 101، وَقَالَ : إِسْنَادَهُ حَسَنٌ، والديلمي في مسند الفردوس، 3 / 255، الرقم : 4755، والهيثمي في مجممع الزوائد، 9 / 173، وقال : إِسنادُهُ حَسَنٌ.
—————————————————————————————————————————————————–
وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہر ماں کے بیٹوں کا آبائی خاندان ہوتا ہے جس کی طرف وہ منسوب ہوتے ہیں سوائے فاطمہ کے بیٹوں کے، پس میں ہی ان کا ولی ہوں اور میں ہی ان کا نسب ہوں۔
أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 179، الرقم : 4770، وأبو يعلي في المسند 2 / 109، الرقم : 6741، والطبراني في المعجم الکبير، 3 / 44، الرقم : 2631 – 2632.
—————————————————————————————————————————————————–
حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ سنا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے : ہر عورت کی اولاد کا نسب اپنے باپ کی طرف ہوتا ہے سوائے اولاد فاطمہ کے کیونکہ میں ہی ان کا نسب اور میں ہی ان کا باپ ہوں۔
أخرجه الديلمي في مسند الفردوس، 3 / 234، الرقم : 4787، والهيثمي في مجمع الزوائد، 4 / 224.
—————————————————————————————————————————————————–
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یقیناً اﷲ تعالیٰ نے ہر نبی کی اولاد اس کی صلب میں رکھی اور بیشک اﷲتعالیٰ نے میری اولاد علی بن ابی طالب کی صلب میں رکھی ہے۔
أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 3 / 43، الرقم : 2630، والديلمي في مسند الفردوس، 1 / 172، الرقم : 643، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 172، والمناوي في فض القدير، 2 / 223.
—————————————————————————————————————————————————–
حضرت ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس نے نماز پڑھی اور مجھ پر اور میرے اہل بیت پر درود نہ پڑھا اس کی نماز قبول نہ ہو گی۔ حضرت ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اگر میں نماز پڑھوں اور اس میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود پاک نہ پڑھوں تو میں نہیں سمجھتا کہ میری نماز کامل ہوگی۔
أخرجه الدار قطني في السنن، 1 / 355، الرقم : 6.7، والبيهقي في السنن الکبري، 2 / 530، الرقم : 3969، وابن الجوزي في التحقيق في أحاديث الخلاف، 1 / 402، الرقم : 544، والشوکاني في نيل الأوطار، 2 / 322.
—————————————————————————————————————————————————–
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ایک فرشتہ جو اس رات سے پہلے کبھی زمین پر نہ اترا تھا اس نے اپنے پروردگار سے اجازت مانگی کہ مجھے سلام کرے اور مجھے یہ خوشخبری دے کہ حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنھا اہلِ جنت کی تمام عورتوں کی سردار ہیں اور حسن و حسین رضی اﷲ عنھما جنت کے تمام جوانوں کے سردار ہیں۔
أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : مناقب الحسن والحسين علهيما السلام، 5 / 660، الرقم : 3781، والنسائي في السنن الکبري، 80، 95، الرقم : 8298، 8365، وفي فضائل الصحابة، 1 / 58، 76، الرقم : 193، 260، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 391، الرقم : 23369، وفي فضائل الصحابة، 2 / 788، الرقم : 1406، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 388، الرقم : 32271، والحاکم في المستدرک، 3 / 164، الرقم : 4721. 4722، والطبراني في المعجم الکبير، 22 / 402، الرقم : 1005، وأبونعيم في حلية اولياء، 4 / 190، والبهيقي في الاعتقاد : 328.
—————————————————————————————————————————————————–
حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ اقدس میں حاضر ہوئے۔ درآں حالیکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چادر بچھائی ہوئی تھی۔ پس اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (بنفسِ نفیس) حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حضرت حسین علیھم السلام بیٹھ گئے پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس چادر کے کنارے پکڑے اور ان پر ڈال کر اس میں گرہ لگا دی۔ پھر فرمایا : اے اﷲ! تو بھی ان سے راضی ہوجا، جس طرح میں ان سے راضی ہوں۔
أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 5 / 348، الرقم : 5514، والهيثي في مجمع الزوائد، 9 / 169.
—————————————————————————————————————————————————–
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صاحبزادی سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا کے ہاں گئے اور کہا : اے فاطمہ! خدا کی قسم! میں نے آپ کے سوا کسی شخص کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نزدیک محبوب تر نہیں دیکھا اور خدا کی قسم! لوگوں میں سے مجھے بھی آپ کے والد محترم کے بعد کوئی آپ سے زیادہ محبوب نہیں۔
أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 168، الرقم : 4736، وابن أبي شيبة في المصنف، 7 / 432، الرقم : 37045، وأحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 1 / 364، والشيباني في الآحاد والمثاني، 5 / 360، الرقم : 2952، والخطيب البغدادي في تاريخ بغداد، 4 / 401.
—————————————————————————————————————————————————–
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت حسن علیہ السلام سینہ سے سر تک رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کامل شبیہ ہیں اور حضرت حسین علیہ السلام سینہ سے نیچے تک حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کامل شبیہ ہیں۔
أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : مناقب الحسن والحسين، 5 / 660، الرقم : 3779، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 99، الرقم : 774، 854، وابن حبان في الصحيح، 15 / 430، الرقم : 6974، والطيالسي في المسند، 1 / 91، الرقم : 130، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 2 / 394، الرقم : 780.
—————————————————————————————————————————————————–
شعبہ، سلمہ بن کہیل سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے ابوطفیل سے سنا کہ ابوسریحہ۔ ۔ ۔ یا زید بن ارقم رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس کا میں مولا ہوں، اُس کا علی مولا ہے۔
أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : في مناقب علي بن أبي طالب رضي الله عنه، 5 / 633، الرقم : 3713، والطبراني في المعجم الکبير، 5 / 195، 204، الرقم : 5071، 5096.
الحاکم في المستدرک، 3 / 134، الرقم : 4652، والطبراني في المعجم الکبير، 12 / 78، الرقم : 12593، والخطيب البغدادي في تاريخ بغداد، 12 / 343، وابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 45 / 77، 144، وابن کثير في البداية والنهاية، 5 / 451، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 108.
ابن أبي عاصم في السنة : 602، الرقم : 1355، وابن ابي شيبه في المصنف، 6 / 366، الرقم : 32072.
إبن أبي عاصم في السنة : 602، الرقم : 1354، والطبراني في المعجم الکبير، 4 / 173، الرقم : 4052، والطبراني في المعجم الأوسط، 1 / 229، الرقم :
عبد الرزاق في المصنف، 11 / 225، الرقم : 20388، والطبراني في المعجم الصغير، 1 : 71، وابن عساکرفي تاريخ دمشق الکبير، 45 / 143.
إبن أبي عاصم في السنة : 601، الرقم : 1353، وابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 45 / 146، وابن کثيرفي البداية والنهاية، 5 / 457، وحسام الدين هندي في کنز العمال، 11 / 602، رقم : 32904.
الطبراني في المعجم الکبير، 19 / 252، الرقم : 646، وابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 177، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 106.
—————————————————————————————————————————————————–
جمیع بن عمر تمیمی بیان کرتے ہیں کہ میں اپنی پھوپھی کے ہمراہ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنھا سے پوچھا گیا کہ لوگوں میں سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاں کون زیادہ محبوب تھا؟ اُمُّ المومنین رضی اﷲ عنہا نے فرمایا : فاطمہ (سلام اﷲ علیھا)۔ عرض کیا گیا : مردوں میں سے (کون زیادہ محبوب تھا؟) فرمایا : ان کے شوہر اور جہاں تک میں جانتی ہوں وہ بہت زیادہ روزے رکھنے والے اور راتوں کو عبادت کے لئے بہت قیام کرنے والے تھے۔
أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : فضل فاطمة بنتِ محمد صلي الله عليه وآله وسلم، 5 / 701، الرقم : 3874، والطبراني في المعجم الکبير، 22 / 403. 404، الرقم : 1008. 1009، والحاکم في المستدرک، 3 / 171، الرقم : 4744، وأبويعلي في المعجم، 1 / 128، الرقم : 235.
—————————————————————————————————————————————————–
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنھم سے فرمایا : تم جس سے لڑو گے میں اُس کے ساتھ حالت جنگ میں ہوں اور جس سے تم صلح کرنے والے ہو میں بھی اُس سے صلح کرنے والا ہوں۔
أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : فضل فاطمة بنت محمد صلي الله عليه وآله وسلم، 5 / 699، الرقم : 3870، وابن ماجه في السنن، المقدمة، باب : فضل الحسن والحسين ابنَيْ عَلِيِّ بْنِ أبي طالِبٍ رضی الله عنهم، 1 / 52، الرقم : 145، والحاکم في المستدرک، 3 / 161، الرقم : 4714، والطبراني في المعجم الأوسط، 5 / 182، الرقم : 5015، وفي المعجم الکبير، 3 / 40، الرقم : 2620، والصيداوي في معجم الشيوخ، 1 / 133، الرقم : 85.
—————————————————————————————————————————————————–
حضرت عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کوئی بندہ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کی جان سے بھی محبوب تر نہ ہو جاؤں اور میرے اہلِ بیت اسے اس کے اہل خانہ سے محبوب تر نہ ہو جائیں اور میری اولاد اسے اپنی اولاد سے بڑھ کر محبوب نہ ہو جائے اور میری ذات اسے اپنی ذات سے محبوب تر نہ ہو جائے۔
أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 7 / 75، الرقم : 6416، وفي المعجم الأوسط، 6 / 59، الرقم : 5790، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 / 189، الرقم : 1505، والديلمي في مسند الفردوس، 5 / 154، الرقم : 7795، والهيثمي في مجمع الزوائد، 1 / 88.
—————————————————————————————————————————————————–
شان رسول ﷺ و محبت رسول ﷺ
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم میں سے کوئی مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اللہ عزوجل اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے باقی ہر ایک سے محبوب تر نہ ہوجائیں، اور اس وقت تک جب کہ وہ کفر سے نجات پانے کے بعد دوبارہ (حالت) کفر (اور ایک روایت میں ہے کہ یہودیت اور نصرانیت) کی طرف لوٹنے کو وہ اس طرح ناپسند کرتا ہو کہ اس کے بدلے اسے آگ میں پھینکا جانا پسند ہو۔ اور تم میں سے کوئی مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اسے اُس کی اولاد اور اس کے والد (یعنی والدین) اور تمام لوگوں سے محبوب تر نہ ہو جاؤں۔
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 207، الرقم : 13174، 3 / 278، الرقم : 13991 – 13992، 3 / 230، الرقم : 13431، وابن حبان في الصحيح، 1 / 473، الرقم : 237، وعبد بن حميد في المسند، 1 / 394، الرقم : 1328، وابن منده في الإيمان، 1 / 433، الرقم : 283، وابن رجب في جامع العلوم والحکم، 1 / 33.
————————————————————————————————————————————————
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ ایک صحابی نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا : یا رسول اللہ! آپ مجھے میری جان اور میرے اہل و عیال اور میری اولاد سے بھی زیادہ محبوب ہیں۔ جب میں اپنے گھر میں ہوتا ہوں تو بھی آپ کو ہی یاد کرتا رہتا ہوں اور اس وقت تک چین نہیں آتا جب تک حاضر ہو کر آپ کی زیارت نہ کرلوں۔ لیکن جب مجھے اپنی موت اور آپ کے وصال مبارک کا خیال آتا ہے تو سوچتا ہوں کہ آپ تو جنت میں انبیاء کرام علیھم السلام کے ساتھ بلند ترین مقام پر جلوہ افروز ہوں گے اور اگر میں جنت میں داخل ہوں گا تو خدشہ ہے کہ کہیں آپ کی زیارت سے محروم نہ ہو جاؤں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس صحابی کے جواب میں سکوت فرمایا : یہاں تک کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام یہ آیت مبارکہ کو لے کر اترے : ’’اور جو کوئی اللہ تعالیٰ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرے تو یہی لوگ (روز قیامت) اُن (ہستیوں) کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ تعالیٰ نے (خاص) انعام فرمایا ہے۔‘‘ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس شخص کو بلایا اور اسے یہ آیت پڑھ کر سنائی۔
الحديث رقم 41 : أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 1 / 152، الرقم : 477، وفي المعجم الصغير، 1 / 53، الرقم : 52، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 4 / 240، 8 / 125، والهيثمي في مجمع الزوائد، 7 / 7، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 1 / 524، والسيوطي في الدر المنثور، 2 / 182.
————————————————————————————————————————————————
حضرت آدم بن علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما کو فرماتے ہوئے سنا : روزِ قیامت سب لوگ گروہ در گروہ ہو جائیں گے۔ ہر امت اپنے اپنے نبی کے پیچھے ہو گی اور عرض کرے گی : اے فلاں! شفاعت فرمائیے، اے فلاں! شفاعت کیجئے۔ یہاں تک کہ شفاعت کی بات حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر آ کر ختم ہو گی۔ پس اس روز شفاعت کے لئے اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مقام محمود پر فائز فرمائے گا۔
أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : تفسير القرآن، باب : قوله : عسي أن يبعثک ربک مقاما محمودا، 4 / 1748، الرقم : 4441، والنسائي في السنن الکبري، 6 / 381، الرقم : 295، وابن منده في الإيمان، 2 / 871، الرقم : 927.
————————————————————————————————————————————————
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میری شفاعت میری امت کے ان افراد کے لئے ہے جنہوں نے کبیرہ گناہ کئے۔
أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : صفة القيامة والرقائق والورع عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : ما جاء في الشفاعة، 4 / 625، الرقم : 2435، وأبوداود في السنن، کتاب : السنة، باب : في الشفاعة، 4 / 236، الرقم : 4739، وابن ماجه عن جابر رضي الله عنه في السنن، کتاب : الزهد، باب : ذکر الشفاعة، 2 / 1441، الرقم : 4310، والحاکم في المستدرک، 1 / 139، الرقم : 228، وقال الحاکم : هذا حديث صحيح علي شرط الشيخين، وأبو يعلي في المسند، 6 / 40، الرقم : 3284، والطبراني في المعجم الصغير، 1 / 272، الرقم : 448، والطيالسي في المسند، 1 / 233، الرقم : 1669.
————————————————————————————————————————————————
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس نے میری وفات کے بعد میری قبر کی زیارت کی گویا اس نے میری حیات میں میری زیارت کی۔
أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 12 / 406، الرقم : 13496، والدارقطني عن حاطب رضي الله عنه في السنن، 2 / 278، الرقم : 193، والبيهقي في شعب الإيمان، 3 / 489، الرقم : 4154، والهيثمي في مجمع الزوائد، 4 / 2.
————————————————————————————————————————————————
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کسی آدمی نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قیامت کے متعلق سوال کیا کہ (یا رسول اﷲ!) قیامت کب آئے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم نے اس کے لئے کیا تیاری کر رکھی ہے؟ اس نے عرض کیا : میرے پاس تو کوئی تیاری نہیں۔ (امام احمد کی روایت میں ہے کہ اس نے عرض کیا : میں نے تو اس کے لئے بہت سے اعمال تیار نہیں کیے، نہ بہت سی نمازیں اور نہ بہت سے روزے) سوائے اس کے کہ میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت رکھتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم (قیامت کے روز) اسی کے ساتھ ہو گے جس سے محبت رکھتے ہو۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہمیں (یعنی تمام صحابہ کو) کبھی کسی خبر سے اتنی خوشی نہیں ہوئی جتنی خوشی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمانِ اقدس سے ہوئی کہ تم اس کے ساتھ ہو گے جس سے محبت کرتے ہو۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرتا ہوں اور حضرت ابوبکر و عمر رضی اﷲ عنہما سے محبت کرتا ہوں لہٰذا امید کرتا ہوں کہ ان کی محبت کے باعث میں بھی ان حضرات کے ساتھ ہی رہوں گا اگرچہ میرے اعمال تو ان کے اعمال جیسے نہیں۔
أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : المناقب، باب : مناقب عمر بن الخطاب أبي حفص القرشي العدوي، 3 / 1349، الرقم : 3485، وفي کتاب : الأدب، باب : ما جاء في قول الرجل ويلک، 5 / 2285، الرقم : 5815، ومسلم في الصحيح، کتاب : البر والصلة والآداب، باب : المرء مع من أحب، 4 / 2032، الرقم : 2639، والترمذي في السنن، کتاب : الزهد عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم باب : ما جاء أن المرء مع من أحب، 4 / 595، الرقم : 2385، وقال أبو عيسي : هذا حديث صحيح، وأبو داود في السنن، کتاب : الأدب، باب : إخبار الرجل الرجل بمحبته إياه، 4 / 333، الرقم : 5127، والبخاري في الأدب المفرد، 1 / 129، الرقم : 352، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 104، 168، 178، الرقم : 12032، 12738، 12846، وابن حبان في الصحيح، 10 / 308، الرقم : 105، وأبو يعلي في المسند، 5 / 372، الرقم : 3023، والطبراني في المعجم الأوسط، 8 / 254، الرقم : 8556.
————————————————————————————————————————————————
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک دیہاتی شخص نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کیا : (یا رسول اﷲ!) قیامت کب آئے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو نے اس کے لیے کیا تیاری کر رکھی ہے؟ اس نے عرض کیا : اﷲ عزوجل اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت (یہی میرا سرمایہ حیات ہے)۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو اسی کے ساتھ ہوگا جس سے تجھے محبت ہے۔
أخرجه البخاري في صحيح، کتاب : الأدب، باب : علامة الحب في اﷲ، 3 / 1349، الرقم : 3485، ومسلم في الصحيح، کتاب : البر والصلة والآداب، باب : المرء مع من أحب، 4 / 2032، الرقم : 2639، والترمذي في السنن، کتاب : الزهد عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : ماجاء أن المرء مع من أحب، 4 / 595، الرقم : 2385.
————————————————————————————————————————————————
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور میں ایک مرتبہ مسجد سے نکل رہے تھے کہ مسجد کے دروازے پر ایک آدمی ملا اور اس نے عرض کیا : یا رسول اللہ! قیامت کب آئے گی؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم نے اس کے لئے کیا تیاری کر رکھی ہے؟ وہ آدمی کچھ دیر خاموش رہا پھر اس نے عرض کیا : یا رسول اللہ! میں نے اس کے لئے (فرائض سے) زیادہ روزہ، نماز اور صدقہ وغیرہ (اعمال) تو تیار نہیں کئے لیکن (اتنا ہے کہ) میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت رکھتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو تم اسی کے ساتھ ہو گے جس سے تم محبت رکھتے ہو۔
أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : الأحکام، باب : القَضَاءِ وَالفُتْيَاَ في الطَّرِيْقِ، 6 / 2615، الرقم : 6734، وفي کتاب : الأدب، باب : ماجائَ في قول الرّجُلِ ويلَکَ، 5 / 2282، الرقم : 5815، وفي کتاب الأدب، باب : علامًةِ حُبِّ اﷲِ عزوجل لقولِهِ : (وَإِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اﷲَ فَاتَّبِعُوْنِي يُحْبِبْکُمُ اﷲُ)، (آل عمران : 31)، 5 / 2285، الرقم : 5816 – 5819، وفي کتاب : فضائل أصحاب النّبِي صلي الله عليه وآله وسلم، باب : مناقب عُمَرَ بنِ الْخطَّابِ، 3 / 1349، الرقم : 3485، ومسلم في الصحيح، کتاب : البرو الصلة والآداب، باب : المرء مع من أحبَّ 4 / 2032. 2033، الرقم : 2639، والترمذي نحوه في السنن، کتاب : الزهد عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : ماجاء أن المرء مع من أحب، 4 / 595، الرقم : 2385 وَصَحَّحَهُ، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 465 الرقم : 12715، وابن خزيمة في الصحيح، 3 / 149، الرقم : 1796، وابن حبان في الصحيح، 1 / 182، الرقم : 8، والطبراني في المعجم الأوسط، 7 / 267، الرقم : 7465، والطيالسي في المسند، 1 / 284، الرقم : 2131، وأبويعلي في المسند، 5 / 372، الرقم : 3023، والبيهقي في شعب الإيمان، 1 / 387، الرقم : 498.
————————————————————————————————————————————————
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا : یارسول اﷲ! ہمیں کیا ہوگیا ہے کہ جب ہم آپ کی بارگاہِ اقدس میں ہوتے ہیں تو ہمارے دل نرم ہوتے ہیں ہم دنیا سے بے رغبت اور آخرت کے باسی ہو جاتے ہیں اور جب آپ کی بارگاہ سے چلے جاتے ہیں اور اپنے گھر والوں میں گھل مل جاتے ہیں اور اپنی اولاد سے ملتے جلتے رہتے ہیں تو ہمارے دل بدل جاتے ہیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر تم اسی حالت میں رہو جس طرح میرے پاس سے اٹھ کر جاتے ہو تو فرشتے تمہارے گھروں میں تمہاری زیارت کریں اور اگر تم گناہ نہ کرو تو اﷲتعالیٰ ضرور ایک نئی مخلوق لے آئے گا تاکہ وہ گناہ کریں (اور پھر توبہ کر لیں) اور پھر اﷲ تعالیٰ انہیں بخش دے۔
أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : صفة الجنة عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : ماجاء في صفة الجنة ونعيمها، 4 / 672، الرقم : 2526، وابن حبان في الصحيح، 16 / 396، الرقم، 3787، والطيالسي في المسند، 1 / 337، الرقم : 2583، والبيهقي في شعب الإيمان، 5 / 409، الرقم : 7101، وعبد بن حميد في المسند، 1 / 415، الرقم : 1420، وابن المبارک في الزهد، 1 / 380، الرقم : 1075.
————————————————————————————————————————————————
حضرت مسور بن مخرمہ اور مروان رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے، عروہ بن مسعود (جب بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں کفار کا وکیل بن کر آیا تو) صحابہ کرام رضی اللہ عنھم (کے معمولاتِ تعظیم مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو دیکھتا رہا کہ جب بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنا لعاب دہن پھینکتے تو کوئی نہ کوئی صحابی اسے اپنے ہاتھ پر لے لیتا تھا جسے وہ اپنے چہرے اور بدن پر مل لیتا تھا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی بات کا حکم دیتے ہیں تو اس کی فوراً تعمیل کی جاتی تھی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وضو فرماتے ہیں تو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے استعمال شدہ پانی کو حاصل کرنے کے لئے ایک دوسرے پر ٹوٹ پڑتے تھے۔ (اور ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے تھے ہر ایک کی کوشش ہوتی تھی کہ یہ پانی میں حاصل کروں) جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گفتگو فرماتے ہیں تو صحابہ کرام اپنی آوازوں کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے پست رکھتے تھے اور انتہائی تعظیم کے باعث آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف نظر جما کر بھی نہیں دیکھتے تھے۔ اس کے بعد عروہ اپنے ساتھیوں کی طرف لوٹ گیا اور ان سے کہنے لگا : اے قوم! اﷲ ربّ العزت کی قسم! میں (بڑے بڑے عظیم الشان) بادشاہوں کے درباروں میں وفد لے کر گیا ہوں، میں قیصر و کسری اور نجاشی جیسے بادشاہوں کے درباروں میں حاضر ہوا ہوں۔ لیکن خدا کی قسم! میں نے کوئی ایسا بادشاہ نہیں دیکھا کہ اس کے درباری اس کی اس طرح تعظیم کرتے ہوں جیسے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم کرتے ہیں۔ خدا کی قسم! جب وہ تھوکتے ہیں تو ان کا لعاب دہن کسی نہ کسی شخص کی ہتھیلی پر ہی گرتا ہے، جسے وہ اپنے چہرے اور بدن پر مل لیتا ہے۔ جب وہ کوئی حکم دیتے ہیں تو فوراً ان کے حکم کی تعمیل ہوتی ہے، جب وہ وضو فرماتے ہیں تو یوں محسوس ہونے لگتا ہے کہ لوگ وضو کا استعمال شدہ پانی حاصل کرنے کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ لڑنے مرنے پر آمادہ ہو جائیں گے وہ ان کی بارگاہ میں اپنی آوازوں کو پست رکھتے ہیں، اور غایت تعظیم کے باعث وہ ان کی طرف آنکھ بھر کر دیکھ نہیں سکتے۔
الحديث رقم 51 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : الشروط، باب : الشروط في الجهاد والمصالحة مع أهل الحرب وکتابة، 2 / 974، الرقم : 2581، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 329، وابن حبان في الصحيح، 11 / 216، الرقم : 4872، والطبراني في المعجم الکبير، 20 / 9، الرقم : 13، والبيهقي في السنن الکبري، 9 / 220.
————————————————————————————————————————————————
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مقام جمرہ پر کنکریاں ماریں اور اپنی قربانی کا فریضہ ادا فرما لیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سر انور کا دایاں حصہ حجام کے سامنے کر دیا، اس نے بال مبارک مونڈے پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کو بلایا اور ان کو وہ بال عطا فرمائے، اِس کے بعد حجام کے سامنے (سر انور کی) بائیں جانب کی اور فرمایا : یہ بھی مونڈو، اس نے ادھر کے بال مبارک بھی مونڈ دیئے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ بال بھی حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کو عطا فرمائے اور فرمایا : یہ بال لوگوں میں تقسیم کر دو۔
الحديث رقم 52 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : الحج، باب : بيان أن السنة يوم النحر أن يرمي ثم ينحر ثم يحلق، 2 / 948، الرقم : 1305، والترمذي فيالسنن، کتاب : الحج عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : ما جاء بأي جانب الرأس يبدأ في الحلق، 3 / 255، الرقم : 912، وأبوداود في السنن، کتاب : المناسک، باب : الحلق والتقصير، 2 / 203، الرقم : 1981، والنسائي في السنن الکبري، 2 / 449، الرقم : 4114، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 111، الرقم : 12113، وابن حبان في الصحيح، 9 / 191، الرقم : 1743، وابن خزيمة في الصحيح، 4 / 299، الرقم : 2928، والحاکم في المستدرک، 1 / 647، الرقم : 1743، وَ قَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ.
————————————————————————————————————————————————
ُ
حضرت ابن سیرین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حصرت عبیدہ سے کہا : ہمارے پاس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کچھ موئے مبارک ہیں جنہیں ہم نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے یا حضرت انس کے گھر والوں سے حاصل کیا ہے۔ حضرت عبیدہ نے فرمایا : اگر ان میں سے ایک موئے مبارک بھی میرے پاس ہوتا تو وہ مجھے دنیا (اور جو کچھ اس دنیا میں ہے ان سب) سے کہیں زیادہ محبوب ہوتا۔
الحديث رقم 54 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : الوضوء، باب : الماء الذي يغسل به شعرا الإنسان وکان عطاء لا يري، 1 / 75، الرقم : 168، والبيهقي في السنن الکبري، 7 / 67، الرقم : 13188.
————————————————————————————————————————————————
حضرت اسماء بنت ابوبکر رضی اﷲ عنھما کے غلام حضرت عبداﷲ ایک طویل روایت میں بیان کرتے ہیں کہ مجھے حضرت اسماء رضی اﷲ عنھا نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جبّہ مبارک کے متعلق بتایا اور فرمایا : یہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جبّہ مبارک ہے اور پھر انہوں نے ایک جبّہ نکال کر دکھایا جو موٹا دھاری دار کسروانی (کسریٰ کے بادشاہ کی طرف منسوب ہے) جبّہ تھا جس کا گریبان دیباج کا تھا اور اس کے دامنوں پر دیباج کے سنجاف تھے حضرت اسماء رضی اﷲ عنھا نے فرمایا : یہ مبارک جبّہ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنھا کے پاس ان کی وفات تک محفوظ رہا، جب ان کی وفات ہوئی تویہ میں نے لے لیا۔ یہی وہ مبارک جبّہ ہے جسے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہنتے تھے۔ سو ہم اسے دھو کر اس کا پانی بیماروں کو پلاتے ہیں اور اس کے ذریعے شفا طلب کی جاتی ہے۔
الحديث رقم 55 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : اللباس والزينة، باب : تحريم استعمال إناء الذهب والفضة علي الرجال، 3 / 1641، الرقم : 2069، وأبو داود في السنن، کتاب : اللباس، باب : الرخصة في العلم وخيط الحرير، 4 / 49، الرقم : 4054، والبيهقي في السنن الکبري، 2 / 423، الرقم : 4010، وفي شعب الإيمان 5 / 141، الرقم : 6108، وأبو عوانة في المسند، 1 / 230، الرقم : 511، وابن راهويه في المسند، 1 / 133، الرقم : 30.
————————————————————————————————————————————————
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت اُم سُلیم رضی اﷲ عنہا کے گھر تشریف لے جاتے اور ان کے بچھونے پر سو جاتے جبکہ وہ گھر میں نہیں ہوتی تھیں۔ ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور اُن کے بچھونے پر سو گئے، وہ آئیں تو ان سے کہا گیا : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمہارے گھر میں تمہارے بچھونے پر آرام فرما ہیں۔ یہ سن کر وہ (فورًا) گھر آئیں دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پسینہ مبارک آیا ہوا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پسینہ مبارک چمڑے کے بستر پر جمع ہو گیا ہے۔ حضرت اُمّ سُلیم نے اپنی بوتل کھولی اور پسینہ مبارک پونچھ پونچھ کر بوتل میں جمع کرنے لگیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اچانک اٹھ بیٹھے اور فرمایا : اے اُمّ سُلیم! کیا کر رہی ہو؟ انہوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! ہم اس (پسینہ مبارک) سے اپنے بچوں کے لئے برکت حاصل کریں گے (اور اسے بطور خوشبو استعمال کریں گے)۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو نے ٹھیک کیا ہے۔
الحديث رقم 56 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : الفضائل، باب : طيب عرق النبي صلي الله عليه وآله وسلم والتبرک به، 4 / 1815، الرقم : 2331، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 221، الرقم : 1334 / 1339.
————————————————————————————————————————————————
اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کو دیکھا جاتا کہ وہ منبر (نبوی) کی وہ جگہ جہاں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف فرما ہوتے، اسے اپنے ہاتھ سے چھوتے اور پھر ہاتھ اپنے چہرہ پر مل لیتے۔
قاضي عياض، الشفاء بتعريف حقوق المصطفیٰ، 2 : 620
تميمي، الثقات، 4 : 9، رقم : 1606
ابن سعد، الطبقات الکبری، 1 : 254
ابن قدامه، المغني، 3 : 299
————————————————————————————————————————————————
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب قحط پڑ جاتا تو حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کے وسیلہ سے بارش کی دعا کرتے اور عرض کرتے : اے اللہ! ہم تیری بارگاہ میں اپنے نبی مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وسیلہ پکڑا کرتے تھے تو تو ہم پر بارش برسا دیتا تھا اور اب ہم تیری بارگاہ میں اپنے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معزز چچا جان کو وسیلہ بناتے ہیں کہ تو ہم پر بارش برسا۔ فرمایا : تو ان پر بارش برسا دی جاتی۔
الحديث رقم 57 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : الاستسقاء، باب : سُؤَالِ النَّاسِ الإمام الاستسقاء إِذا قَحَطُوا، 1 / 342، الرقم : 964، وفي کتاب : فضائل الصحابة، باب : ذکر العَبَّاسِ بنِ عَبْدِ المُطَّلِبِ رضي اﷲ عنهما، 3 / 1360، الرقم : 3507، وابن خزيمة في الصحيح، 2 / 337، الرقم : 1421، وابن حبان في الصحيح، 7 / 110، الرقم : 2861، والطبراني في المعجم الأوسط، 3 / 49، الرقم : 2437، والبيهقي في السنن الکبري، 3 / 352، الرقم : 6220، والشيباني في الآحاد والمثاني، 1 / 270، الرقم : 351، واللالکائي في کرامات الأولياء، 1 / 135، الرقم : 87 وابن عبد البر في الاستيعاب، 2 / 814، وابن جرير الطبري في تاريخ الأمم والملوک، 4 / 433.
————————————————————————————————————————————————
حدیث نبوی ﷺ کےنیچے ٹاپک سلیکٹ کریں۔شکریہ
شان رسول ﷺ و محبت رسول ﷺ
مرشد حسین حق مھنجا سائیں۔۲
مرشد حسین حق مھنجا سائیں۔۲
مرشد حسین حق مھنجا سائیں۔۱
مرشد حسین حق مھنجا سائیں۔۱
بیان کے نیچے فہرست پر کلک کریں۔ شکریہ
بیان کے بٹن سے نیچے فہرست پر کلک کریں تاکہ آپ کے سامنے تمام بیانات کی فہرست کھل جائے۔
تشہد ’’التحیات‘‘ کے سلسلے میں ایک مغالطے کا تحقیقی جائزہ
تشہد ’’التحیات‘‘ کے سلسلے میں ایک مغالطے کا تحقیقی جائزہ
علامہ اُسید الحق قادری بدایونی دامت برکاتہم العالیہ کی کتاب تحقیق و تفہیم سے ھدیہء قارئین ہے۔
نماز میں قعدہ کی حالت میں کچھ مخصوص الفاظ پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے جن کو اصطلاح میں تشہد اور عام زبان میں ’’التحیات‘‘کہتے ہیں،اس میں پہلے اللہ کی حمدوثنا ہے،پھر نبی کریم ﷺپر سلام ہے ،اس کے بعد اللہ کے نیک بندوں پر سلام ہے،اور پھر توحید ورسالت کی گواہی پریہ دعا ختم ہوتی ہے-صحیح احادیث میں اس کے مختلف الفاظ آئے ہیں،ترتیب اور مفہوم کم وبیش سب کا یہی ہے جو مذکور ہوا البتہ روایتوں کے اختلاف کی وجہ سے الفاظ میں تھوڑا بہت تفاوت ہے- مثال کے طور پرصحیح بخار ی اور صحیح مسلم میں حـضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ الفاظ مروی ہیں:
التحیات للّٰہ و الصلوت والطیبات السلام علیک ایھا النبی ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ السلام علینا و علی عباداللّٰہ الصالحین اشھد ان لا الہ الا اللّٰہ واشھد انّ محمدا عبدہ ورسولہ- (۱)
یہ تشہد ابن مسعود کہلاتا ہے -اس کے علاوہ حضرت ابن عباس اور حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے بھی تشہد کی روایتیں منقول ہیں-
تشہد ابن عباس یہ ہے : التحیات المبارکات الصلوات الطیبات للّٰہ السلام علیک ایھا النبی ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ السلام علینا وعلٰی عباد اللّٰہ الصالحین اشھد ان لا الہ الا اللّٰہ واشھد ان محمدا عبدہ و رسولہ-
تشہد ابن عمر یہ ہے : التحیات للّٰہ الزاکیات للّٰہ الطیبات الصلوات للّٰہ السلام علیک ایھا النبی ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ السلام علینا وعلٰی عباد اللّٰہ الصالحین اشھد ان لا الہ الا اللّٰہ واشھد ان محمدا عبدہ و رسولہ
احناف کا عمل تشہد ابن مسعود پر ہے اور امام احمد بن حنبل کے مسلک میں بھی اسی پر عمل ہے ،اکثر شافعیہ نے تشہدابن عباس کو اختیار فرمایا ہے،امام لیث بن سعد نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے،جب کہ امام مالک نے تشہد ابن عمر کو اختیار فرمایا ہے-
ان تمام روایتوں میں ایک بات مشترک ہے کہ ان میں نبی کریم ﷺ کو سلام کے لیے ندا اور خطاب کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے یعنی السلام علیک ایھا النبی ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ(اے نبی آپ پر سلام ہو اوراللہ کی رحمتیں اور برکتیں (نازل )ہوں)کچھ حضرات کے لیے نبی کریم ﷺ کو اس طرح مخاطب کرکے سلام کرناتشویش کا باعث ہوتا ہے لہٰذا یہ حضرات اپنی’’ تشویش ‘‘کو مختلف تاویلات کے ذریعہ دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں،حالانکہ اگر تحقیقی نظر سے دیکھا جائے توان تاویلات کی حیثیت مغالطے سے زیادہ کچھ نہیں ہے -اس سلسلہ میں عام طور پر دو باتیں کہی جاتی ہیں:
(۱)تشہد کے یہ الفاظ اس وقت تک پڑھے جاتے رہے جب تک نبی کریم ﷺظاہری طور پر صحابہ کے درمیان موجود رہے،مگر جب آپ نے پردہ فرمایاتو بجائے السلام علیک ایھا النبی(اے نبی آپ پر سلام ہو)کے السلام علی النبی(نبیﷺ پر سلام ہو)پڑھا جانے لگا،اس کے لیے حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ایک روایت کا حوالہ دیا جاتا ہے جو صحیح بخاری اور مسند ابی عوانہ میں مروی ہے-امام ابی عوانہ یعقوب بن اسحاق الاسفرائنی (م:۳۱۶ھ)اپنی مسند میں حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ: وھو بین ظھر انینا فلما قبض قلنا السلام علی النبی- (۲)
ترجمہ : ابن مسعود نے فرمایا کہ وہ (یعنی السلام علیک ایھاالنبی) حضور ﷺ کی حیات ظاہری میں تھا، جب حضور نے پردہ فرما لیا تو ہم یہ کہنے لگے ’’السلام علی النبی‘‘ یعنی نبی پر سلامتی ہو- یہی روایت الفاظ کے قدرے اختلاف کے ساتھ صحیح بخاری میں بھی وارد ہے جس کی تفصیل آگے آرہی ہے-
(۲)دوسرا مغالطہ یہ دیا جاتا ہے کہ یہ الفاظ یعنی السلام علیک ایھاالنبییہ تشہد میں آئے ہیں اور تشہد معراج کی رات اللہ اور اس کے رسول کے درمیان ہونے والی گفتگوکی حکایت ہے ،اس سے انشاے مصلی مقصود نہیں ہے یعنی نمازی سلام کا قصد و ارادہ نہیں کرتا بلکہ وہ صرف ان الفاظ کی نقل و حکایت کرتا ہے ،جس طرح کہ قرآن کریم میں بے شمار جگہ لفظ ’’یا‘‘(اے فلاں)کے ذریعے مختلف اقوال کی حکایت موجود ہے جب نمازی ان آیات کو نماز میں تلاوت کرتا ہے تواس کا ارادہ ان مذکورہ اشخاص کو پکارنا یا ندا کرنا نہیں ہوتا ہے بلکہ وہ محض اس واقعے کی نقل وحکایت کے طور پر ان الفاظ کو ادا کرتا ہے ،اسی طرح تشہد میں بھی نبی کریم ﷺ کو مخاطب کرکے سلام کرنا مقصود نہیں ہے بلکہ یہ تو صرف اس گفتگو کی نقل وحکایت ہے –
ذیل میں ہم ان دونوں دلیل نما مغالطوں کا تنقیدی جائزہ لیں گے-لیکن آگے بڑھنے سے پہلے تشہد ابن مسعود کے سلسلے میں محدثین کی راے دیکھتے چلیں-امام ترمذی اپنی جامع میں حضرت ابن مسعود کی مذکورہ روایت نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
حدیث ابن مسعود قد روی عنہ من غیروجہ، وھو اصح حدیث روی عن النبی ﷺفی التشھد والعمل علیہ عند اکثر اھل العلم من اصحاب النبی ﷺ ومن بعدھم من التابعین،وہو قول سفیان الثوری،وابن مبارک،واحمد واسحاق(۳)
ترجمہ : ابن مسعود کی حدیث ایک سے زیادہ طریقوں سے مروی ہے اور وہ تشہد کے سلسلہ میں نبی کریم ﷺ سے مروی حدیثوں میں سب سے اصح حدیث ہے ، صحابہ اور ان کے بعد تابعین میں سے اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے،یہی سفیان ثوری،ابن مبارک،احمدبن حنبل اوراسحاق کا قول بھی ہے-
حافظ ابن حجر عسقلانی فتح الباری میں فرماتے ہیں:
قال البزار لما سئل عن اصح حدیث فی التشھد قال ھو عندی حدیث ابن مسعود روی عن نیف و عشرین طریقا ثم سرد اکثرھا وقال لا اعلم فی التشھد اثبت منہ ولا اصح اسانید ولا اشھررجالا(۴)
ترجمہ:جب بزار سے تشہد کی صحیح ترین حدیث کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے کہا میرے نزدیک وہ حدیث ابن مسعود ہے- یہ بیس سے زائد صحابہ سے مروی ہے، پھر بزار نے ان میں سے اکثر طریقوں کو ذکر کیا ہے، پھر کہا کہ اور مجھے علم نہیں ہے کہ تشہد کے متعلق اس سے زیادہ اثبت واصح کوئی حدیث ہو جس کے رجال اس سے زیادہ مشہور و معروف ہوں-
اب ہم تشہد کے سلسلے میں پہلے مغالطے کی طرف آتے ہیں- ہم نے اوپرعرض کیا تھاکہ تشہد کے الفاظ اگر چہ مختلف واقع ہوئے ہیں (جیسا کہ تشہد ابن مسعود، تشہد ابن عباس اور تشہد ابن عمرمیں آپ نے دیکھا) مگر تمام روایتوں میں حضور ﷺ پر سلام کے لیے ندا اور خطاب کا صیغہ ہی وارد ہوا ہے- حضور ﷺ کی ظاہری حیات مبارکہ اور بعد وصال صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا عمل اسی طرح رہا، اس سلسلہ میں حضرت ابوبکر، حضرت عمر، سیدہ عائشہ، حضرت ابوموسیٰ اشعری، حضرت ابن عمر اور حضرت ابو سعید خدری رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے صحیح روایات موجود ہیں، امام مالک مؤطا میں فرماتے ہیں :
عن عروۃ بن زبیر عن عبدالرحمن بن عبدالقاری انہ سمع عمر بن الخطاب رضی اللّٰہ عنہ وھو علی المنبر یعلم الناس التشھد یقول ثم قولوا التحیات للّٰہ الزاکیات للّٰہ الطیبات للّٰہ الصلوات للّٰہ، السلام علیک ایھا النبی ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ السلام علینا وعلی عباد اللّٰہ الصالحین اشھد ان لا الہ الا اللّٰہ واشھد ان محمداً عبدہ ورسولہ-(۵)
ترجمہ : حضرت عروۃ بن زبیر حضرت عبدالرحمن بن عبدالقاری سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے حضرت عمر بن خطاب کو سنا کہ وہ منبر پر لوگوں کو تشہد سکھا رہے ہیں، آپ فرما رہے تھے کہ پھر اس کے بعد یہ کہو: التحیات للّٰہ الزاکیات للّٰہ الطیبات للّٰہ الصلوات للّٰہ، السلام علیک ایھا النبی ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہالسلام علینا وعلی عباد اللّٰہ الصالحین اشھد ان لا الہ الا اللّٰہ واشھد ان محمداً عبدہ ورسولہ-
اس روایت میں واضح ہے کہ حضرت عمر نے اپنے زمانۂ خلافت میں منبر پر کھڑے ہوکر لوگوں کو جو تشہد تعلیم فرمایا اس میں السلام علی النبی (نبی پر سلام) نہیں ہے بلکہ السلام علیک ایھا النبی (اے نبی آپ پر سلام ہو) ہے-
امام مالک نے حضرت عبداللہ ابن عمر اور حضرت سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے بھی روایات تشہد ذکر کیں ہیں، ان میں بھی سلام بصیغۂ خطاب و نداہی ہے (۶) تشہد میں صیغۂ خطاب پر تمام ائمہ مجتہدین کا اجماع ہے-ابن حزم ظاہری لکھتے ہیں : اجماع اھل الاسلام المتیقن علی ان المصلی یقول فی صلاتہ السلام علیک ایھا النبی- (۷) ترجمہ : تمام اہل اسلام کا اس بات پر اجماع ہے کہ نماز میں نمازی یہ کہے السلام علیک ایھا النبی-
حضرت ابن مسعود کی متذکرہ روایت کے علاوہ کسی صحابی سے کوئی ایسی روایت نہیں ہے جس سے یہ پتہ چلتا ہو کہ حضور اکرم ﷺ کے پردہ فرمانے کے بعد صحابہ نے تشہد کے الفاظ میں تبدیلی کر لی ہو-یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اگر ’’السلام علیک ایھاالنبی‘‘ کہنے سے اس لیے اعراض ہے کہ حضور ﷺ اب سامنے نہیں، لہٰذا ان کو صیغۂ خطاب سے سلام نہیں کیا جا سکتا تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب صحابہ کرام سفر پر جاتے تھے اور مدینہ منورہ سے دور دیگر شہروں میں ہوتے تھے تو تشہد کیسا پڑھتے تھے؟ اس دلیل کی رو سے تو سفر وغیرہ میں (جہاں حضور ﷺ سامنے موجود نہ ہوں) صحابۂ کرام کو ’’السلام علی النبی‘‘ کہنا چاہیے تھا مگر اس سلسلہ میں صحیح تو کیا کوئی ضعیف روایت بھی پیش نہیں کی جا سکتی- صحابۂ کرام حضور ﷺ کے سامنے ہوں یا آپ کے غائبانہ میں، مدینہ میں ہوں یا مدینہ سے سیکڑوں میل دور ہر حال میں تشہد پڑھتے وقت ’’السلام علیک ایھاالنبی‘‘ ہی کہا کرتے تھے اور یہی تشہد دور دراز کے شہروں میں رہنے والے اہل اسلام کو سکھایا جاتا تھا- مصر کے بلند پایہ عالم اور محقق علامہ محمود صبیح فرماتے ہیں :
قد کان الصحابۃ یقولون وھم فی اسفارھم بعیدین باجسادھم عن رسول اللّٰہ ﷺ : السلام علیک ایھاالنبی ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ ویعلمون ذلک لاصحابھم وھذا نداء بالغیب لبعدالمکان-(۸)
ترجمہ : صحابۂ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین اپنے سفر کے دوران جب کہ وہ جسم کے اعتبار سے حضور ﷺ سے دور ہوتے تھے تو بھی السلام علیک ایھاالنبی ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ ہی کہا کرتے تھے اور ایسا ہی اپنے احباب کو سکھایا کرتے تھے، حالانکہ دور ہونے کی وجہ سے یہ بھی ندا بالغیب ہی ہے-
اب آیے حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس روایت کا جائزہ لیا جائے جس کو دلیل میں پیش کیا جاتا ہے- مسند ابی عوانہ کے حوالے سے ہم نے گزشتہ صفحات میں اس کو نقل کیا ہے ،مسند ابی عوانہ کی اس روایت پر کلام کرتے ہوئے امام ابوالمحاسن الحنفی فرماتے ہیں:
من قولہ ’’بین ظھر انینا‘‘ الی’’ علی النبی‘‘ منکر لا یصح لانہ یوجب ان یکون التشھد بعد موتہ علیہ الصلوۃ والسلام علی خلاف ماکان فی حیاتہ و ذلک مخالف لما علیہ العامۃ ولما فی الاٰثار المرویۃ الصحیحۃ، وقد کان ابوبکر و عمر یعلمان الناس التشھد فی خلافتھما علی ماکان فی حیاتہ ﷺ من قولھم السلام علیک ایھاالنبی وانّما جاء الغلط من مجاھد وامثالہ وقد قال ابو عبید ان مما اجل اللّٰہ بہ رسولہ ان یسلم علیہ بعد وفاتہ کما کان یسلم علیہ فی حیاتہ وھذا من جملۃ خصائصہ ﷺ-(۹)
ترجمہ : بین ظہرانیناسے لے کر علی النبی تک یہ قول منکر ہے، صحیح نہیں ہے- اس لیے کہ اس سے لازم آتا ہے کہ حضور ﷺ کی وفات کے بعد تشہد اس کے برخلاف ہو جو آپ کی حیات میں تھا اور یہ عامہ علما کے عمل اور آثار صحیحہ کے مخالف ہے، حضرت ابوبکر اور حضرت عمر اپنی خلافت کے دور میں لوگوں کو وہ تشہد سکھاتے تھے جیسا حضور ﷺ کی حیات میں تھا یعنی ’’السلام علیک ایھا النبی‘‘ یہ غلطی مجاہد اور ان کے امثال کی طرف سے آئی ہے، ابو عبید نے کہا کہ یہ ان باتوں میں سے ہے جن سے اللہ نے اپنے رسول کو بزرگی عطا فرمائی ہے کہ ان پر ان کی وفات کے بعد بھی ویسا ہی سلام بھیجا جائے گا جیسا ان کی وفات سے پہلے بھیجا جاتا تھا اور یہ آپ کی خصوصیات میں سے ہے-
مسند ابی عوانہ کی جو روایت ابھی ہم نے ذکر کی اس کو امام بخاری نے بھی اپنی صحیح میں درج کیا ہے، امام بخاری نے تشہد ابن مسعود والی حدیث کو صحیح بخاری میں سات مقامات پر روایت کیا ہے، جس کی تفصیل درج ذیل ہے:
(۱) کتاب الاذان،باب التشہد فی الآخرۃ
(۲) کتاب الاذان،باب ما یتخیر من الدعاء بعد التشہد ولیس بواجب
(۳) کتاب العمل فی الصلاۃ،باب من سمیٰ قوما او سلم فی الصلاۃ علیٰ غیرہ وہو لا یعلم
(۴) کتاب الاستئذان،باب السلام اسم من اسماء اللہ تعالیٰ
(۵) کتاب الاستئذان،باب الاخذ بالیدین
(۶) کتاب الدعوات،باب الدعاء فی الصلاۃ
(۷) کتاب التوحید،باب قول اللہ تعرالیٰ السلام المؤمن
آپ کو حیرت ہوگی کہ ان سات روایتوں میں صرف ایک روایت ایسی ہے جس میں زیر بحث الفاظ آئے ہیں ،باقی چھ روایتوں میں یہ الفاظ نہیں ہیں،صرف روایت نمبر ۵ میں یہ الفاظ موجود ہیں:’’وہو بین ظہرانینا فلما قبض قلنا السلام یعنی علی النبی‘‘یہاں یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ صرف اسی روایت کی سند میں حضرت مجاہد کا نام آتا ہے ،حضرت مجاہد عبداللہ بن سخبرۃ سے روایت کرتے ہیں اور انہوں نے حضرت ابن مسعود سے روایت کی ہے ،اسی لیے امام ابو المحاسن نے معتصر المختصر میں فرمایا ہے(جس کا حوالہ پیچھے مذکور ہوا) کہ ’’یہ غلطی مجاہد اور ان کے امثال کی طرف سے آئی ہے‘‘-دوسری قابل ذکر بات یہ ہے کہ شارحین حدیث نے وضاحت کی ہے کہ حضرت ابن مسعود کا قول صرف یہاں تک ہے ’’قلنا السلام‘‘اس کے بعد ’’یعنی علی النبی‘‘امام بخاری کا قول ہے ،مسند ابو عوانہ میں جو روایت ہے اس میں راوی کو وہم ہوا اور اس نے اس کو بھی حضرت ابن مسعود کا قول سمجھ لیا ،علامہ علی قاری مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں اس حدیث پر بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
واما قول ابن مسعود کنا نقول فی حیاۃ رسول اللّٰہ ﷺ السلام علیک ایھا النبی فلما قبض علیہ السلام قلنا السلام علی النبی فھو روایۃ ابی عوانۃ وروایۃ البخاری الاصح منھا بینت ان ذلک لیس من قول ابن مسعود بل من فھم الراوی عنہ ولفظھا فلما قبض قلنا السلام یعنی علی النبی فقولہ قلنا السلام یحتمل انہ اراد بہ استمررنا بہ علی ما کنا علیہ فی حیاتہ ویحتمل انہ اراد عرضنا عن الخطاب واذا احتمل اللفظ لم یبق فیہ دلالۃ کذا ذکرہ ابن حجر-(۷)
ترجمہ : ابن مسعود کایہ فرمانا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کی ظاہری حیات مبارکہ میں السلام علیک ایھا النبی کہا کرتے تھے، جب حضور کا وصال ہو گیا تو ہم نے کہا السلام علی النبییہ ابو عوانہ کی روایت ہے- اس سلسلہ میں بخاری کی روایت اصح ہے اور اس روایت سے ظاہر ہے کہ السلام علی النبی ابن مسعود کا قول نہیں ہے بلکہ راوی نے ایسا سمجھ لیا ہے، اس حدیث کے الفاظ یہ ہیں ’’فلما قبض قلنا السلام یعنی علی النبی‘‘ قلنا السلام- یہ احتمال رکھتا ہے کہ جیسا سلام آپ کی حیات میں پڑھا کرتے تھے ویسا ہی بعد میں بھی جاری رہا اور یہ بھی احتمال رکھتا ہے کہ ان کی مراد یہ ہو کہ ہم نے خطاب سے اعراض کر لیا اور جب لفظ میں احتمال پیدا ہو گیا تو دلالت باقی نہیں رہی، اسی طرح ابن حجر عسقلانی نے بھی ذکر کیا ہے-
اس بحث سے یہ بات واضح ہوگئی کہ نبی کریم ﷺ کی وفات کے بعد بھی تمام صحابہ اور ان کے بعد تابعین اور ائمہ مجتہدین بھی السلام علیک ایھا النبی ہی پڑھتے رہے اور اسی کی تعلیم فرماتے رہے ،اور جو روایت حضرت ابن مسعود کے نام سے پیش کی جاتی ہے ،اولاً تو وہ پورا حضرت ابن مسعود کا قول نہیں،دوسرے یہ کہ اس روایت میں حضرت مجاہد منفرد ہیں،تیسرے یہ کہ اس میں چند احتمالات پیدا ہورہے ہیں اور جس قول میں چند احتمالات پیدا ہورہے ہوں اصول فقہ کے قاعدے کی رو سے ایسی روایت سے دلیل لانا درست نہیں ہوتا اور چوتھی اور آخری بات یہ کہ اگر ان سب باتوں سے قطع نظر کرکے اس کو بالکل صحیح بھی تسلیم کرلیا جاے تب بھی جمہور صحابہ اور تابعین کے عمل کے مخالف ہونے کی وجہ سے اس کو رد کردیا جائے گا-ہم پیچھے عرض کر چکے ہیں کہ حضرت ابن مسعود کے اس قول کے علاوہ کوئی صحیح روایت ایسی نہیں دکھائی جا سکتی جس میں یہ ہو کہ نبی کریم ﷺ کی وفات کے بعد صحابہ نے تشہد کے الفاظ میں تبدیلی کر لی تھی-
تشہد کے سلسلے میں دوسرا مغالطہ یہ دیا جاتا ہے کہ اس سے سلام مقصود نہیں ہوتا بلکہ یہ واقعہ معراج میں ہونے والی گفتگو کی حکایت ہے -اس مغالطے کے جواب میں سیدنا شاہ فضل رسول بدایونی نے اپنی کتاب ’’احقاق حق‘‘(فارسی)میں تحقیقی گفتگو فرمائی ہے ، قدرے اختصار اور تلخیص کے ساتھ اسی کی روشنی میں ہم اس مغالطے کا تنقیدی جائزہ لیں گے-
یہ مغالطہ دراصل پوری حدیث کو غور سے نہ پڑھنے کے نتیجے میں پیدا ہوگیا ہے ،صحیح بخاری میں پوری حدیث اس طرح ہے:
قال عبداللہ کنا اذا صلینا خلف النبی ﷺ قلنا السلام علی جبریل و میکائیل السلام علی فلان و فلان فالتفت الینا رسول اللّٰہ ﷺ فقال انّ اللّٰہ ھوا لسلام فاذا صلی احدکم فلیقل التحیات للّٰہ و الصلوت والطیبات السلام علیک ایھا النبی ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ السلام علینا و علی عباداللّٰہ الصالحین فانکم اذا قلتموھا اصابت کل عبداللّٰہ صالح فی السماء والارض، اشھد ان لا الہ الا اللّٰہ واشھد انّ محمدا عبدہ ورسولہ- (۱۱)
ترجمہ : حضرت ابن مسعود فرماتے ہیں کہ جب ہم نبی کریم ﷺ کی اقتدا میں نماز ادا کرتے تھے تو کہتے تھے جبریل پر سلام ہو، میکائیل پر سلام ہو، فلاں پر سلام ہو، رسول اللہ ﷺ ہماری جانب متوجہ ہوئے اور فرمایا بیشک اللہ خود سلام ہے جب تم میں سے کوئی نماز ادا کرے تو یہ کہے تمام قولی، جانی و مالی عبادات خالص اللہ کے لیے ہیں- اے نبی آپ پر اللہ کی سلامتی، رحمت اور برکات نازل ہوں، ہمارے اوپر اور اللہ کے نیک بندوں پر سلام ہو، جب تم یہ کہوگے تو زمین و آسمان میں اللہ کے ہر نیک بندے کو یہ سلام پہنچے گا اور میں شہادت دیتا ہوں کہ معبود برحق صرف اللہ عز و جل ہے اور محمد مصطفی ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں-
امام بخاری ایک دوسری روایت میں ارشاد فرماتے ہیں:
عن عبداللّٰہ قال کنا اذا کنا مع النبی ﷺ فی الصلاۃ قلنا السلام علی اللّٰہ من عبادہ السلام علیٰ فلان وفلان فقال النبی ﷺ لا تقولوا السلام علی اللّٰہ فان اللّٰہ ہوالسلام ولٰکن قولوا التحیات للّٰہ الخ (۱۲)
ترجمہ: حضرت ابن مسعود فرماتے ہیں کہ جب ہم نماز میں نبی کریم کے ساتھ ہوا کرتے تھے تو کہتے تھے کہ اللہ کے بندوں کی جانب سے اللہ پر سلام ہو،فلاں اور فلاں پر سلام ہو تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ یہ نہ کہا کرو کہ اللہ پر سلام ہو کیوںکہ اللہ تو خود سلام ہے ،بلکہ یہ کہا کروالتحیات للّٰہ الخ
حدیث کے شروع میں ہے کہ ہم کہا کرتے تھے خدا پر سلام ہو، جبریل پر سلام ہو، میکائیل پر سلام ہو، فلاں پر سلام ہو، آنحضرت ﷺ نے خدا پر سلام بھیجنے سے منع فرمایا اور اس کی جگہ خود پر سلام بھیجنے کا حکم دیا اس سے معلوم ہوا کہ یہ صرف واقعۂ معراج کی حکایت نہیں ہے،بلکہ اس میں خود سلام بھیجنا مقصود ہے-
دو سری بات یہاں یہ قابل غورہے کہ حدیث کے آخری حصہ میں ارشاد فرمایا:
السلام علینا و علی عباداللّٰہ الصالحین فانکم اذا قلتموھا اصابت کل عبداللّٰہ صالح فی السماء والارض
ترجمہ: ہمارے اوپر اور اللہ کے نیک بندوں پر سلام ہو، جب تم یہ کہوگے تو زمین و آسمان میں اللہ کے ہر نیک بندے کو یہ سلام پہنچے گا-
یہاں پر بھی اگرسلام کا ارادہ اور انشا مقصود نہ ہوتا اور صرف واقعۂ معراج میں وارد الفاظ کی نقل و حکایت مقصود ہوتی تو پھر ہر بندہ کو سلام پہنچنے کا کیا معنی ہوا-
امام غزالی فرماتے ہیں :
واحضر فی قلبک النبی ﷺ وشخصہ الکریم وقل السلام علیک ایھاالنبی ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ ولیصدق املک فی انہ یبلغہٗ ویرد علیک اوفٰی منہ-(۱۳)
ترجمہ : (اے نمازی) تو اپنے دل میں نبی کریم ﷺ اور آپ کی مقدس شخصیت کو حاضر کر، پھر السلام علیک ایھاالنبی ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہکہہ، یقینا تیری امید بر آئے گی، بایں طور کہ سلام حضور کی بارگا ہ میں پہنچے گا اور آپ ﷺ اس سے بہتر سلام کے ذریعہ جواب عطا فرمائیں گے-
ملا علی قاری فرماتے ہیں :
وجواز الخطاب من خصوصیاتہ علیہ السلام اذ لو قیل لغیرہ حاضرا اوغائبا السلام علیک بطلت صلاتہ (۱۴)
ترجمہ : نماز میں صیغۂ خطاب صرف آنحضرت ﷺ کے لیے جائز و روا ہے اور یہ آپ کے خصائص و فضائل سے ہے حضور کے علاوہ نماز میں کسی سے خطاب خواہ وہ حاضر ہو یا غائب نماز کو باطل کر دیتا ہے-
دراصل بعض حضرات کو اس بات سے غلط فہمی ہوئی کہ انھوں نے صرف یہ دیکھا کہ یہ الفاظ قصۂ معراج میں بھی ہیں اور تشہد میں بھی لہٰذا انھوں نے حدیث کے اول و آخر پر غور نہیں کیا اور یہ کہہ دیا کہ یہ واقعہ معراج کی حکایت ہے-
صحیح حدیث میں اس بات کی ایک اور قوی دلیل موجود ہے کہ تشہد میں جو السلام علیک ایھا النبی ہے وہ واقعۂ معراج کی حکایت نہیں ہے بلکہ اس سے خود سلام مقصود ہے- سنن نسائی میں ہے :
عن عبدالرحمن ابن ابی لیلٰی قال لقینی کعب بن عجرۃ فقال الا اھدی لک ھدیۃ سمعتھا من النبی ﷺ فقلت بلی فاھدھا لی فقال سألنا رسول اللّٰہ ﷺ فقلنا یا رسول اللّٰہ! کیف الصلوٰۃ علیکم اہل البیت فان اللّٰہ تعالٰی قد علمنا کیف نسلم علیک قال قولوا اللّٰہم صل علی محمد- الخ (۱۵)
ترجمہ : عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ فرماتے ہیں کہ مجھ سے کعب بن عجرہ کی ملاقات ہوئی، انھوں نے کہا کیا میں تمہیں وہ تحفہ نہ دوں جس کو میں نے نبی اکرم ﷺ سے حاصل کیا ہے؟ میں نے کہا کیوں نہیں، وہ تحفہ مجھے دو، تو کعب بن عجرہ نے کہا کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا یا رسول اللہ ﷺ آپ پر درود کس طرح بھیجیں، اللہ تعالیٰ نے ہمیں آپ پر سلام بھیجنے کا طریقہ تو تعلیم فرما دیا کہ ہم کس طرح آپ پر سلام بھیجیں ، حضور ﷺ نے فرمایا تم اس طرح کہو : اللّٰھم صلِّ علی محمدالخ
شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے لکھا ہے :
بتحقیق دانانید مارا کیفیت سلام فرستادن برتوکہ در التحیات تعلیم کردی و آن را تعلیم الٰہی گفتند زیرا کہ تعلیم آن حضرت تعلیم الٰہی است زیرا کہ وی نطق نمی کند در احکام مگر بوحی(۱۶)
ترجمہ : حضور پر سلام بھیجنے کی کیفیت و طریقہ التحیات میں ہمیں بتا دیا گیا اور صحابہ نے جو یہ کہا کہ اللہ نے سلام پڑھنے کا طریقہ ہمیں تعلیم کیا ہے، اس لیے کہ حضور ﷺ کا تعلیم فرمانا در حقیقت تعلیم الٰہی ہے کیونکہ حضور جو کچھ احکام شریعت میں فرماتے ہیں وہ وحی کے ذریعہ فرماتے ہیں-
ملا علی قاری مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں لکھتے ہیں:
فان اللّٰہ قد علمنا ای فی التحیات بواسطۃ لسانک کیف نسلم علیک ای بان نقول السلام علیک ایھا النبی کذا قیل وحاصلہ انّ اللّٰہ قد امرنا بالصلوٰۃ والسلام علیک وقد علمنا کیف السلام علیک والاظہر انہ علیہ السلام امرھم بالصلوٰۃ علیہ وعلٰی اہل بیتہ ولما لم یعرفوا کیفیتھا سألوہ عنھا مقرونا بالایماء الی انہ مستحق للسلام ایضا الا انہ معلوم عندھم بتعلیم ایاھم بلسانہ فارادوا تعلیم الصلوٰۃ ایضا علی لسانہ بان ثواب الوارد افضل و اکمل- (۱۷)
ترجمہ : خدا نے ہمیں تشہد میں آپ کی زبان مبارک کے توسط سے سلام کرنے کی کیفیت تعلیم کی ہے کہ ہم ایسے سلام پڑھیں السلام علیک ایھا النبی الخ اور اس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں آپ کی ذات گرامی پر درود اور سلام دونوں بھیجنے کا حکم فرمایا ہے اور ہمیں سلام کی کیفیت بھی تعلیم کر دی ہے اور ظاہر یہ ہے کہ حضور نے خود پر اور اپنے اہل بیت پر درود بھیجنے کا حکم فرمایا ہوگا- اب چونکہ صحابہ درود بھیجنے کا طریقہ نہیں جانتے تھے لہٰذا انھوں نے آپ سے دریافت کیا کہ درود بھیجنے کا طریقہ کیا ہے اس سوال میں یہ اشارہ بھی ہے کہ آپ سلام کے بھی مستحق ہیں مگر اس کا طریقہ تو حضور کی زبان مبارک سے ان کو معلوم ہو گیا ہے، اب درود کا طریقہ بھی وہ حضور ہی کی زبان سے سیکھنا چاہتے ہیں، اس لیے کہ جو چیز حضور کی زبان مبارک سے وارد ہوگی اس کا ثواب زیادہ افضل و اکمل ہوگا –
ملا علی قاری مرقاۃ میں مزید فرماتے ہیں :
قال ابن حجر وفیہ روایۃ للشیخین الااھدی لک ھدیۃً ان النبی ﷺ خرج علینا فقلنا یا رسول اللّٰہ قد علمنا کیف نسلم علیک فکیف نصلی علیک-وفی روایۃ سندھا جید لما نزلت ھذہ الاٰیۃ ’’انّ اللّٰہ وملائکتہ یصلون علی النبی یا ایھاالذین اٰمنواصلوا علیہ وسلموا تسلیماً‘‘ جاء رجل الی النبی ﷺ فقال یا رسول اللّٰہ ھذا السلام علیک قد عرفناہ فکیف الصلوۃ علیک قال ’’قولو اللّٰہم صل علی محمد ‘‘ الحدیث -وفی روایۃ المسلم وغیرہ امرنا اللّٰہ ان نصلی علیک فکیف نصلی علیک فسکت علیہ السلام حتی تمنینا انہ لم یسئل ثم قال قولوا اللّٰہم صل علی محمدٍ الخ وفی آخرہ والسلام کما علمتم- (۱۸)
ترجمہ : ابن حجر نے کہا کہ اس سلسلہ میں شیخین سے مروی ہے کہ’’ میں تمہیں ایک تحفہ نہ دوں؟ایک مرتبہ حضور ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے ہم نے کہا یا رسول اللہ ہم سلام کی کیفیت تو جانتے ہیں یہ بتائیے کہ درود کس طرح بھیجیں؟ ‘‘ایک اور روایت میں آیا ہے جس کی سند جید ہے کہ جب آیت کریمہ انّ اللّٰہ و ملائکتہ یصلون علی النبی الخ نازل ہوئی تو ایک شخص نے آ کر عرض کیا’’ یا رسول اللہ ﷺ ہم جان گئے کہ آپ پر سلام کس طرح بھیجیں اب آپ فرمائیں کہ ہم آپ پر درود کس طرح بھیجیں؟‘‘آپ نے فرمایا کہو اللّٰھم صل علی محمد الخ ایک دوسری روایت میں آیا ہے جو صحیح مسلم کی ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ نے ہمیں آپ پر درود بھیجنے کا حکم دیا ہے تو ہم کیسے درود بھیجیں ؟‘‘ حضور نے تھوڑا سا سکوت فرمایا تو ہمارے دل میں یہ خیال گزرا کاش حضور سے یہ سوال نہیں پوچھا جاتا، پھر حضور ﷺ نے فرمایا اس طرح کہو :اللّٰھم صل علی محمد ‘‘الخ اس حدیث کے آخر میں فرمایا کہ’’ رہا سلام تو ویسا ہی جیسا تم نے سیکھ لیا‘‘-
ان تمام روایتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ جس سلام کا حکم آیت کریمہ وسلموا تسلیمامیں دیا گیا ہے وہ تو تشہد میں معلوم ہو گیااب آپ درود پڑھنے کا طریقہ تعلیم فرمائیں-اور تشہد میں سلام کا جو طریقہ بتایا گیا ہے وہ وہی ہے جو پیچھے مذکور ہوا’’ السلام علیک ایہاالنبی‘‘ اس سے صاف ظاہر ہے کہ تشہد میں السلام علیک ایھاالنبی بطور نقل و حکایت نہیں ہے بلکہ اس سے خود سلام مقصود ہے-
(جامِ نور مارچ ۲۰۰۹ئ)
qqq
حواشی
(۱) الف: صحیح بخاری: بطریق شقیق بن سلمہ : عن ابن مسعود ،کتاب الاذان: باب التشہد فی الآخرۃ
ب:صحیح مسلم : بطریق ابی وائل عن ابن مسعود، کتاب الصلوٰۃ: باب التشہد فی الصلوٰۃ
(۲) مسند ابی عوانہ : ج ۱، ص: ۵۴۱، دارالمعرفہ بیروت
(۳) جامع ترمذی:کتاب الصلاۃ،باب ما جاء فی التشہد
(۴) فتح الباری : ج: ۲، ص: ۳۱۵، دارالمعرفۃ بیروت
(۵) مؤطا امام مالک: ج ۱، ص: ۹۰، باب التشہد فی الصلوٰۃ، داراحیاء التراث العربی ، قاہرہ
(۶) مرجع سابق
(۷) المحلی: ج ۴، ص: ۷۰۶، دارالآفاق الجدیدہ، بیروت
(۸) علامہ محمود صبیح: اخطأ ابن تیمیہ فی حق رسول اللہ: ص: ۳۹۵، دار جوامع الکلم، قاہرہ
(۹) معتصر المختصر : ج ۱، ص: ۵۳، ۵۴، مکتبہ المتنبی، القاہرہ
(۱۰) مرقاۃ شرح مشکوٰۃ: ج ۲، ص: ۵۸۱، کتاب الصلوٰۃ، باب التشہد، فیصل پریس، دیوبند ۲۰۰۵ء
(۱۱) صحیح بخاری: بطریق شقیق بن سلمہ : عن ابن مسعود ،کتاب الاذان: باب التشہد فی الآخرۃ
(۱۲) کتاب الاذان،باب ما یتخیر من الدعاء بعد التشہد ولیس بواجب
(۱۳) احیاء علوم الدین : امام غزالی، ج:۱/ص: ۱۷۵
(۱۴) مرقاۃ شرح مشکوٰۃ: ج ۲، ص: ۵۸۶، کتاب الصلوٰۃ باب التشہد، فیصل پریس، دیوبند ۲۰۰۵ء
(۱۵) سنن نسائی : باب کیف الصلوٰۃ علی النبی ، ج:۳/ص: ۴۸، مکتبۃ المطبوعات، حلب ۱۹۸۶ء
(۱۶) اشعۃ اللمعات شرح مشکوٰۃ : ج ۱، ص: ۳۶۱، کتاب الصلوٰۃ : باب الصلوٰۃ علی النبی ﷺ وفضلھا، مطبع نول کشور ۱۲۹۰ھ
(۱۷) مرقاۃ شرح مشکوٰۃ : ج ۳، ص: ۴، کتاب الصلوٰۃ : باب الصلوٰۃ علی النبی ﷺ وفضلھا
(۱۸) مرجع سابق
(۱۹) ترجمہ باختصاروتلخیص :احقاق حق :مولانافضل رسول بدایونی،ازص۴۳تاص۴۹،تاج الفحول اکیڈمی بدایوں۲۰۰۷ء