Archive for June, 2012
شبِ برأت کا پروگرام
الحمد للہ ہر سال کی طرح اس سال بھی درگاہ عالیہ حسین آباد میں شبِ برأت کا پروگرام حسب معمول ہوگا اور جس میں لاکھوں لوگ حضرت قبلہ مرشد کریم کے ہمراہ صلٰوۃ تسبیح ادا کریں گے اور اس مقبول رات میں مرشد کریم کے ہاتھ دعاء کے لیئے بلند ہوں گے اور ہم گناھ گاروں کا بھی بھلا یقینن ہوجائے گا۔ انشاء اللہ جمعرات کی رات تقریباً بارہ بے ادا کی جائے گی۔ آپ اپنی شرکت کو یقینی بنائیں اور اپنے ہمراہ دوستوں اور رشتہ داروں کو بھی ضرور لائیں۔ درگاہ عالیہ میں سالہا سال بے شمار پروگرام ہوتے ہیں لیکن حضرت قبلہ مرشد کریم سال میں چار پروگرام خصوصی طور پر منعقد کرتے ہیں اور فقیروں کو اس میں شرکت کی تاکید فرماتے ہیں ۔ لبیک یا سیدی مرشدی لبیک
اس رات کی اہمت کو سمجھنے کے لیئے نیچے دیئے گئے بیان سے بھی مصتفیض ہوں۔
ماہِ شعبان کی پندرہویں رات کو شبِ برأت کہا جاتا ہے شب کے معنی ہیں رات اور برأت کے معنی بری ہونے اور قطع تعلق کرنے کے ہیں ۔ چونکہ اس رات مسلمان توبہ کرکے گناہوں سے قطع تعلق کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رحمت سے بے شمار مسلمان جہنم سے نجات پاتے ہیں اس لیے اس رات کو شبِ برأت کہتے ہیں ۔ اس رات کو لیلۃ المبارکۃ یعنی برکتوں والی رات، لیلۃ الصک یعنی تقسیم امور کی رات اور لیلۃ الرحمۃ یعنی رحمت نازل ہونے کی رات بھی کہا جاتا ہے۔
جلیل القدر تابعی حضرت عطاء بن یسار رضی اللہ تعالیٰ عنہ، فرماتے ہیں ، ”لیلۃ القدر کے بعد شعبان کی پندرھویں شب سے افضل کوئی رات نہیں ”۔ (لطائف المعارف ص ١٤٥)
جس طرح مسلمانوں کے لیے زمین میں دو عیدیں ہیں اس یطرح فرشتوں کے آسمان میں دو عیدیں ہیں ایک شبِ برأت اور دوسری شبِ قدر جس طرح مومنوں کی عیدیں عید الفطر اور عید الاضحٰی ہین فرشتوں کی عیدیں رات کو اس لیے ہیں کہ وہ رات کو سوتے نہیں جب کہ آدمی رات کو سوتے ہیں اس لیے ان کی عیدیں دن کو ہیں ۔ (غنیۃ الطالبین ص ٤٤٩)
تقسیمِ امور کی رات
ارشاد باری تعالیٰ ہوا، ”قسم ہے اس روشن کتاب کی بے شک ہم نے اسے برکت والی رات میں اتارا، بے شک ہم ڈر سنانے والے ہیں اس میں بانٹ دیا جاتا ہے ہر حکمت والا کام”۔ (الدخان ٢ تا ٤ ، کنزالایمان)
”اس رات سے مراد شبِ قدر ہے یا شبِ برأت” (خزائن العرفان) ان آیات کی تفسیر میں حضرتِ عکرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، اور بعض دیگر مفسرین نے بیان کیا ہے کہ ”لیلۃ مبارکۃ” سے پندرہ شعبان کی رات مراد ہے ۔ اس رات میں زندہ رہنے والے ، فوت ہونے والے اور حج کرنے والے سب کے ناموں کی فہرست تیار کی جاتی ہے اور جس کی تعمیل میں ذرا بھی کمی بیشہ نہیں ہوتی ۔ اس روایت کو ابن جریر، ابن منذر اور ابنِ ابی حاتم نے بھی لکھا ہے۔ اکثر علماء کی رائے یہ ہے کہ مذکورہ فہرست کی تیاری کا کام لیلۃ القدر مین مکمل ہوتا ہے۔ اگرچہ اس کی ابتداء پندرہویں شعبان کی شب سے ہوتی ہے۔ (ماثبت من السنہ ص ١٩٤)
علامہ قرطبی مالکی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ایک قول یہ ہے کہ ان امور کے لوحِ محفوظ سے نقل کرنے کا آغاز شبِ برأت سے ہوتا ہے اور اختتام لیلۃ القدر میں ہوتا ہے۔ (الجامع الاحکام القرآن ج ١٦ ص ١٢٨)
یہاں ایک شبہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ امور تو پہلے ہی سے لوح محفوظ میں تحریر ہیں پھر اس شب میں ان کے لکھے جانے کا کیا مطلب ہے؟ جواب یہ ہے کہ یہ امور بلاشبہ لوح محفوظ مین تحریر ہیں لیکن اس شب میں مذکورہ امور کی فہرست لوح محفوظ سے نقل کرکے ان فرشتوں کے سپرد کی جاتی ہے جن کے ذمہ یہ امور ہیں ۔
حضرتِ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کیا تم جانتی ہو کہ شعبان کی پندرہویں شب میں کیا ہوتا ہے؟ میں نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ فرمائیے۔ ارشاد ہوا آئندہ سال مین جتنے بھی پیدا ہونے والے ہوتے ہیں وہ سب اس شب میں لکھ دئیے جاتے ہیں اور جتنے لوگ آئندہ سال مرنے والے ہوتے ہیں وہ بھی اس رات مین لکھ دئیے جاتے ہیں اور اس رات میں لوگوں کا مقررہ رزق اتارا جاتاہے۔ (مشکوٰۃ جلد ١ ص ٢٧٧)
حضرت عطاء بن یسار رضی اللہ تعالیٰ عنہ، فرماتے ہیں ، ”شعبان کی پندرہویں رات میں اللہ تعالیٰ ملک الموت کو ایک فہرست دے کر حکم فرماتا ہے کہ جن جن لوگوں کے نام اس میں لکھے ہیں ان کی روحوں کو آئندہ سال مقررہ وقتوں پر قبض کرنا۔ تو اس شب میں لوگوں کے حالات یہ ہوتے ہیں کہ کوئی باغوں میں درخت لگانے کی فکر میں ہوتا ہے کوئی شادی کی تیاریوں میں مصروف ہوتا ہے۔ کوئی کوٹھی بنگلہ بنوا رہا ہوتا ہے حالانکہ ان کے نام مُردوں کی فہرست میں لکھے جاچکے ہوتے ہیں ۔ (مصنف عبد الرزاق جلد ٤ ص ٣١٧ ، ماثبت من السنہ ص ١٩٣)
حضرت عثمان بن محمد رضی اللہ تعالیٰ عنہ، سے مروی ہے کہ سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ایک شعبان سے دوسرے شعبان تک لوگوں کی زندگی منقطع کرنے کا وقت اس رات میں لکھا جاتا ہے یہاں تک کہ انسان شادی بیاہ کرتا ہے اور اس کے بچے پیدا ہوتے ہیں حالانکہ اس کا نام مُردوں کی فہرست میں لکھا جاچکا ہوتا ہے۔ (الجامع الاحکام القرآن ج ١٦ ص ١٢٦، شعب الایمان للبیہقی ج ٣ ص ٣٨٦)
چونکہ یہ رات گذشتہ سال کے تمام اعمال بارگاہِ الہٰی میں پیش ہونے اور آئندہ سال ملنے والی زندگی اور رزق وغیرہ کے حساب کتاب کی رات ہے اس لیے اس رات میں عبادت الہٰی میں مشغول رہنا رب کریم کی رحمتوں کے مستحق ہونے کا باعث ہے اور سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہی تعلیم ہے۔
مغفرت کی رات
شبِ برأت کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس شب میں اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے بے شمار لوگوں کی بخشش فرما دیتا ہے اسی حوالے سے چند احادیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیں ۔
(١) حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک رات میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے پاس نہ پایا تو میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تلاش میں نکلی میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جنت البقیع میں تشریف فرما ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کیا تمہیں یہ خوف ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمہارے ساتھ زیادتی کریں گے۔ میں نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے یہ خیال ہوا کہ شاید آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی دوسری اہلیہ کے پاس تشریف لے گئے ہیں آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا بیشک اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرہویں شب آسمانِ دنیا پر (اپنی شان کے مطابق) جلوہ گر ہوتا ہے اور قبیلہ بنو کلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ لوگوں کی مغفرت فرماتا ہے۔ (ترمذی جلد ١ ص ١٥٦، ابن ماجہ ص ١٠٠، مسند احمد جلد ٦ ص ٢٣٨، مشکوٰۃ جلد ١ ص ٢٧٧، مصنف ابنِ ابی شعبہ ج ١ ص ٣٣٧، شعب الایمان للبیہقی جلد ٣ ص ٣٧٩)
شارحین فرماتے ہیں کہ یہ حدیث پاک اتنی زیادہ اسناد سے مروی ہے کہ درجہ صحت کو پہنچ گئی۔
(٢) حضرتِ ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ، سے روایت ہے کہ آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، ”شعبان کی پندرہویں شب میں اللہ تعالیٰ آسمانِ دنیا پر (اپنی شان کے مطابق) جلوہ گر ہوتا ہے اور اس شب میں ہر کسی کی مغفرت فرما دیتا ہے سوائے مشرک اور بغض رکھنے والے کے”۔ (شعب الایمان للبیہقی جلد ٣ ص ٣٨٠)
(٣) حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ، سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرہویں شب مین اپنے رحم و کرم سے تمام مخلوق کو بخش دیتا ہے سوائے مشرک اور کینہ رکھنے والے کے”۔ (ابنِ ماجہ ص ١٠١، شعب الایمان ج ٣ ص ٣٨٢، مشکوٰۃ جلد ١ ص ٢٧٧)
(٤) حضرت ابوہریرہ ، حضرت معاذ بن جبل، حضرت ابو ثعلیۃ اور حضرت عوف بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے بھی ایسا ہی مضمون مروی ہے۔ (مجمع الزوائد ج ٨ ص ٦٥)
(٥) حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، ”شعبان کی پندرہویں رات میں اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے دو شخصوں کے سوا سب مسلمانوں کی مغفرت فرمادیتا ہے ایک کینہ پرور اور دوسرا کسی کو ناحق قتل کرنے والا”۔ (مسند احمد ج ٢ ص ١٧٦، مشکوٰۃ جلد ١ ص ٢٧٨)
(٦) امام بیہقی نے شعب الایمان (ج ٣ ص ٣٨٤) میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی ایک طویل روایت بیان کی ہے جس میں مغفرت سے محروم رہنے والوں میں ان لوگوں کا بھی ذکر رشتے ناتے توڑنے والا، بطور تکبر ازار ٹخنوں سے نیچے رکھنے والا، ماں باپ کا نافرمان، شراب نوشی کرنے والے۔
(٧) غنیۃ الطالبین ص ٤٤٩پر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، سے مروی طویل حدیچ میں مزید ان لوگوں کا بھی ذکر ہے جادوگر، کاہن، سود خور اور بد کار، یہ وہ لوگ ہیں کہ اپنے اپنے گناہوں سے توبہ کیے بغیر ان کی مغفرت نہیں ہوتی۔ پس ایسے لوگوں کو چاہیے کہ اپنے اپنے گناہوں سے جلد از جلد سچی توبہ کرلیں تاکہ یہ بھی شب برأت کی رحمتوں اور بخشش و مغفرت کے حقدار ہوجائیں ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہوا ”اے ایمان والو اللہ کی طرف ایسی توبہ کرو جو آگے نصیحت ہوجائے”۔ (التحریم ٨ ، کنزالایمان)
یعنی توبہ ایسی ہونی چاہیے جس کا اثر توبہ کرنے والے کے اعمال میں ظاہر ہو اور اس کی زندگی گناہوں سے پاک اور عبادتوں سے معمور ہوجائے۔ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ، نے بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں عرض کی۔ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم توبۃ النصوح کسے کہتے ہیں اشاد ہوا بندہ اپنے گناہ پر سخت نادم اور شرمدسار ہو۔ پھر بارگاہ الہٰی میں گڑگڑا کر مغفرت مانگے۔ اور گناہوں سے بچنے کا پختہ عزم کرے تو جس طرح دودھ دوبارہ تھنوں میں داخل نہیں ہوسکتا اسی طرح اس بندے سے یہ گناہ کبھی سرزد نہ ہوگا۔
رحمت کی رات
شبِ برأت فرشتوں کو بعض امور دئیے جانے اور مسلمانوں کی مغفرت کی رات ہے اس کی ایک او ر خصوصیت یہ ہے کہ یہ رب کریم کی رحمتوں کے نزول کی اور دعاؤں کے قبول ہونے کی رات ہے۔
١۔ حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ، سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے۔ ”جب شعبان کی پندرہویں شب آتی ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اعلان ہوتا ہے، ہے کوئی مغفرت کا طالب کہ اس کے گناہ بخش دوں ، ہے کوئی مجھ سے مانگنے والا کہ اسے عطا کروں ۔ اس وقت اللہ تعالیٰ سے جو مانگا جائے وہ ملتا ہے۔ وہ سب کی دعا قبول فرماتا ہے سوائے بدکار عورت اور مشرک کے”۔ (شعب الایمان للبیہقی ج٣ ص ٣٨٣)
٢۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ، سے روایت ہے کہ غیب بتانے والے آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب شعبان کی پندرھویں شب ہو تورات کو قیام کرو اور دن کو روزہ رکھو کیونکہ غروب آفتاب کے وقت سے ہی اللہ تعالیٰ کی رحمت آسمان دنیا پر نازل ہوجاتی ہے اور اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے، ہے کوئی مغفرت کا طلب کرنے والا کہ میں اسے بخش دوں ۔ ہے کوئی رزق مانگنے والا کہ میں اس کو رزق دوں ہے کوئی مصیبت زدہ کہ میں اسے مصیبت سے نجات دوں ، یہ اعلان طلوع فجر تک ہوتا رہتا ہے۔ (ابنِ ماجہ ص ١٠٠، شعب الایمان للبیہقی ج ٣ ص ٣٧٨، مشکوٰۃ ج ١ ص ٢٧٨)
اس حدیث پاک میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے مغفرت و رحمت کی ندا کا ذکر ہے اگرچہ یہ ندا ہر رات میں ہوتی ہے لیکن رات کے آخری حصے میں جیسا کہ کتاب کے آغاز میں شبِ بیداری کی فضیلت کو عنوان کے تحت حدیث پاک تحریر کی گئی شبِ برأت ی خاص بات یہ ہے کہ اس میں یہ ندا غروب آفتاب ہی سے شروع ہوجاتی ہے گویا صالحین اور شبِ بیدار مومنوں کے لیے تو ہر رات شبِ برأت ہے مگر یہ رات خطاکاروں کے لیے رحمت و عطا اور بخشش و مغفرت کی رات ہے اس لیے ہمیں شاہیے کہ اس رات میں اپنے گناہوں پر ندامت کے آنسو بہائیں اور ربِ کریم سے دنیا و آخرت کی بھلائی مانگیں ۔ اس شب رحمتِ خداوندی ہر پیاسے کو سیراب کردینا چاہتی ہے اور ہر منگتے کی جھولی گوہرِ مراد سے بھر دینے پر مائل ہوتی ہے۔ بقول اقبال، رحمت الہٰی یہ ندا کرتی ہے
ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں
راہ دکھلائیں کسے راہرو منزل ہی نہیں
شبِ بیداری کا اہتمام
شبِ برأت میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود بھی شبِ بیداری کی اور دوسروں کو بھی شبِ بیداری کی تلقین فرمائی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان عالیشان اوپر مذکور ہوا کہ جب شعبان کی پندرہویں رات ہو تو شبِ بیداری کرو اور دن کو روزہ رکھو” اس فرمان جلیل کی تعمیل میں اکابر علمائے اہلسسنت اور عوام اہلسنت کا ہمیشہ سے یہ مومول رہا ہے کہ رات میں شبِ بیداری کا اہتمام کرتے چلے آئے ہیں ۔
شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ، ”تابعین میں سے جلیل القدر حضرات مثلاً حضرت خالد بن معدان، حضرت مکحول، حضرت لقمان بن عامر اور حضرت اسحٰق بن راہویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم مسجد میں جمع ہو کر شعبان کی پندرہویں شب میں شبِ بیداری کرتے تھے اور رات بھر مسجد میں عبادات میں مصروف رہتے تھے”۔ (ما ثبت من السنہ ٢٠٢، لطائف المعارف ص ١٤٤)
علامہ ابنِ الحاج مانکی رحمتہ اللہ علیہ شبِ برأت کے متعلق رقم طراز ہیں ” اور کوئی شک نہیں کہ یہ رات بڑی بابرکت اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک بڑی عظمت والی ہے۔ ہمارے اسلاف رضی اللہ تعالیٰ عنہیم اس کی بہت تعظیم کرتے اور اس کے آنے سے قبل اس کے لیے تیاری کرتے تھے۔ پھر جب یہ رات آتی تو وہ جوش و جذبہ سے اس کا استقبال کرتے اور مستعدی کے ساتھ اس رات میں عبادت کیا کرتے تھے کیونکہ یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ ہمارے اسلاف شعائر اللہ کا بہت احترام کیا کرتے تھے۔ (المدخل ج ١ ص ٣٩٢)
مذکورہ بالا حوالوں سے یہ بات ثابت ہوئی کہ اس مقد رات مین مسجد مین جمع ہوکر عبادات میں مشغول رہانا اور اس رات شبِ بیداری کا اہتمام کرنا تابعین کرام کا طریقہ رہا ہے۔ شیخ عبد الحق محدث دہلوی قدس سرہ فرماتے ہیں ، ”اب جو شخص شعبان کی پندرہویں رات مین شبِ بیداری کرے تو یہ فعل احادیث کی مطابقت میں بالکل مستحب ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ عمل بھی احادیث سے ثابت ہے کہ شبِ برأت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسلمانوں کی دعائے مغفرت کے لیے قبرستان تشریف لے گئے تھے۔ (ماثبت من السنہ ص ٢٠٥)
آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زیارت قبور کی ایک بڑی حکمت یہ بیان فرمائی ہے کہ اس رات موت یاد آتی ہے۔ اور آخرت کی فکر پیدا ہوتی ہے۔ شبِ برأت میں زیارتِ قبور کا واضح مقصد یہی ہے کہ اس مبارک شب میں ہم اپنی موت کو یاد کریں تاکہ گناہوں سے سچی توبہ کرنے میں آسانی ہو۔ یہی شبِ بیداری کا اصل مقصد ہے۔
اس سلسلے میں حضرت حسن بصری رضی اللہ تعالیٰ عنہ، کا ایمان افروز واقوہ بھی ملاحظہ فرمائیں منقول ہے کہ جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، شبِ برأت میں گھر سے باہر تشریف لائے تو آپ کا چہرہ یوں دکھائی دیتا تھا جس طرح کسی کوقبر میں دفن کرنے کے بعد باہر نکالا گیا ہو۔ آپ سے اس کا سبب پوچھا گیا تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، نے فرمایا خدا کی قسم میری مثال ایسی ہے جیسے کسی کی کشتی سمند میں ٹوٹ چکی ہو اور وہ ڈوب رہا ہو اور بچنے کی کوئی امید نہہو۔ پوچھا گیا آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، کی ایسی حالت کیوں ہے؟ فرمایا میرے گناہ یقینی ہیں ۔ لیکن اپنی نیکیوں کے متعلق میں نہیں جانتا کہ وہ مجھ سے قبول کی جائیں گی یا پھر رد کردی جائیں گی۔ (غنیۃ الطالبین ص ٢٥٠)
اللہ اکبر نیک و متقی لوگوں کا یہ حال ہے جو ہر رات شبِ بیداری کرتے ہیں اور تمام دن اطاعتِ الہٰی میں گزارتے ہیں جب کہ اس کے برعکس کچھ لوگ ایسے کم نصیب ہیں جو اس مقدس رات میں فکر آخرت اور عبادت و دعا میں مشغول ہونے کی بجائے مزید لہو و لعب میں مبتلا ہوجاتے ہیں آتش بازی پٹاخے اور دیگر ناجائز امور میں مبتلا ہوکر وی اس مبارک رات کا تقد س پامال کرتے ہیں ۔ حالانکہ آتش بازی اور پٹاخے نہ صرف ان لوگوں اور ان کے بچوں کی جان کے لیے خطرہ ہیں بلکہ ارد گرد کے لوگوں کی جان کے لیے بھی خطرتے کا باعث بنتے ہیں ۔ ایسے لوگ ”مال برباد اور گناہ لازم” کا مصداق ہیں ۔
ہمیں چاہیے کہ ایسے گناہ کے کاموں سے خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی بچائیں اور بچوں کو سمجھائیں کہ ایسے لغو کاموں سے اللہ تعالیٰ اور اس کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ناراض ہوتے ہیں ۔ مجدد برحق اعلیٰ ھضرت امام احمد رضا محدث بریلوی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ۔ آتش بازی جس طرح شادیوں اور شب برأت میں رائج ہے بے شک حرام اور پورا جرم ہے کہ اس میں مال کا ضیاع ہے۔ قرآن مجید میں ایسے لوگوں کو شیطان کے بھائی فرمایا گیا۔ ارشاد ہوا،
”اور فضول نہ اڑا بے شک (مال) اڑانے والے شیطانوں کے بھائی ہیں ”۔ (بنی اسرائیل)
شعبان کے روزے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے، ”جن لوگوں کی روحیں قبض کرنی ہوتی ہیں ان کے ناموں کی فہرست ماہِ شعبان مٰں ملک الموت کو دی جاتی ہے اس لیے مجھے یہ بات پسند ہے کہ میرا نام اس وقت فہرست میں لکھا جائے جب کہ میں روزے کی حالت میں ہوں ”۔ یہ حدیث پہلے مذکورہ ہو چکی کہ مرنے والوں کے ناموں کی فہرست پندرہویں شعبان کی رات کو تیار کی جاتی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس ارشاد سے معلوم ہوا کہ اگرچہ رات کے وقت روزہ نہیں ہوتا اس کے باوجود روزہ دار لکھے جانے کا مطلب یہ ہے کہ بوقت کتاب (شب) اللہ تعالیٰ روزی کی برکت کو جاری رکھتا ہے۔ (ماثبت من السنہ ١٩٢)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ، ”میں نے آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ماہِ رمضان کے علاوہ ماہِ شعبان سے زیادہ کسی مہینے میں روزے رکھتے نہیں دیکھا”۔ (بخاری، مسلم، مشکوٰۃ جلد ١ ص ٤٤١) ایک اور روایت میں فرمایا، ”نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چند دن چھوڑ کر پورے ماہِ شعبان کے روزے رکھتے تھے”۔ (ایضاً)
سوانح حیات حضرت پیر مٹھا سائیں رحمۃ اللہ علیہ
الحمدللہ رب العالمین، والصلاۃ والسلام علٰی اشرف الانبیاءِ والمرسلین
وعلٰی آلہِ وصحبہِ اجمعین وبعد
پیرطریقت ، آفتابِ ولایت، قطبِ عالم غوث زمان سیدی و مرشدی حضرت خواجہ محمد عبدالغفار عرف پیر مٹھا رحمۃ اللہ علیہ کی نورانی شخصیت محتاجِ تعارف نہیں۔ آپ عالم، عابد و زاہد ، متقی تھے۔آپ نہ صرف عاشقِ خدا اور صوفی با صفا تھے بلکہ جید عالمِ دین، مفسر ، محدث اور فقیہ بھی تھے۔
آپ علمبردارِ عشقِ رسول ﷺ تھے۔ قافلہ عُشاق کے سالارتھے۔ سلسلہ عالیہ نقشبندیہ کے تاجدار تھے۔ ظاہری و باطنی علوم کے مجمع البحار تھے۔ اپنی نورانی نگاہوں سے لاکھوں دلوں کو زکرِ الٰہی سے سرشار کیا۔ لاکھوں انسانوں کی زندگیوں کو بدل کر رکھ دیا۔ سندھ کی فضاء اللہ اللہ کی ضربوں سے گونج اٹھی۔
خانوادہ پیر مٹھا سائیں رحمۃ اللہ علیہ
قطب ِ عالم حضرت پیر مٹھا سائیں رحمتہ اللہ علیہ کا تعلق برصغیر کے معزز و محترم گھرانے چنڑ قبیلہ سے تھا۔آپ کا نسب سولہ واسطوں سے قطب الاولیاء حضرت مخدوم عماد الدین عرف چنن پیر یا چنڑ پیر رحمۃ اللہ علیہ کے بھائی محمد اُویس رحمۃ اللہ علیہ سے ملتا ہے ، جن کی مزار صوبہ پنجاب کے شہر بھاولپور کے جنوب مشرق میں چالیس کلومیٹر کے فاصلہ پر ریگستانی علاقہ میں ریت کے ایک ٹیلے پر واقع ہے ۔ آپ پنجاب کے بھٹائی تھے کیوں کہ آپ کا مزار ایک بھٹ پر واقع ہے ۔ آپ بڑے پایہ کے ولی تھے۔
حضرت مخدوم چنڑ پیر کے خانوادہ میں سے کچھ افراد بستی لنگر میں آکر قیام پزیر ہوئے جو ضلع ملتان کے تحصیل جلالپور پیر والا کے قریب واقع ہے۔ ماضی میں یہ علاقہ دو دریاؤں چناب اور سُتلج کے درمیان ہونے کی وجہ سے دھلی اور ایران کی آبی گزر گاہ تھی ۔ یہ علاقہ اپنی تہزیب تمدن کے اعتبار سے بڑی قدیم اور سلجھی ہوئی تہذیببوں میں شمار ہوتا ہے۔ اس علاقہ کو سرائیکی وسیب بھی کہتے ہیں۔ یہاں کے لوگ طبعاً سخی فیاض مہمان نواز ہیں ان کی زبان سرائیکی ہے ۔ یہاں کی زمینیں بڑی سرسبز و شاداب ہیں۔
ابوالعلماء حضرت مولانا یار محمد رحمۃ اللہ علیہ۔
علم و معرفت فقر و درویشی حضرت چنن پیر رحمۃاللہ علیہ کے اس خاندان کا علمی ورثہ تھا۔ آپ کی پندرھویں پشت میں ایک خوشنصیب فرد پیدا ہوا جسکا نام یار محمد تھا۔ رب قدیر نے انکو علمی و روحانی دولت سے مزین فرمایا تھا۔ آپ کتب کثیرہ کے مصنف اور موئلف بھی تھے۔ معراج نامہ ، رسالہ نصیحت ، چھل حدیث ، قصص الانبیاء وغیرہ انکی قلمی کاوش تھی۔
حضرت مولانا یارمحمد رحمۃ اللہ علیہ کی شادی اپنے ہی خاندان کی ایک عابدہ زاہدہ بی بی من بھانونی سے ہوئی جن کے بطن مبارک سے انہیں چار فرزند پیدا ہوئے۔ جو کہ چاروں عالم و فاضل تھے۔
۔۱ مولانا اشرف
۔۲ مولانا عبدلرحمن
۔۳ مولانا حضرت پیر عبدالغفار عرف پیر مٹھا سائیں
۔۴ مولانا عبدالستار
ولادت باسعادت
حضرت قبلہ عبدالغفار رحمۃ اللہ علیہ آج سے کوئی ایک سو بیس سال قبل لنگر شریف میں ولادت ہوئی ۔ آپ کے پہلے استاد آپ کے والد گرامی حضرت مولانا یار محمد رحمۃ اللہ علیہ تھے جو بڑے پایہ کے عالم تھے۔ بڑے خوشخو و خوش مزاج تھے۔ کچھ عرصے بڑے بھائی مولانا اشرف کے زیرِ تعلیم رہے ۔
دورۂ حدیث آپ نے شیخ الاسلام مفتی ٔ ہند علامہ عاقل محمد رحمۃاللہ علیہ (ولادت :1813 وفات :1923) کے پاس مکمل کیا، جن کا سلسلہ نسب اکیسویں پشت میں حضرت غوث بہاوالحق ملتانی رحمۃ اللہ علیہ سے ملتا ہے، جو عرب کے مشہور عالم حضرت شیخ احمد زینی و دھلان کے شاگرد تھے۔ علامہ دھلان حضرت مولانا احمد رضافاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ اور خواجہ محمد حسن جان سرہندی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ کے بھی استاز تھے۔ اس نسبت سے اعلٰی حضرت اور حضرت پیر مٹھا سائیں ایک ہی استاز کے فیضِ علم سے بہرور ہوئے ۔ آپ دھلان کے شاگرد کے شاگرد تھے۔
علم طریقت کا حصول
حضرت پیر مٹھا سائیں رحمۃ اللہ علیہ ظاہری علوم سے فراغت کے بعد حضرت حافظ فتح محمد قادری رحمۃاللہ علیہ (ولادت:1835 وفات :1917) کے صحبتوں میں جایا کرتے تھے جو آپ کے خاندان کے پیر و مرشد تھے۔ حضرت حافظ صاحب مستجاب دعوات ، عالم با عمل متّقی متوکل بزرگ تھے۔
حضرت پیر مٹھا سائیں رحمۃ اللہ علیہ ابھی علم سلوک میں تشنۂ تکمیل تھے کہ حافظ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا انتقال ہوگیا۔ پھر آپ روحانیت کے متلاشی ہی تھے کہ مولانا الٰہی بخش بیٹ کیچ والے کی زبانی حضرت پیر فضل علی قریشی رحمۃاللہ علیہ (ولادت:1270ھ وفات :1354ھ) کی تعریف سُنی اور انکے روحانی تصرفات کے چرچے سنے، جو اُن دنوں سیکڑوں گاؤں میں قیام پزیر تھے۔ روحانی کشش آپ کو کشاں کشاں حضرت قریشی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں لائی۔ جوں ہی آکر ذکر قلبی حاصل کیا تو دل میں ذکر الٰہی جاری ہوگیا۔ رگ و پے میں اللہ اللہ کی آوازیں آنے لگیں محض قلبی ذکر کرنے سے سلطان الاذکار بھی جاری ہوگیا۔ آپ کے جسم پر لرزہ طاری ہوگیا۔ آنکھوں کی نیند اڑگئی اورایک عشق و مستی کی کیفیت ہر وقت طاری ہونے لگیں۔ اس طرح تین سال تک یہی کیفیات ِ عشق و محبت جاری رہیں۔
آپ کو اپنے پیر و مرشد سے والہانہ محبت تھی۔ اکثر اوقات آپ کی صحبتوں میں رہتے تھے۔ دیس و پردیس آپ کے رفیق و یار غار رہتے اور اکتساب فیوضاتِ روحانی کرتے رہتے تاآنکہ حضرت قریشی کریم نے آپ کو خلعت خلافت سے سرفراز فرمایا۔ حضرت قریشی کے خلفاء تو بہت تھے مگر جو مقام حضرت پیر مٹھا سائیں رحمۃ اللہ علیہ کو ملا وہ کسی کو نہیں مل سکا۔آپ نے اپنی مورثی زمین زرعی ایراضی اپنے مرشد کو ھبہ کردی۔ اپنی بیٹی اپنے پیر کے حبالہ ء نکاح میں دے دی ۔ ہر وقت خدمت گزار رہتے۔ قریشی کریم کے لنگر خانہ اور مہمانوں کی خدمت مین ھمہ تن گوش مصروف رہتے۔
آپ نے ایک جگہ سکونت اختیار نہیں کی۔ جہاں جہالت کا اندھیرا دیکھا وہاں مسکن بنالیا ۔ پورا علاقہ آپ کے روحانی فیوضات سے مستفیذ ہوا۔ تبلیغی مقاصد مکمل ہوئے تو پھر کسی اور مقام کا انتخاب فرمایا۔ اس طرح آپ نے سندھ ، پنجاب اور بلوچستان میں سترا (17) جگہوں پر قیام فرمایا۔
گو خلافت و اجازت کے بعد تبلیغ کے سلسلہ میں آپ بکثرت سندھ میں تشریف لاتے تھے ، لیکن عاشق آباد نامی مستقل مرکز پنجاب ہی میں بنایا تھا، جہاں حضرت قریشی بھی تشریف فرماہوئے تھے۔ اس دوران سندھ کے بہت سارے فقراء سندھ اور پنجاب کے تبلیغی سفر میں ساتھ ہوتے اور مرکز عاشق آباد کی تعمیر میں عملی طور پر شامل رہے۔
لیکن ان کے دل کی خواہش یہی تھی کہ کسی صورت حضرت پیر مٹھا سندھ میں مستقل قیام فرمائیں چناچہ جب فقراء کی دعوت پر چند مرتبہ دریائے سندھ کے مغربی کنارے مقیم مسکین فقراء کے یہاں تشریف فرماہوئے ، جو مختلف بستیوں سے نقل مکانی کرکے محض زکرو فکر اور شریعت پر عمل کرنے کی خاطر چھوٹی سی بستی بناکررہ رہے تھے۔ فقراء کی محبت ، شریعت مطہرہ پر عمل و استقامت دیکھ کر آپ بہت خوش ہوئے اور انکی گزارش پر خود بھی پنچاب سے نقل مکانی کرکے وہاں آکر آباد ہوئے اور اس بستی کا نام دین پور تجویز کیا گیا۔
رحمت پور شریف کا قیام
اُنڑ پور قیام کے بعد جیسے ہی آپ دین پور جانے کے لئے رادھن اسٹیشن پر پہنچے ، دریائی سیلاب کی وجہ سے دین پور جانے کا راستہ بند ہوچکا تھا۔ کچھ دن رادھن اسٹیشن پر قیام فرمانے کے بعد لاڑکانہ کے فقراء کی دعوت پر لاڑکانہ تشریف لے گئے۔ جتنے دن لاڑکانہ میں قیام فرمایا،دُور و نزدیک کے فقراء مسلسل آتے رہے، تبلیغ دین کا کام بھی خوب ہوا۔ مقامی فقراء نے موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے مستقل طور پر لاڑکانہ میں رہنے کی خواہش کی کہ یہ بڑا شہر ہے ۔ آمدورفت کی تمام سہولتیں موجود ہیں، اس لیئے دین پور سے بڑھ کر یہاں دین کا کام ہوسکتا ہے ۔ ان کی یہ تجویز چونکہ للّٰہیت پر مبنی تھی اور آپ کی زندگی ویسے بھی دین کی اشاعت و خدمت کے لیئے وقف تھی، آپ نے حامی بھر لی اور اس طرح درگاہ رحمت پور کا قیام عمل میں آیا۔
درگاہ رحمت پور شریف کے قیام کے دوران آپ نے شریعت و طریقت کی ترویج و اشاعت کے لیئے کارہائے نمایاں انجام دیئے۔ اندرونِ ملک کے علاوہ بنگال اور ایران تک آپ کا پیغام پہنچا۔ لاکھوں کی تعداد میں دین سے دور ، نفس و شیطان کے پھندوں میں جکڑے ہوئے افراد کی اصلاح ہوئی۔ نہ معلوم کتنے چور، ڈاکو ، شرابی تائب ہوکر متقی و پرہیزگار بنے۔ نیز آپ کے خلفاء کرام جن کی تعداد 140 بتائی جاتی ہے ۔ سندھ ، پنجاب، سرحد و بلوچستان میں تبلیغی خدمات انجام دیتے رہے اور ہر جگہ غیر معمولی مقبولیت حاصل ہوتی رہی۔ آپ کو امّت محمدیہ ﷺ کی اصلاح کا اس قدر فکر دامن گیر رہتا تھا کہ مسلسل کئی کئی گھنٹے خطاف کرنا آپ کے معمولات میں شامل تھا۔
اکثر و بیشتر روزانہ نمازِ فجر کے بعد ذکر اللہ کا حلقہ مراقبہ کرانے کے بعد جیسے ہی وعظ شروع فرماتے ، گیارہ بجے تک مسلسل خطاب جاری رہتا تھا۔ اس دوران یکے بعد دیگر ے سامعین ضروریات کے لیئے اٹھتے تھے لیکن آپ پر تبلیغی محویت کا یہ عالم ہوتا تھا کہ بعض اوقات ظہر کی نماز تک یہ سلسلہ جاری رہتا اور آپ نماز ظہر اد ا فرما کر حویلی مبارک میں تشریف لیے جاتے تھے۔ بعض اوقات فرماتے تھے کہ مجھے مجلس ذکر سے اٹھنے کے لئے صرف دو چیزیں مجبور کرتی ہیں (1) نماز (2) سامعین کی تھکاوٹ کا احساس ، سبحان اللہ۔ ظہر سے عصر تک گھر تشریف فرمارہنے کے بعد نماز عصر کے لیئے مسجد تشریف لاتے اور عصر کے بعد سے مغرب تک وعظ فرماتےتھے۔
عمر رسیدہ ہونے کے باوجود آپ کے ان معمولات میں نہ فقط یہ کہ فرق نہیں آیا بلکہ مزید اضافہ ہوتا رہا۔ یہاں تک کہ بعض اوقات نمازِ عشاء کے وقت تک کھڑے کھڑے کئی گھنٹہ خطاب فرمایا۔ مرض الموت میں جامع مسجد رحمت پور شریف میں بروزِ جمعہ مسلسل چھ گھنٹے خطاب فرمایا۔ حالانکہ نقاہت اور کمزوری کا یہ عالم تھا کہ چلنے پھرنے کی سکت مطلقاً نہ تھی ۔ نماز کے لیئے پہیوں والی کرسی (وہیل چیئر) پر لائے گئے تھے۔ پھر بھی نمازِ باجماعت اور تبلیغ دین میں فرق آنے نہیں دیا۔
اوصاف حمیدہ
توکّل، تقویٰ، صبر و شکر ، خدمتِ خلق و دیگر اوصافِ حمیدہ آپ کے پاکیزہ خمیر میں شامل تھی۔ چناچہ عام بازار کی بنی ہوئ چیزوں مثلاً مٹھائی، گُڑ ، ہوٹل کے کھانے اور مارکیٹ کے گوشت سے مکمل پرہیز کرتے تھے۔ گو یہ چیزیں حلال ہیں لیکن عام طور پر ان میں ضروری پاکیزگی اور صفائی کا خیال نہیں رکھا جاتا، اس لیئے یہ مشتبہ کے زمرہ میں آتی ہیں، جن سے بچنے کے لیئے خود رسول اللہ ﷺ نے تاکید فرمائی ہے۔ آپ کے اس تقویٰ کا جماعت پر بھی نمایاں اثر پایا جاتا تھا۔ خلفاء کرام سفر میں جاتے وقت ستو، میٹھی روٹی (جوکہ کئی دن تک استعمال کی جاسکتی ہے ) اور نمک مرچ اپنے پاس رکھتے جسے بطور سالن استعمال کرتے تھے لیکن کھانے کا سوال کسی سے نہیں کرتے تھے۔
توکّل: حضرت پیر مٹھا کمال درجہ کے متوکّل تھے ۔ فقراء کی آمد مسلسل رہتی تھی۔ سو ، دو سو مسافر روزانہ ہوتے تھے، گیارہویں شریف کے جلسے میں ہزاروں کی تعداد میں اہل ذکر ہوتے تھے۔ کوئی دو دن رہتاکوئی ایک ہفتہ ، لیکن تمام مہمانوں کے لیے ایک ہی قسم کا لنگر ہوتا۔ کسی سے سوال کرنا تو کچا ، خود جلسوں کے موقع پر عموماً یہ اعلان فرماتے تھے کہ آپ بکثرت تشریف لائیں ، مل کر اللہ اللہ کریں ، آپ بے فکر رہیں ، قیامت تک آپ سے سوال نہیں کیا جائے گا۔ زکوٰۃ ، صدقات، خیرات بھی اپنے پڑوس والوں اور رشتہ داروں کو دیں، دربار شریف پر جس قدر زیادہ جماعت آتی، آپ اسی قدر زیادہ خوش ہوتے تھے۔ کوئی کتنا ہی بڑا آدمی کیوں نہ ہوتا ، آپ کے نزدیک اس کی حیثیت ایک سیدھے سادھے مسکین سے زیادہ نہیں ہوتی تھی بلکہ غریبوں مسکینوں سے آپ کو اور زیادہ محبت ہوتی تھی۔ مستغنی اس قدر کہ لاڑکانہ کے بڑے بڑے رئیس دعاء کے لئے حاضر ہوتے تو آپ صاف صاف الفاظ میں نماز ، داڑھی ، خوفِ خدا ، غریبوں سے ہمدردی کی تلقین فرماکر دعا کرتے لیکن کبھی ان سے ایک پیسے کا بھی دنیا وی فائدہ حاصل نہیں کیا۔ آپ اپنے متعلقین و احباب کو توکّل و استغنا کا امر کرتے اور کسی سے سوال ، چندہ کرنے سے سختی سے منع فرماتے تھے۔ چناچہ آپ کے ملفوظات (جو کہ مولانا مفتی عبدالرحمن صاحب نے جمع کئے) میں ہے کہ ایک مرتبہ دوران خطاب ارشاد فرمایا: مجھے مکانات بنانے اور عمدہ مکانات میں رہنے کی رغبت نہیں اور سوال کرنے سے سخت بیزار اور اس کا مخالف ہوں۔ گھر میں اہلخانہ کو قرآن مجید پر ہاتھ رکھوا کر عہد لیا کہ کسی سے سوال نہیں کریں گے۔ اگر کسی قسم کا کام ہوتو مجھے بتادیں۔ اگر مناسب ہوگا تو میں خود انتظام کردوں گا ورنہ نہیں۔ باقی خلفاء یا کسی فقیر کو درگاہ شریف کے کام کے سلسلے میں (بھی) نہیں کہیں۔
اتباعِ سنت: بلاشبہ آپ سر تا پا سنتِ رسول ﷺ کے عملی نمونہ تھے۔ اور یہی آپ کی سب سے بڑی کرامت تھی۔
درگاہ رحمت پور شریف میں تو آپ نے عملی طور پر نظامِ مصطفٰی ﷺ نافذ کرکھا تھا۔ لیکن بیرون درگاہ رہنے والے اہل ذکر فقراء بھی داڑھی ، نماز باجماعت ، مسواک ، عمامہ کے پابند تھے اور خلافِ شرع رسم و رواج سے پرہیز کرتے اور اہل ذکر خواتین ، شرعی پردہ کا اس قدر اہتمام کرتیں کہ بہت سے علماء بھی یہ دیکھ کر دنگ رہ جاتے ۔ نیز یہ حقیقت اور بھی زیادہ اہم اور قابل قدر ہے کہ آپ کی جماعت میں آکر ، خواتین و حضرات یکساں مستفیذ ہوئے، جب کہ مردوں کی اصلاح کے لیئے تو الحمدللہ پہلے بھی بہت سے علماء اور پیروں نے اصلاحی کوششیں کی تھیں،لیکن خواتین کی اصلاح اور ان میں نیکی، تقویٰ کا شوق ، شریعت مطہرہ کے عین مطابق شرعی پردہ کا اہتمام جو آپ کی جماعت میں پایا جاتا تھا اور آج تک پایا جاتا ہے ، کم از کم آج تک کہیں اور نظر نہیں آیا۔ شریعت مطہر ہ کی پابندی اور آپ کے خلوص و للّٰہیت کا عمدہ ثمر تھا کہ بڑے بڑے با اثر افراد کی مخالفت اور تمام تر توانائیاں صرف کرنے کے باوجود آپ کی خداداد مقبولیت میں زرّہ بھر کمی نہ ہوئی بلکہ اسمیں برابر اضافہ ہوتا رہا اور آج تک بالواسطہ آپ کے فیوض و برکات اندرون و بیرون ملک پھیلتے ہی جا رہے ہیں۔ فَال حَمدُ لِللہِ عَلیٰ ذالِک
انتقال پر ملال
عمر مبارک کے آخری ایام میں آپ اکثر و بیشتر یہ قطعہ پڑھا کرتے تھے
سرتے پھلاں کھاری، کوئی ونجن والا ہووے سجنا میں ونجاں واری
آخری ایام میں جوں جسمانی عوارضات نے گھیرا تو آپ کا جوش تبلیغ بڑھتا گیا۔ مسلسل چار پانچ گھنٹے تبلیغ کرتے رہتے۔ بالآخر شعبان المعظم 1384ھ رات کو ساڑھے گیارہ بجے لاکھوں عشاق کو داغ مفارقت دیکر اللہ سے جاملے۔ اِنَّا لِللہِ وَاِنَّا اِلَیہِ رَاجِعُون۔
آپ کی دختر مخدومہ کے بقول جو آخری الفاظ آپ کی زبان ِ مبارک سے ادا ہوئے وہ یہ تھے۔
رَبَّنَا ہَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَ ذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعْیُنٍ وَّ اجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیۡنَ اِمَامًا
قطعہ تاریخ
مولانا نورالدین “انور” فضل آبادی نے حروف ابجد میں یہ قطعہ لکھا ہے:
“فیاض، عارف ، طبیب ، احسن ” عجیب عامل قرآن تھا-1384ھ
“غفار ، عاشق ، امین ، سالک” خطیب کامل بیان تھا -1964ء
آپ کی نماز جنازہ آپ کے فرزند دلبند خواجہ محمد خلیل الرحمن رحمۃ اللہ علیہ نے پڑھائی اور آپ کا جسد عنبرین آپ کی مسجد غفاری کے جنوب میں دفنایا گیا۔ جہاں آپ کی مزار پرانوار دربار رحمت پور لاڑکانہ میں آج بھی زیارت گاہ عام و خواص ہے۔
اولاد
ایک بیٹا : خواجہ محمد خلیل الرحمن رحمۃ اللہ علیہ
تین بیٹیاں
۔۱ بی بی آسیہ (زوجہ خواجہ فضل علی قریشی رحمۃاللہ علیہ)۔
۔۲ بی بی غلامِ بتول (زوجہ مولانا محمد سعید)۔
۔۳ بی بی آمتہ الکریم (والدہ محترمہ جناب دیدہ دل )۔
مزکورہ معلومات کتاب دیوانِ غفاریہ سے لی گئی ہے جسے حضرت دیدۂ دل نواسلہ پیر مٹھا رحمۃ اللہ نے مرتب کیا ہے۔
(حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام بھیجنے کی فضیلت)
احادیث مبارکہ معہ حوالا جات
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے تو اﷲتعالیٰ اس پر دس مرتبہ درود (رحمت) بھیجتا ہے۔ اور امام ترمذی نے ان الفاظ کا اضافہ کیا : اور اﷲتعالیٰ اس کے لئے دس نیکیاں بھی اس (درود پڑھنے) کے بدلے میں لکھ دیتا ہے۔
الحديث رقم 31 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : الصلاة، باب : الصلاة علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم بهذا التشهد، 1 / 306، الرقم : 408، والترمذي في السنن، أبواب : الوتر عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : ماجاء في فضل الصلاة علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم، 2 / 353، 354، الرقم : 484 – 485، والنسائي في السنن، کتاب : السهو، باب : الفضل في الصلاة علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم، 3 / 50، الرقم : 1296، وفي السنن الکبري، 1 / 384، الرقم : 1219، والدارمي في السنن، 2 / 408، الرقم : 2772، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 375، الرقم : 8869 – 10292، وابن حبان في الصحيح، 3 / 187، الرقم : 906، وابن أبي شيبة في المصنف، 2 / 253، الرقم : 8702، والطبراني في المعجم الصغير، 2 / 126، الرقم : 899، وأبويعلي بإسناده في المسند، 11 / 380، الرقم : 6495، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 / 211، الرقم : 1559، وأبو عوانة في المسند، 1 / 546، الرقم : 2040.
———————————————————————————————————————————————–
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے، اس کے دس گناہ معاف کیے جاتے ہیں اور اس کے لئے دس درجات بلند کیے جاتے ہیں۔
الحديث رقم 32 : أخرجه النسائي في السنن، کتاب : السهو، باب : الفضل في الصلاة علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم، 4 / 50، الرقم : 1297، وفي السنن الکبري، 1 / 385، الرقم : 1220 / 10194، وفي عمل اليوم والليلة، 1 / 296، الرقم : 362، والبخاري في الأدب المفرد، 1 / 224، الرقم : 643، وابن أبي شيبة في المصنف، 2 / 253، والرقم : 8703، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 102، الرقم : 12017، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 / 210، الرقم : 1554، والحاکم في المستدرک، 1 / 735، الرقم : 2018.
———————————————————————————————————————————————–
حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : قیامت کے روز لوگوں میں سے میرے سب سے زیادہ قریب وہ شخص ہو گا جو (اس دنیا میں) ان میں سے سب سے زیادہ مجھ پر درود بھیجتا ہے۔
الحديث رقم 33 : أخرجه الترمذي في السنن أبواب : الوتر عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : ماجاء في فضل الصلاة علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم، 2 / 354، الرقم : 484، وابن حبان في الصحيح، 3 / 192، الرقم : 911، والبيهقي في السنن الکبري، 3 / 249، الرقم : 5791، وفي شعب الإيمان، 2 / 212، الرقم : 1563، وأبويعلي في المسند، 8 / 427، الرقم : 5011، والديلمي في مسند الفردوس، 1 / 81، الرقم : 250، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 327، الرقم : 2575.
———————————————————————————————————————————————–
حضرت عبداﷲ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بلا شبہ اﷲ تعالیٰ کی زمین میں بعض گشت کرنے والے فرشتے ہیں جو مجھے میری امت کا سلام پہنچاتے ہیں۔
الحديث رقم 34 : أخرجه النسائي في السنن کتاب : السهو، باب : السلام علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم، 3 / 43، الرقم : 1282، وفي السنن الکبري، 1 / 380، الرقم : 1205، 6 / 22، الرقم : 9894، وفي عمل الليوم والليلة، 1 / 67، الرقم : 66، والدارمي في السنن، 2 / 409، الرقم : 2774، وابن حبان في الصحيح، 3 / 195، الرقم : 914، والحاکم في المستدرک، 2 / 456، الرقم : 3576، والبزار في المسند، 5 / 307، الرقم : 4210، 4320، وأبويعلي في المسند، 9 / 137، الرقم : 5213، والطبراني في المعجم الکبير، 10 / 219، الرقم : 10528. 10530، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 / 217، الرقم : 1582، وابن شيبة في المصنف، 2 / 253، الرقم : 8705، 31721، وعبد الرزاق في المصنف، 2 / 215، الرقم : 3116، والشاشي في المسند، 2 / 252، ، الرقم : 825. 826، وابن حيان في العظمة، 3 / 990، الرقم : 513، وابن المبارک في الزهد، 1 / 364، الرقم : 1028، والديلمي عن أبي هريرة رضي الله عنه في مسند الفردوس، 1 / 183، الرقم : 686، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 326، الرقم : 2570.
———————————————————————————————————————————————–
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (میری امت میں سے کوئی شخص) ایسا نہیں جو مجھ پر سلام بھیجے مگر اﷲتعالیٰ نے مجھ پر میری روح واپس لوٹا دی ہوئی ہے یہاں تک کہ میں ہر سلام کرنے والے کے سلام کا جواب دیتا ہوں۔
الحديث رقم 35 : أخرجه أبوداود في السنن، کتاب : المناسک، باب : زيارة القبور، 2 / 218، الرقم : 2041، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 527، الرقم : 10867، والطبراني في المعجم الأوسط، 3 / 262، الرقم : 3092، 9329، والبيهقي في السنن الکبري، 5 / 245، الرقم : 10050، وفي شعب الإيمان، 2 / 217، الرقم : 5181. 4161، وابن راهويه في المسند، 1 / 453، الرقم : 526، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 326، الرقم : 2573، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 162.
———————————————————————————————————————————————–
حضرت حسن بن علی رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم جہاں کہیں بھی ہو مجھ پر درود بھیجا کرو، بیشک تمہارا درود مجھے پہنچ جاتا ہے۔
الحديث رقم 36 : أخرجه أحمد بن حنبل عن أبي هريرة رضي الله عنه في المسند، 2 / 367، الرقم : 8790، والطبراني في المعجم الکبير، 3 / 82، الرقم : 2729، وفي المعجم الأوسط، 1 / 17، الرقم : 365، والديلمي في مسند الفردوس، 5 / 15، الرقم : 7307 والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 326، الرقم : 2571.
———————————————————————————————————————————————–
حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک مرتبہ تشریف لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ اقدس پر خوشی ظاہر ہو رہی تھی.آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ابھی ابھی جبرائیل علیہ السلام میرے پاس آئے اور انہوں نے کہا : آپ کا رب فرماتا ہے : اے محمد! کیا آپ اس بات پر راضی نہیں کہ آپ کی امت میں سے جو شخص ایک مرتبہ آپ پر درود بھیجے، میں اس پر دس رحمتیں بھیجوں؟ اور آپ کی امت میں سے کوئی آپ پر ایک مرتبہ سلام بھیجے تو میں اس پر دس مرتبہ سلام بھیجوں۔
الحديث رقم 37 : أخرجه النسائي في السنن کتاب : السهو، باب : الفضل في الصلاة علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم 3 / 50، الرقم 1295، والدارمي في السنن 2 / 408، الرقم : 2773، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 30، وابن المبارک في کتاب الزهد، 1 / 364، الرقم : 1067، والطبراني في المعجم الکبير، 5 / 100، الرقم : 4720، وابن أبي شيبة في المصنف، 2 / 252، الرقم : 8695.
———————————————————————————————————————————————–
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ یقیناً دعا اس وقت تک زمین اور آسمان کے درمیان ٹھہری رہتی ہے اور اس میں سے کوئی بھی چیز اوپر نہیں جاتی جب تک تم اپنے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود نہ پڑھ لو۔
الحديث رقم 38 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : الصلاة عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : ماجاء في فضل الصلاة علي النبي صلي الله عليه وآله وسلم، 2 / 356 الرقم 486، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 330، الرقم : 2590.
———————————————————————————————————————————————–
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہر دعا اس وقت تک پردہ حجاب میں رہتی ہے جب تک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پراور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہلِ بیت پر درود نہ بھیجا جائے۔
الحديث رقم 39 : أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 1 / 220، الرقم : 721، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 / 216، الرقم : 1575، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 330، الرقم : 2589 وقال رواته ثقات، والديلمي في مسند الفردوس، 3 / 255، الرقم : 4754، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 160.
———————————————————————————————————————————————–
حضرت عبد اﷲ بن عمرو رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں کہ جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے، اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے اس پر ستر مرتبہ (بصورتِ رحمت) درود بھیجتے ہیں۔
الحديث رقم40 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 2 / 172، 187، الرقم : 6605. 6754، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 325، الرقم : 2566 وقال : إِسْنَادُهُ حَسَنٌ، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 160، وقال : رواه أحمد وَإِسْنَادُهُ حَسَنٌ.
———————————————————————————————————————————————–
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو لوگ کسی مجلس میں اکٹھے ہوئے اور پھر (اس مجلس میں) اللہ تعالیٰ کا ذکر اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود پڑھے بغیر وہ منتشر ہو گے تو وہ مجلس ان کے لئے قیامت کے روز باعث حسرت (و باعثِ خسارہ) بننے کے سوا اور کچھ نہیں ہو گی۔
الحديث رقم 41 : أخرجه ابن حبان في الصحيح، 2 / 351، الرقم : 590، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 446، الرقم : 9763، وابن المبارک في الزهد، 1 / 342، الرقم : 962، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 79 وقال الهيثمي : رواه أحمد ورجاله رجال الصحيح
———————————————————————————————————————————————–
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کوئی قوم کسی بیٹھنے کی جگہ (یعنی مجلس میں) بیٹھے اور اس میں اللہ تعالیٰ کا ذکر نہ کرے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود نہ بھیجے تو وہ مجلس روزِ قیامت ان کے لئے حسرت (و خسارہ) کا باعث ہونے کے سوا کچھ نہیں ہوگی اگرچہ وہ لوگ جنت میں بھی داخل ہو جائیں (لیکن انہیں ہمیشہ اس بات کا پچھتاوا رہے گا)۔
الحديث رقم 42 : أخرجه ابن حبان في الصحيح، 2 / 352، الرقم : 591، وابن أبي عاصم في کتاب الزهد، 1 / 27، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 263، الرقم : 2331، والهيثمي في موارد الظمآن، 1 / 577، الرقم : 2322، وفي مجمع الزوائد، 10 / 79.
———————————————————————————————————————————————–
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود پڑھتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتوں کا نزول فرماتا ہے اور جو شخص مجھ پر دس مرتبہ درود پڑھتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر سو رحمتیں نازل فرماتا ہے اور جو شخص مجھ پر سو مرتبہ درود پڑھتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان (یعنی پیشانی پر) منافقت اور آگ (دونوں) سے ہمیشہ کے لئے آزادی لکھ دیتا ہے اور روزِ قیامت اس کا قیام (اور درجہ) شہداء کے ساتھ ہو گا۔
الحديث رقم 43 : أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 7 / 188، الرقم : 7235، وفي المعجم الصغير، 2 / 126، الرقم : 899، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 / 323، الرقم : 2560، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 163.
———————————————————————————————————————————————–
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مجھ پر درود پڑھا کرو بلاشبہ (تمہارا) مجھ پر درود پڑھنا تمہارے لئے (روحانی و جسمانی) پاکیزگی کا باعث ہے۔
الحديث رقم 44 : أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 2 / 253، الرقم : 8704، وأبو يعلي في المسند، 11 / 298، الرقم : 6414، والحارث في المسند (زوائد الهيثمي)، 2 / 962، الرقم : 1062، وهناد في الزهد، 1 / 117، الرقم : 147.
———————————————————————————————————————————————–
حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص صبح کے وقت اور شام کے وقت مجھ پر دس دفعہ درود بھیجے گا اسے قیامت کے روز میری شفاعت نصیب ہو گی۔
الحديث رقم 45 : أخرجه المنذري في الترغيب والترهيب، 1 / 261، الرقم : 987، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 120، وَقَالَ المُنذرِيُّ وَالْهَيْثَميُّ : رواه الطبراني بإسنادين أحدهما جيد ورجاله وثقوا.
شان اولیاء اللہ
شان اولیا اللہ
حدیث نمبر -1
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالٰی فرماتا ہے۔ جو میرے کسی ولی سے دشمنی رکھے میں اس کے خلاف اعلان جنگ کرتا ہوں اور میرا بندہ ایسی کسی چیز کے زریعے قرب حاصل نہیں کرتا جو مجھے پسند ہیں اور میں نے اس پر فرض کی ہیں بلکہ میرا بندہ برابر نوافل کے زریعے میرا قُرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اُس سے محبت کرنے لگتا ہوں۔ اور جب میں اس سے محبت کرتا ہوں تو اس کی سماعت بن جاتا ہوں جس کے ساتھ وہ سنتا ہے اور اُسکی بصارت بن جاتا ہوں جس کے ساتھ وہ دیکھتا ہے اور اسکا ہاتھ بن جاتا ہوں جسکے ساتھ وہ پکڑتا ہے اور اُسکا پیر بن جاتا ہوں جسکے ساتھ وہ چلتا ہے اگر وہ مجھ سے سوال کرے تو میں ضرور اُسے عطاء فرماتا ہوں اور اگر وہ میرے پناہ پکڑے تو ضرور میں اُسے پناہ دیتا ہوں اور کِسی کام میں مجھے تردّد نہیں ہوتا جسکو میں کرتا ہوں مگر مومن کی موت کو بُرا سمجھنے میں کیونکہ میں اُسکے اس بُرا سمجھنے کو بُرا سمجھتا ہوں۔
بخاری شریف کتاب الرقاق
حدیث نمبر -2
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ایک شخص نے ننانوے آدمیوں کو قتل کیا پھر وہ یہ پوچھتا پھرتا تھا کہ کیا اِسکی توبہ قبول ہوسکتی ہے؟ اس نے ایک راہب (عیسائیوں میں تارک الدنیا عبادت گزار) کے پاس جا کر یہ سوال کیا: کیا اسکی توبہ ہے؟ راہب نے کہا : تمہاری توبہ نہیں ہوسکتی، اُس نے راہب کو بھی قتل کر دیا۔ اِس نے پھر سوال کرنا شروع کیا اور وہ اُس بستی سے نکل کر دوسری بستی کی طرف جانے لگا۔ جس میں کچھ نیک لوگ (اولیاء اللہ) رہتے تھے ۔ جب اس نے راستے کا کچھ حصّہ طے کیا تھا تو اسکو مو ت نے آلیا، اس نے اپنا سینہ کچھ دور کردیا ، پھر مرگیا، پھر رحمت کے فرشتوں اور عذاب کے فرشتوں میں بحث ہوئی ، وہ ایک بالشت کے برابر نیک آدمیوں (اولیاء اللہ) کی بستی کے قریب تھا، سو اس کو اس بستی والوں سے لاحق کر دیا گیا۔
صحیح مسلم ، کتاب التوبہ
حدیث نمبر -3
حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ ریع کی بہن ام حارثہ نے کسی انسان کو زخمی کر دیا ۔ انہوں نے اس کا مقدمہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس پیش کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا قصاص یعنی بدلہ لیا جائے گا ام ربیع نے عرض کیا اے اللہ کے رسول کیا فلاں سے بدلہ لیا جائے گا؟ اللہ کی قسم! اس سے بدلہ نہیں لیا جائے گا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ پاک ہے۔ اے ام ربیع بدلہ لینا اللہ کی کتاب (کا حکم) ہے۔ اس نے کہا اللہ کی قسم اس سے کبھی بدلہ نہ لیا جائے گا۔ راوی کہتے ہیں وہ مسلسل اسی طرح کہتی رہی۔ یہاں تک کہ ورثاء نے دیت قبول کرلی۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ کے بندوں میں سے بعض ایسے ہوتے ہیں کہ اگر وہ اللہ پر قسم اٹھالیں تو اللہ ان کی قسم کو پورا فرما دیتا ہے۔
متعلقه احاديث
صحيح مسلم : 758 | 3181
صحيح البخاري : 4166 | 6416
سنن النسائى الصغرى : 1126 | 4697
سنن الدارمي : 1433
سنن ابن ماجه : 1413 | 1414 | 1412
جامع الترمذي : 354
السنن الكبرى للنسائي : 720 | 6709 | 6712 | 6714 | 7979