Author Archive
ایک عالیشان مہربانی کا واقعہ
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میں اپنی بہن کے ساتھ ٹرین میں کراچی سے سبح 6 بجے کی ٹرین سے ہزارہ ایکسپریس میں حویلیاں جا رہا تھا اور چونکہ صبح صبح کا وقت تھا تو میری بہن جو کہ اپنی چار بیٹیوں اور ایک اکلوتے بیٹے کے ساتھ تھی کہنے لگی کہ تمہاری نیند بہت گھری ہے تو تم ابھی سوجاؤاور میں جاگتی ہوں تاکہ رات میں جب ہم سوجائیں تو تم جاگنا تو میں نے اس پر عمل کرتے ہوئے سوگیا۔
سونے کے بعد ابھی کچھ گھنٹے ہی گزرے تھے کہ میں خواب میں دیکھتا ہوں کے ہر طرف سفیدی سفیدی ہے جیسے بادلوں میں ہوں اور میں سو رہا ہوں اور ایک جانب میرے مرشد کریم قمبر والے سائیں حضر ت قبلہ سید غلام حسین شاہ شہنشاہ ولایت ، رئیس المتّقین، سردارِ اولیاء مدظلہ العالی کھڑے ہیں اور انکے صاحبزادے حضرت سائیں عطاء اللہ شاہ بخاری دامت برکاتہم العالی مجھے اٹھنے کو فرما رہے ہیں میں دیکھتا ہوں کہ حضرت مجھے فرماتے ہیں اٹھو ، اٹھو پھر تیسری بار حضرت نے فرمایا کہ اب نہیں اٹھو گے تو کب اٹھو گے۔ میں خواب ہی میں سوچتا ہوں کہ ایسا کیا ہوگیا گیا ہے کہ مجھے سائیں اٹھنے کو کہہ رہے ہیں یقینن مجھے اٹھ جانا چاہیئے ۔ جیسے ہی میں اٹھ کر بیٹھا اور میں چونکہ اُپر والی برتھ پر سورہا تھا اور جب میں نے نیچے دیکھا تو میری بہن بھی چادر اوڑھے سو رہی تھی اور اسکے سارے بچے بھی یہاں وہا ں سورہے تھے ۔ میں گھبرا کر اٹھا اور اور ایک مائک یا لاؤڈ پر اعلان سنا کہ لوگو ! ہوشیار ہوجاؤ اس ڈبے میں کچھ اغوا کار گھس گئے ہیں اور اپنے سامان کی بھی حفاظت کرو۔ میں نے اپنی بہن کو جاگنے کو کہا اورمیں اتنا ڈر گیا کہ میں دیکھ کر حیران ہوگیا کہ ہمارے ڈبے میں بہت سی مانگنے والیاں اور بھیکاری بھرے ہوئے ہیں اور بدنامِ زمانہ اسٹیشن حیدرآباد پر ٹرین رُکی ہوئی ہے۔ ہم نے جلدی جلدی سارا سامان سمیٹا اور بچوں کو بھی ایک جگہ جمع کیا۔
دوستو! یقین جانو یہ اتنی بڑی مہربانی تھی کہ اس کا اندازاہ شاید وہ شخص لگا سکتا ہے کہ جسکی بیٹیا ں ہوں یا اولاد والا ہو کیوں کہ اگر خدا نا خواستہ کوئی اغواء کار ہماری کسی بچی کو لے جاتا تو شاید ساری زندگی اس غم کا مداوا نا ہوپاتا۔ یہ اتنا بڑا سانحہ ہوتا کہ اگر اسکے اکلوتے بیٹے کو بھی کوئی لے جاتا تو شاید وہ جیتے جی مرجاتی۔ سبحان اللہ میرے مرشد کریم کی کس کس مہربانی کا ذکر کریں ۔ ہم ان خوشنصیبوں میں شامل ہیں جنہیں ایسے ولی ِ کامل کا دامن نصیب ہوا کہ جو ہمارے گھروالوں کے بھی نگہبان ہیں اور اپنے مُرید کو سوتے ہوئے بھی اکیلا نہیں چھوڑتے۔ہمارے جان و مال کی بھی حفاظت فرماتے ہیں۔ اللہ ہمیں کامل کے دامن سے وابستہ رکھے اور ہماری نسبت ان سے تاقیامت قائم رکھے اور انکے صدقے ہمیں آخرت میں بھی ان ہی کے دامن سے وابستہ رکھے۔ آمین۔
ایک جمعہ کی تقریر میں حضرت قبلہ سائیں نے فرمایا کہ دنیاء میں بھی تمہارا ہاتھ میرے ہاتھ میں ہے اور آخرت میں بھی تمہارا ہاتھ میرے ہاتھ میں اور میرا ہاتھ تمہارے ہاتھ میں ہوگا۔انشاء اللہ سبحان وتعالٰی۔ حق مھنجا سائیں
فقیر سید زاہد حسین شاہ حسینی
جب پُکارا تو مدد کو پہنچے
خصدار میں حضرت علامہ مولانا مفتی اعظم شیخ الحدیث مولوی عبدالخالق بروھی نقشبندی حسینی نے ایک دل کو بہار کردینے والی کرامت ارشاد فرمائی کہ ایک رات اچانک انکے دل میں شدید درد اٹھا۔ درد اتنا شدید تھا کہ میں سمجھا کہ شاید موت کا وقت آن پہنچااور اور بہت تکلیف محسوس ہو رہی تھی۔ فرماتے ہیں کہ میں نے دل میں مرشد کو پُکارا کہ مہربانی فرمائیں تاکہ میں کلمہ پڑھ سکوں تو اچانک اتنے میں دروازہ کھلا اور دیکھا کہ میرے مرشد کریم قمبر والے سائیں حضر ت قبلہ سید غلام حسین شاہ شہنشاہ ولایت ، سردار متّقین، سردارِ اولیاء مدظلہ العالی پہنچ گئےاور فرمانے لگے کہ مولوی صاحب غم نہ کرو اللہ تعالٰی ابھی تم سے دین کا کام لے گا پھر اپنا دست کرامت یعنی ہاتھ مبارک میرے سینے پر گھمایا اور میرا دل کا درد اچانک ختم ہوگیا اور میں بالکل بھلا ہوگیا۔ اس کے بعد جب ابا سائیں جانے لگے تو میں دروازے پر بیٹھا ہوا تھا اور یہ مہربانی خواب میں نہیں بیداری کے عالم میں پیش آئی سبحان اللہ۔
ڈوبتے ہوئے کو بچانا
قمبر شریف میں ایک مسجد جسکا نام بلال ہے وہاں کا متولّی محمد ایوب ابا سائیں کا معتقد تھا۔ کچھ بد عقیدوں کے ورغلانے پر وہ وہابی ہو گیا تھا ۔ جب اس کا آخری وقت آیا اور سکرات میں پھنسا اور اسکا سانس بھی نہیں نکل رہا تھا۔ اسکے گھر والے سخت پریشان ہو گئے تھے۔ کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کچھ لوگوں نے اسکے بیٹوں کو مشورہ دیا کہ سائیں قمبر والے کو لے آؤ تو اچھا ہوگا۔ محمد ایوب کے بیٹے مجبور ہوگئے اور ابا سائیں کے پاس گئے اور عرض گزار ہوئے۔ ابا سائیں تھوڑی دیر میں کچھ مُریدوں کے ساتھ وہاں پہنچے اور آتے ہی فرمایا کہ محمد ایوب کلمہ پڑھ ۔ اللہ کی قدرت دیکھو کہ محمد ایوب کا سانس بھی نہیں نکل رہا تھا اور ہوش میں بھی نہیں آرہا تھا کہ ابا سائیں کی آواز سن کر کلمہ پڑھا اور آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ وہاں موجود ابا سائیں کے مُرید مفتی نبی بخش نے کہا کہ ابا سائیں یہ تو آپ کو چھوڑ چکا تھا اسکو کلمہ کیوں پڑھایا؟ ابا سائیں نے فرمایا کہ محمد ایوب نے ہمیں چھوڑا دیا تھا پر ہم نے اسکے قلب پر انگلی رکھی تھی ہم نے اسکو نہیں چھوڑا۔سبحان اللہ۔
تاجدار تصوف و روحانیت حضرت پیر سید غلام حسین شاہ شاہ بخاری دامت برکاتہم العالی نے اپنی زندگی دین اسلام کی اشاعت و سربلندی ،احیاء سنت ،معاشرے کی روحانی اصلاح اور گمراہی کے خاتمے کیلئے وقف کئے ہوئے ہیں آپ نےسندھ اور بلوچستان اور کئی شہروں اور مختلف گاؤں اور بے شمارو یران دلوں میں محبت خداوندی اور عشق رسول کی لازوال شمع روشن کرکے لافانی اجالے بکھیر دیئے،علم و حکمت کے جواہر تقسیم کیئے ،رشدو ہدایت کے انعامات لٹائے اور فیض کے دریا بہا ئے آپ نے مردہ دلوں کو نئی زندگی بخشی اور گمگشتگان راہ کو نشان منزل دیا آپ سنت نبوی کا عملی نمونہ اور شریعت اسلامیہ کے عظیم پاسدار ہیں ۔
خلفائے راشدین اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے مناقب کا بیان
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرے صحابہ کو برا مت کہو۔ اگر تم میں سے کوئی احد پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کردے تو پھر بھی وہ ان کے سیر بھر یا اس سے آدھے کے برابر بھی نہیں پہنچ سکتا۔
الحديث رقم 37 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : قول النبي صلي الله عليه وآله وسلم : لو کنت متخذاً خليلا، 3 / 1343، الرقم : 3470، ومسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : تحريم سب الصحابة، 4 / 1967، الرقم : 2540، والترمذي فيالسنن، کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : (59)، 5 / 695، الرقم : 3861 وقال : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ، وأبوداود في السنن، کتاب : السنة، باب : في النهي عن سب أصحاب رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، 4 / 214، الرقم : 4658، وابن ماجه في السنن، باب : فضائل أصحاب رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، فضل أهل بدر، 1 / 57، الرقم : 161، والنسائي في السنن الکبري، 5 / 84، الرقم : 8308، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 11، الرقم : 11094، 11534، 11535، 11626، وابن حبان في الصحيح، 16 / 238، الرقم : 7253، وأبو يعلي في المسند، 2 / 342، الرقم : 1087، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 404، الرقم : 32404، والطبراني في المعجم الأوسط، 1 / 212، الرقم : 687.
اسے بخاری نے روایت کیا ہے اور امام مسلم نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ان الفاظ کے اضافہ کے ساتھ روایت کیا ہے : ’’میرے صحابہ کو برا مت کہو، میرے صحابہ کو برا مت کہو (دو مرتبہ فرمایا)۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے۔ ‘‘ پھر اسی طرح پوری حدیث بیان کی۔ ‘‘
————————————————————————————————————————
حضرت عبد اللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرے صحابہ رضی اللہ عنھم کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو! اﷲ سے ڈرو! اور میرے بعد انہیں تنقید کا نشانہ مت بنانا کیونکہ جس نے ان سے محبت کی اس نے میری وجہ سے ان سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھا اس نے میرے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھا اور جس نے انہیں تکلیف پہنچائی اس نے مجھے تکلیف پہنچائی اور جس نے مجھے تکلیف پہنچائی اس نے اللہ تعالیٰ کو تکلیف پہنچائی اور جس نے اللہ تعالیٰ کو تکلیف پہنچائی عنقریب اللہ تعالیٰ اُسے پکڑے گا۔
الحديث رقم 38 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : فيمن سبّ أصحاب النبي صلي الله عليه وآله وسلم، 5 / 696، الرقم : 3862، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 54، 57، الرقم : 20549 – 20578، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 / 191، الرقم : 1511، وابن أبي عاصم في السنة، 2 / 479، الرقم : 992، والروياني في المسند 2 / 92، الرقم : 882، والديلمي في مسند الفردوس، 1 / 146، الرقم : 525، والهيثمي في موارد الظمآن، 1 / 568، الرقم : 2284
————————————————————————————————————————
حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو میرے صحابہ کو برا بھلا کہتے ہیں تو تم (انہیں) کہو : تمہارے شر پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو۔
الحديث رقم 39 : أخرجه الترمذي فيالسنن، کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : ما جاء في فضل من رَأي النَّبِيَ صلي الله عليه وآله وسلم وَ صَحِبَهُ، 5 / 697، الرقم : 3866، والطبراني في المعجم الأوسط، 8 / 191، الرقم : 8366، والديلمي في مسند الفردوس، 1 / 263، الرقم : 1022.
————————————————————————————————————————
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس نے میرے صحابہ کو گالی دی تو اس پر اﷲ تعالیٰ کی، تمام فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے۔
الحديث رقم 40 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 12 / 142، الرقم : 12709، وعن أبي سعيد رضي الله عنه في المعجم الأوسط، 5 / 94، الرقم : 4771، وابن أبي شيبة عن عطا بن أبي رباح في المصنف، 6 / 405، الرقم : 32419، والخلال في السنة، 3 / 515، الرقم : 833، وابن أبي عاصم في السنة، 2 / 483، الرقم : 1001، وابن جعد في المسند، 1 / 296، الرقم : 2010، والديلمي في مسند الفردوس، 5 / 14، الرقم : 7302، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 21، والمناوي في فيض القدير، 5 / 274.
نجات کا راستہ – واقع حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ہ
کسی زمانے میں بغداد میں جنید نامی ایک پہلوان رہا کرتا تھا۔ پورے بغداد میں اس پہلوان کے مقابلے کا کوئی نہ تھا۔ بڑے سے بڑا پہلوان بھی اس کے سامنے زیر تھا۔ کیا مجال کہ کوئی اس کے سامنے نظر ملا سکے۔ یہی وجہ تھی کہ شاہی دربار میں اس کو بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اور بادشاہ کی نظر میں اس کا خاص مقام تھا۔
ایک دن جنید پہلوان بادشاہ کے دربار میں اراکین سلطنت کے ہمراہ بیٹھا ہوا تھا کہ شاہی محل کے صدر دروازے پر کسی نے دستک دی۔ خادم نے آکر بادشاہ کو بتایا کہ ایک کمزور و ناتواں شخص دروازے پر کھڑا ہے جس کا بوسیدہ لباس ہے۔ کمزوری کا یہ عالم ہے کہ زمین پر کھڑا ہونا مشکل ہو رہا ہے۔ اس نے یہ پیغام بھیجا ہے کہ جنید کو میرا پیغام پہنچا دو کہ وہ کشتی میں میرا چیلنج قبول کرے۔ بادشاہ نے حکم جاری کیا کہ اسے دربار میں پیش کرو۔ اجنبی ڈگمگاتے پیروں سے دربار میں حاضر ہوا۔ وزیر نے اجنبی سے پوچھا تم کیا چاہتے ہو۔ اجنبی نے جواب دیا میں جنید پہلوان سے کشتی لڑنا چاہتا ہوں۔ وزیر نے کہا چھوٹا منہ بڑی بات نہ کرو۔ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ جنید کا نام سن کر بڑے بڑے پہلوانوں کو پسینہ آ جاتا ہے۔ پورے شہر میں اس کے مقابلے کا کوئی نہیں اور تم جیسے کمزور شخص کا جنید سے کشتی لڑنا تمہاری ہلاکت کا سبب بھی ہو سکتا ہے۔ اجنبی نے کہا کہ جنید پہلوان کی شہرت ہی مجھے کھینچ کر لائی ہے اور میں آپ پر یہ ثابت کرکے دکھاؤں گا کہ جنید کو شکست دینا ممکن ہے۔ میں اپنا انجام جانتا ہوں آپ اس بحث میں نہ پڑیں بلکہ میرے چیلنج کو قبول کیا جائے۔ یہ تو آنے والا وقت بتائے گا کہ شکست کس کا مقدر ہوتی ہے۔
جنید پہلوان بڑی حیرت سے آنے والے اجنبی کی باتیں سن رہا تھا۔ بادشاہ نے کہا اگر سمجھانے کے باوجود یہ بضد ہے تو اپنے انجام کا یہ خود ذمہ دار ہے۔ لٰہذا اس کا چیلنج قبول کر لیا جائے۔ بادشاہ کا حکم ہوا اور کچھ ہی دیر کے بعد تاریخ اور جگہ کا اعلان کر دیا گیا اور پورے بغداد میں اس چیلنج کا تہلکہ مچ گیا۔ ہر شخص کی یہ خواہش تھی کہ اس مقابلے کو دیکھے۔ تاریخ جوں جوں قریب آتی گئی لوگوں کا اشتیاق بڑھتا گیا۔ ان کا اشتیاق اس وجہ سے تھا کہ آج تک انہوں نے تنکے اور پہاڑ کا مقابلہ نہیں دیکھا تھا۔ دور دراز ملکوں سے بھی سیاح یہ مقابلے دیکھنے کے لئے آنے لگے۔ جنید کے لئے یہ مقابلہ بہت پراسرار تھا اور اس پر ایک انجانی سی ہیبت طاری ہونے لگی۔ انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر شہر بغداد میں امنڈ آیا تھا۔
جنید پہلوان کی ملک گیر شہرت کسی تعارف کی محتاج نہ تھی۔ اپنے وقت کا مانا ہوا پہلوان آج ایک کمزور اور ناتواں انسان سے مقابلے کے لئے میدان میں اتر رہا تھا۔ اکھاڑے کے اطراف لاکھوں انسانوں کا ہجوم اس مقابلے کو دیکھنے آیا ہوا تھا۔ بادشاہ وقت اپنے سلطنت کے اراکین کے ہمراہ اپنی کرسیوں پر بیٹھ چکے تھے۔ جنید پہلوان بھی بادشاہ کے ہمراہ آ گیا تھا۔ سب لوگوں کی نگاہیں اس پراسرار شخص پر لگی ہوئی تھیں۔ جس نے جنید جیسے نامور پہلوان کو چیلنج دے کر پوری سلطنت میں تہلکہ مچا دیا تھا۔ مجمع کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ اجنبی مقابلے کے لئے آئے گا پھر بھی لوگ شدت سے اس کا انتظار کرنے لگے۔ جنید پہلوان میدان میں اتر چکا تھا۔ اس کے حامی لمحہ بہ لمحہ نعرے لگا کر حوصلہ بلند کر رہے تھے۔ کہ اچانک وہ اجنبی لوگوں کی صفوں کو چیرتا ہوا اکھاڑے میں پہنچ گیا۔ ہر شخص اس کمزور اور ناتواں شخص کو دیکھ کر محو حیرت میں پڑ گیا کہ جو شخص جنید کی ایک پھونک سے اڑ جائے اس سے مقابلہ کرنا دانشمندی نہیں۔ لیکن اس کے باوجود سارا مجمع دھڑکتے دل کے ساتھ اس کشتی کو دیکھنے لگا۔ کشتی کا آغاز ہوا دونوں آمنے سامنے ہوئے۔ ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے گئے۔ پنجہ آزمائی شروع ہوئی اس سے پہلے کہ جنید کوئی داؤ لگا کر اجنبی کو زیر کرتے اجنبی نے آہستہ سے جنید سے کہا اے جنید ! ذرا اپنے کام میرے قریب لاؤ۔ میں آپ سے کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ اجنبی کی باتیں سن کر جنید قریب ہوا اور کہا کیا کہنا چاہتے ہو۔
اجنبی بولا اے جنید ! میں کوئی پہلوان نہیں ہوں۔ زمانے کا ستایا ہوا ہوں۔ میں آل رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہوں۔ سید گھرانے سے میرا تعلق ہے میرا ایک چھوٹا سا کنبہ کئی ہفتوں سے فاقوں میں مبتلا جنگل میں پڑا ہوا ہے۔ چھوٹے چھوٹے بچے شدت بھوک سے بے جان ہو چکے ہیں۔ خاندانی غیرت کسی سے دست سوال نہیں کرنے دیتی۔ سید زادیوں کے جسم پر کپڑے پھٹے ہوئے ہیں۔ بڑی مشکل سے یہاں تک پہنچا ہوں۔ میں نے اس امید پر تمہیں کشتی کا چیلنج دیا ہے کہ تمہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
کے گھرانے سے عقیدت ہے۔ آج خاندان نبوت کی لاج رکھ لیجئے۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ آج اگر تم نے میری لاج رکھی تو کل میدان محشر میں اپنے نانا جان سے عرض کرکے فتح و کامرانی کا تاج تمہارے سر پر رکھواؤں گا۔ تمہاری ملک گیر شہرت اور اعزاز کی ایک قربانی خاندان نبوت کے سوکھے ہوئے چہروں کی شادابی کے لئے کافی ہوگی۔ تمہاری یہ قربانی کبھی بھی ضائع نہیں ہونے دی جائے گی۔
اجنبی شخص کے یہ چند جملے جنید پہلوان کے جگر میں اتر گئے۔ اس کا دل گھائل اور آنکھیں اشک بار ہو گئیں۔ سیدزادے کی اس پیش کش کو فوراً قبول کرلیا اور اپنی عالمگیر شہرت، عزت و عظمت آل سول صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان کرنے میں ایک لمحے کی تاخیر نہ کی۔ فوراً فیصلہ کر لیا کہ اس سے بڑھ کر میری عزت و ناموس کا اور کونسا موقع ہو سکتا ہے کہ دنیا کی اس محدود عزت کو خاندان نبوت کی اڑتی ہوئی خاک پر قربان کردوں۔ اگر سید گھرانے کی مرجھائی ہوئی کلیوں کی شادابی کے لئے میرے جسم کا خون کام آ سکتا ہے تو جسم کا ایک ایک قطرہ تمہاری خوشحالی کے لئے دینے کے لئے تیار ہوں۔ جنید فیصلہ دے چکا۔ اس کے جسم کی توانائی اب سلب ہو چکی تھی۔ اجنبی شخص سے پنجہ آزمائی کا ظاہری مظاہرہ شروع کر دیا۔
کشتی لڑنے کا انداز جاری تھا۔ پینترے بدلے جا رہے تھے۔ کہ اچانک جنید نے ایک داؤ لگایا۔ پورا مجمع جنید کے حق میں نعرے لگاتا رہا جوش و خروش بڑھتا گیا جنید داؤ کے جوہر دکھاتا تو مجمع نعروں سے گونج اٹھا۔ دونوں باہم گتھم گتھا ہو گئے یکایک لوگوں کی پلکیں جھپکیں، دھڑکتے دل کے ساتھ آنکھیں کھلیں تو ایک ناقابل یقین منظر آنکھوں کے سامنے آ گیا۔ جنید چاروں شانے چت پڑا تھا اور خاندان نبوت کا شہزادہ سینے پر بیٹھے فتح کا پرچم بلند کر رہا تھا۔ پورے مجمع پر سکتہ طاری ہو چکا تھا۔ حیرت کا طلسم ٹوٹا اور پورے مجمعے نے سیدزادے کو گود میں اٹھا لیا۔ میدان کا فاتح لوگوں کے سروں پر سے گزر رہا تھا۔ ہر طرف انعام و اکرام کی بارش ہونے لگی۔ خاندان نبوت کا یہ شہزادہ بیش بہا قیمتی انعامات لے کر اپنی پناہ گاہ کی طرف چل دیا۔
اس شکست سے جنید کا وقار لوگوں کے دلوں سے ختم ہو چکا تھا۔ ہر شخص انہیں حقارت سے دیکھتا گزر رہا تھا۔ زندگی بھر لوگوں کے دلوں پر سکہ جمانے والا آج انہی لوگوں کے طعنوں کو سن رہا تھا۔ رات ہو چکی تھی۔ لوگ اپنے اپنے گھروں کو جا چکے تھے۔ عشاء کی نماز سے فارغ ہوکر جنید اپنے بستر پر لیٹا اس کے کانوں میں سیدزادے کے وہ الفاظ بار بار گونجتے رہے۔ “آج میں وعدہ کرتا ہوں اگر تم نے میری لاج رکھی تو کل میدان محشر میں اپنے نانا جان سے عرض کرکے فتح و کامرانی کا تاج تمہارے سر پر رکھواؤں گا۔”
جنید سوچتا کیا واقعی ایسا ہوگا کیا مجھے یہ شرف حاصل ہوگا کہ حضور سرور کونین حضرت محمد کے م صلی اللہ علیہ وسلم قدس ہاتھوں سے یہ تاج میں پہنوں ؟ نہیں نہیں میں اس قابل نہیں، لیکن خاندان نبوت کے شہزادے نے مجھ سے وعدہ کیا ہے۔ آل رسول کا وعدہ غلط نہیں ہو سکتا یہ سوچتے سوچتے جنید نیند کی آغوش میں پہنچ چکا تھا نیند میں پہنچتے ہی دنیا کے حجابات نگاہوں کے سامنے سے اٹھ چکے تھے ایک حسین خواب نگاہوں کے سامنے تھا اور گنبد خضراء کا سبز گنبد نگاہوں کے سامنے جلوہ گر ہوا، جس سے ہر سمت روشنی بکھرنے لگی، ایک نورانی ہستی جلوہ فرما ہوئی، جن کے حسن و جمال سے جنید کی آنکھیں خیرہ ہو گئیں، دل کیف سرور میں ڈوب گیا در و دیوار سے آوازیں آنے لگیں الصلوۃ والسلام علیک یارسول اللہ۔ جنید سمجھ گئے یہ تو میرے آقا ہیں جن کا میں کلمہ پڑھتا ہوں۔ فوراً قدموں سے لپٹ گئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے جنید اٹھو قیامت سے پہلے اپنی قسمت کی سرفرازی کا نظارہ کرو۔ نبی ذادوں کے ناموس کے لئے شکست کی ذلتوں کا انعام قیامت تک قرض رکھا نہیں جائے گا۔ سر اٹھاؤ تمہارے لئے فتح و کرامت کی دستار لے کر آیا ہوں۔ آج سے تمہیں عرفان و تقرب کے سب سے اونچے مقام پر فائز کیا جاتا ہے۔ تمہیں اولیاء کرام کی سروری کا اعزاز مبارک ہو۔
ان کلمات کے بعد حضور سرور کونین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جنید پہلوان کو سینے سے لگایا اور اس موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حالت خواب میں جنید کو کیا کچھ عطا کیا اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ اتنا اندازہ ضرور لگایا جا سکتا ہے کہ جب جنید نیند سے بیدار ہوئے تو ساری کائنات چمکتے ہوئے آئینے کی طرح ان کی نگاہوں میں آ گئی تھی ہر ایک کے دل جنید کے قدموں پر نثار ہو چکے تھے۔ بادشاہ وقت نے اپنا قیمتی تاج سر سے اتار کر ان کے قدموں میں رکھ دیا تھا۔ بغداد کا یہ پہلوان آج سید الطائفہ سیدنا حضرت جنید بغدادی کے نام سے سارے عالم میں مشہور ہو چکا تھا۔ ساری کائنات کے دل ان کے لئے جھک گئے تھے۔ (تاریخی واقعہ کی تفصیل ملاحظہ کیجئے کتاب زلف و انجیر صفحہ 72۔ 62)
مسلمانو ! اس سچے واقعہ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ خاندان نبوت اہل بیت و آل رسول سے محبت کرنا اور ان کی عزت و ناموس کا خیال رکھنا ایک مسلمان کے لئے کس قدر ضروری ہے اہلبیت سے محبت ایمان اور ان سے بغض و حسد منافقت اور گمراہی ہے۔ اسلام نے ہمیں جو تعلیم دی ہے اس میں خاندان نبوت اہلبیت سے محبت کا خصوصی ذکر ہے۔ اہلبیت کا مقام و مرتبہ کس قدر بلند ہے اس کا اندازہ قرآن مجید کے ارشاد سے لگایا جا سکتا ہے۔ اللہ تعالٰی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے۔
انما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اہل البیت ویطھرکم تطھیرا۔
(سورہ احزاب 33)
ترجمہ :۔ اللہ تو یہی چاہتا ہے اے نبی کے گھر والو کہ تم سے ہر ناپاکی دور فرما دے اور تمہیں پاک کرکے خوب ستھرا کردے۔
اس آیت کریمہ میں اہلبیت (حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھرانے) کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ علماء فرماتے ہیں کہ اہلبیت میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کے علاوہ خاتون جنت بی بی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا، حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت امام حسن رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ سب داخل ہیں۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے “اپنی اولاد کو تین عادتیں سکھاؤ۔ اپنے نبی کی محبت، اس کے اہل بیت کی محبت اور تلاوت قرآن”۔ أدبوا أولادكم على ثلاث خصال حب نبيكم و حب أهل بيته و قراءة القرآن فإن حملة القرآن في ظل الله يوم القيامة يوم لا ظل إلا ظله مع أنبيائه و أصفيائه.
تخريج السيوطي عن علي. ملاحظہ کیجئے جامع صغیر جلد اول 751، جواہر البحار جلد دوم صفحہ 130
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا۔ “اور مجھ سے محبت کی وجہ سے میرے اہل بیت سے محبت کرو۔” (سنن الترمذی جلد پنجم صفحہ 622)
حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں کہ “اہل بیت سے ایک دن کی محبت ایک سال کی عبادت سے بہتر ہے۔” (الفردوس الماثور الخطاب جلد دوم صفحہ 142)
ایک مرتبہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہم کا ہاتھ پکڑا اور ارشاد فرمایا “جو شخص مجھے محبوب رکھے ان دونوں کو محبوب رکھے ان کے والد اور والدہ کو محبوب رکھے وہ یوم قیامت میرے ساتھ میرے درجہ میں ہوگا۔” (مسند احمد جلد اول صفحہ 168 )
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ار شاد گرامی ہے۔ “اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے جو کوئی بھی اہل بیت سے بغض رکھے اللہ اس کو ضرور جہنم میں داخل کرے گا“۔ (المستدرک جلد سوئم صفحہ 161)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ان ارشادات سے اہلبیت کی عظمت اور ان کے بلند مرتبے کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اگر ہم اپنی معاشرتی زندگی پر غور کریں تو ہم میں یہ بات اکثر پائی جاتی ہے کہ جب ہم کسی شخص کی تعظیم کرتے ہیں تو یہ کہتے ہیں کہ بھائی اس کی عزت کرو یہ بڑے باپ کا بیٹا ہے۔ بظاہر تو یہ عزت بیٹے کی ہوتی ہے۔ لیکن حقیقت میں یہ تعظیم اس کے باپ کی ہے۔ تعظیم کا یہ طریقہ خود ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت بھی ہے۔
جب حاتم طائی کی بیٹی قیدی بناکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کی گئی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا “اس کو چھوڑ دو اس کا باپ اخلاقی خوبیوں کو پسند کرتا تھا“۔ (البدایہ والنہایہ ابن کثیر جلد5 صفحہ 66)
ایک روایت میں ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو پوشاک پہنائی، خرچہ دیا سواری پر بٹھایا اور اس کی قوم کے لوگوں کو رہا کرکے ان کے ساتھ بھجوا دیا۔
غور کیجئے بیٹی کی تعظیم کافر باپ کی سخاوت کی وجہ سے ہو رہی ہے۔ غیرت و تعظیم کا یہ سلسلہ بظاہر بیٹی کے ساتھ نظر آ رہا ہے۔ لیکن حقیقت میں تعظیم اس کے باپ حاتم طائی کی ہو رہی ہے۔ لٰہذا اہل بیت کی تعظیم کرنا دراصل حضورصلی اللہ علیہ وسلم ہی کی تعظیم و توقیر کرنا ہے۔ کیونکہ خاندان نبوت کے یہ چشم و چراغ ہیں۔ چنانچہ یہ تعظیم “پنتجن پاک” ہی تک محدود نہیں ہونی چاہئیے۔ بلکہ قیامت تک حضور کی تمام آل کے لئے بھی ہونی چاہئیے۔ آل سول کی تعظیم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت کی وجہ سے ہے۔ نہ کہ ان کے تقوٰی اور پرہیزگاری کی وجہ سے۔ ان کی تعظیم مسلمانوں کے لئے کس قدر ضروری ہے, اس کا اندازہ حسب ذیل ارشاد سے لگائیے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے۔ تم میں سب سے زیادہ پل صراط پر ثابت قدم وہ ہوگا جو میرے اہل بیت اور میرے صحابہ کی محبت میں زیادہ سخت ہوگا۔ (جامع الاحادیث جلد اول صفحہ 92)
مذکورہ بالا حدیث میں اہلبیت کے ساتھ ساتھ صحابہ کرام کی فضیلت بھی بتائی گئی ہے جس سے یہ معلوم ہوا کہ اہلبیت اور صحابہ کرام کی سچی محبت ہی ذریعہ نجات اور پل صراط پر سے با آسانی گزرنے کا ذریعہ ہے اگر کوئی ان کی محبت میں کامل نہیں تو اس کے لئے خسارے کے سوا کچھ نہیں۔ مذکورہ ارشاد میں صحابہ کرام اور اہلبیت سے محبت کا حکم موجود ہے۔ خاندان نبوت اور صحابہ کرام وہ عظیم اور قابل احترام ہستیاں ہیں کہ جنہوں نے اپنا خون اسلام کی آبیاری کے لئے وقف کر دیا تھا۔
ذکر کا طریقہ
شیخِ طریقت ،رہبر شریعت ، قاطع شرک و بدعت ، امیرِ اَہلسنّت ، حضرت قبلہ سیّد غلام حسین شاہ غفاری نقشبندی دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالی اپنے مریدوں کو صبح شام جو ذکر کرنے کی تلقین فرماتے ہیں اسکا طریقہ آسان الفاظ میں ملاحضہ ہو۔
فجر نماز کے بعد۔اول تعوز کے بعد 1 مرتبہ سورہ فاتح 11 بار سورہ قریش11 بار سورہ اخلاص پڑھہیں اور پھر دعاءِ ختم پڑھہیں اور اسکے بعد اپنے قلب پر دیھان رکھتے ہوئے دل میں خیال رکھیں تصّور رکھیں کہ دل ذکر کر رہا ہے اللہ ھو اللہ ھو اللہ ھو۔حضرت قبلہ مرشد کریم فرماتے ہیں جتنا زیادہ مراقبہ ہوگا اتنا زیادہ فائدہ ہوگا۔
عشاء نماز کے بعد۔ اوّل تعوز پھر لاالہ الا اللہ ۱۰۰ مرتبہ اور آخر میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پڑھ کر پھر اسی طرح 200 مرتبہ مکمل کریں۔ اور اسکے بعد نظر اپنے قلب پر کرتے ہوئے مراقبہ کریں اور اللہ ھو اللہ ھو اللہ ھو کا تصور ، خیال کریں کہ دل اللہ کا ذکر کر رہا ہے۔ جتنا زیادہ ہوسکے اس ذکر کو کریں لیکن کم از کم ۵ منٹ کرنا ضروری ہے کہ یہ ہمارے مرشد کریم کا فرمان ہے اس سے زیادہ کریں لیکن اس سے کم نہ کریں۔
حضرت قبلہ مرشد کریم فرماتے ہیں 24 گھنٹوں میں کسی خاص وقت کو مقرّر کرکے اس میں کم از کم ۱۰۰ مرتبہ نبی اکرم ﷺ پر دُرود پڑھو جس سے آپ ﷺ سے سچی محبت نصیب ہوتی ہے۔
میری کہانی میری زبانی
اللہ رب العزت عزوجل کا بیش بہا کرم ہے کہ اُس نے مجھے ایک کامل اور اپنے محبوب بندے یعنی کہ حضرت قبلہ سیّد غلام حسین شاہ غفاری نقشبندی دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالی کی نسبت عطاء فرمائی اور مجھ پر احسانِ عظیم فرمایا۔اگر ایسا نہ ہوتا تو ناجانے یہ روح کہاں کہاں بھٹکتی رہتی۔
میں اپنے مرشد کریم سے کس طرح مِلا اس کا حال میں بیان کرنا چاہتا ہوں۔ میرا تعلق آزاد کشمیر سے ہے اور میں پیدائش سے لیکر اب تک کراچی ہی میں مُقیم ہوں ۔ ہمارے کچھ رشتہ دار ہمارے علاقے ہی میں رہتے تھے ، یہ واقع اس وقت کا ہے جبکہ میری عمر شاید ۱۸ یا ۱۹ سال تھی ایک دن میرے ابو کے رشتے میں بھائی جنہیں ہم چچا کہتے تھے انکے گھر ہماری ملاقات ایک پیر صاحب سے ہوئی جسے وہ اپنا مرشد کہہ کر پُکار رہے تھے۔ دیکھنے میں انکا حلیہ کچھ اس طرح تھا کہ وہ سگریٹ پی رہے تھے اور انکے چہرے پر داڑھی بھی نہ تھی وہ انکی بہت خدمت کررہے تھے۔ میں نے دل میں پیدا ہونے والی خواہش کو دعا کی صورت میں اللہ سے عرض کی کہ یارب میں جب بھی بیعت کروں گا تو ایسے ولی سے کروں گا جو سادات میں سے ہوں اور انکو دیکھ کر خلاف شریعت کوئی معاملہ نظر نہ آئے اور وہ بخاری سید ہوں بس یہی دعا میرے دل میں آئی تو میں نے کردی۔ایسے مرشد کہ جنہیں دیکھ کر بے اختیار رب کا ذکر زبان سے جاری ہوجائے۔
کچھ عرصہ بعد میری ملاقات ہماری مسجد کے امام صاحب سے ہوئی جنکی گفتگو نے مجھے اُنکا گرویدہ بنا لیا اور میں زیادہ تر انکے حجرہ میں بیٹھ کر سیرت نبویﷺ پر لکھی ہوئ کتابیں پڑھتا رہتا تھا اور ان سے شریعت کے احکامات سیکھتا رہتا ۔ان دنوں ہماری مسجد میں معزن صاحب جنکا تعلق پنچاب سےتھا اکثر لوگوں کے فاعل یعنی حساب کتاب اعداد کے علم سے کرتے تھے میں نے اس میں دلچسپی لیتے ہوئے کہا کہ حضرت یہ مجھے بھی سیکھا دیں تو انہوں نے فرمایا کہ یہ کوئی معمولی کام نہیں اسے سیکھنے کے لیئے کامل مرشد کا دستِ شفقت سر پر ہونا بہت ضرور ی ہے ورنہ لوگ بغیر پیر کامل کے ہاتھ کے اس میں برباد ہوجاتے ہیں تو میں نے ان سے معلوم کرنا شروع کیا کہ کامل مرشد کیا ہوتا ہے مجھے بھی کچھ بتائیں تو انہوں نے مجھے بیعت کرنے کے بارے میں اور مرشد کے بارے میں بہت کچھ بتایا اور ساتھ ساتھ یہ بھی بتایا کہ ہر شخص کا کوئ نا کوئی مرشد لکھا ہوا ہوتا ہے جسے تلاش کرنے پر ملاقات ہوجاتی ہے۔میں نے اُن سے پوچھا کہ اگر میں تلاش کرنا چاہوں کہ میرا مرشد کون ہے تو کیسے کروں ، انہوں نے مجھے ایک استخارہ کرنے کو کہا جسکا طریقہ بھی لکھوایا تو میں نے لکھ کر اسے یاد کرنا شروع کر دیا اور جلد ہی مجھے یاد ہوگیا۔(ایک دوست نے کچھ دن پہلے بتایا کہ آپ کو بتایا گیا طریقہ حضور سیدنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہ نے بھی اپنی ایک تصنیف میں بیان فرمایا ہے)۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میں نے عشاء کی نماز کے بعد کچھ دیرا حادیث کی کتابوں کا مطالعہ کیا پھر رات میں مسجد ہی میں استخارہ کرنے کے لئے تیاری کی اور آخر کار سب کچھ پڑھ کر میں وہیں سو گیا ۔ سونا کیا تھا کہ میری قسمت انگڑائی لے کر اٹھ کھڑی ہوئی اور خواب میں کیا دیکھا کہ ایک بہت بڑا میدان ہے جس میں ڈم ڈم کے پودوں کی دیواریں بنی ہوئی تھیں اور دُور ایک قدآور حسین و جمیل بزرگ سفید عمامہ اور چادراوڑھے کچھ مریدوں ساتھ کھڑے تھے اور اچانک وہ چل پڑے اور انکا راستہ میری جانب ہی سےگزرتا تھا ۔میں انتہائی حیرانی سے انکی طرف متوجہ ہوکرکھڑا تھا اور اچانک جب وہ میرےقریب سے گزرے تو میں انکے قریب ہوا تو انہوں نے مجھ گلے لگایا تو میں نے کہا کہ ‘بزرگِ والا آپ کون ہیں میں آپ سے مِلنا چاہتا ہوں تو وہ فرمانے لگے کہ بچّا انشاء اللہ جلد ملاقات ہوگی ‘ پھر کچھ دیر بعد میری آنکھ کھل گئی اور میں گھر روانہ ہوگیا۔ اس خواب کو میں نے کسی سے ذِکر نہیں کیا اور وقت گزرتا گیا۔
ہماری مسجد پھٹان ، کشمیری اور پنچابی لوگوں کے علاقے میں تھی ، جس میں ہر طبقے کے لوگ نماز پڑھا کرتے تھے، کچھ عرصہ بعد ہماری مسجد کے امام صاحب وہا ں سے چھوڑ کر چلے گئے پھر روزانہ وہاں نئے نئے مولویوں کے آڈیشن ہوتے اور ایک دن ایک سندھی امام کا تقرر ہوا جو کہ بہت عجیب بات تھی کہ کہاں سندھی امام اور کہاں علاقے کے لوگ ، جنکا انداز بیان لوگوں کو بہت پسند آیا اور ساتھ ساتھ وہ حافظ قرآن بھی تھے اور بہت اچھے نعت خوان بھی تھے۔ ان سے میرے اچھے تعلقات بن گئے اور وہ ہمارے گھر اکثر نعت خوانی میں بھی تشریف لاتے تھے۔اُس سال میں مسجد میں اعتکاف کے لیئے بیٹھا تووہ مجھے اپنے پیر صاحب کی ایک اخبار میں چھپی تصویر دیکھانے لگے اور کہنے لگے کہ آپ چلیں میں آپ کو ان سے ملاقات کرواتا ہوں یہ ایک بہت بڑے اللہ کے ولی ِکامل ہیں اور اس وقت کی وزیر اعظم بھی انکے پاس دعا کروانے آتی ہے۔میں نے اعتکاف کے بعد چلنے کی حامی بھری اور رمضان کے بعد میں نے اپنے ایک رشتہ دار جو کہ میرا اچھا دوست بھی تھا کو راضی کیا کہ چلتے ہیں انکے پیر صاحب سے بھی ملاقات کرلیں گے اور سندھ بھی گھوم لیں گے۔ لیٰذا ہمارا سفر شروع ہوا اور ہم فجر کے بعد صبح سویرے وہاں پہنچے اور جیسے ہی ہم ان کے پیر صاحب کی درگاہ پر پہنچے تو کیا دیکھا کہ تمام لوگ سر پر چادریں ڈال کر اللہ کے ذکر میں مشغول تھے اور ایک ٹک ٹک کی آواز مسلسل تصبیح چلانے کی آتی رہی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیسے میں کسی اور دنیا میں پہنچ گیا ہوں اور کسی پُرانے زمانے میں آگیا ہوں۔بہت دیر بعدسب ذکر سے فارغ ہوئے تو وہ مولوی صاحب ہمیں اپنے پیر صاحب کے سامنے لے گئے اور ہمیں بعیت کروادیا ۔ پھر ہمیں ناشتہ کرنے کے لیئے ایک کمرے میں لے جایا گیا تو وہاں سب نے ناشتا کیا اور پھر ہم نے پیر صاحب سے عرض کی کہ ہم تنہائی میں آپ سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں تو کوئی جواب نہ دیا اور وہ مجھے دیکھتے رہےاور ہم وہاں سے مولوی صاحب کے گھر چل پڑے، ابھی ہم درگاہ سے کچھ دور ہی پہنچے تھے کہ میں نے اپنے دوست سے کہا کہ یہ جو بزرگ تھےجن سے ہم نے ملاقات کی ہے انہیں میں نے کہیں دیکھا ہے تو وہ کہنے لگا کہ ارے یار ! نہ یہ ٹی وی پر آتے ہیں اور نہ ہی کراچی آتے ہیں تُونے کسی اور کو دیکھا ہوگا جنکی اِن سے مشابہت ہوگی۔تو میں مسلسل سوچتا رہا کہ کہاں دیکھا ہے انہیں تو اچانک مجھے یاد آگیا کہ یہ تو وہی بزرگ ہیں جنہیں میں نے استخارے میں دیکھا تھا اور انہوں نے مجھے گلے بھی لگایا تھا اور فرمایا تھا کہ انشاء اللہ جلد مُلاقات ہوگی۔
بس یہ یاد کرنے ہی کی دیر تھی کہ اچانک پیچھے سے ایک شخص کی دُورسے آواز آئی کہ فقیر فقیر میں پیچھے مُڑا تو دیکھا کہ وہ ہمیں پُکارتا ہوا ہماری طرف دوڑتا ہوا چلا آرہا ہے۔ جب ہمارے پاس پہنچا تو کہنے لگا کہ کیا آپ میں سے کسی نے حضرت قبلہ مرشد کریم سے ملاقات کی درخواست کی تھی تو میں بے اختیار کہہ اٹھا کہ جی میں نے عرض کی تھی تو وہ ہمیں لے کہ واپس وہاں پہنچا اور ہم ایک کمرے میں گئے جہاں مرشد کریم کے رُو برو بیٹھ گئے اور ہم سے انہوں نے گفتگو کی ، دورانِ گفتگو میں انکے چہرے کو تکتا رہا اور یقین آگیا کہ یہ تو وہی بزرگ ہیں ۔سبحان اللہ کتنا عجیب واقع ہے کہ کس طرح سائیں کے فرمان کے مطابق میں حضور مرشد کریم تک پہنچا کہ اسکا کبھی تصّور بھی نہیں کیا ہوگا کہ کہاں کراچی اور کہاں قمبر شریف ۔آپ کی عطاء و توجہ میں روز بروز اضافہ ہوتا چلا گیا اور ساتھ ساتھ رفتہ رفتہ حضرت قبلہ مرشد کریم کی محبت دل میں بڑھتی گئی ۔
شروع شروع میں جب بھی کوئی بتاتا کہ جناب عالی کراچی تشریف لائے ہیں تو ان سے ملاقات کے لیئے ہم ڈیفنس جاتے لیکن ملاقات نہ ہوتی لیکن آج حضرت قبلہ مرشد کریم مدظلہ العالی کا خصوصی قُرب نصیب ہے اور کچھ عرصہ پہلے 2012 میں جناب کے ساتھ مدینے کی حاضری نصیب ہوئی اور انکے ساتھ دس دن ایک ہی ہوٹل میں رہنا نصیب ہوا اور پانچ نمازوں میں ایک ہی گاڑی میں سفر نصیب ہوا۔ اور الحمدللہ اسی سال اگست میں رمضان کے مہینے میں انشاء اللہ پھر ایک بار عمرہ کی سعادت نصیب ہوگی۔
چونکہ میں کوئی رائٹر یا شاعر نہیں تو ہوسکتا ہے کہ بیان کرنے میں کہیں کوئی کمی یا شان کے مطابق بات تحریر نہ ہوسکی ہو تو معافی چاہتا ہوں۔
فقیر ۔ سیّد زاہد حسین شاہ حسینی
شبِ برأت کا پروگرام
الحمد للہ ہر سال کی طرح اس سال بھی درگاہ عالیہ حسین آباد میں شبِ برأت کا پروگرام حسب معمول ہوگا اور جس میں لاکھوں لوگ حضرت قبلہ مرشد کریم کے ہمراہ صلٰوۃ تسبیح ادا کریں گے اور اس مقبول رات میں مرشد کریم کے ہاتھ دعاء کے لیئے بلند ہوں گے اور ہم گناھ گاروں کا بھی بھلا یقینن ہوجائے گا۔ انشاء اللہ جمعرات کی رات تقریباً بارہ بے ادا کی جائے گی۔ آپ اپنی شرکت کو یقینی بنائیں اور اپنے ہمراہ دوستوں اور رشتہ داروں کو بھی ضرور لائیں۔ درگاہ عالیہ میں سالہا سال بے شمار پروگرام ہوتے ہیں لیکن حضرت قبلہ مرشد کریم سال میں چار پروگرام خصوصی طور پر منعقد کرتے ہیں اور فقیروں کو اس میں شرکت کی تاکید فرماتے ہیں ۔ لبیک یا سیدی مرشدی لبیک
اس رات کی اہمت کو سمجھنے کے لیئے نیچے دیئے گئے بیان سے بھی مصتفیض ہوں۔
ماہِ شعبان کی پندرہویں رات کو شبِ برأت کہا جاتا ہے شب کے معنی ہیں رات اور برأت کے معنی بری ہونے اور قطع تعلق کرنے کے ہیں ۔ چونکہ اس رات مسلمان توبہ کرکے گناہوں سے قطع تعلق کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رحمت سے بے شمار مسلمان جہنم سے نجات پاتے ہیں اس لیے اس رات کو شبِ برأت کہتے ہیں ۔ اس رات کو لیلۃ المبارکۃ یعنی برکتوں والی رات، لیلۃ الصک یعنی تقسیم امور کی رات اور لیلۃ الرحمۃ یعنی رحمت نازل ہونے کی رات بھی کہا جاتا ہے۔
جلیل القدر تابعی حضرت عطاء بن یسار رضی اللہ تعالیٰ عنہ، فرماتے ہیں ، ”لیلۃ القدر کے بعد شعبان کی پندرھویں شب سے افضل کوئی رات نہیں ”۔ (لطائف المعارف ص ١٤٥)
جس طرح مسلمانوں کے لیے زمین میں دو عیدیں ہیں اس یطرح فرشتوں کے آسمان میں دو عیدیں ہیں ایک شبِ برأت اور دوسری شبِ قدر جس طرح مومنوں کی عیدیں عید الفطر اور عید الاضحٰی ہین فرشتوں کی عیدیں رات کو اس لیے ہیں کہ وہ رات کو سوتے نہیں جب کہ آدمی رات کو سوتے ہیں اس لیے ان کی عیدیں دن کو ہیں ۔ (غنیۃ الطالبین ص ٤٤٩)
تقسیمِ امور کی رات
ارشاد باری تعالیٰ ہوا، ”قسم ہے اس روشن کتاب کی بے شک ہم نے اسے برکت والی رات میں اتارا، بے شک ہم ڈر سنانے والے ہیں اس میں بانٹ دیا جاتا ہے ہر حکمت والا کام”۔ (الدخان ٢ تا ٤ ، کنزالایمان)
”اس رات سے مراد شبِ قدر ہے یا شبِ برأت” (خزائن العرفان) ان آیات کی تفسیر میں حضرتِ عکرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، اور بعض دیگر مفسرین نے بیان کیا ہے کہ ”لیلۃ مبارکۃ” سے پندرہ شعبان کی رات مراد ہے ۔ اس رات میں زندہ رہنے والے ، فوت ہونے والے اور حج کرنے والے سب کے ناموں کی فہرست تیار کی جاتی ہے اور جس کی تعمیل میں ذرا بھی کمی بیشہ نہیں ہوتی ۔ اس روایت کو ابن جریر، ابن منذر اور ابنِ ابی حاتم نے بھی لکھا ہے۔ اکثر علماء کی رائے یہ ہے کہ مذکورہ فہرست کی تیاری کا کام لیلۃ القدر مین مکمل ہوتا ہے۔ اگرچہ اس کی ابتداء پندرہویں شعبان کی شب سے ہوتی ہے۔ (ماثبت من السنہ ص ١٩٤)
علامہ قرطبی مالکی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ایک قول یہ ہے کہ ان امور کے لوحِ محفوظ سے نقل کرنے کا آغاز شبِ برأت سے ہوتا ہے اور اختتام لیلۃ القدر میں ہوتا ہے۔ (الجامع الاحکام القرآن ج ١٦ ص ١٢٨)
یہاں ایک شبہ یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ امور تو پہلے ہی سے لوح محفوظ میں تحریر ہیں پھر اس شب میں ان کے لکھے جانے کا کیا مطلب ہے؟ جواب یہ ہے کہ یہ امور بلاشبہ لوح محفوظ مین تحریر ہیں لیکن اس شب میں مذکورہ امور کی فہرست لوح محفوظ سے نقل کرکے ان فرشتوں کے سپرد کی جاتی ہے جن کے ذمہ یہ امور ہیں ۔
حضرتِ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کیا تم جانتی ہو کہ شعبان کی پندرہویں شب میں کیا ہوتا ہے؟ میں نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ فرمائیے۔ ارشاد ہوا آئندہ سال مین جتنے بھی پیدا ہونے والے ہوتے ہیں وہ سب اس شب میں لکھ دئیے جاتے ہیں اور جتنے لوگ آئندہ سال مرنے والے ہوتے ہیں وہ بھی اس رات مین لکھ دئیے جاتے ہیں اور اس رات میں لوگوں کا مقررہ رزق اتارا جاتاہے۔ (مشکوٰۃ جلد ١ ص ٢٧٧)
حضرت عطاء بن یسار رضی اللہ تعالیٰ عنہ، فرماتے ہیں ، ”شعبان کی پندرہویں رات میں اللہ تعالیٰ ملک الموت کو ایک فہرست دے کر حکم فرماتا ہے کہ جن جن لوگوں کے نام اس میں لکھے ہیں ان کی روحوں کو آئندہ سال مقررہ وقتوں پر قبض کرنا۔ تو اس شب میں لوگوں کے حالات یہ ہوتے ہیں کہ کوئی باغوں میں درخت لگانے کی فکر میں ہوتا ہے کوئی شادی کی تیاریوں میں مصروف ہوتا ہے۔ کوئی کوٹھی بنگلہ بنوا رہا ہوتا ہے حالانکہ ان کے نام مُردوں کی فہرست میں لکھے جاچکے ہوتے ہیں ۔ (مصنف عبد الرزاق جلد ٤ ص ٣١٧ ، ماثبت من السنہ ص ١٩٣)
حضرت عثمان بن محمد رضی اللہ تعالیٰ عنہ، سے مروی ہے کہ سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ایک شعبان سے دوسرے شعبان تک لوگوں کی زندگی منقطع کرنے کا وقت اس رات میں لکھا جاتا ہے یہاں تک کہ انسان شادی بیاہ کرتا ہے اور اس کے بچے پیدا ہوتے ہیں حالانکہ اس کا نام مُردوں کی فہرست میں لکھا جاچکا ہوتا ہے۔ (الجامع الاحکام القرآن ج ١٦ ص ١٢٦، شعب الایمان للبیہقی ج ٣ ص ٣٨٦)
چونکہ یہ رات گذشتہ سال کے تمام اعمال بارگاہِ الہٰی میں پیش ہونے اور آئندہ سال ملنے والی زندگی اور رزق وغیرہ کے حساب کتاب کی رات ہے اس لیے اس رات میں عبادت الہٰی میں مشغول رہنا رب کریم کی رحمتوں کے مستحق ہونے کا باعث ہے اور سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہی تعلیم ہے۔
مغفرت کی رات
شبِ برأت کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس شب میں اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے بے شمار لوگوں کی بخشش فرما دیتا ہے اسی حوالے سے چند احادیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیں ۔
(١) حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک رات میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے پاس نہ پایا تو میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تلاش میں نکلی میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جنت البقیع میں تشریف فرما ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کیا تمہیں یہ خوف ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمہارے ساتھ زیادتی کریں گے۔ میں نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے یہ خیال ہوا کہ شاید آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی دوسری اہلیہ کے پاس تشریف لے گئے ہیں آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا بیشک اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرہویں شب آسمانِ دنیا پر (اپنی شان کے مطابق) جلوہ گر ہوتا ہے اور قبیلہ بنو کلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ لوگوں کی مغفرت فرماتا ہے۔ (ترمذی جلد ١ ص ١٥٦، ابن ماجہ ص ١٠٠، مسند احمد جلد ٦ ص ٢٣٨، مشکوٰۃ جلد ١ ص ٢٧٧، مصنف ابنِ ابی شعبہ ج ١ ص ٣٣٧، شعب الایمان للبیہقی جلد ٣ ص ٣٧٩)
شارحین فرماتے ہیں کہ یہ حدیث پاک اتنی زیادہ اسناد سے مروی ہے کہ درجہ صحت کو پہنچ گئی۔
(٢) حضرتِ ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ، سے روایت ہے کہ آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، ”شعبان کی پندرہویں شب میں اللہ تعالیٰ آسمانِ دنیا پر (اپنی شان کے مطابق) جلوہ گر ہوتا ہے اور اس شب میں ہر کسی کی مغفرت فرما دیتا ہے سوائے مشرک اور بغض رکھنے والے کے”۔ (شعب الایمان للبیہقی جلد ٣ ص ٣٨٠)
(٣) حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ، سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرہویں شب مین اپنے رحم و کرم سے تمام مخلوق کو بخش دیتا ہے سوائے مشرک اور کینہ رکھنے والے کے”۔ (ابنِ ماجہ ص ١٠١، شعب الایمان ج ٣ ص ٣٨٢، مشکوٰۃ جلد ١ ص ٢٧٧)
(٤) حضرت ابوہریرہ ، حضرت معاذ بن جبل، حضرت ابو ثعلیۃ اور حضرت عوف بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے بھی ایسا ہی مضمون مروی ہے۔ (مجمع الزوائد ج ٨ ص ٦٥)
(٥) حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، ”شعبان کی پندرہویں رات میں اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے دو شخصوں کے سوا سب مسلمانوں کی مغفرت فرمادیتا ہے ایک کینہ پرور اور دوسرا کسی کو ناحق قتل کرنے والا”۔ (مسند احمد ج ٢ ص ١٧٦، مشکوٰۃ جلد ١ ص ٢٧٨)
(٦) امام بیہقی نے شعب الایمان (ج ٣ ص ٣٨٤) میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی ایک طویل روایت بیان کی ہے جس میں مغفرت سے محروم رہنے والوں میں ان لوگوں کا بھی ذکر رشتے ناتے توڑنے والا، بطور تکبر ازار ٹخنوں سے نیچے رکھنے والا، ماں باپ کا نافرمان، شراب نوشی کرنے والے۔
(٧) غنیۃ الطالبین ص ٤٤٩پر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، سے مروی طویل حدیچ میں مزید ان لوگوں کا بھی ذکر ہے جادوگر، کاہن، سود خور اور بد کار، یہ وہ لوگ ہیں کہ اپنے اپنے گناہوں سے توبہ کیے بغیر ان کی مغفرت نہیں ہوتی۔ پس ایسے لوگوں کو چاہیے کہ اپنے اپنے گناہوں سے جلد از جلد سچی توبہ کرلیں تاکہ یہ بھی شب برأت کی رحمتوں اور بخشش و مغفرت کے حقدار ہوجائیں ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہوا ”اے ایمان والو اللہ کی طرف ایسی توبہ کرو جو آگے نصیحت ہوجائے”۔ (التحریم ٨ ، کنزالایمان)
یعنی توبہ ایسی ہونی چاہیے جس کا اثر توبہ کرنے والے کے اعمال میں ظاہر ہو اور اس کی زندگی گناہوں سے پاک اور عبادتوں سے معمور ہوجائے۔ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ، نے بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں عرض کی۔ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم توبۃ النصوح کسے کہتے ہیں اشاد ہوا بندہ اپنے گناہ پر سخت نادم اور شرمدسار ہو۔ پھر بارگاہ الہٰی میں گڑگڑا کر مغفرت مانگے۔ اور گناہوں سے بچنے کا پختہ عزم کرے تو جس طرح دودھ دوبارہ تھنوں میں داخل نہیں ہوسکتا اسی طرح اس بندے سے یہ گناہ کبھی سرزد نہ ہوگا۔
رحمت کی رات
شبِ برأت فرشتوں کو بعض امور دئیے جانے اور مسلمانوں کی مغفرت کی رات ہے اس کی ایک او ر خصوصیت یہ ہے کہ یہ رب کریم کی رحمتوں کے نزول کی اور دعاؤں کے قبول ہونے کی رات ہے۔
١۔ حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ، سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے۔ ”جب شعبان کی پندرہویں شب آتی ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اعلان ہوتا ہے، ہے کوئی مغفرت کا طالب کہ اس کے گناہ بخش دوں ، ہے کوئی مجھ سے مانگنے والا کہ اسے عطا کروں ۔ اس وقت اللہ تعالیٰ سے جو مانگا جائے وہ ملتا ہے۔ وہ سب کی دعا قبول فرماتا ہے سوائے بدکار عورت اور مشرک کے”۔ (شعب الایمان للبیہقی ج٣ ص ٣٨٣)
٢۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ، سے روایت ہے کہ غیب بتانے والے آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب شعبان کی پندرھویں شب ہو تورات کو قیام کرو اور دن کو روزہ رکھو کیونکہ غروب آفتاب کے وقت سے ہی اللہ تعالیٰ کی رحمت آسمان دنیا پر نازل ہوجاتی ہے اور اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے، ہے کوئی مغفرت کا طلب کرنے والا کہ میں اسے بخش دوں ۔ ہے کوئی رزق مانگنے والا کہ میں اس کو رزق دوں ہے کوئی مصیبت زدہ کہ میں اسے مصیبت سے نجات دوں ، یہ اعلان طلوع فجر تک ہوتا رہتا ہے۔ (ابنِ ماجہ ص ١٠٠، شعب الایمان للبیہقی ج ٣ ص ٣٧٨، مشکوٰۃ ج ١ ص ٢٧٨)
اس حدیث پاک میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے مغفرت و رحمت کی ندا کا ذکر ہے اگرچہ یہ ندا ہر رات میں ہوتی ہے لیکن رات کے آخری حصے میں جیسا کہ کتاب کے آغاز میں شبِ بیداری کی فضیلت کو عنوان کے تحت حدیث پاک تحریر کی گئی شبِ برأت ی خاص بات یہ ہے کہ اس میں یہ ندا غروب آفتاب ہی سے شروع ہوجاتی ہے گویا صالحین اور شبِ بیدار مومنوں کے لیے تو ہر رات شبِ برأت ہے مگر یہ رات خطاکاروں کے لیے رحمت و عطا اور بخشش و مغفرت کی رات ہے اس لیے ہمیں شاہیے کہ اس رات میں اپنے گناہوں پر ندامت کے آنسو بہائیں اور ربِ کریم سے دنیا و آخرت کی بھلائی مانگیں ۔ اس شب رحمتِ خداوندی ہر پیاسے کو سیراب کردینا چاہتی ہے اور ہر منگتے کی جھولی گوہرِ مراد سے بھر دینے پر مائل ہوتی ہے۔ بقول اقبال، رحمت الہٰی یہ ندا کرتی ہے
ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں
راہ دکھلائیں کسے راہرو منزل ہی نہیں
شبِ بیداری کا اہتمام
شبِ برأت میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود بھی شبِ بیداری کی اور دوسروں کو بھی شبِ بیداری کی تلقین فرمائی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان عالیشان اوپر مذکور ہوا کہ جب شعبان کی پندرہویں رات ہو تو شبِ بیداری کرو اور دن کو روزہ رکھو” اس فرمان جلیل کی تعمیل میں اکابر علمائے اہلسسنت اور عوام اہلسنت کا ہمیشہ سے یہ مومول رہا ہے کہ رات میں شبِ بیداری کا اہتمام کرتے چلے آئے ہیں ۔
شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ، ”تابعین میں سے جلیل القدر حضرات مثلاً حضرت خالد بن معدان، حضرت مکحول، حضرت لقمان بن عامر اور حضرت اسحٰق بن راہویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم مسجد میں جمع ہو کر شعبان کی پندرہویں شب میں شبِ بیداری کرتے تھے اور رات بھر مسجد میں عبادات میں مصروف رہتے تھے”۔ (ما ثبت من السنہ ٢٠٢، لطائف المعارف ص ١٤٤)
علامہ ابنِ الحاج مانکی رحمتہ اللہ علیہ شبِ برأت کے متعلق رقم طراز ہیں ” اور کوئی شک نہیں کہ یہ رات بڑی بابرکت اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک بڑی عظمت والی ہے۔ ہمارے اسلاف رضی اللہ تعالیٰ عنہیم اس کی بہت تعظیم کرتے اور اس کے آنے سے قبل اس کے لیے تیاری کرتے تھے۔ پھر جب یہ رات آتی تو وہ جوش و جذبہ سے اس کا استقبال کرتے اور مستعدی کے ساتھ اس رات میں عبادت کیا کرتے تھے کیونکہ یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ ہمارے اسلاف شعائر اللہ کا بہت احترام کیا کرتے تھے۔ (المدخل ج ١ ص ٣٩٢)
مذکورہ بالا حوالوں سے یہ بات ثابت ہوئی کہ اس مقد رات مین مسجد مین جمع ہوکر عبادات میں مشغول رہانا اور اس رات شبِ بیداری کا اہتمام کرنا تابعین کرام کا طریقہ رہا ہے۔ شیخ عبد الحق محدث دہلوی قدس سرہ فرماتے ہیں ، ”اب جو شخص شعبان کی پندرہویں رات مین شبِ بیداری کرے تو یہ فعل احادیث کی مطابقت میں بالکل مستحب ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ عمل بھی احادیث سے ثابت ہے کہ شبِ برأت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسلمانوں کی دعائے مغفرت کے لیے قبرستان تشریف لے گئے تھے۔ (ماثبت من السنہ ص ٢٠٥)
آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زیارت قبور کی ایک بڑی حکمت یہ بیان فرمائی ہے کہ اس رات موت یاد آتی ہے۔ اور آخرت کی فکر پیدا ہوتی ہے۔ شبِ برأت میں زیارتِ قبور کا واضح مقصد یہی ہے کہ اس مبارک شب میں ہم اپنی موت کو یاد کریں تاکہ گناہوں سے سچی توبہ کرنے میں آسانی ہو۔ یہی شبِ بیداری کا اصل مقصد ہے۔
اس سلسلے میں حضرت حسن بصری رضی اللہ تعالیٰ عنہ، کا ایمان افروز واقوہ بھی ملاحظہ فرمائیں منقول ہے کہ جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، شبِ برأت میں گھر سے باہر تشریف لائے تو آپ کا چہرہ یوں دکھائی دیتا تھا جس طرح کسی کوقبر میں دفن کرنے کے بعد باہر نکالا گیا ہو۔ آپ سے اس کا سبب پوچھا گیا تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، نے فرمایا خدا کی قسم میری مثال ایسی ہے جیسے کسی کی کشتی سمند میں ٹوٹ چکی ہو اور وہ ڈوب رہا ہو اور بچنے کی کوئی امید نہہو۔ پوچھا گیا آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، کی ایسی حالت کیوں ہے؟ فرمایا میرے گناہ یقینی ہیں ۔ لیکن اپنی نیکیوں کے متعلق میں نہیں جانتا کہ وہ مجھ سے قبول کی جائیں گی یا پھر رد کردی جائیں گی۔ (غنیۃ الطالبین ص ٢٥٠)
اللہ اکبر نیک و متقی لوگوں کا یہ حال ہے جو ہر رات شبِ بیداری کرتے ہیں اور تمام دن اطاعتِ الہٰی میں گزارتے ہیں جب کہ اس کے برعکس کچھ لوگ ایسے کم نصیب ہیں جو اس مقدس رات میں فکر آخرت اور عبادت و دعا میں مشغول ہونے کی بجائے مزید لہو و لعب میں مبتلا ہوجاتے ہیں آتش بازی پٹاخے اور دیگر ناجائز امور میں مبتلا ہوکر وی اس مبارک رات کا تقد س پامال کرتے ہیں ۔ حالانکہ آتش بازی اور پٹاخے نہ صرف ان لوگوں اور ان کے بچوں کی جان کے لیے خطرہ ہیں بلکہ ارد گرد کے لوگوں کی جان کے لیے بھی خطرتے کا باعث بنتے ہیں ۔ ایسے لوگ ”مال برباد اور گناہ لازم” کا مصداق ہیں ۔
ہمیں چاہیے کہ ایسے گناہ کے کاموں سے خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی بچائیں اور بچوں کو سمجھائیں کہ ایسے لغو کاموں سے اللہ تعالیٰ اور اس کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ناراض ہوتے ہیں ۔ مجدد برحق اعلیٰ ھضرت امام احمد رضا محدث بریلوی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ۔ آتش بازی جس طرح شادیوں اور شب برأت میں رائج ہے بے شک حرام اور پورا جرم ہے کہ اس میں مال کا ضیاع ہے۔ قرآن مجید میں ایسے لوگوں کو شیطان کے بھائی فرمایا گیا۔ ارشاد ہوا،
”اور فضول نہ اڑا بے شک (مال) اڑانے والے شیطانوں کے بھائی ہیں ”۔ (بنی اسرائیل)
شعبان کے روزے
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے، ”جن لوگوں کی روحیں قبض کرنی ہوتی ہیں ان کے ناموں کی فہرست ماہِ شعبان مٰں ملک الموت کو دی جاتی ہے اس لیے مجھے یہ بات پسند ہے کہ میرا نام اس وقت فہرست میں لکھا جائے جب کہ میں روزے کی حالت میں ہوں ”۔ یہ حدیث پہلے مذکورہ ہو چکی کہ مرنے والوں کے ناموں کی فہرست پندرہویں شعبان کی رات کو تیار کی جاتی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس ارشاد سے معلوم ہوا کہ اگرچہ رات کے وقت روزہ نہیں ہوتا اس کے باوجود روزہ دار لکھے جانے کا مطلب یہ ہے کہ بوقت کتاب (شب) اللہ تعالیٰ روزی کی برکت کو جاری رکھتا ہے۔ (ماثبت من السنہ ١٩٢)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ، ”میں نے آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ماہِ رمضان کے علاوہ ماہِ شعبان سے زیادہ کسی مہینے میں روزے رکھتے نہیں دیکھا”۔ (بخاری، مسلم، مشکوٰۃ جلد ١ ص ٤٤١) ایک اور روایت میں فرمایا، ”نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چند دن چھوڑ کر پورے ماہِ شعبان کے روزے رکھتے تھے”۔ (ایضاً)