Archive for May, 2013

مُرید کے ہر عمل پر باخبر مرشد

ایک فقیر نے مجھے اپنا واقعہ سنایا کہ وہ ایک دفعہ ٹرین کا سفر کر رہا تھا اور درگاہ شریف جا رہا تھا ان دنوں وہ نیا نیا فقیر بنا تھا اور حضرت سائیں کی بارگاہ میں حاضری کی نیت سے روانہ ہوا تھا۔ جب وہ ٹرین میں سوار ہوا تھا ان دنوں اسکی نہ داڑھی تھی اور نہ ہی تذکیہ نفس کرنے کی سوچ پیدا ہوئی تھی۔ جب وہ ٹرین میں سوار ہوا تو کچھ سفر طے کرنے کے بعد اُسی ڈبے میں موجود اس کی نظر ایک بُرقہ دار عورت پر پڑھی جس کو دیکھنے میں وہ یہ بھول گیا کہ وہ کہاں کا سفر کر رہا ہے اور اسکی آنکھوں میں اتنا گم ہوگیا کہ اس کے چہرے پر سے نظر ہی نہ ہٹی اور اسی طرح سفر جاری رہا۔ بہر حال وہ براستہ لاڑکانہ اسٹیشن ہوتا ہوا قمبر شریف پہنچ گیا۔ جب حضرت سائیں جمعہ کی تقریر کے لیے مسند پر بیٹھے اور تقریر کا آغاز کیا تو دورانِ تقریر حضرت سائیں نے فرمایا کہ میرا ایک فقیر ایسا بھی ہے جو بُرقعے میں باپردہ خواتین کو بھی نہیں چھوڑتا اسے اتنی بھی شرم نہیں آتی کہ پردےدار خواتین پر بھی گندی نظر رکھتا ہے۔ یہ گفتگو سُن کر وہ بہت رویا اور اللہ سے سچی توبہ کی اور آج ماشاء اللہ وہ ایک کامل فقیر ہے ۔ اس شخص کی اصلاح دورانِ بیان حضرت سائیں نے ایسی فرمائی کہ اسکا نام نہ بتا کر اسکی عیب پوشی بھی کی اور اسکی اصلاح بھی فرمائی۔ کامل مرشد کی یہی پہچان ہے کہ وہ ہر دم اپنے مرید پر نظر رکھے اور شیطان کے نرغے سے اپنے مُرید کو بچائے اور اسکے بُرے اعمال پر اسے باخبر کرتے ہوئےاسکی اصلاح بھی فرمائے۔
آج کے دور میں بہت سے ایسے پیر بھی دیکھے ہیں کہ وہ ہو ہا ہوُ بہت کرتے ہیں لیکن انکے مُرید علماء اور عام لوگوں کا جینا دو بھر کردیتے ہیں اور انکے پیر کو کچھ خبر نہیں ۔ پیر کامل تو وہ ہوتا ہے جو اپنے مُرید کی خبر گیری کرے اور اسے ہر طرح کے گناہ سے بچائے اور اسکی ظاہری و باطنی اصلاح فرمائے۔
اللہ ہمیں حضرت قبلہ مرشد کریم کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے اور انکے صدقے ہماری مغفرت فرمائے اور ہمیں اس دارِ فانی میں ایسے اعمال سے بچائے جن سے اللہ اور اسکے رسول ﷺ نے منع فرمایا اور ایسے اعمال پر توفیق دے جس کے کرنے سے اللہ اور اسکا رسول ﷺ راضی ہوتے ہیں۔

ایک عالیشان مہربانی کا واقعہ

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میں اپنی بہن کے ساتھ ٹرین میں کراچی سے سبح 6 بجے کی ٹرین سے ہزارہ ایکسپریس میں حویلیاں جا رہا تھا اور چونکہ صبح صبح کا وقت تھا تو میری بہن جو کہ اپنی چار بیٹیوں اور ایک اکلوتے بیٹے کے ساتھ تھی کہنے لگی کہ تمہاری نیند بہت گھری ہے تو تم ابھی سوجاؤاور میں جاگتی ہوں تاکہ رات میں جب ہم سوجائیں تو تم جاگنا تو میں نے اس پر عمل کرتے ہوئے سوگیا۔
سونے کے بعد ابھی کچھ گھنٹے ہی گزرے تھے کہ میں خواب میں دیکھتا ہوں کے ہر طرف سفیدی سفیدی ہے جیسے بادلوں میں ہوں اور میں سو رہا ہوں اور ایک جانب میرے مرشد کریم قمبر والے سائیں حضر ت قبلہ سید غلام حسین شاہ شہنشاہ ولایت ، رئیس المتّقین، سردارِ اولیاء مدظلہ العالی کھڑے ہیں اور انکے صاحبزادے حضرت سائیں عطاء اللہ شاہ بخاری دامت برکاتہم العالی مجھے اٹھنے کو فرما رہے ہیں میں دیکھتا ہوں کہ حضرت مجھے فرماتے ہیں اٹھو ، اٹھو پھر تیسری بار حضرت نے فرمایا کہ اب نہیں اٹھو گے تو کب اٹھو گے۔ میں خواب ہی میں سوچتا ہوں کہ ایسا کیا ہوگیا گیا ہے کہ مجھے سائیں اٹھنے کو کہہ رہے ہیں یقینن مجھے اٹھ جانا چاہیئے ۔ جیسے ہی میں اٹھ کر بیٹھا اور میں چونکہ اُپر والی برتھ پر سورہا تھا اور جب میں نے نیچے دیکھا تو میری بہن بھی چادر اوڑھے سو رہی تھی اور اسکے سارے بچے بھی یہاں وہا ں سورہے تھے ۔ میں گھبرا کر اٹھا اور اور ایک مائک یا لاؤڈ پر اعلان سنا کہ لوگو ! ہوشیار ہوجاؤ اس ڈبے میں کچھ اغوا کار گھس گئے ہیں اور اپنے سامان کی بھی حفاظت کرو۔ میں نے اپنی بہن کو جاگنے کو کہا اورمیں اتنا ڈر گیا کہ میں دیکھ کر حیران ہوگیا کہ ہمارے ڈبے میں بہت سی مانگنے والیاں اور بھیکاری بھرے ہوئے ہیں اور بدنامِ زمانہ اسٹیشن حیدرآباد پر ٹرین رُکی ہوئی ہے۔ ہم نے جلدی جلدی سارا سامان سمیٹا اور بچوں کو بھی ایک جگہ جمع کیا۔
دوستو! یقین جانو یہ اتنی بڑی مہربانی تھی کہ اس کا اندازاہ شاید وہ شخص لگا سکتا ہے کہ جسکی بیٹیا ں ہوں یا اولاد والا ہو کیوں کہ اگر خدا نا خواستہ کوئی اغواء کار ہماری کسی بچی کو لے جاتا تو شاید ساری زندگی اس غم کا مداوا نا ہوپاتا۔ یہ اتنا بڑا سانحہ ہوتا کہ اگر اسکے اکلوتے بیٹے کو بھی کوئی لے جاتا تو شاید وہ جیتے جی مرجاتی۔ سبحان اللہ میرے مرشد کریم کی کس کس مہربانی کا ذکر کریں ۔ ہم ان خوشنصیبوں میں شامل ہیں جنہیں ایسے ولی ِ کامل کا دامن نصیب ہوا کہ جو ہمارے گھروالوں کے بھی نگہبان ہیں اور اپنے مُرید کو سوتے ہوئے بھی اکیلا نہیں چھوڑتے۔ہمارے جان و مال کی بھی حفاظت فرماتے ہیں۔ اللہ ہمیں کامل کے دامن سے وابستہ رکھے اور ہماری نسبت ان سے تاقیامت قائم رکھے اور انکے صدقے ہمیں آخرت میں بھی ان ہی کے دامن سے وابستہ رکھے۔ آمین۔
ایک جمعہ کی تقریر میں حضرت قبلہ سائیں نے فرمایا کہ دنیاء میں بھی تمہارا ہاتھ میرے ہاتھ میں ہے اور آخرت میں بھی تمہارا ہاتھ میرے ہاتھ میں اور میرا ہاتھ تمہارے ہاتھ میں ہوگا۔انشاء اللہ سبحان وتعالٰی۔ حق مھنجا سائیں

فقیر سید زاہد حسین شاہ حسینی

جب پُکارا تو مدد کو پہنچے


خصدار میں حضرت علامہ مولانا مفتی اعظم شیخ الحدیث مولوی عبدالخالق بروھی نقشبندی حسینی نے ایک دل کو بہار کردینے والی کرامت ارشاد فرمائی کہ ایک رات اچانک انکے دل میں شدید درد اٹھا۔ درد اتنا شدید تھا کہ میں سمجھا کہ شاید موت کا وقت آن پہنچااور اور بہت تکلیف محسوس ہو رہی تھی۔ فرماتے ہیں کہ میں نے دل میں مرشد کو پُکارا کہ مہربانی فرمائیں تاکہ میں کلمہ پڑھ سکوں تو اچانک اتنے میں دروازہ کھلا اور دیکھا کہ میرے مرشد کریم قمبر والے سائیں حضر ت قبلہ سید غلام حسین شاہ شہنشاہ ولایت ، سردار متّقین، سردارِ اولیاء مدظلہ العالی پہنچ گئےاور فرمانے لگے کہ مولوی صاحب غم نہ کرو اللہ تعالٰی ابھی تم سے دین کا کام لے گا پھر اپنا دست کرامت یعنی ہاتھ مبارک میرے سینے پر گھمایا اور میرا دل کا درد اچانک ختم ہوگیا اور میں بالکل بھلا ہوگیا۔ اس کے بعد جب ابا سائیں جانے لگے تو میں دروازے پر بیٹھا ہوا تھا اور یہ مہربانی خواب میں نہیں بیداری کے عالم میں پیش آئی سبحان اللہ۔

ڈوبتے ہوئے کو بچانا


قمبر شریف میں ایک مسجد جسکا نام بلال ہے وہاں کا متولّی محمد ایوب ابا سائیں کا معتقد تھا۔ کچھ بد عقیدوں کے ورغلانے پر وہ وہابی ہو گیا تھا ۔ جب اس کا آخری وقت آیا اور سکرات میں پھنسا اور اسکا سانس بھی نہیں نکل رہا تھا۔ اسکے گھر والے سخت پریشان ہو گئے تھے۔ کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کچھ لوگوں نے اسکے بیٹوں کو مشورہ دیا کہ سائیں قمبر والے کو لے آؤ تو اچھا ہوگا۔ محمد ایوب کے بیٹے مجبور ہوگئے اور ابا سائیں کے پاس گئے اور عرض گزار ہوئے۔ ابا سائیں تھوڑی دیر میں کچھ مُریدوں کے ساتھ وہاں پہنچے اور آتے ہی فرمایا کہ محمد ایوب کلمہ پڑھ ۔ اللہ کی قدرت دیکھو کہ محمد ایوب کا سانس بھی نہیں نکل رہا تھا اور ہوش میں بھی نہیں آرہا تھا کہ ابا سائیں کی آواز سن کر کلمہ پڑھا اور آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ وہاں موجود ابا سائیں کے مُرید مفتی نبی بخش نے کہا کہ ابا سائیں یہ تو آپ کو چھوڑ چکا تھا اسکو کلمہ کیوں پڑھایا؟ ابا سائیں نے فرمایا کہ محمد ایوب نے ہمیں چھوڑا دیا تھا پر ہم نے اسکے قلب پر انگلی رکھی تھی ہم نے اسکو نہیں چھوڑا۔سبحان اللہ۔
تاجدار تصوف و روحانیت حضرت پیر سید غلام حسین شاہ شاہ بخاری دامت برکاتہم العالی نے اپنی زندگی دین اسلام کی اشاعت و سربلندی ،احیاء سنت ،معاشرے کی روحانی اصلاح اور گمراہی کے خاتمے کیلئے وقف کئے ہوئے ہیں آپ نےسندھ اور بلوچستان اور کئی شہروں اور مختلف گاؤں اور بے شمارو یران دلوں میں محبت خداوندی اور عشق رسول کی لازوال شمع روشن کرکے لافانی اجالے بکھیر دیئے،علم و حکمت کے جواہر تقسیم کیئے ،رشدو ہدایت کے انعامات لٹائے اور فیض کے دریا بہا ئے آپ نے مردہ دلوں کو نئی زندگی بخشی اور گمگشتگان راہ کو نشان منزل دیا آپ سنت نبوی کا عملی نمونہ اور شریعت اسلامیہ کے عظیم پاسدار ہیں ۔