Archive for February, 2012

درگاہ حسین آبادمیں عید میلادالنبی ﷺ

درگاہ حسین آبادمیں عید میلادالنبی ﷺ

بارہ ربیع الاول کی مناسبت سےقمبر شریف میں متعدد پروگرام منعقد ہوتے ہیں جس میں بہت بڑی تعداد میں لوگ شامل ہوئے۔ اس سال حضرت کے ساتھ

اس پرنور موقع پر اس دن کو منانے کا موقع نصیب ہوا بہت ہی پُر کیف نظارے تھے۔ صبح ہوئی تو معلوم ہوا کہ حضرت کے پوتے سیّد نصر اللہ شاہ دامت برکاتہم

اپنی قیادت میں جلوس لے کر قمبر شہر نکلیں گے اورواپسی پر حضور مرشد کریم دعا فرمائیں گے جس میں شرکت کی سعادت نصیب ہوئی ۔ ایسا پُرکیف منظر تھا

جسے الفاظوں میں بیان کرنا نہایت مشکل ہے ہرطرف عاشقانِ مصطفی ﷺ اپنی عقیدت کا اظہار کرتے نظر آتے۔ جلوس کی درگاہ واپسی پر حضرت نے دعا فرمائی

اور پھر اعلان ہوا کہ قمبر شہر کے وسطی بازار میں جلسہ ہے جہاں نعت خوانی ہوگی اور آپ مرشد کریم تقریر فرمائیں ۔ لنگر عام کے بعد تمام لوگ حضرت کی

سربراہی میں ایک ریلی کی شکل میں وہاں پہنچے جس میں ہزاروں لوگ آپ کے استقبال میں منتظر تھے۔ اس جلسے میں خوب محفل نعت ہوئی اور پھر آپ

کا عالیشان بیان مبارک ہوا اور واپسی پر دعاء ہوئی۔ مغرب کے بعدشہداد کوٹ میں آ پکا جلسہ تھا جس میں ہم سب حضرت سائیں کے ساتھ روانہ ہوئے اور وہاں

بھی خوب آب وتاب تھی ہرطرف فقراء کا جمےغفیر تھا ۔ اس جلسے کے بعد ایک مقامی ڈاکٹر صاحب نے اپنے گھر پر محفل نعت و تعام کا اہتمام کیا تھا جس میں

بہت لطف آیا۔ اس طرح بارہ ربیع الاول کو ایک عالیشان انداز دن گزارنے کا موقع نصیب ہوا۔ الحمدللہ حضرت سائیں نے خوب اپنی قربت کا موقع عطاء فرمایا 

اور اپنی محبت کا اظہار کیا۔ ماشاء اللہ۔ 

فقیر سید زاہد حسین شاہ بخاری (حسینی)

 

 

 

سالانہ جشن میلاد النبی ﷺ کا اختتام

الحمد للہ حضور مرشد کریم حضرت سائیں سید غلام حسین شاہ بخاری دامت برکاتہم کا سالانہ ربیع الاول سے مطعلق جشن عید میلاد النبی ﷺ نہایت عالی شان انداز میں منعقد ہوا جس میں پاکستان کے مختلف حصوں سے فقیر جوک در جوک شریک ہوئے اور پروگرام کا آغاز جمعرات کی دوپہر سے ہوا اور ہفتہ کی دوپہر کو اختتام پزیر ہوا۔

۔

 

دُرود شریف

حضرت قبلہ مرشد کریم اکثر و بیشتر جو دُرود شریف لوگوں کو تعلیم فرماتے ہیں یا لکھ کردیتے ہیں وہ دُرود شریف مندرجہ زیل ہے ۔

یہ دُرود شریف دلائل الخیرات میں اتور کے حزب میں بھی لکھا ہوا ہے۔

 


دَلائلُ الخیرات

Please click on full screen button to read it easily.

روزانہ دلائل خیرات کا حزب شروع کرنے سے پہلے باوضو ہونا ضروری ہے اور اس کی ابتداء اَسماءُ اللہِ الحُسنٰی سے کی جاتی ہے اور پھر اسماءُ النبی ﷺ پڑھے جاتے ہیں اور اسکے بعد دن کے اعتبار سے حذب کا آغاز کیا جاتا ہے۔

یاد رہے کہ ہمارے سلسلے میں دلائل الخیرات کا پہلا حزب جمعہ کو شروع کیا جاتا ہے اور نیچے دی گئی کتاب میں پہلا حزب پیر کو شروع ہو رہا ہے لیٰزا آپ نے پیر کے دن کا حزب جمعہ کو پڑھنا ہے۔

تصوف و طریقت

تصوف و طریقت

قران سیکھو اور سکھاؤ

 

بارہ ربیع الاول کا جلوس

الحمد للہ ہرسال کی طرح اس سال بھی ربیع الاول کی ۱۲ تاریخ کو نہایت عقیدت و پر جوش انداز میں منایا گیا ۔ صبح کا آغاز مرشد کریم کے پوتے سائیں نصراللہ شاہ بخاری دامت برکاتہم کے جلوس سے ہوا ۔ جس میں عاشقان  رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت بڑی تعداد نے شرکت کی اور یہ جلوس درگاہ حسین آباد سے ہوتا ہوا قمبر شہر کے مختلف حصوں سے ہوتا ہوا شہر کے وسطی بازار میں رکا جہاں نعت خوانی ہوئی اور سائیں نصراللہ شاہ بخاری دامت برکاتہم نے شرکاء سے خطاب فرمایا ۔

 

 

 

 

 

 

سیّد السادات حضرت قبلہ سائیں سید غلام حسین شاہ بخاری دامت برکاتہم عالی

آپ حضرت پیر مٹھا سائیں کے منظورِ نظر خلیفہ ہیں۔ ضلع قمبر شہداد کوٹ کے شہر قمبر شریف میں آپ کی درگاہ عالیہ حسین آباد مرجع خلائق ہے  ۔ جہاں شاہانِ وقت سے لیکر عوام و خواص اکتساب فیض کر رہے ہیں۔ بڑی مخلوق آپ سے مستفیض ہو رہی ہے ۔ جمہ شریف کے دن آپ کی درگاہ عالیہ پر میلے کا سماں ہوتا ہے ۔ آپ مستجاب الدعوات ہیں ۔آپ آلِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم و اولاد علی رضی اللہ عنہ ہیں ۔ اللہ کریم آپ کو شاد آباد رکھے۔

اللہ تعالٰی نے سے سب سے اونچا مقام  آپ کو عطاء فرمایا ۔ اور آپ کے نورانی چہرے کی کیا شان بیان کی جائے جسے دیکھتے ہی زبان سے اللہ کا زکر بے اختیار جاری ہوجاتا ہے۔

السیف الجلی علٰی منکر ولایۃ علی رضی اللہ عنہ


السیف الجلی علٰی منکر ولایۃ علی رضی اللہ عنہ

مؤلف شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری


حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حجۃ الوداع سے مدینہ طیّبہ واپسی کے دوران غدیرِ خُم کے مقام پر قیام فرمایا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ہجوم میں سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجھہ الکریم کا ہاتھ اُٹھا کر اعلان فرمایا :
مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ.
’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے۔‘‘
یہ اعلانِ ولایتِ علی رضی اللہ عنہ تھا، جس کا اطلاق قیامت تک جملہ اہلِ ایمان پر ہوتا ہے اور جس سے یہ امر قطعی طور پر ثابت ہوتا ہے کہ جو ولایتِ علی رضی اللہ عنہ کا منکر ہے وہ ولایتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا منکر ہے۔ اِس عاجز نے محسوس کیا کہ اس مسئلہ پر بعض لوگ بوجہِ جہالت متردّد رہتے ہیں اور بعض لوگ بوجہِ عناد و تعصّب۔ سو یہ تردّد اور انکار اُمّت میں تفرقہ و انتشار میں اضافہ کا باعث بن رہا ہے۔ اندریں حالات میں نے ضروری سمجھا کہ مسئلۂ وِلایت و اِمامت پر دو رِسالے تالیف کروں : ایک بعنوان ’السَّیفُ الجَلِی عَلٰی مُنکِرِ وِلایۃِ عَلیّ رضی اللہ عنہ‘ اور دوسرا بعنوان ’القولُ المُعتَبَر فِی الامام المُنتَظَر‘۔ پہلے رسالہ کے ذریعے فاتحِ ولایت حضرت امام علی علیہ السلام کے مقام کو واضح کروں اور دوسرے کے ذریعے خاتمِ ولایت حضرت امام مہدی علیہ السلام کا بیان کروں تاکہ جملہ شبہات کا اِزالہ ہو اور یہ حقیقت خواص و عوام سب تک پہنچ سکے کہ ولایتِ علی علیہ السلام اور ولایتِ مہدی علیہ السلام اہلِ سنت و جماعت کی معتبر کتبِ حدیث میں روایاتِ متواترہ سے ثابت ہے۔ میں نے پہلے رسالہ میں حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اکیاون (51) روایات پوری تحقیق و تخریج کے ساتھ درج کی ہیں۔ اِس عدد کی وجہ یہ ہے کہ میں نے اِمسال اپنی عمر کے 51 برس مکمل کئے ہیں، اس لئے حصولِ برکت اور اِکتساب خیر کے لئے عاجزانہ طور پر عددی نسبت کا وسیلہ اختیار کیا ہے تاکہ بارگاہِ علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ میں اِس حقیر کا نذرانہ شرفِ قبولیت پاسکے۔ (آمین)
اَب اِس مقدّمہ میں یہ نکتہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ مقدّسہ سے تین طرح کی وراثتیں جاری ہوئیں :
• خلافتِ باطنی کی روحانی وراثت
• خلافتِ ظاہری کی سیاسی وراثت
• خلافتِ دینی کی عمومی وراثت
• خلافتِ باطنی کی روحانی وراثت اہلِ بیتِ اطہار کے نفوس طیّبہ کو عطا ہوئی۔
• خلافتِ ظاہری کی سیاسی وراثت خلفاء راشدین کی ذوات مقدّسہ کو عطا ہوئی۔
• خلافتِ دینی کی عمومی وراثت بقیہ صحابہ و تابعین کو عطا ہوئی۔
خلافتِ باطنی نیابتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وہ سرچشمہ ہے جس سے نہ صرف دینِ اسلام کے روحانی کمالات اور باطنی فیوضات کی حفاظت ہوئی بلکہ اس سے اُمّت میں ولایت و قطبیت اور مُصلحیت و مجدّدیت کے چشمے پھوٹے اور اُمّت اِسی واسطے سے روحانیتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فیضاب ہوئی۔ خلافتِ ظاہری نیابتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وہ سرچشمہ ہے جس سے غلبۂ دین حق اور نفاذِ اسلام کی عملی صورت وجود میں آئی اور دینِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تمکّن اور زمینی اقتدار کا سلسلہ قائم ہوا۔ اِسی واسطے سے تاریخِ اِسلام میں مختلف ریاستیں اور سلطنتیں قائم ہوئیں اور شریعتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نظامِ عالم کے طور پر دُنیا میں عملاً متعارف ہوئی۔
خلافتِ عمومی نیابتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وہ سرچشمہ ہے جس سے اُمّت میں تعلیماتِ اسلام کا فروغ اور اعمالِ صالحہ کا تحقّق وجود میں آیا۔ اِس واسطے سے افرادِ اُمّت میں نہ صرف علم و تقویٰ کی حفاظت ہوئی بلکہ اخلاقِ اِسلامی کی عمومی ترویج و اشاعت جاری رہی، گویا :
پہلی قسم : خلافتِ ولایت قرارپائی
دوسری قسم : خلافتِ سلطنت قرار پائی
تیسری قسم : خلافتِ ہدایت قرار پائی
اس تقسیمِ وراثتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مضمون کو شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اِن الفاظ کے ساتھ بیان فرمایا ہے :
پس وراث آنحضرت هم بسه قسم منقسم اند فوراثه الذين أخذوا الحکمة والعصمة والقطبية الباطينة، هم أهل بيته و خاصته و وراثه الذين أخذوا الحفظ و التلقين و القطبية الظاهرة الإرشادية، هم أصحابه الکبار کالخلفاء الأربعة و سائر العشرة، و وراثه الذين أخذوا العنايات الجزئية و التقوي و العلم، هم أصحابه الذين لحقوا بإحسان کأنس و أبي هريرة و غيرهم من المتأخرين، فهذه ثلاثة مراتب متفرعة من کمال خاتم الرسل صلی الله عليه وآله وسلم.
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وراثت کے حاملین تین طرح کے ہیں : ایک وہ جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حکمت و عصمت اور قطبیتِ باطنی کا فیض حاصل کیا، وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل بیت اور خواص ہیں۔ دوسرا طبقہ وہ ہے جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حفظ و تلقین اور رشد و ہدایت سے متصف قطبیت ظاہری کا فیض حاصل کیا، وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کبار صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم جیسے خلفائے اربعہ اور عشرہ مبشرہ ہیں۔ تیسرا طبقہ وہ ہے جنہوں نے انفرادی عنایات اور علم و تقویٰ کا فیض حاصل کیا، یہ وہ اصحاب ہیں جو احسان کے وصف سے متصف ہوئے، جیسے حضرت انس رضی اللہ عنہ اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور ان کے علاوہ دیگر متاخرین۔ یہ تینوں مدارج حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کمال ختمِ رسالت سے جاری ہوئے۔‘‘
شاه ولي الله محدث دهلوي، التفهيمات الالهٰيه، 2 : 8
واضح رہے کہ یہ تقسیم غلبۂ حال اور خصوصی امتیاز کی نشاندہی کے لئے ہے، ورنہ ہر سہ اقسام میں سے کوئی بھی دوسری قسم کے خواص و کمالات سے کلیتاً خالی نہیں ہے، اُن میں سے ہر ایک کو دوسری قسم کے ساتھ کوئی نہ کوئی نسبت یا اشتراک حاصل ہے :
• سلطنت میں سیدنا صدّیقِ اکبر رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلیفہ بلا فصل یعنی براہِ راست نائب ہوئے۔
• ولایت میں سیدنا علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلیفہ بلا فصل یعنی براہِ راست نائب ہوئے۔
• ہدایت میں جملہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلفاء بلا فصل یعنی براہِ راست نائب ہوئے۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ ختمِ نبوت کے بعد فیضانِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دائمی تسلسل کے لئے تین مستقل مطالع قائم ہو گئے :
• ایک مطلع سیاسی وراثت کے لئے
• دوسرا مطلع روحانی وراثت کے لئے
• تیسرا مطلع علمی و عملی وراثت کے لئے
• حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیاسی وراثت، خلافتِ راشدہ کے نام سے موسوم ہوئی۔
• حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روحانی وراثت، ولایت و امامت کے نام سے موسوم ہوئی۔
• حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی علمی و عملی وراثت، ہدایت و دیانت کے نام سے موسوم ہوئی۔
لہٰذا سیاسی وراثت کے فردِ اوّل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہوئے، روحانی وراثت کے فردِ اوّل حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ ہوئے اور علمی و عملی وراثت کے اوّلیں حاملین جملہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہوئے۔ سو یہ سب وارثین و حاملین اپنے اپنے دائرہ میں بلا فصل خلفاء ہوئے، ایک کا دوسرے کے ساتھ کوئی تضاد یا تعارض نہیں ہے۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ ان مناصب کی حقیقت بھی ایک دوسرے سے کئی اُمور میں مختلف ہے :
1۔ خلافتِ ظاہری دین اسلام کا سیاسی منصب ہے۔
خلافتِ باطنی خالصتاً روحانی منصب ہے۔
2۔ خلافتِ ظاہری انتخابی و شورائی امر ہے۔
خلافتِ باطنی محض وہبی و اجتبائی امر ہے۔
3۔ خلیفۂ ظاہری کا تقرّر عوام کے چناؤ سے عمل میں آتا ہے۔
خلیفۂ باطنی کا تقرّر خدا کے چناؤ سے عمل میں آتا ہے۔
4۔ خلیفۂ ظاہری منتخب ہوتا ہے۔
خلیفۂ باطنی منتجب ہوتا ہے۔
5۔ یہی وجہ ہے کہ پہلے خلیفۂ راشد سیدنا صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کا انتخاب حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی تجویز اور رائے عامہ کی اکثریتی تائید سے عمل میں آیا، مگر پہلے امامِ ولایت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے انتخاب میں کسی کی تجویز مطلوب ہوئی نہ کسی کی تائید۔
6۔ خلافت میں ’جمہوریت‘ مطلوب تھی، اس لئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کا اعلان نہیں فرمایا۔ ولایت میں ’ماموریت‘ مقصود تھی، اس لئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وادی غدیر خُم کے مقام پر اس کا اعلان فرما دیا۔
7۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُمّت کے لئے خلیفہ کا انتخاب عوام کی مرضی پر چھوڑ دیا، مگر ولی کا انتخاب اللہ کی مرضی سے خود فرما دیا۔
8۔ خلافت زمینی نظام کے سنوارنے کیلئے قائم ہوتی ہے۔
ولایت اُسے آسمانی نظام کے حسن سے نکھارنے کیلئے قائم ہوتی ہے۔
9۔ خلافت افراد کو عادل بناتی ہے۔
ولایت افراد کو کامل بناتی ہے۔
10۔ خلافت کا دائرہ فرش تک ہے۔
ولایت کا دائرہ عرش تک ہے۔
11۔ خلافت تخت نشینی کے بغیر مؤثر نہیں ہوتی۔
ولایت تخت و سلطنت کے بغیر بھی مؤثر ہے۔
12۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ خلافت اُمّت کے سپرد ہوئی۔
ولایت عترت کے سپرد ہوئی۔
لہٰذا اب خلافت سے مَفرّ ہے نہ وِلایت سے، کیونکہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافتِ بلافصل اِجماعِ صحابہ سے منعقد ہوئی اور تاریخ کی شہادتِ قطعی سے ثابت ہوئی اور حضرت مولا علی المرتضیٰص کی وِلایتِ بلافصل خود فرمانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منعقد ہوئی اور احادیثِ متواترہ کی شہادتِ قطعی سے ثابت ہوئی۔ خلافت کا ثبوت اِجماعِ صحابہ ہے اور وِلایت کا ثبوت فرمانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ جو خلافت کا اِنکار کرتا ہے وہ تاریخ اور اِجماع کا اِنکار کرتا ہے اور جو اِمامت و وِلایت کا اِنکار کرتا ہے وہ اِعلانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انکار کرتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دونوں institutions کی حقیقت کو سمجھ کر اُن میں تطبیق پیدا کی جائے نہ کہ تفریق۔
جان لینا چاہئے کہ جس طرح خلافتِ ظاہری، خلفاء راشدین سے شروع ہوئی اور اِس کا فیض حسبِ حال اُمت کے صالح حکام اور عادل امراء کو منتقل ہوتا چلا گیا، اُسی طرح خلافتِ باطنی بھی سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے شروع ہوئی اور اس کا فیض حسبِ حال اَئمہ اَطہارِ اہل بیت اور اُمت کے اولیاء کاملین کو منتقل ہوتا چلاگیا۔ حضور فاتح و خاتم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے۔ ۔ ۔ مَن کنتُ مولاہُ فہٰذا علیٌّ مولاہُ (جس کا میں مولا ہوں اس کا یہ علی مولا ہے)۔ ۔ ۔ اور۔ ۔ ۔ علیٌّ ولیّکم مِن بَعدِی (میرے بعد تمہارا ولی علی ہے)۔ ۔ ۔ کے اعلانِ عام کے ذریعے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اُمت میں ولایت کا فاتحِ اَوّل قرار دے دیا۔
بابِ وِلایت میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے الفاظ ملاحظہ ہوں :
1۔ و فاتحِ اوّل ازین اُمت مرحومہ حضرت علی مرتضی است کرم اﷲ تعالیٰ وجھہ۔
(شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، التفہیمات الالہٰیہ، 1 : 103)
’’اس اُمتِ مرحومہ میں (فاتح اَوّل) ولایت کا دروازہ سب سے پہلے کھولنے والے فرد حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ ہیں۔
2۔ و سرِ حضرت امیر کرم اﷲ وجھہ در اولادِ کرام ایشان رضی اللہ عنہم سرایت کرد۔
(شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، التفہیمات الالہٰیہ، 1 : 103)
’’حضرت امیر رضی اللہ عنہ کا رازِ ولایت آپ کی اولاد کرام رضی اللہ عنہم میں سرایت کرگیا۔‘‘
3۔ چنانکہ کسی از اولیاء امت نیست الا بخاندانِ حضرت مرتضیٰ رضی اللہ عنہ مرتبط است بوجہی از وجوہ۔
( شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، التفہیمات الالہٰیہ، 1 : 104)
’’چنانچہَ اولیائے اُمت میں سے ایک بھی ایسا نہیں ہے جو کسی نہ کسی طور پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خاندانِ اِمامت سے (اکستابِ ولایت کے لئے) وابستہ نہ ہو۔‘‘
4۔ و از اُمتِ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اوّل کسیکہ فاتحِ بابِ جذب شدہ است، و دراں جا قدم نہادہ است حضرت امیر المؤمنین علی کرم اﷲ وجھہ، و لہٰذا سلاسلِ طُرُق بداں جانب راجع میشوند۔
(شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، ہمعات : 60)
’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اُمت میں پہلا فرد جو ولایت کے (سب سے اعلیٰ و اقویٰ طریق) بابِ جذب کا فاتح بنا اور جس نے اِس مقامِ بلند پر (پہلا ) قدم رکھا وہ امیر المؤمنین حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ذات گرامی ہے، اِسی وجہ سے روحانیت و ولایت کے مختلف طریقوں کے سلاسِل آپ ہی کی طرف رجوع کرتے ہیں۔‘‘
5۔ یہی وجہ ہے کہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :
’’اب اُمت میں جسے بھی بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فیضِ وِلایت نصیب ہوتا ہے وہ یا تو نسبتِ علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے نصیب ہوتا ہے یا نسبتِ غوث الاعظم جیلانی رضی اللہ عنہ سے، اس کے بغیر کوئی شخص مرتبۂ ولایت پر فائز نہیں ہوسکتا۔‘‘
(شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، ہمعات : 62)
واضح رہے کہ نسبتِ غوث الاعظم جیلانی رضی اللہ عنہ بھی نسبتِ علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ ہی کا ایک باب اور اِسی شمع کی ایک کرن ہے۔
6۔ اِس نکتہ کو شاہ اسماعیل دہلوی نے بھی بصراحت یوں لکھا ہے :
’’حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے لئے شیخین رضی اﷲ عنہما پر بھی ایک گو نہ فضیلت ثابت ہے اور وہ فضیلت آپ کے فرمانبرداروں کا زیادہ ہونا اور مقاماتِ وِلایت بلکہ قطبیت اور غوثیت اور ابدالیت اور انہی جیسے باقی خدمات ’’آپ کے زمانہ سے لیکر دُنیا کے ختم ہونے تک‘‘ آپ ہی کی وساطت سے ہونا ہے اور بادشاہوں کی بادشاہت اور امیروں کی امارت میں آپ کو وہ دخل ہے جو عالمِ ملکوت کی سیر کرنے والوں پر مخفی نہیں۔ ۔ ۔ ۔ اہلِ وِلایت کے اکثر سلسلے بھی جنابِ مرتضیٰ رضی اللہ عنہ ہی کی طرف منسوب ہیں، پس قیامت کے دن بہت فرمانبرداروں کی وجہ سے جن میں اکثر بڑی بڑی شانوں والے اور عمدہ مرتبے والے ہونگے، حضرتِ مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کا لشکر اِس رونق اور بزرگی سے دکھائی دے گا کہ اس مقام کا تماشہ دیکھنے والوں کے لئے یہ امر نہایت ہی تعجب کا باعث ہو گا۔‘‘
(شاہ اسماعیل دہلوی، صراطِ مستقیم : 67)
یہ فیضِ وِلایت کہ اُمتِ محمدی میں جس کے منبع و سرچشمہ سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ مقرر ہوئے اس میں سیدۂ کائنات حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنھا اور حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنھما بھی آپ رضی اللہ عنہ کے ساتھ شریک کئے گئے ہیں، اور پھر اُن کی وساطت سے یہ سلسلۂ وِلایتِ کبریٰ اور غوثیتِ عظمیٰ اُن بارہ اَ ئمۂ اہلِ بیت میں ترتیب سے چلایا گیا جن کے آخری فرد سیدنا امام محمد مہدی علیہ السلام ہیں۔ جس طرح سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ اُمتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں فاتحِ ولایت کے درجہ پر فائز ہوئے، اُسی طرح سیدنا امام مہدی علیہ السلام اُمتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں خاتمِ ولایت کے درجہ پر فائز ہونگے۔
7۔ اس موضوع پر حضرت مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی رحمۃ اللہ علیہ کی تحقیق ملاحظہ فرمائیں :
و راہی است کہ بقربِ ولایت تعلق دارد : اقطاب و اوتاد و بدلا و نجباء و عامۂ اولیاء اﷲ، بہمین راہ واصل اندراہ سلوک عبارت ازین راہ است بلکہ جذبۂ متعارفہ، نیز داخل ہمین است و توسط و حیلولت درین راہ کائن است و پیشوای، و اصلان این راہ و سرگروہ اینھا و منبع فیض این بزرگواران : حضرت علی مرتضی است کرم اﷲ تعالے وجھہ الکریم، و این منصب عظیم الشان بایشان تعلق دارد درینمقام گوئیا ہر دو قدم مبارک آنسرور علیہ و علی آلہ الصلوۃ و السلام برفرق مبارک اوست کرم اﷲ تعالی وجھہ حضرت فاطمہ و حضرات حسنین رضی اللہ عنہم درینمقام با ایشان شریکند، انکارم کہ حضرت امیر قبل از نشاء ہ عنصرے نیز ملاذ این مقام بودہ اند، چنانچہ بعد از نشاءہ عنصرے و ہرکرا فیض و ہدایت ازین راہ میر سید بتوسط ایشان میر سید چہ ایشان نزد ن۔ قطہ منتھائے این راہ و مرکز این مقام بایشان تعلق دارد، و چون دورہ حضرت امیر تمام شُد این منصب عظیم القدر بحضرات حسنین ترتیبا مفوض و مسلم گشت، و بعد از ایشان بہریکے از ائمہ اثنا عشر علے الترتیب و التفصیل قرار گرفت و در اعصاراین بزرگواران و ہمچنیں بعد از ارتحال ایشان ہر کرا فیض و ہدایت میرسید بتوسط این بزرگواران بودہ و بحیلولۃ ایشانان ہرچند اقطاب و نجبای وقت بودہ باشند و ملاذ وملجاء ہمہ ایشان بودہ اند چہ اطراف را غیر از لحوق بمرکز چارہ نیست۔
(امام ربانی مجدّد الف ثانی، مکتوبات، 3 : 251، 252، مکتوب نمبر : 123)
’’اور ایک راہ وہ ہے جو قربِ وِلایت سے تعلق رکھتی ہے : اقطاب و اوتاد اور بدلا اور نجباء اور عام اولیاء اﷲ اِسی راہ سے واصل ہیں، اور راہِ سلوک اِسی راہ سے عبارت ہے، بلکہ متعارف جذبہ بھی اسی میں داخل ہے، اور اس راہ میں توسط ثابت ہے اور اس راہ کے واصلین کے پیشوا اور اُن کے سردار اور اُن کے بزرگوں کے منبعِ فیض حضرت علی المرتضیٰ کرم اﷲ تعالیٰ وجہہ الکریم ہیں، اور یہ عظیم الشان منصب اُن سے تعلق رکھتا ہے۔ اس راہ میں گویا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دونوںقدم مبارک حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مبارک سر پر ہیں اور حضرت فاطمہ اور حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہم اِس مقام میں اُن کے ساتھ شریک ہیں۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ حضرت امیر رضی اللہ عنہ اپنی جسدی پیدائش سے پہلے بھی اس مقام کے ملجا و ماویٰ تھے، جیسا کہ آپ رضی اللہ عنہ جسدی پیدائش کے بعد ہیں اور جسے بھی فیض و ہدایت اس راہ سے پہنچی ان کے ذریعے سے پہنچی، کیونکہ وہ اس راہ کے آخری نقطہ کے نزدیک ہیں اور اس مقام کا مرکز ان سے تعلق رکھتا ہے، اور جب حضرت امیر رضی اللہ عنہ کا دور ختم ہوا تو یہ عظیم القدر منصب ترتیب وار حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہم کو سپرد ہوا اور ان کے بعد وہی منصب ائمہ اثنا عشرہ میں سے ہر ایک کو ترتیب وار اور تفصیل سے تفویض ہوا، اور ان بزرگوں کے زمانہ میں اور اِسی طرح ان کے انتقال کے بعد جس کسی کو بھی فیض اور ہدایت پہنچی ہے انہی بزرگوں کے ذریعہ پہنچی ہے، اگرچہ اقطاب و نجبائے وقت ہی کیوں نہ ہوں اور سب کے ملجا و ماویٰ یہی بزرگ ہیں کیونکہ اطراف کو اپنے مرکز کے ساتھ الحاق کئے بغیرچارہ نہیں ہے۔‘‘
حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ امام مہدی علیہ السلام بھی کارِ ولایت میں حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے ساتھ شریک ہوں گے۔
(امام ربانی مجدّد الف ثانی، مکتوبات، 3 : 251، 252، مکتوب نمبر : 123)
خلاصۂِ کلام یہ ہوا کہ مقام غدیرِ خُم پر ولایت علی رضی اللہ عنہ کے مضمون پر مشتمل اعلانِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس حقیقت کو ابد الآباد تک کیلئے ثابت و ظاہر کردیا کہ ولایتِ علی رضی اللہ عنہ درحقیقت ولایتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی ہے۔ بعثتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد نبوت و رسالت کا باب ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بند کردیا گیا، لہٰذا تا قیامت فیضِ نبوتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اجراء و تسلسل کیلئے باری تعالیٰ نے امت میں نئے دروازے اور راستے کھول دیئے جن میں کچھ کو مرتبۂ ظاہر سے نوازا گیا اور کچھ کو مرتبۂ باطن سے۔ مرتبۂ باطن کا حامل راستہ ’ولایت‘ قرار پایا، اور امتِ محمدی میں ولایت عظمیٰ کے حامل سب سے پہلے امامِ برحق۔ ۔ ۔ مولا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ مقرر ہوئے۔ پھر ولایت کا سلسلۃ الذہب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اہلِ بیت اور آلِ اَطہار میں ائمہ اِثنا عشر (بارہ اِماموں) میں جاری کیا گیا۔ ہر چند اِن کے علاوہ بھی ہزارہا نفوسِ قدسیہ ہر زمانہ میں مرتبۂ ولایت سے بہرہ یاب ہوتے رہے، قطبیت و غوثیت کے اعلیٰ و ارفع مقامات پر فائز ہوتے رہے، اہل جہاں کو انوارِ ولایت سے منور کرتے رہے اور کروڑوں انسانوں کو ہر صدی میں ظلمت و ضلالت سے نکال کر نورِ باطن سے ہمکنار کرتے رہے، مگر ان سب کا فیض سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی بارگاہِ ولایت سے بالواسطہ یا بلاواسطہ ماخوذ و مستفاد تھا۔ ولایت علی رضی اللہ عنہ سے کوئی بھی بے نیاز اور آزاد نہ تھا۔ یہی سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا تاآنکہ امتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں آخری امامِ برحق اور مرکزِ ولایت کا ظہور ہوگا۔ یہ سیدنا امام محمد مہدی علیہ السلام ہوں گے جو بارہویں امام بھی ہوں گے اور آخری خلیفہ بھی۔ اُن کی ذاتِ اَقدس میں ظاہر و باطن کے دونوں راستے جو پہلے جدا تھے مجتمع کر دیئے جائیں گے۔ یہ حاملِ وِلایت بھی ہوں گے اور وارثِ خلافت بھی، ولایت اور خلافت کے دونوں مرتبے اُن پر ختم کر دیئے جائیں گے۔ سو جو امام مہدی علیہ السلام کا منکر ہو گا وہ دین کی ظاہری اور باطنی دونوں خلافتوں کا منکر ہو گا۔
یہ مظہریتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی انتہاء ہو گی، اس لئے اُن کا نام بھی ’محمد‘ ہو گا اور اُن کا ’خلق‘ بھی محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہو گا، تاکہ دُنیا کو معلوم ہو جائے کہ یہ ’امام‘ فیضانِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ظاہر و باطن دونوں وراثتوں کا امین ہے۔ اس لئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جو امام مہدی علیہ السلام کی تکذیب کرے گا وہ کافر ہو جائے گا۔‘‘
اُس وقت روئے زمین کے تمام اولیاء کا مرجع آپ علیہ السلام ہوں گے اور اُمتِ محمدی کا اِمام ہونے کے باعث سیدنا عیسیٰ علیہ السلام بھی آپ علیہ السلام کی اقتداء میں نماز ادا فرمائیں گے اور اس طرح اہلِ جہاں میں آپ علیہ السلام کی اِمامت کا اعلان فرمائیں گے۔
سو ہم سب کو جان لینا چاہئے کہ حضرت مولا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ اور حضرت مہدی الارض و السمائں۔ ۔ ۔ باپ اور بیٹا دونوں۔ ۔ ۔ اللہ کے ولی اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصی ہیں۔ انہیں تسلیم کرنا ہر صاحب ایمان پر واجب ہے۔
باری تعالیٰ ہمیں اِن عظیم منابعِ وِلایت سے اِکتسابِ فیض کی توفیق مرحمت فرمائے۔
(آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)
حدیث نمبر : 1
عن شعبة، عن سلمة بن کهيل، قال : سمعتُ أبا الطفيل يحدّث عن أبي سريحة. . . أو زيد بن أرقم، (شک شعبة). . . عن النبي صلي الله عليه وآله وسلم، قال : مَن کنتُ مولاه فعلیّ مولاه.
(قال : ) و قد روي شعبة هذا الحديث عن ميمون أبي عبد اﷲ عن زيد بن أرقم عن النبي صلي الله عليه وآله وسلم.
شعبہ، سلمہ بن کہیل سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے ابوطفیل سے سنا کہ ابوسریحہ۔ ۔ ۔ یا زید بن ارقم رضی اللہ عنہما۔ ۔ ۔ سے مروی ہے (شعبہ کو راوی کے متعلق شک ہے) کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں، اُس کا علی مولا ہے۔‘‘
شعبہ نے اس حدیث کو میمون ابو عبد اللہ سے، اُنہوں نے زید بن ارقم سے اور اُنہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا ہے۔
1. ترمذی، الجامع الصحيح، 6 : 79، ابواب المناقب، رقم : 3713
2. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 2 : 569، رقم : 959
3. محاملي، امالي : 85
4. ابن ابي عاصم، السنه : 603، 604، رقم : 1361، 1363، 1364، 1367، 1370
5. طبراني، المعجم الکبير، 5 : 195، 204، رقم : 5071، 5096
6. نووي، تهذيب الاسماء و اللغات، 1 : 347
7. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 163، 164
8. ابن اثير، اسد الغابه، 6 : 132
9. ابن اثير، النهايه في غريب الحديث والاثر، 5 : 228
10. ابن کثير، البدايه و النهايه، 5 : 463
11. ابن حجر عسقلاني، تعجيل المنفعه : 464، رقم : 1222
ترمذی نے اسے حسن صحیح غریب کہا ہے، اور شعبہ نے یہ حدیث میمون ابوعبد اللہ کے طریق سے زید بن ارقم سے بھی روایت کی ہے۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے یہ حدیث اِن کتب میں مروی ہے :
1. حاکم، المستدرک، 3 : 134، رقم : 4652
2. طبراني، المعجم الکبير، 12 : 78، رقم : 12593
3. خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، 12 : 343
4. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 77، 144
5. ابن کثير، البدايه و النهايه، 5 : 451
6. هيثمی، مجمع الزوائد، 9 : 108
یہ حدیث حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اﷲ عنہما سے مندرجہ ذیل کتب میں مروی ہے :
1. ابن ابي عاصم، السنه : 602، رقم : 1355
2. ابن ابي شيبه، المصنف، 6 : 366، رقم : 32072
یہ حدیث حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے بھی درج ذیل کتب میں منقول ہے :
1. ابن ابی عاصم، السنه : 602، رقم : 1354
2. طبراني، المعجم الکبير، 4 : 173، رقم : 4052
3. طبراني، المعجم الاوسط، 1 : 229، رقم : 348
حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث مندرجہ ذیل کتب میں روایت کی گئی ہے :
1. نسائي، خصائص امير المؤمنين علي بن ابي طالب رضي الله عنه : 88، رقم : 80
2. ابن ابي عاصم، السنه : 602، 605، رقم : 1358، 1375
3. ضياء مقدسي، الاحاديث المختاره، 3 : 139، رقم : 937
4. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 20 : 114
یہ حدیث حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مندرجہ ذیل کتب میں روایت کی گئی ہے :
1. عبدالرزاق، المصنف، 11 : 225، رقم : 20388
2. طبراني، المعجم الصغير، 1 : 71
3. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 143
4۔ ابن عساکر نے ’تاریخ دمشق الکبیر (45 : 143)‘ میں حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث ذرا مختلف الفاظ کے ساتھ بھی روایت کی ہے۔
یہ حدیث ابن بریدہ رضی اللہ عنہ سے مندرجہ ذیل کتب میں منقول ہے :
1. ابن ابي عاصم، السنه : 601، رقم : 1353
2. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 146
3. ابن کثير، البدايه و النهايه، 5 : 457
4. حسام الدين هندي، کنز العمال، 11 : 602، رقم : 32904
یہ حدیث حُبشیٰ بن جنادہ رضی اللہ عنہ سے اِن کتب میں مروی ہے :
1. ابن ابی عاصم، السنه : 602، رقم : 1359
2. حسام الدبن هندی، کنزالعمال، 11 : 608، رقم : 32946
یہ حدیث حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے اِن کتب میں مروی ہے :
1. طبرانی، المعجم الکبير، 19 : 252، رقم : 646
2. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 177
3. هيثمی، مجمع الزوائد، 9 : 106
طبرانی نے یہ حدیث ’المعجم الکبیر (3 : 179، رقم : 3049)‘ میں حذیفہ بن اُسید غفاری رضی اللہ عنہ سے بھی نقل کی ہے۔
ابن عساکر نے ’تاریخ دمشق الکبیر (45 : 176، 177، 178)‘ میں یہ حدیث حضرت ابوہریرہ، حضرت عمر بن خطاب، حضرت انس بن مالک اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھم سے بالترتیب روایت کی ہے۔
ابن عساکر نے یہ حدیث حسن بن حسن رضی اللہ عنہما سے بھی ’تاریخ دمشق الکبیر (15 : 60، 61)‘ میں روایت کی ہے۔
ابن اثیر نے ’اسد الغابہ (3 : 412)‘ میں عبداللہ بن یامیل سے یہ روایت نقل کی ہے۔
ہیثمی نے ’موارد الظمآن (ص : 544، رقم : 2204)‘ میں ابوبردہ رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث بیان کی ہے۔
ابن حجر عسقلانی نے ’فتح الباری (7 : 74)‘ میں کہا ہے : ’’ترمذی اور نسائی نے یہ حدیث روایت کی ہے اور اس کی اسانید کثیر ہیں۔‘‘
البانی نے ’سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ (4 : 331، رقم : 1750)‘ میں اس حدیث کوامام بخاری اور امام مسلم کی شرائط کے مطابق صحیح قرار دیا ہے۔
حدیث نمبر : 2
عن عمران بن حصين رضي الله عنه، قال، قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ما تريدون مِن علي؟ ما تريدون مِن علي؟ ما تريدون مِن علي؟ إنّ علياً مِني و أنا منه، و هو ولي کل مؤمن من بعدي.
عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’تم لوگ علی کے متعلق کیا چاہتے ہو؟ تم لوگ علی کے متعلق کیا چاہتے ہو؟ تم لوگ علی کے متعلق کیا چاہتے ہو؟‘‘ پھر فرمایا : ’’بیشک علی مجھ سے ہے اور میں علی سے ہوں اور وہ میرے بعد ہر مؤمن کا ولی ہے‘‘۔
1. ترمذي، الجامع الصحيح، 6 : 78، ابواب المناقب، رقم : 3712
2. نسائي، خصائص امير المؤمنين علي بن ابي طالب رضي الله عنه : 77، 92، رقم : 65، 86
3. نسائي، السنن الکبریٰ، 5 : 132، رقم : 8484
4۔ احمد بن حنبل کی ’المسند (4 : 437، 438)‘ میں بیان کردہ روایت کے آخری الفاظ یہ ہیں : و قد تغیر وجہہ، فقال : دعوا علیا، دعوا علیا، ان علی منی و انا منہ، وھو ولی کل مؤمن بعدی (اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرۂ مبارک متغیر ہو گیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : علی (کی مخالفت کرنا) چھوڑ دو، علی (کی مخالفت کرنا) چھوڑ دو، بیشک علی مجھ سے ہے اور میں علی سے ہوں اور وہ میرے بعد ہر مومن کا ولی ہے)۔
5۔ ابن کثیر نے امام احمد کی روایت ’البدایہ والنہایہ (5 : 458)‘ میں نقل کی ہے۔
6. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 2 : 620، رقم : 1060
7. ابن ابي شيبه، المصنف، 12 : 80، رقم : 12170
8۔ حاکم نے ’المستدرک (3 : 110، 111، رقم : 4579)‘ میں اس روایت کو مسلم کی شرائط کے مطابق صحیح قرار دیا ہے، جبکہ ذہبی نے اس پر خاموشی اختیار کی ہے۔
9۔ ابن حبان نے ’الصحیح (15 : 373، 374، رقم : 6929)‘ میں یہ حدیث قوی سند سے روایت کی ہے۔
10۔ ابو یعلی نے ’المسند (1 : 293، رقم : 355)‘ میں اسے روایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کے رجال صحیح ہیں، جبکہ ابن حبان نے بھی اسے صحیح قرار دیا ہے۔
11۔ طیالسی کی ’المسند (ص : 111، رقم : 829)‘ میں بیان کردہ روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ما لھم و لعلیّ (اُنہیں علی کے بارے میں اِتنی تشویش کیوں ہے)؟
12. ابو نعيم، حلية الاولياء و طبقات الاصفياء، 6 : 294
13. محب طبري، الرياض النضره في مناقب العشره، 3 : 129
14. هيثمي، موارد الظمآن، 543، رقم : 2203
15. حسام الدين هندي، کنزالعمال، 13 : 142، رقم : 36444
نسائی کی بیان کردہ دونوں روایات کی اسناد صحیح ہیں۔
حدیث نمبر : 3
عن سعد بن أبي وقاص، قال : سمعتُ رسولَ اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول : مَن کنتُ مولاه فعلیّ مولاه، و سمعتُه يقول : أنت مني بمنزلة هارون من موسي، إلا أنه لا نبي بعدي، و سمعتُه يقول : لأعطينّ الرأية اليوم رجلا يحب اﷲ و رسوله.
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : ’’جس کا میں ولی ہوں اُس کا علی ولی ہے۔‘‘ اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو (حضرت علی رضی اللہ عنہ کو) یہ فرماتے ہوئے سنا : ’’تم میری جگہ پر اسی طرح ہو جیسے ہارون، موسیٰ کی جگہ پر تھے، مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں۔‘‘ اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو (غزوۂ خیبر کے موقع پر) یہ بھی فرماتے ہوئے سنا : ’’میں آج اس شخص کو علم عطا کروں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے۔‘‘
1۔ ابن ماجہ نے يہ صحيح حديث ’السنن (1 : 90، المقدمہ، رقم : 121)‘ ميں روايت کي ہے۔
2۔ نسائي نے يہ حديث ’خصائص اميرالمؤمنين علي بن ابي طالب رضي اللہ عنہ (ص : 32، 33، رقم : 91)‘ میں ذرا مختلف الفاظ کے ساتھ نقل کی ہے۔
3. ابن ابي عاصم، کتاب السنه : 608، رقم : 1386
4. مزي، تحفة الاشراف بمعرفة الأطراف، 3 : 302، رقم : 3901
حديث نمبر : 4
4. عن البراء بن عازب، قال : أقبلنا مع رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم في حجته التي حج، فنزل في بعض الطريق، فأمر الصلاة جامعة، فأخذ بيد علي رضي الله عنه، فقال : ألستُ أولي بالمؤمنين من أنفسهم؟ قالوا : بلي، قال : ألستُ أولي بکل مؤمن من نفسه؟ قالوا : بلي، قال : فهذا ولي من أنا مولاه، اللهم! والِ من والاه، اللهم! عاد من عاداه.
براء بن عازب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ حج ادا کیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے راستے میں ایک جگہ قیام فرمایا اور نماز باجماعت (قائم کرنے) کا حکم دیا، اس کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : ’’کیا میں مؤمنین کی جانوں سے قریب تر نہیں ہوں؟‘‘ اُنہوں نے جواب دیا : کیوں نہیں! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’کیا میں ہر مومن کی جان سے قریب تر نہیں ہوں؟‘‘ انہوں نے جواب دیا : کیوں نہیں! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’پس یہ اُس کا ولی ہے جس کا میں مولا ہوں۔ اے اللہ! جو اسے دوست رکھے اُسے تو دوست رکھ (اور) جو اس سے عداوت رکھے اُس سے تو عداوت رکھ۔‘‘
1. ابن ماجه، السنن، 1 : 88، المقدمه، رقم : 116
2۔ ابن ابی عاصم نے ’کتاب السنہ (ص : 603، رقم : 1362)‘ میں مختصراً ذکر کی ہے۔
3. ابن کثير، البدايه والنهايه، 4 : 168
4. حسام الدين هندي، کنزالعمال، 11 : 602، رقم : 32904
5. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 167، 168
يہ حدیث صحیح ہے۔
حدیث نمبر : 5
عن البراء بن عازب رضي الله عنه، قال : کنا مع رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم في سفر، فنزلنا بغدير خم فنودي فينا الصلاة جامعة و کسح لرسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم تحت شجرتين فصلي الظهر و أخذ بيد علیّ، فقال : ألستم تعلمون أني أولي بالمؤمنين من أنفسهم؟ قالوا : بلي، قال : ألستم تعلمون أني أولي بکل مؤمن من نفسه؟ قالوا : بلي، قال : فأخذ بيد علیّ، فقال : من کنتُ مولاه فعلیّ مولاه، اللّٰهم! والِ من والاه و عادِ من عاداه. قال : فلقيه عمر رضی الله عنه بعد ذٰلک، فقال له : هنيئاً يا ابن أبي طالب! أصبحتَ و أمسيتَ مولي کل مؤمنٍ و مُؤمنة.
براء بن عازب سے روایت ہے ہم رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سفر پر تھے، (راستے میں) ہم نے غدیر خم میں قیام کیا۔ وہاں ندا دی گئی کہ نماز کھڑی ہو گئی ہے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے دو درختوں کے نیچے صفائی کی گئی، پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نمازِ ظہر ادا کی اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : ’’کیا تمہیں معلوم نہیں کہ میں مومنوں کی جانوں سے بھی قریب تر ہوں؟‘‘ انہوں نے کہا : کیوں نہیں! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’کیا تمہیں معلوم نہیں کہ میں ہر مومن کی جان سے بھی قریب تر ہوں؟‘‘ انہوں نے کہا : کیوں نہیں! راوی کہتا ہے کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے۔ اے اللہ! اُسے تو دوست رکھ جو اِسے (علی کو) دوست رکھے اور اُس سے عداوت رکھ جو اِس سے عداوت رکھے۔‘‘ راوی کہتا ہے کہ اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ملاقات کی اور اُن سے کہا : ’’اے ابن ابی طالب! مبارک ہو، آپ صبح و شام (یعنی ہمیشہ کے لئے) ہر مومن و مومنہ کے مولا بن گئے۔‘‘
1۔ احمد بن حنبل نے ’المسند (4 : 281)‘ ميں حضرت براء بن عازب رضي اللہ عنہ سے يہ حديث دو مختلف اسناد سے بيان کي ہے۔
2. ابن ابي شيبه، المصنف، 12 : 78، رقم : 12167
3. محب طبري، ذخائر العقبي في مناقب ذوي القربي : 125
4. محب طبري، الرياض النضره في مناقب العشره، 3 : 126، 127
5۔ مناوی نے ’فیض القدیر (6 : 217)‘ میں لکھا ہے کہ جب حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قول ’من کنت مولاہ فعلیّ مولاہ‘ سنا تو (حضرت علی رضی اللہ عنہ سے) کہا : ’’اے ابوطالب کے بیٹے! آپ صبح و شام (یعنی ہمیشہ کے لئے) ہر مؤمن اور مؤمنہ کے مولا قرار پائے۔‘‘
6. حسام الدين هندي، کنز العمال، 13 : 133، 134، رقم : 36420
7. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 167، 168
8۔ امام احمد بن حنبل نے اپنی کتاب ’فضائل الصحابہ (2 : 610، رقم : 1042)‘ میں سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ والی حدیث میں ان الفاظ کا اضافہ کیا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : و عاد من عاداہ و انصر من نصرہ، و احب من احبہ۔ قال شعبۃ : او قال : و ابغض من ابغضہ ( (اے اللہ!) جو (علی) سے عداوت رکھے اُس سے تو عداوت رکھ جو (علی) کی مدد کرے اُس کی تو مدد فرما، جو اِس سے محبت کرے تو اس سے محبت کر۔ شعبہ کا کہنا ہے کہ اِس کی جگہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو (علی) سے بغض رکھے تو (بھی) اُس سے بغض رکھ)۔
9. ابن اثير، اسد الغابه، 4 : 103
10۔ ذہبی نے ’سیر اعلام النبلاء (2 : 623، 624)‘ میں کہا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ’ھنیئاً لک یا علیّ‘ (اے علی! آپ کو مبارک ہو)‘ کے الفاظ کہے۔
11. ابن کثير، البدايه والنهايه، 4 : 169
12. ابن کثير، البدايه والنهايه، 5 : 464
حدیث نمبر : 6
عن ابن بريدة عن أبيه، قال : قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : مَن کنتُ وليه فعلیّ وليه.
حضرت ابن بریدہ رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس کا میں ولی ہوں، اُس کا علی ولی ہے۔‘‘
1. احمد بن حنبل، المسند، 5 : 361
2. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 2 : 563، رقم : 947
3. ابن ابي عاصم، کتاب السنه : 601، 603، رقم : 1351، 1366
4. حاکم، المستدرک، 2 : 131، رقم : 2589
5. ابن ابي شيبه، المصنف، 12 : 57، رقم : 12114
6. طبراني، المعجم الکبير، 5 : 166، رقم : 4968
7. طبراني، المعجم الاوسط، 3 : 100، 101، رقم : 2204
8. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 108
9. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 143
10۔ ابن عساکر نے یہ حدیث ’تاریخ دمشق الکبیر (45 : 142)‘ میں سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہما سے بھی روایت کی ہے۔
11. حسام الدين هندي، کنز العمال، 11 : 602، رقم : 32905
12۔ یہی حدیث ذرا مختلف الفاظ کے ساتھ حسام الدین ہندی نے ’کنز العمال (15 : 168، 169، رقم : 36511)‘ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے نقل کی ہے اور کہا ہے کہ اسے ابن راہویہ اور ابن جریر نے روایت کیا ہے۔
حدیث نمبر : 7
عن زيد بن أرقم رضی الله عنه قال : لمّا رجع رسولُ اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم مِن حجة الوداع و نزل غدير خم، أمر بدوحات، فقمن، فقال : کأنّي قد دعيتُ فأجبتُ، إني قد ترکتُ فيکم الثقلين، أحدهما أکبر من الآخر : کتاب اﷲ تعالٰي، و عترتي، فانظروا کيف تخلفوني فيهما، فإنّهما لن يتفرقا حتي يردا علي الحوض. ثم قال : إن اﷲ عزوجل مولاي و أنا مولي کلِ مؤمن. ثم أخذ بيد علیّ، فقال : مَن کنتُ مولاه فهذا وليه، اللّٰهم! والِ من والاه و عادِ من عاداه.
زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حجۃ الوداع سے واپس تشریف لائے تو غدیر خم پر قیام فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سائبان لگانے کا حکم دیا اور وہ لگا دیئے گئے پھر فرمایا : ’’مجھے لگتا ہے کہ عنقریب مجھے (وصال کا) بلاوا آنے کو ہے، جسے میں قبول کر لوں گا۔ تحقیق میں تمہارے درمیان دو اہم چیزیں چھوڑ کر جارہا ہوں، جو ایک دوسرے سے بڑھ کر اہمیت کی حامل ہیں : ایک اللہ کی کتاب اور دوسری میری آل۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ میرے بعد تم ان دونوں کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہو اور وہ ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گی، یہاں تک کہ حوضِ (کوثر) پر میرے سامنے آئیں گی۔‘‘ پھر فرمایا : ’’بے شک اللہ میرا مولا ہے اور میں ہر مؤمن کا مولا ہوں۔‘‘ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں، اُس کا یہ ولی ہے، اے اللہ! جو اِسے (علی کو) دوست رکھے اُسے تو دوست رکھ اور جو اِس سے عداوت رکھے اُس سے تو عداوت رکھ۔‘‘
1. حاکم، المستدرک، 3 : 109، رقم : 4576
2. نسائي، السنن الکبري، 5 : 45، 130، رقم : 8148، 8464
3۔ ابن ابی عاصم نے ’السنہ (ص : 644، رقم : 1555)‘ میں اسے مختصراً ذکر کیا ہے۔
4. طبراني، المعجم الکبير، 5 : 166، رقم : 4969
5۔ نسائی نے ’خصائص امیر المؤمنین علی بن ابی طالب (ص : 84، 85، رقم : 76)‘ میں یہ حدیث صحیح سند کے ساتھ روایت کی ہے۔
6۔ ابومحاسن نے ’المعتصر من المختصر من مشکل الآثار (2 : 301)‘ میں نقل کی ہے۔
حدیث نمبر : 8
عن ابن واثلة أنه سمع زيد بن أرقم، يقول : نزل رسولُ اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم بين مکة و المدينة عند شجرات خمس دوحات عظام، فکنس الناسُ ما تحت الشجرات، ثم راح رسولُ اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم عيشة، فصلي، ثم قام خطيباً فحمد اﷲ و أثني عليه و ذکر و وعظ، فقال ما شاء اﷲ أن يقول : ثم قال : أيها الناس! إني تارکٌ فيکم أمرين، لن تضلوا إن اتبعتموهما، و هما کتابَ اﷲ و أهلَ بيتي عترتي، ثم قال : أتعلمون إني أولي بالمؤمنين مِن أنفسهم؟ ثلاث مرّاتٍ، قالوا : نعم، فقال رسولُ اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : مَن کنتُ مولاه فعلیّ مولاه.
ابن واثلہ سے روایت کہ اُنہوں نے زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے سنا کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ اور مدینہ کے درمیان پانچ بڑے گھنے درختوں کے قریب پڑاؤ کیا اور لوگوں نے درختوں کے نیچے صفائی کی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کچھ دیر آرام فرمایا۔ نماز ادا فرمائی، پھر خطاب فرمانے کیلئے کھڑے ہوئے۔ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان فرمائی اور وعظ و نصیحت فرمائی، پھر جو اللہ تعالیٰ نے چاہا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیان کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’اے لوگو! میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں، جب تک تم ان کی پیروی کرو گے کبھی گمراہ نہیں ہوگے اور وہ (دو چیزیں) اللہ کی کتاب اور میرے اہلِ بیت / اولاد ہیں۔‘‘ اس کے بعد فرمایا : ’’کیا تمہیں علم نہیں کہ میں مؤمنین کی جانوں سے قریب تر ہوں؟‘‘ ایسا تین مرتبہ فرمایا۔ سب نے کہا : ہاں! پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے۔‘‘
1. حاکم، المستدرک، 3 : 109، 110، رقم : 4577
2. ابن کثير، البدايه والنهايه، 4 : 168
3. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 164
4. حسام الدين هندي، کنز العمال، 1 : 381، رقم : 1657
حدیث نمبر : 9
عن زيد بن أرقم رضي الله عنه، قال : خرجنا مع رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم حتي انتهينا إلي غدير خم، فأمر بروحٍ فکسح في يوم ما أتي علينا يوم کان أشدّ حراً منه، فحمد اﷲ و أثني عليه، و قال : يا أيها الناس! أنّه لم يبعث نبیٌ قط إلا ما عاش نصف ما عاش الذي کان قبله و إني أوشک أن أدعي فأجيب، و إني تارک فيکم ما لن تضلوا بعده کتاب اﷲ عزوجل. ثم قام و أخذ بيد علي رضي الله عنه، فقال : يا أيها الناس! مَن أولي بکم من أنفسکم؟ قالوا : اﷲ و رسوله أعلم، ألستُ أولي بکم من أنفسکم؟ قالوا : بلي، قال : مَن کنتُ مولاه فعلیّ مولاه.
زید بن ارقم رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نکلے یہاں تک کہ غدیر خم پہنچ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سائبان لگانے کا حکم دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس دن تھکاوٹ محسوس کر رہے تھے اور وہ دن بہت گرم تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی اور فرمایا : ’’اے لوگو! اللہ تعالیٰ نے جتنے نبی بھیجے ہر نبی نے اپنے سے پہلے نبی سے نصف زندگی پائی، اور مجھے لگتا ہے کہ عنقریب مجھے (وصال کا) بلاوا آنے کو ہے جسے میں قبول کر لوں گا۔ میں تمہارے اندر وہ چیز چھوڑے جا رہا ہوں کہ اُس کے ہوتے ہوئے تم ہرگز گمراہ نہیں ہو گے، وہ کتاب اﷲ ہے۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہوئے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ تھام لیا اور فرمایا : ’’اے لوگو! کون ہے جو تمہاری جانوں سے زیادہ قریب ہے؟‘‘ سب نے کہا : اللہ اور اُس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہتر جانتے ہیں۔ (پھر) فرمایا : ’’کیا میں تمہاری جانوں سے قریب تر نہیں ہوں؟‘‘ اُنہوں نے کہا : کیوں نہیں! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے۔‘‘
1. حاکم، المستدرک، 3 : 533، رقم : 6272
2. طبراني، المعجم الکبير، 5 : 171، 172، رقم : 4986
3. حسام الدين هندي، کنزالعمال، 11 : 602، رقم : 32904
یہ حدیث شیخین کی شرط پر صحیح ہے اور اِمام ذہبی نے بھی اسے صحیح قرار دیا ہے۔
حدیث نمبر : 10
عن سعد بن أبي وقاص رضي الله عنه، قال : لقد سمعتُ رسولَ اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول في علیّ ثلاث خصال، لأن يکون لي واحدة منهن أحبّ إلیّ من حمر النعم. سمعتُه يقول : إنه بمنزلة هارون من موسي، إلا أنه لا نبي بعدي، و سمعته يقول : لأ عطينّ الرأية غداً رجلاً يحبّ اﷲ و رسوله، و يحبّه اﷲ و رسوله و سمعتُه يقول : مَن کنتُ مولاه، فعلیّ مولاه.
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تین خصلتیں ایسی بتائی ہیں کہ اگر میں اُن میں سے ایک کا بھی حامل ہوتا تو وہ مجھے سُرخ اُونٹوں سے زیادہ محبوب ہوتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (ایک موقع پر) ارشاد فرمایا : ’’علی میری جگہ پر اسی طرح ہیں جیسے ہارون موسیٰ کی جگہ پر تھے، مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں۔‘‘ اور فرمایا : ’’میں آج اس شخص کو علم عطا کروں گا جو اللہ اور اُس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس کا رسول اس سے محبت کرتے ہیں۔‘‘ (راوی کہتے ہیں کہ) میں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو (اس موقع پر) یہ فرماتے ہوئے بھی سنا : ’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے۔‘‘
1. نسائي، خصائص امير المومنين علي بن ابي طالب رضي الله عنه : 33، 34، 88، رقم : 10، 80
2۔ شاشی نے ’المسند (1 : 165، 166، رقم : 106)‘ میں یہ روایت عامر بن سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے لی ہے۔
3۔ ابن عساکر نے ’تاریخ دمشق الکبیر (45 : 88)‘ میں عامر بن سعد اور سعد بن ابی وقاص رضی اﷲ عنہما سے مروی احادیث بیان کی ہیں۔
4۔ حسام الدین ہندی نے ’کنز العمال (15 : 163، رقم : 36496)‘ میں عامر بن سعد رضی اللہ عنہ سے یہ روایت چند الفاظ کے اضافے کے ساتھ ذکر کی۔
اِس حدیث کی اسناد صحیح ہیں۔
حدیث نمبر : 11
أخرج سفيان بن عيينة عن سعد بن أبي وقاص (في مناقب علیّ) رضي الله عنهم، إن له لمناقب أربع : لأن يکون لي واحدة منهن أحب إلیّ مِن کذا و کذا، ذکر حمر النعم قولها : لأعطينّ الراية، و قولها : بمنزلة هارون من موسیٰ، و قولها : من کنتُ مولاه، و نسي سفيان الرابعة.
سفیان بن عیینہ (مناقبِ علی رضی اللہ عنہ کے ضمن میں) سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی چار خوبیاں ایسی ہیں کہ اگر میں ان میں سے کسی ایک کا بھی حامل ہوتا تو اسے فلاں فلاں چیز حتی کہ سرخ اُونٹوں سے زیادہ محبوب رکھتا۔ وہ چار خوبیاں یہ تھیں : (پہلی خوبی اُنہیں غزوۂ خیبر کے موقع پر) جھنڈے کا عطا ہونا ہے۔ (دُوسری خوبی) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اُن کے متعلق یہ فرمانا کہ (تیرا اور میرا تعلق ایسے ہے) جیسے ہارون اور موسیٰ کا (تعلق ہے)۔ (تیسری خوبی) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اُن کے متعلق یہ فرمانا کہ جس کا میں مولا ہوں (اُس کا علی مولا ہے)۔ (راویء حدیث) سفیان بن عیینہ کو چوتھی خوبی بھول گئی۔
1. ابن ابي عاصم، کتاب السنه : 607، رقم : 1385
2. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 2 : 643، رقم : 1093
3. ضياء مقدسي، الاحاديث المختاره، 3 : 151، رقم : 948
4۔ ابن عساکر نے ’تاریخ دمشق الکبیر (45 : 89۔ 91)‘ میں حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں چاروں خوبیاں بالتفصیل لکھی ہیں۔
احمد بن حنبل کی بیان کردہ روایت کی اِسناد حسن ہیں۔
حدیث نمبر : 12
عن عبد الرحمن بن سابط (في مناقب علیّ)، قال : قال سعد : سمعتُ رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول في علیّ ثلاث خصال، لأن يکون لي واحدة منهنّ أحب إلیّ مِن الدنیا و ما فیها، سمعتُ رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول : مَن کنتُ مولاه، و أنت منّي بمنزلة هارون مِن موسیٰ، و لأعطينّ الرأية.
عبدالرحمن بن سابط (مناقبِ علی کے ضمن میں) روایت کرتے ہیں کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے کہا : میں نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تین ایسی خصلتیں بیان فرماتے ہوئے سنا کہ اگر اُن میں سے ایک بھی مجھے عطا ہو تو وہ مجھے دنیا و مافیہا سے زیادہ محبوب ہوتی۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں (اُس کا علی مولا ہے)، اور علی میری جگہ ایسا ہے جیسے موسیٰ کی جگہ ہارون، اور میں اُسے علم عطا کروں گا (جو اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حبیب ہے اور اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُس کے حبیب ہیں)۔‘‘
1. ابن ابي عاصم، کتاب السنه : 608، رقم : 1386
2. ابن ابي شيبه، المصنف، 12 : 61، رقم : 12127
3. ضياء مقدسي، الاحاديث المختاره، 3 : 207، رقم : 1008
4. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 88، 89
ضیاء مقدسی نے اس حدیث کی سند کو صحیح قرار دیا ہے۔
حدیث نمبر : 13
عن رفاعة بن إياس الضبي، عن أبيه، عن جده، قال : کنّا مع علیّ رضي الله عنه يوم الجمل، فبعث إلي طلحة بن عبيد اﷲ أن القني، فأتاه طلحة، فقال : نشدک اﷲ، هل سمعتَ رسولَ اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول : مَن کنتُ مولاه فعلیّ مولاه، اللّٰهم والِ من والاه و عادِ من عاداه؟ قال : نعم، قال : فَلِمَ تقاتلنی؟ قال : لم أذکرْ، قال : فانصرف طلحةُ.
رفاعہ بن ایاس ضبی اپنے والد سے اور وہ اس کے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ ہم جمل کے دن حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے طلحہ بن عبید اللہ رضی اﷲ عنہما کی طرف ملاقات کا پیغام بھیجا۔ پس طلحہ اُن کے پاس آئے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے کہا : ’’میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں، کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے، اے اللہ! جو علی کو دوست رکھے تو اُسے دوست رکھ، جواُس سے عداوت رکھے تو اُس سے عداوت رکھ؟‘‘ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا : ہاں! حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا : ’’تو پھر میرے ساتھ کیوں جنگ کرتے ہو؟‘‘ طلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا : مجھے یہ بات یاد نہیں تھی۔ راوی نے کہا : (اُس کے بعد) طلحہ رضی اللہ عنہ واپس لوٹ گئے۔
1. حاکم، المستدرک، 3 : 371، رقم : 5594
2. بيهقي، الاعتقاد : 373
3. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 27 : 76
4۔ ہیثمی نے ’مجمع الزوائد (9 : 107)‘ میں لکھا ہے کہ یہ حدیث بزار نے نذیر سے روایت کی ہے۔
5۔ حسام الدین ہندي، کنز العمال، 11 : 332، رقم : 31662
حدیث نمبر : 14
عن بريدة، قال : غزوتُ مع علیّ اليمن فرأيتُ منه جفوة، فلما قدمتُ علي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ذکرتُ عليا، فتنقصته، فرأيتُ وجه رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يتغيّر، فقال : يا بريدة! ألستُ أولي بالمؤمنين مِن أنفسهم؟ قلتُ : بلي، يا رسولَ اﷲ! قال : مَن کنتُ مولاه فعلیّ مولاه.
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ یمن کے غزوہ میں شرکت کی جس میں مجھے آپ سے کچھ شکوہ ہوا۔ جب میں رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس (جنگ سے) واپس آیا تو میں نے اس وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ذکر نامناسب انداز سے کیا۔ میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرۂ مبارک متغیر ہو گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’اے بریدہ! کیا میں مومنین کی جانوں سے قریب تر نہیں ہوں؟‘‘ تو میں نے کہا : کیوں نہیں، یا رسول اﷲ! اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے۔‘‘
1. احمد بن حنبل، المسند، 5 : 347
2. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 2 : 584، 585، رقم : 989
3. نسائي، السنن الکبریٰ، 5 : 130، رقم : 8465
4. نسائي، خصائص امير المؤمنين علي بن ابي طالب رضي الله عنه : 86، رقم : 78
5. حاکم، المستدرک، 3 : 110، رقم : 4578
6. ابن ابي شيبه، المصنف، 12 : 84، رقم : 12181
7. ابن ابي عاصم، الآحاد والمثاني، 4 : 325، 326
8. شاشي، المسند، 1 : 127
9. طبراني، المعجم الاوسط، 1 : 229، رقم : 348
10. مبارکپوري، تحفة الاحوذي، 10 : 147
11. ابو نعيم، حلية الاولياء و طبقات الاصفياء، 4 : 23
12. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 142، 146. 148
13. محب طبري، الرياض النضره في مناقب العشره، 3 : 128
14۔ ابن کثیر نے ’البدایہ والنہایہ (4 : 168؛ 5 : 457)‘ میں کہا ہے کہ نسائی کی بیان کردہ روایت کی اسناد جید قوی ہیں اور اس کے تمام رجال ثقہ ہیں۔
15. حسام الدين هندي، کنز العمال، 13 : 134، رقم : 36422
حدیث نمبر : 15
عن ميمون أبي عبد اﷲ، قال : قال زيد بن أرقم رضی الله عنه و أنا أسمع : نزلنا مع رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم بواد يقال له وادي خم، فأمر بالصلاة، فصلاها بهجير، قال : فخطبنا و ظلل لرسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم بثوب علي شجرة سمرة من الشمس، فقال : ألستم تعلمون أو لستم تشهدون أني أولٰي بکل مؤمن من نفسه؟ قالوا : بلي، قال : فمن کنتُ مولاه فإن عليا مولاه، اللّٰهم! عادِ من عاداه و والِ من والاه.
حضرت میمون ابو عبد اﷲ بیان کرتے ہیں کہ میں نے زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا : ہم رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ایک وادی۔ ۔ ۔ جسے وادئ خم کہا جاتا تھا۔ ۔ ۔ میں اُترے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز کا حکم دیا اور سخت گرمی میں جماعت کروائی۔ پھر ہمیں خطبہ دیا درآنحالیکہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سورج کی گرمی سے بچانے کے لئے درخت پر کپڑا لٹکا کر سایہ کیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’کیا تم نہیں جانتے یا (اس بات کی) گواہی نہیں دیتے کہ میں ہر مؤمن کی جان سے قریب تر ہوں؟‘‘ لوگوں نے کہا : کیوں نہیں! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’پس جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے، اے اللہ ! تو اُس سے عداوت رکھ جو اِس سے عداوت رکھے اور اُسے دوست رکھ جواِسے دوست رکھے۔
1. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 372
2. بيهقي، السنن الکبریٰ، 5 : 131
3۔ طبرانی نے یہ حدیث ’المعجم الکبیر (5 : 195، رقم : 5068)‘ میں ایک اور سند سے روایت کی ہے۔
4. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 104
5. حسام الدين هندي، کنز العمال، 13 : 157، رقم : 36485
6. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 166
7۔ ابن کثیر نے ’البدایہ و النہایہ، (4 : 172)‘ میں اِس روایت کی سند کو جید اور رِجال کو ثقہ قرار دیا ہے۔
حدیث نمبر : 16
عن عطية العوفي، قال : سألت زيد بن أرقم، فقلتُ له : أنّ ختناً لي حدثني عنک بحديث في شأن علي رضي الله عنه يوم غدير خم، فأنا أحب أن أسمعه منک، فقال : إنکم معشر أهل العراق فيکم ما فيکم، فقلت له : ليس عليک مني بأس، فقال : نعم، کنا بالجحفة، فخرج رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم إلينا ظهراً و هو أخذ بعضدِ علي رضي الله عنه فقال : يا أيها الناس! ألستم تعلمون أني أولي بالمؤمنين من أنفسم؟ قالوا : بلٰي، قال : فمن کنتُ مولاه فعلي مولاه، قال : فقلتُ له : هل قال : اللهم! وال من والاه و عاد من عاداه؟ فقال : إنما أخبرک کما سمعتُ.
عطیہ عوفی سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے زید بن ارقم سے پوچھا : میرا ایک داماد ہے جو غدیر خم کے دن حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان میں آپ کی روایت سے حدیث بیان کرتا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ اسے آپ سے (براہِ راست) سنوں۔ زید بن ارقم نے کہا : آپ اہلِ عراق ہیں تمہاری عادتیں تمہیں سلامت رہیں۔ پس میں نے کہا کہ میری طرف سے تمہیں کوئی اذیت نہیں پہنچے گی۔ (اس پر) انہوں نے کہا : ہم جحفہ کے مقام پر تھے کہ ظہر کے وقت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت علی رضی اللہ عنہ کا بازو تھامے ہوئے باہر تشریف لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’اے لوگو! کیا تمہیں علم نہیں کہ میں مؤمنین کی جانوں سے بھی قریب تر ہوں؟‘‘ تو انہوں نے کہا : کیوں نہیں! تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں اس کا علی مولا ہے۔‘‘ عطیہ نے کہا : میں نے مزید پوچھا : کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا : ’’اے اللہ! جو علی کو دوست رکھے اُسے تو دوست رکھ اور جو اِس (علی) سے عداوت رکھے اُس سے تو عداوت رکھ؟‘‘ زید بن ارقم نے کہا : میں نے جو کچھ سنا تھا وہ تمہیں بیان کر دیا ہے۔
1. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 368
2. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 2 : 586، رقم : 992
3۔ نسائی نے یہ حدیث حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے ’خصائص امیر المومنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ (ص : 97، رقم : 92)‘ میں الفاظ کے معمولی اختلاف کے ساتھ روایت کی ہے۔ اس کے بارے میں ہیثمی نے ’مجمع الزوائد (9 : 107)‘ میں کہا ہے کہ اسے بزار نے روایت کیا ہے اور اس کے رجال ثقہ ہیں۔
4. طبراني، المعجم الکبير، 5 : 195، رقم : 5070
5. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 165
6. حسام الدين هندي، کنز العمال، 13 : 105، رقم : 36343
7۔ میمون ابو عبد اﷲ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے یہ حدیث مبارکہ بیان کی۔ حسام الدین ہندی نے یہ حدیث ’کنزالعمال (13 : 104، 105، رقم : 36342)‘ میں بیان کی ہے۔
حدیث نمبر : 17
عن جابر بن عبد اﷲ رضي اﷲ عنهما قال : کنا بالجحفة بغدير خم إذ خرج علينا رسول اﷲا، فأخذ بيد علي رضي الله عنه فقال : من کنت مولاه فعلیّ مولاه.
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اﷲ عنھما سے روایت ہے کہ ہم حجفہ میں غدیر خم کے مقام پر تھے، جب رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باہر تشریف لائے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : ’’ جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے۔‘‘
1. ابن ابي شيبه، المصنف، 12 : 59، رقم : 12121
2. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 169، 170، 172
3۔ ذہبی نے ’سیر اعلام النبلاء (7 : 570، 571)‘ میں اسے عبداﷲ بن محمد بن عاقل سے روایت کرتے ہوئے متن حدیث کو متواتر قرار دیا ہے۔ روایت میں ہے کہ علی بن حسین، محمد بن حنیفہ، ابوجعفر اور عبداﷲ بن محمد بن عاقل رضی اللہ عنھم حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے گھر پر تھے۔
4۔ ابن کثیر نے ’البدایہ والنہایہ (4 : 173)‘ میں لکھا ہے کہ ہمارے شیخ ذہبی نے اِس روایت کو حسن قرار دیا ہے۔
5. حسام الدين هندي، کنزالعمال، 13 : 137، رقم : 32433
حدیث نمبر : 18
عن علي رضي الله عنه، أن النبيا قام بحفرة الشجرة بخم، و هو آخذ بيد علي رضي الله عنه فقال : أيها الناس! ألستم تشهدون أن اﷲ ربکم؟ قالوا : بلی، قال : ألستم تشهدون أن اﷲ و رسوله أولي بکم من أنفسکم. قالوا : بلي، و أن اﷲ و رسوله مولاکم؟ قالوا : بلي، قال : فمن کنتُ مولاه فإن هذا مولاه.
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مقامِ خم پر ایک درخت کے نیچے کھڑے ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کاہاتھ پکڑا ہوا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’اے لوگو! کیا تم گواہی نہیں دیتے کہ اللہ تمہارا رب ہے؟‘‘ اُنہوں نے کہا : کیوں نہیں! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’کیا تم گواہی نہیں دیتے کہ اللہ اور اس کا رسول تمہاری جانوں سے بھی قریب تر ہیں؟‘‘ اُنہوں نے کہا : کیوں نہیں! پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا یہ (علی) مولا ہے۔‘‘
1. ابن ابي عاصم، کتاب السنه : 603، رقم : 1360
2. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 161، 162
3۔ حسام الدین ہندی نے یہ حدیث ’کنزالعمال (13 : 140، رقم : 36441)‘ میں نقل کی ہے اور کہا ہے کہ اسے ابن راہویہ، ابن جریر، ابن ابی عاصم اور محاملی نے ’امالی‘ میں روایت کیا ہے اور اسے صحیح قرار دیا ہے۔
حدیث نمبر : 19
عن حذيفة بن أسيد الغفاري . . . فقال : يا أيها الناس إني قد نبأني اللطيف الخبير أنه لن يعمر نبي إلا نصف عمر الذي يليه من قبله، و إني لأظن أني يوشک أن أدعي فأجيب، و إني مسؤول، و إنکم مسؤولون، فماذا أنتم قائلون؟ قالوا : نشهد أنک قد بلغتَ و جهدتَ و نصحتَ، فجزاک اﷲ خيراً، فقال : أليس تشهدون أن لا إله إلا اﷲ، و أن محمداً عبده و رسوله، و أن جنته حقٌ و ناره حقٌ، و أن الموت حقٌ، و أن البعث بعد الموت حقٌ، و أن الساعة آتية لا ريب فيها و أن اﷲ يبعث من في القبور؟ قالوا : بلي، نشهد بذالک، قال : اللهم! اشهد، ثم قال : يا أيها الناس! إن اﷲ مولاي و أنا مولي المؤمنين و أنا أولي بهم من أنفسهم، فمن کنتُ مولاه فهذا مولاه يعني علياً رضي الله عنه . . . اللهم! وال من والاه، و عاد من عاداه. ثم قال : يا أيها الناس إني فرطکم و إنکم واردون علي الحوض، حوضٌ أعرض ما بين بصري و صنعاء، فيه عدد النجوم قد حانٌ من فضة، و إني سائلکم حين تردون عليّ عن الثقلين، فانظروا کيف تخلفوني فيهما، الثقل الأکبر کتاب اﷲ عزوجل سببٌ طرفه بيد اﷲ و طرفه بأيديکم فاستمسکوا به لا تضلوا و لا تبدلوا، و عترتي أهل بيتي، فإنه قد نبأني اللطيف الخبير أنما لن ينقضيا حتي يردا عليّ الحوض.
حضرت حذیفہ بن اُسید غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے لوگو! مجھے لطیف و خبیر ذات نے خبر دی ہے کہ اللہ نے ہر نبی کو اپنے سے پہلے نبی کی نصف عمر عطا فرمائی اور مجھے گمان ہے مجھے (عنقریب) بلاوا آئے گا اور میں اُسے قبول کر لوں گا، اور مجھ سے (میری ذمہ داریوں کے متعلق) پوچھا جائے گا اور تم سے بھی (میرے متعلق) پوچھا جائے گا، (اس بابت) تم کیا کہتے ہو؟ انہوں نے کہا : ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نے ہمیں انتہائی جدوجہد کے ساتھ دین پہنچایا اور بھلائی کی باتیں ارشاد فرمائیں، اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا تم اس بات کی گواہی نہیں دیتے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، جنت و دوزخ حق ہیں اور موت اور موت کے بعد کی زندگی حق ہے، اور قیامت کے آنے میں کوئی شک نہیں، اور اللہ تعالیٰ اہل قبور کو دوبارہ اٹھائے گا؟ سب نے جواب دیا : کیوں نہیں! ہم ان سب کی گواہی دیتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے اللہ! تو گواہ بن جا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے لوگو! بیشک اللہ میرا مولیٰ ہے اور میں تمام مؤمنین کا مولا ہوں اور میں ان کی جانوں سے قریب تر ہوں۔ جس کا میں مولا ہوں یہ اُس کا یہ (علی) مولا ہے۔ اے اللہ! جو اِسے دوست رکھے تو اُسے دوست رکھ، جو اِس سے عداوت رکھے تو اُس سے عداوت رکھ۔ ’’اے لوگو! میں تم سے پہلے جانے والا ہوں اور تم مجھے حوض پر ملو گے، یہ حوض بصرہ اور صنعاء کے درمیانی فاصلے سے بھی زیادہ چوڑا ہے۔ اس میں ستاروں کے برابر چاندی کے پیالے ہیں، جب تم میرے پاس آؤ گے میں تم سے دو انتہائی اہم چیزوں کے متعلق پوچھوں گا، دیکھنے کی بات یہ ہے کہ تم میرے پیچھے ان دونوں سے کیا سلوک کرتے ہو! پہلی اہم چیز اللہ کی کتاب ہے، جو ایک حیثیت سے اللہ سے تعلق رکھتی ہے اور دوسری حیثیت سے بندوں سے تعلق رکھتی ہے۔ تم اسے مضبوطی سے تھام لو تو گمراہ ہو گے نہ (حق سے) منحرف، اور (دوسری اہم چیز) میری عترت یعنی اہلِ بیت ہیں (اُن کا دامن تھام لینا)۔ مجھے لطیف و خبیر ذات نے خبر دی ہے کہ بیشک یہ دونوں حق سے نہیں ہٹیں گی یہاں تک کہ مجھے حوض پر ملیں گی۔‘‘
1. طبراني، المعجم الکبير، 3 : 180، 181، رقم : 3052
2. طبراني، المعجم الکبير، 3 : 67، رقم : 2683
3. طبراني، المعجم الکبير، 5 : 166، 167، رقم : 4971
4. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 164، 165
5. حسام الدين هندي، کنزالعمال، 1 : 188، 189، رقم : 957، 958
6. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 166، 167
7۔ ابن عساکر نے ’تاریخ دمشق الکبیر (45 : 169)‘ میں حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے بھی روایت لی ہے۔
8. ابن کثير، البدايه والنهايه، 5 : 463
حدیث نمبر : 20
عن جرير قال : شهدنا الموسم في حجة مع رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، و هي حجة الوداع، فبلغنا مکاناً يقال له غدير خم، فنادي : الصلاة جامعة، فاجتمعنا المهاجرون والأنصار، فقام رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم وسطنا، فقال : أيها الناس! بم تشهدون؟ قالوا : نشهد أن لا إله إلا اﷲ؟ قال : ثم مه؟ قالوا : و أن محمداً عبده و رسوله، قال : فمَن وليکم؟ قالوا : اﷲ و رسوله مولانا، قال : من وليکم؟ ثم ضرب بيده إلي عضد علي رضي الله عنه، فأقامه فنزع عضده فأخذ بذراعيه، فقال : من يکن اﷲ و رسوله مولياه فإن هذا مولاه، اللهم! والِ من والاه، و عادِ من عاداه، اللهم! من أحبه من الناس فکن له حبيباً، ومن أبغضه فکن له مُبغضا.
حضرت جریر سے روایت ہے کہ ہم حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھے، ہم ایک ایسی جگہ پہنچے جسے غدیر خم کہتے ہیں۔ نماز باجماعت ہونے کی ندا آئی تو سارے مہاجرین و انصار جمع ہو گئے۔ پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور خطاب فرمایا : اے لوگو! تم کس چیز کی گواہی دیتے ہو؟ انہوں نے کہا : ہم گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : پھر کس کی؟ انہوں نے کہا : بیشک محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تمہارا ولی کون ہے؟ انہوں نے کہا : اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ پھر فرمایا : تمہارا ولی اور کون ہے؟ تب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بازو سے پکڑ کر کھڑا کیا اور (حضرت علی رضی اللہ عنہ کے) دونوں بازو تھام کر فرمایا : ’’اللہ اور اُس کا رسول جس کے مولا ہیں اُس کا یہ (علی) مولا ہے، اے اللہ! جو علی کو دوست رکھے تو اُسے دوست رکھ (اور) جو اِس (علی) سے عداوت رکھے تو اُس سے عداوت رکھ، اے اللہ! جو اِسے محبوب رکھے تو اُسے محبوب رکھ اور جو اِس سے بغض رکھے تو اُس سے بغض رکھ۔‘‘
1. طبراني، المعجم الکبير، 2 : 357، رقم : 2505
2. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 106
3. حسام الدين هندي، کنزالعمال، 13 : 138، 139، رقم : 36437
4. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 179
حدیث نمبر : 21
عن عمرو ذي مر و زيد بن أرقم قالا : خطب رسولُ اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يوم غدير خم، فقال : من کنتُ مولاه فعليّ مولاه، اللهم! والِ من والاه و عادِ من عاداه، و انصرْ من نصره و أعِنْ من أعانه.
عمرو ذی مر اور زید بن ارقم سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غدیر خم کے مقام پر خطاب فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے، اے اللہ! جو اِسے دوست رکھے تو اُسے دوست رکھ اور جو اس سے عداوت رکھے تو اُس سے عداوت رکھ، اور جو اِس کی نصرت کرے اُس کی تو نصرت فرما، اور جو اِس کی اِعانت کرے تو اُس کی اِعانت فرما۔
1. طبراني، المعجم الکبير، 5 : 192، رقم : 5059
2۔ نسائی نے ’خصائص امیر المؤمنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ (ص : 100، 101، رقم : 96)‘ میں عمرو ذی مر سے روایت لی ہے۔
3. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 104، 106
4. ابن کثير، البدايه والنهايه، 4 : 170
5. حسام الدين هندي، کنزالعمال، 11 : 609، رقم : 32946
حدیث نمبر : 22
آيتِ کريمه ’اَلْيوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِيْنَکُمَْ‘
(القرآن، المائده، 5 : 3)
۔ ۔ ۔ (آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا) ۔ ۔ ۔ کے شانِ نزول میں محدثین و مفسرین نے یہ حدیثِ مبارکہ بیان کی ہے :
عن أبي هريرة رضي الله عنه، قال : مَن صام يوم ثمان عشرة مِن ذي الحجة کتب له صيام ستين شهراً، و هو يوم غدير خم لما أخذ النبيا بيد عليّ بن أبی طالب رضي الله عنه، فقال : ألست ولي المؤمنين؟ قالوا : بلي، يا رسول اﷲ! قال : مَن کنتُ مولاه فعليّ مولاه، فقال عمر بن الخطاب : بخ بخ لک يا ابن أبي طالب! أصبحتَ مولاي و مولي کل مسلم، فأنزل اﷲ (اَلْيَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِيْنَکُمْ).
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جس نے اٹھارہ ذی الحج کو روزہ رکھا اس کے لئے ساٹھ (60) مہینوں کے روزوں کا ثواب لکھا جائے گا، اور یہ غدیر خم کا دن تھا جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : کیا میں مؤمنین کا والی نہیں ہوں؟ انہوں نے کہا : کیوں نہیں، یا رسول اﷲ! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس کا میں مولا ہوں، اُس کا علی مولا ہے۔ اس پر حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا : مبارک ہو! اے ابنِ ابی طالب! آپ میرے اور ہر مسلمان کے مولا ٹھہرے۔ (اس موقع پر) اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : ’’ آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا۔‘‘
1. خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، 8 : 290
2. طبراني، المعجم الأوسط، 3 : 324
3. واحدي، اسباب النزول : 108
4. رازي، التفسير الکبير، 11 : 139
5. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 176، 177
6۔ ابن عساکر نے ’تاریخ دمشق الکبیر (45 : 179)‘ میں یہ راویت حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے بھی لی ہے۔
7. ابن کثير، البدايه والنهايه، 5 : 464
8۔ سیوطی نے ’الدر المنثور فی التفسیر بالماثور (2 : 259)‘ میں آیت مذکورہ کی شان نزول کے حوالے سے لکھا ہے کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غدیر خم کے روز ’من کنت مولاہ فعليّ مولاہ‘ کے الفاظ فرمائے تو یہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔
حدیث نمبر : 23
امام فخر الدين رازي ’يَا أيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَآ أنْزِلَ إِلَبْکَ مِن رَّبِّکَ‘،
(القرآن، المائده، 5 : 67)
۔ ۔ ۔ (اے (برگزیدہ) رسول! جو کچھ آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے (وہ سارا لوگوں کو) پہنچا دیجئے) ۔ ۔ ۔ کا شانِ نزول بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
نزلت الآية في فضل عليّ بن أبي طالب عليه السلام، و لما نزلت هذه الآيةُ أخذ بيده و قال : مَن کنتُ مولاه فعليّ مولاه، اللهم والِ من والاه و عادِ من عاداه. فلقيه عمر رضي الله عنه، فقال : هنيئاً لک يا ابن أبي طالب، أصبحتَ مولاي و مولي کلِ مؤمنٍ و مؤمنة. و هو قول ابن عباس و البراء بن عازب و محمد بن علي.
یہ آیتِ مبارکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت میں نازل ہوئی ہے، جب یہ آیتِ مبارکہ نازل ہوئی تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا : جس کا میں مولاہوں، اُس کا علی مولا ہے، اے اللہ! تو اُسے دوست رکھ جو اِسے دوست رکھے، اور اُس سے عداوت رکھ جو اِس سے عداوت رکھے۔ اُس کے (فوراً ) بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ملاقات کی اور فرمایا : اے ابن ابی طالب! آپ کو مبارک ہو، اب آپ میرے اور ہر مؤمن اور مؤمنہ کے مولا قرار پائے ہیں۔
اِسے عبداللہ بن عباس، براء بن عازب اور محمد بن علی رضی اللہ عنھم نے روایت کیا ہے۔
1. رازي، التفسير الکبير، 12 : 49، 50
2. ابن ابی حاتم رازی نے ’تفسیر القرآن العظیم (4 : 1172، رقم : 6609)‘ میں عطیہ عوفی سے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی روایت نقل کی کہ سورۃ المائدہ کی آیت نمبر67 حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی شان میں نازل ہوئی۔
علاوہ ازیں درج ذیل نے بھی یہ روایت نقل کی ہے :
3. واحدي، اسباب النزول : 115
4. سيوطي، الدرالمنثور في التفسير بالماثور، 2 : 298
5. آلوسي، روح المعاني، 6 : 193
6. شوکاني، فتح القدير، 2 : 60
حدیث نمبر : 24
آيتِ کريمه ’’إِنَّمَا وَلِيُّکُمُ اﷲُ وَ رَسُوْلُه وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوا الَّذِيْنَ يُقِيْمُوْنَ الصَّلَاةَ وَ يُؤْتُوْنَ الزَّکَاةَ وَ هُمْ رَاکِعُوْنَO‘‘
(القرآن، المائده، 5 : 55)
۔ ۔ ۔ (بے شک تمہارا (مدد گار) دوست اللہ اور اُس کا رسول ہی ہے اور (ساتھ) وہ ایمان والے ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور وہ (اللہ کے حضور عاجزی سے) جھکنے والے ہیںo) ۔ ۔ ۔ کے شانِ نزول میں بیشتر محدثین نے یہ حدیثِ مبارکہ بیان کی ہے :
عن عمار بن ياسر رضي الله عنه، يقول : وقف علي عليّ بن أبي طالب رضي الله عنه سائل و هو راکع في تطوّع فنزع خاتمه فأعطاه السائل، فأتي رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم فأعلمه ذلک، فنزلتْ علي النبي صلی الله عليه وآله وسلم هذا الآية : (إِنَّمَا وَلِيُّکُمُ اﷲُ وَ رَسُوْلُه وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوا الَّذِيْنَ يُقِيْمُوْنَ الصَّلَاةَ وَ يُؤْتُوْنَ الزَّکَاةَ وَ هُمْ رَاکِعُوْنَ) فقرأها رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم ثم قال : من کنتُ مولاه فعليّ مولاه، اللهم! والِ من والاه و عادِ من عاداه.
حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک سائل حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس آکر کھڑا ہوا۔ آپ رضی اللہ عنہ نماز میں حالتِ رکوع میں تھے۔ اُس نے آپ رضی اللہ عنہ کی انگوٹھی کھینچی۔ آپ رضی اللہ عنہ نے انگوٹھی سائل کو عطا فرما دی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اُس کی خبر دی۔ اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی : (بے شک تمہارا (مدد گار) دوست اللہ اور اُس کا رسول ہی ہے اور (ساتھ) وہ ایمان والے ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور وہ (اللہ کے حضور عاجزی سے) جھکنے والے ہیں) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس آیت کو پڑھا اور فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے، اے اللہ! جو اِسے دوست رکھے تو اُسے دوست رکھ اور جو اِس سے عداوت رکھے تو اُس سے عداوت رکھ۔‘‘
1. طبراني، المعجم الاوسط، 7 : 129، 130، رقم : 6228
2. احمد بن حنبل، المسند، 1 : 119
3. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 372
4. حاکم، المستدرک، 3 : 119، 371، رقم حديث : 4576، 5594
5. طبراني، المعجم الکبير، 4 : 174، رقم : 4053
6. طبراني، المعجم الکبير، 5 : 195، 203، 204، رقم : 5068، 5069، 5092، 5097
7. طبراني، المعجم الصغير، 1 : 65
8. هيثمي، مجمع الزوائد، 7 : 17
9. هيثمي، موارد الظمآن : 544، رقم : 2205
10. خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، 7 : 377
11۔ خطیب بغدادی نے یہ حدیثِ مبارکہ ’تاریخِ بغداد (12 : 343)‘ میں مَن کنتُ مولاہ فعليّ مولاہ کے الفاظ کے ساتھ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما سے بھی نقل کی ہے۔
12. ابن اثير، اسد الغابه، 2 : 362
13. ابن اثير، اسد الغابه، 3 : 487
14. ضياء مقدسي، الاحاديث المختاره، 2 : 106، 174، رقم : 480، 553
15. حسام الدين هندي، کنزالعمال، 11 : 332، 333، رقم : 31662
16. حسام الدين هندي، کنزالعمال، 13 : 104، 169، رقم : 36340،
17۔ حسام الدین ہندی نے ’کنز العمال(11 : 609، رقم : 32950)‘ میں لکھا ہے : طبرانی نے اس حدیث کو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور بارہ (12) صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے روایت کیا ہے۔ اور امام احمد بن حنبل نے اسے حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ اور کثیر صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم سے روایت کیا ہے۔ حاکم نے ’المستدرک‘ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ سے یہ روایت بیان کی ہے۔ امام احمد بن حنبل اور طبرانی نے حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ اور تیس (30) صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے یہ حدیث روایت کی ہے۔ ابونعیم نے کتاب ’فضائل الصحابہ‘ میں حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے اور خطیب بغدادی نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے نقل کی ہے۔
حدیث نمبر : 25
عن عمار بن ياسر رضي الله عنه، قال : قال رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم : أوصي من آمن بي و صدقني بولاية عليّ بن أبي طالب، مَن تولاه فقد تولاني و مَن تولاني فقد تولي اﷲ عزوجل و مَن أحبه فقد أحبني، و من أحبني فقد أحب اﷲ عزوجل و من أبغضه فقد أبغضني و من أبغضني فقد أبغض اﷲ عزوجل.
حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جو مجھ پر ایمان لایا اور میری تصدیق کی اُسے میں ولایتِ علی کی وصیت کرتا ہوں، جس نے اُسے ولی جانا اُس نے مجھے ولی جانا اور جس نے مجھے ولی جانا اُس نے اللہ کو ولی جانا، اور جس نے علی رضی اللہ عنہ سے محبت کی اُس نے مجھ سے محبت کی، اور جس نے مجھ سے محبت کی اُس نے اللہ سے محبت کی، اور جس نے علی سے بغض رکھا اُس نے مجھ سے بغض رکھا، اور جس نے مجھ سے بغض رکھا اُس نے اللہ سے بغض رکھا۔‘‘
1. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 108، 109
2. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 181، 182
3. حسام الدين هندي، کنز العمال، 11 : 611، رقم : 32958
ہيثمی نے اس حدیث کو طبرانی سے روایت کیا ہے اور اس کے رواۃ کو ثقہ قرار دیا ہے
حدیث نمبر : 26
عن علي عليه السلام أن النبي صلي الله عليه وآله وسلم قال يوم غدير خم : مَن کنتُ مولاه فعليّ مولاه.
(خود) حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غدیر خم کے دن فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے۔‘‘
1۔ احمد بن حنبل نے ’المسند (1 : 152)‘ میں یہ روایت صحیح اسناد کے ساتھ نقل کی ہے۔
2. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 2 : 705، رقم : 1206
3. ابن ابي عاصم، کتاب السنه : 604، رقم : 1369
4. طبراني، المعجم الاوسط، 7 : 448، رقم : 6878
5۔ ہیثمی نے اسے ’مجمع الزوائد (9 : 107)‘ میں نقل کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کے رجال ثقہ ہیں۔
6. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 161، 162، 163
7. ابن کثير، البدايه و النهايه، 4 : 171
8. حسام الدين هندي، کنز العمال، 13 : 77، 168، رقم : 32950، 36511
حدیث نمبر : 27
عن عبد اﷲ بن بريدة الأسلمي، قال : قال النبيا : مَن کنتُ وليه فإنّ علياً وليه. و في رواية عنه : مَن کنتُ وليّه فعليّ وليّه.
عبد اﷲ بن بریدہ اسلمی بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس کا میں ولی ہوں تحقیق اُس کا علی ولی ہے۔‘‘ اُنہی سے ایک اور روایت میں ہے (کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ) ’’جس کا میں ولی ہوں اُس کا علی ولی ہے۔‘‘
1. حاکم، المستدرک، 2 : 129، رقم : 2589
2. احمد بن حنبل، المسند، 5 : 350، 358، 361
3. نسائي، خصائص امير المؤمنين علي بن ابي طالب رضي الله عنه : 85، 86، رقم : 77
4. عبدالرزاق، المصنف، 11 : 225، رقم : 20388
5. ابن ابي شيبه، المصنف، 12 : 84، رقم : 12181
6۔ ابو نعیم نے ’حلیۃ الاولیاء و طبقات الاصفیاء (4 : 23)‘ میں اسے مختصراً ’مَن کنتُ مولاہ فعليّ مولاہ‘ کے الفاظ کے ساتھ بیان کیا ہے۔
7. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 76
8۔ ہیثمی نے ’مجمع الزوائد (9 : 108)‘ میں اسے نقل کرتے ہوئے کہا ہے کہ بزار کی بیان کردہ روایت کے رجال صحیح ہیں۔
9۔حسام الدین ہندی نے ’کنزالعمال (11 : 602، رقم : 32905)‘ میں مختصراً ’مَن کنتُ مولاہ فعليّ مولاہ‘ کے الفاظ کے ساتھ بیان کیا ہے۔
10. مناوي، فيض القدير، 6 : 218
امام حاکم نے اس روایت کو شرطِ شیخین کے مطابق صحیح قرار دیا ہے، اور اس حدیث کو ابو عوانہ سے ایک دوسرے طریق سے سعد بن عبیدہ سے بھی بیان کیا ہے۔ اُنہوں نے ’المستدرک‘ میں بریدہ اسلمی سے ایک اور جگہ (3 : 110، رقم : 4578) بھی اِسی حدیث کو مختصراً بیان کیا ہے۔
حدیث نمبر : 28
متذکرہ بالا حدیث کو دوسرے مقام پر ابن بریدہ رضی اللہ عنہ اپنے والد سے الفاظ کے تھوڑے سے اختلاف کے ساتھ یوں بیان کرتے ہیں کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
ما بال أقوام ينتقصون عليًّا، من ينتقص عليّاً فقد تنقصني، ومن فارق علياً فقد فارقني، إن عليّاً مني، وأنا منه، خُلق من طينتي و خُلقت من طينة إبراهيم، وأنا أفضل من إبراهيم، ذرية بعضها من بعض واﷲ سميع عليم، . . . و إنه وليکم من بعدي، فقلت : يا رسول اﷲ! بالصحبة ألا بسطت يدک حتي أبايعک علي الإسلام جديداً؟ قال : فما فارقته حتي بايعته علي الإسلام.
ان لوگوں کا کیا ہو گا جو علی کی شان میں گستاخی کرتے ہیں! (جان لو) جو علی کی گستاخی کرتا ہے وہ میری گستاخی کرتا ہے اور جو علی سے جدا ہوا وہ مجھ سے جدا ہوگیا۔ بیشک علی مجھ سے ہے اور میں علی سے ہوں، اُس کی تخلیق میری مٹی سے ہوئی ہے اور میری تخلیق ابراہیم کی مٹی سے، اور میں ابراہیم سے افضل ہوں۔ ہم میں سے بعض بعض کی اولاد ہیں، اللہ تعالیٰ یہ ساری باتیں سننے اور جاننے والا ہے۔۔ ۔ ۔ وہ میرے بعد تم سب کا ولی ہے۔ (بریدہ بیان کرتے ہیں کہ) میں نے کہا : یا رسول اللہ! کچھ وقت عنایت فرمائیں اور اپنا ہاتھ بڑھائیں، میں تجدیدِ اسلام کی بیعت کرنا چاہتا ہوں، (اور) میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جدا نہ ہوا یہاں تک کہ میں نے اسلام پر (دوبارہ) بیعت کر لی۔
1. طبراني، المعجم الاوسط، 7 : 49، 50، رقم : 6081
2. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 128
حدیث نمبر : 29
عن عَمرو بن ميمون، قال ابن عباس رضي الله عنهما : قال (رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم) : من کنتُ مولاه فإنّ مولاه عليّ.
عَمرو بن میمون حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں بے شک اُس کا علی مولا ہے۔‘‘
1. احمد بن حنبل، المسند، 1 : 331
2۔ ابن ابی عاصم کی ’ کتاب السنہ (ص : 600، 601، رقم : 1351)‘ میں اس روایت کے الفاظ ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مَن کنتُ ولیّہ فعلی ولیہ (جس کا میں ولی ہوں اُس کا علی ولی ہے)۔
3. نسائي، خصائص امير المؤمنين علي بن ابي طالب رضي الله عنه : 44، 46، رقم : 23
4. حاکم، المستدرک، 3 : 132 – 134، رقم : 4652
5. طبراني، المعجم الکبير، 12 : 77، 78، رقم : 12593
6. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 119، 120
7. محب طبري، الرياض النضره في مناقب العشره، 3 : 174، 175
6. محب طبري، ذخائر العقبي في مناقب ذوي القربي : 156 – 158
نسائی کی بیان کردہ حدیث کی اسناد صحیح ہیں۔
ہیثمی نے کہا ہے کہ اسے احمد اور طبرانی نے روایت کیا ہے اور ابو بلج فرازی کے سوا احمد کے تمام رجال صحیح ہیں، جبکہ وہ ثقہ ہے۔
حاکم کی بیان کردہ حدیث کو ذہبی نے صحیح کہا ہے۔
حدیث نمبر : 30
(قال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ) ألا! إن اﷲ وليي و أنا ولي کل مؤمن، من کنتُ مولاه فعليّ مولاه.
(حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ) آگاہ رہو! بے شک اللہ میرا ولی ہے اور میں ہر مؤمن کا ولی ہوں، پس جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے۔
1۔ حسام الدین ہندی نے اسے ’کنزالعمال (11 : 608، رقم : 32945)‘ میں روایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ حدیث ابونعیم نے ’فضائل الصحابہ‘ میں زید بن ارقم اور براء بن عازب رضی اﷲ عنہما سے روایت کی ہے۔
2. ابن حجر عسقلاني، الاصابه في تمييز الصحابه، 4 : 328
حدیث نمبر : 31
عن أبي يزيد الأودي عن أبيه، قال : دخل أبوهريرة المسجد فاجتمع إليه الناس، فقام إليه شاب، فقال : أنشدک باﷲ، أسمعت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول : مَن کنتُ مولاه فعلي مولاه، اللهم! والِ من والاه. فقال : أشهد أن سمعتَ رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول : مَن کنتُ مولاه فعليّ مولاه، اللهم! وال من والاه، و عاد من عاداه.
ابو یزید اودی رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ (ایک دفعہ) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ مسجد میں داخل ہوئے تو لوگ آپ رضی اللہ عنہ کے اردگرد جمع ہو گئے۔ اُن میں سے ایک جوان نے کھڑے ہو کر کہا : میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں، کیا آپ نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے، اے اللہ! جو علی کو دوست رکھے اُسے تو دوست رکھ؟ اِس پر انہوں نے کہا : میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : ’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے، اے اللہ! جو اِسے دوست رکھے اُسے تو دوست رکھ اور جو اِس سے عداوت رکھے اُس سے تو عداوت رکھ۔
1. ابو يعلي، المسند، 11 : 307، رقم : 6423
2. ابن ابي شيبه، المصنف، 12 : 68، رقم : 12141
3. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 175
4. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 105، 106
5. ابن کثير، البدايه و النهايه، 4 : 174
حدیث نمبر : 32
عن أبي إسحاق، قال : سمعت سعيد بن وهب، قال : نَشَدَ عليّ رضي الله عنه الناس فقام خمسة أو ستة من أصحاب النبي صلي الله عليه وآله وسلم فشهدوا أنّ رسولَ اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم قال : مَن کنتُ مولاه فعليّ مولاه.
ابو اسحاق سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے سعید بن وہب کو یہ کہتے ہوئے سنا : حضرت علی رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے قسم لی جس پر پانچ (5) یا چھ (6) صحابہ نے کھڑے ہو کر گواہی دی کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا : ’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے۔‘‘
1. احمد بن حنبل، المسند، 5 : 366
2. نسائي، خصائص امير المؤمنين علي بن ابي طالب رضي الله عنه : 90، رقم : 83
3. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 2 : 598، 599، رقم : 1021
4. ضياء مقدسي، الاحاديث المختاره، 2 : 105، رقم : 479
5. بيهقي، السنن الکبري، 5 : 131
6. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 160
7. محب طبري، الرياض النضره في مناقب العشره، 3 : 127
8. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 104
9۔ ابن کثیر نے ’البدیہ والنہایہ (4 : 170)‘ میں لکھا ہے کہ اس حدیث کی اسناد جید ہیں۔
10. ابن کثير، البدايه والنهايه، 5 : 462
امام نسائی نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
ضیاء مقدسی نے اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے۔
امام ہیثمی نے احمد بن حنبل کے رجال کو صحیح قرار دیا ہے۔
حدیث نمبر : 33
عن عميرة بن سعد رضي الله عنه، أنه سمع علياً رضي الله عنه و هو ينشد في الرحبة : مَن سمع رسولَ اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول : مَن کنتُ مولاه فعليّ مولاه؟ فقام ستة نفر فشهدوا.
عمیرہ بن سعد سے روایت ہے کہ اُنہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کھلے میدان میں قسم دیتے ہوئے سنا کہ کس نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : جس کا میں مولا ہوں، اُس کا علی مولا ہے؟ تو (اِس پر) چھ(6) افراد نے کھڑے ہو کر گواہی دی۔
1. نسائي، خصائص امير المؤمنين علي بن ابي طالب رضي الله عنه : 89، 91، رقم : 82، 85
2. طبراني، المعجم الاوسط، 3 : 134، رقم : 2275
3۔ طبرانی کی ’المعجم الصغیر (1 : 64، 65)‘ میں بیان کردہ روایت میں ہے کہ گواہی دینے والے افراد بارہ (12) تھے، جن میں حضرت ابوہریرہ، ابو سعید اور انس بن مالک رضی اللہ عنھم بھی شامل تھے۔
ہيثمي نے يہ روايت ’مجمع الزوائد (9 : 108)‘ ميں نقل کي ہے۔
4. بيهقي، السنن الکبري، 5 : 132
5۔ ابن عساکر نے ’تاریخ دمشق الکبیر (45 : 159)‘ میں جو روایت عمیرہ بن سعد لی ہے اس میں ہے کہ گواہی دینے والے افراد اٹھارہ (18) تھے۔
6. مزي، تهذيب الکمال، 22 : 397، 398
حدیث نمبر : 34
عن أبي الطفيل، عن زيد بن أرقم، قال : نَشَدَ عليّ الناس : من سمع رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول يوم غدير خم : ألستم تعلمون أني أولي بالمؤمنين مِن أنفسهم؟ قالوا : بلٰي، قال : فمَن کنتُ مولاه فعليّ مولاه، اللهم! والِ من والاه، و عادِ من عاداه. فقام أثنا عشر رجلاً فشهدوا بذلک.
ابو طفیل زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے حلفاً پوچھا کہ تم میں سے کون ہے جس نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوغدیر خم کے دن یہ فرماتے ہوئے سنا ہو : ’’کیا تم نہیں جانتے کہ میں مؤمنوں کی جانوں سے قریب تر ہوں؟ اُنہوں نے کہا : کیوں نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے، اے اللہ! جو اِسے دوست رکھے تو بھی اُسے دوست رکھ، اور جو اِس سے عداوت رکھے تو اُس سے عداوت رکھ۔‘‘ (سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی اس گفتگو پر) بارہ (12) آدمی کھڑے ہوئے اور اُنہوں نے اس واقعہ کی شہادت دی۔
1. طبراني، المعجم الاوسط، 2 : 576، رقم : 1987
2. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 106
3. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 157، 158
4. محب طبري، الرياض النضره في مناقب العشره، 3 : 127
5. حسام الدين هندي، کنز العمال، 13 : 157، رقم : 36485
6. شوکاني، در السحابه : 211
حدیث نمبر : 35
عن سعيد بن وهب و عن زيد بن يثيعث قال : نَشَدَ عليّ الناسَ في الرحبة مَن سمع رسولَ اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول يوم غدير خم إلا قام. قال : فقام مِن قبل سعيد ستة و مِن قبل زيد ستة، فشهدوا أنهم سمعوا رسولَ اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول لعلي رضي الله عنه يوم غدير خم : أليس اﷲ أولي بالمؤمنين؟ قالوا : بلٰي. قال : اللهم! من کنتُ مولاه فعليّ مولاه، اللهم! والِ من والاه و عادِ من عاداهُ.
سعید بن وہب اور زید بن یثیعث روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کھلے میدان میں لوگوں کو قسم دی کہ جس نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غدیر خم کے دن کچھ فرماتے ہوئے سنا ہو کھڑا ہو جائے۔ راوی کہتے ہیں : چھ (آدمی) سعید کی طرف سے اور چھ (6) زید کی طرف سے کھڑے ہوئے اور اُنہوں نے گواہی دی کہ اُنہوں نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غدیر خم کے دن حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حق میں یہ فرماتے ہوئے سنا : ’’کیا اللہ مؤمنین کی جانوں سے قریب تر نہیں ہے؟‘‘ لوگوں نے کہا : کیوں نہیں! پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’اے اللہ! جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے، اے اللہ! تو اُسے دوست رکھ جو اِسے دوست رکھے اور تو اُس سے عداوت رکھ اور جو اِس سے عداوت رکھے۔‘‘
1. احمد بن حنبل، المسند، 1 : 118
2. نسائي، خصائص امير المؤمنين علي بن ابي طالب : 90، 100، رقم : 84، 95
3. ابن ابي شيبه، المصنف، 12 : 67، رقم : 12140
4. طبراني، المعجم الاوسط، 3 : 69، 134، رقم : 2130، 2275
5. طبراني، المعجم الصغير، 1 : 65
6. ضياء مقدسي، الاحاديث المختاره، 2 : 105، 106، رقم : 480
7. ابونعيم، حلية الأولياء و طبقات الاصفياء، 5 : 26
8. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 160
9. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 107، 108
10. حسام الدين هندي، کنز العمال، 13 : 157، رقم : 36485
نسائی کی بیان کردہ دونوں روایات کی اسناد صحیح ہے۔
ہیثمی نے طبرانی کی سند کو حسن قرار دیا ہے۔
حدیث نمبر : 36
عن عبد الرحمن بن أبي ليلٰي قال : شهدتُ علياً رضي الله عنه في الرحبة ينشد الناس : أنشد اﷲ مَن سمع رسولَ اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول يوم غدير خم : مَن کنتُ مولاه فعليّ مولاه. لما قام فشهد، قال عبد الرحمن : فقام إثنا عشر بدرياً کأني أنظر إلي أحدهم، فقالوا : نشهد أنا سمعنا رسولَ اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول يوم غدير خم : ألستُ أولي بالمؤمنين من أنفسهم و أزواجي أمهاتهم؟ فقلنا : بلي، يا رسول اﷲ، قال : فمن کنتُ مولاه فعليّ مولاه، اللهم! والِ من والاه، و عادِ من عاداه.
عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو وسیع میدان میں دیکھا، اُس وقت آپ لوگوں سے حلفاً پوچھ رہے تھے کہ جس نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غدیر خم کے دن ۔ ۔ ۔ جس کامیں مولا ہوں، اُس کا علی مولا ہے۔ ۔ ۔ فرماتے ہوئے سنا ہو وہ کھڑا ہو کر گواہی دے۔ عبدالرحمن نے کہا : اس پر بارہ (12) بدری صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم کھڑے ہوئے، گویا میں اُن میں سے ایک کی طرف دیکھ رہا ہوں۔ ان (بدری صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم) نے کہا : ہم گواہی دیتے ہیں کہ ہم نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غدیر خم کے دن یہ فرماتے ہوئے سنا : ’’کیا میں مؤمنوں کی جانوں سے قریب تر نہیں ہوں، اور میری بیویاں اُن کی مائیں نہیں ہیں؟‘ سب نے کہا : کیوں نہیں، یا رسول اللہ! اِس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں، اُس کا علی مولاہے، اے اللہ! جو اِسے دوست رکھے تو اُسے دوست رکھ اور جو اِس سے عداوت رکھے تو اُس سے عداوت رکھ۔‘‘
1. احمد بن حنبل، المسند، 1 : 119
2. ابو يعلي، المسند، 1 : 257، رقم : 563
3. طحاوي، مشکل الآثار، 2 : 308
4. ضياء مقدسي، الاحاديث المختاره، 2 : 80، 81، رقم : 458
5. خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، 14 : 236
6. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 156، 157
7۔ ابن عساکر نے ’تاریخ دمشق الکبیر (45 : 161)‘ میں اسے زیاد بن ابی زیاد سے بھی روایت کیا ہے۔
8۔ محب طبری نے بھی ’الریاض النضرہ فی مناقب العشرہ (3 : 128)‘ میں زیاد بن ابی زیاد کی روایت نقل کی ہے۔
9. ابن اثير، اسد الغابه، 4 : 102، 103
10. ابن کثير، البدايه و النهايه، 4 : 170
11. ابن کثير، البدايه والنهايه، 5 : 461، 462
12. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 105، 106
13. حسام الدين هندي، کنز العمال، 13 : 170، رقم : 36515
14. شوکاني، در السحابه : 209
ہیثمی فرماتے ہیں کہ اسے ابو یعلیٰ نے روایت کیا ہے اور اس کے رجال ثقہ ہیں۔
حسام الدین ہندی فرماتے ہیں کہ اس روایت کو ابن جریر، سعید بن منصوراور ابن اثیر جزری نے بھی روایت کیا ہے۔
احمد بن حنبل نے یہ حدیثِ مبارکہ ’المسند(1 : 88)‘ میں زیاد بن ابی زیاد سے بھی روایت کی ہے۔ اُسے ہیثمی نے ’مجمع الزوائد(9 : 106)‘ میں نقل کیا ہے اور اُس کے رجال کو ثقہ قرار دیا ہے۔
حدیث نمبر : 37
عن عَمرو بن ذي مُرٍ و سعيد بن وهب و عن زيد بن يثيع قالوا : سمعنا علياً يقول نشدت اﷲ رجلاً سمع رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول يوم غدير خم، لما قام، فقام ثلاثة عشر رجلا فشهدوا أن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم قال : ألست أولي بالمؤمنين من أنفسهم؟ قالوا : بلي، يا رسول اﷲ! قال : فأخذ بيد علي، فقال : من کنت مولاه فهذا مولاه، اللهم! وال من والاه، و عاد من عاداه، و أحب من أحبه، و أبغض من يبغضه، و انصر من نصره، و اخذل من خذله.
عمرو بن ذی مر، سعید بن وہب اور زید بن یثیع سے روایت ہے کہ ہم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں ہر اس آدمی سے حلفاً پوچھتا ہوں جس نے غدیر خم کے دن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہو، اس پر تیرہ آدمی کھڑے ہوئے اور اُنہوں نے گواہی دی کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’کیا میں مؤمنین کی جانوں سے قریب تر نہیں ہوں؟‘‘ سب نے جواب دیا : کیوں نہیں، یا رسول اللہ! راوی کہتا ہے : تب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں، اُس کا علی مولا ہے، اے اللہ! جو اِسے دوست رکھے تو اُسے دوست رکھ، جو اِس(علی) سے عداوت رکھے تو اُس سے عداوت رکھ، جو اِس(علی) سے محبت کرے تو اُس سے محبت کر، جو اِس(علی) سے بغض رکھے تو اُس سے بغض رکھ، جو اِس (علی) کی نصرت کرے تو اُس کی نصرت فرما اور جو اِسے رسوا (کرنے کی کوشش) کرے تو اُسے رسوا کر۔‘‘
1۔ ہیثمی نے ’مجمع الزوائد(9 : 104، 105)‘ میں اسے بزار سے روایت کیا ہے اور اس کے رجال کو صحیح قرار دیا ہے، سوائے فطر بن خلیفہ کے اور وہ ثقہ ہے۔
2. بزار، المسند، 3 : 35، رقم : 786
3. طحاوي، مشکل الآثار، 2 : 308
4. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 159، 160
5. حسام الدين هندي، کنز العمال، 13 : 158، رقم : 36487
6. ابن کثير، البدايه والنهايه، 4 : 169، 5 : 462
حدیث نمبر : 38
عن زاذان بن عمر قال : سمعت علياً رضي الله عنه في الرحبة وهو ينشد الناس : من شهد رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يوم غدير خم و هو يقول ما قال، فقام ثلاثة عشر رجلاً فشهدوا أنهم سمعوا رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم وهو يقول : من کنت مولاه فعليّ مولاه.
زاذان بن عمرث سے روایت ہے، آپ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مجلس میں لوگوں سے حلفاً یہ پوچھتے ہوئے سنا : کس نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غدیر خم کے دن کچھ فرماتے ہوئے سنا ہے؟ اس پر تیرہ (13) آدمی کھڑے ہوئے اور انہوں نے تصدیق کی کہ انہوں نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : ’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے۔‘‘
1. احمد بن حنبل، المسند، 1 : 84
2. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 2 : 585، رقم : 991
3. ابن ابي عاصم، کتاب السنه : 604، رقم : 1371
4. طبراني، المعجم الاوسط، 3 : 69، رقم : 2131
5. بيهقي، السنن الکبري، 5 : 131
6. ابو نعيم، حلية الاولياء و طبقات الاصفياء، 5 : 26
7. ابن جوزي، صفة الصفوة، 1 : 313
8. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 107
9۔ ابنِ کثیر نے ’البدایہ و النہایہ (4 : 169)‘ میں زاذان ابی عمر سے نقل کردہ روایت میں کھڑے ہو کر گواہی دینے والے آدمیوں کی تعداد بارہ (12) لکھی ہے۔
10۔ ابن کثیر نے ’البدایہ والنہایہ (5 : 462)‘ میں ابن عمر رضی اللہ عنہ سے زاذان کی لی ہوئی روایت میں گواہی دینے والے افراد کی تعداد تیرہ (13) لکھی ہے۔
11. حسام الدين هندي، کنزالعمال، 13 : 158، رقم : 36487
12. شوکاني، در السحابه : 211
حدیث نمبر : 39
عن عبد الرحمن بن أبي ليلٰي، قال : خطب علي رضي الله عنه فقال : أنشد اﷲ امرء نشدة الإسلام سمع رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يوم غدير خم أخذ بيدي، يقول : ألستُ أولي بکم يا معشرَ المسلمين مِن أنفسکم؟ قالوا : بلي، يا رسول اﷲ، قال : مَن کنتُ مولاه فعليّ مولاه، اللهم! والِ من والاه، وعادِ مَن عاداه، وانصُر مَن نصره، واخُذل مَن خذله، إلا قام فشهد، فقام بضعة عشر رجلاً فشهدوا، وکتم فما فنوا من الدنيا إلا عموا و برصوا.
عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے خطاب کیا اور فرمایا : میں اس آدمی کو اللہ اور اسلام کی قسم دیتا ہوں، جس نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غدیر خم کے دن میرا ہاتھ پکڑے ہوئے یہ فرماتے سنا ہو : ’’اے مسلمانو! کیا میں تمہاری جانوں سے قریب تر نہیں ہوں؟‘‘ سب نے جواب دیا : کیوں نہیں، یا رسول اللہ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے، اے اللہ! جو اِسے دوست رکھے تو اُسے دوست رکھ، جو اِس(علی) سے عداوت رکھے تو اُس سے عداوت رکھ، جو اِس(علی) کی مدد کرے تو اُس کی مدد فرما، جو اِس کی رسوائی چاہے تو اُسے رسوا کر؟‘‘ اس پر تیرہ (13) سے زائد افراد نے کھڑے ہو کر گواہی دی اور جن لوگوں نے یہ باتیں چھپائیں وہ دُنیا میں اندھے ہو کر یا برص کی حالت میں مر گئے۔
1. حسام الدين هندي، کنز العمال، 13 : 131، رقم : 36417
2. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 158
3. ابن اثیر کی ’اسد الغابہ (3 : 487)‘ میں ابو اسحاق سے لی گئی روایت میں ہے : یزید بن ودیعہ اور عبدالرحمن بن مدلج گواہی چھپانے کے سبب بیماری میں مبتلا ہوئے۔
حدیث نمبر : 40
عن الأصبغ بن نباتة، قال : نَشَدَ علي رضي الله عنه الناسَ في الرحبة : مَن سمع النبي صلي الله عليه وآله وسلم يوم غدير خم؟ ما قال إلا قام، ولا يقوم إلا مَن سمع رسولَ اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول، فقام بضعة عشر رجلا فيهم : أبو أيوب الأنصاري، و أبو عمرة بن محصن، و أبو زينب، و سهل بن حنيف، و خزيمة بن ثابت، و عبد اﷲ بن ثابت الأنصاري، و حُبشي بن جنادة السلولي، و عبيد بن عازب الأنصاري، و النعمان بن عجلان الأنصاري، و ثابت بن وديعة الأنصاري، و أبو فضالة الأنصاري، و عبدالرحمن بن عبد رب الأنصاريث، فقالوا : نشهد أناّ سمِعنا رسولَ اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول : ألا! إنّ اﷲ وليي وأنا ولي المؤمنين، ألا! فمَن کنتُ مولاه فعليّ مولاه، اللهم! والِ مَن والاه، و عادِ مَن عاداه، و أحبّ مَن أحبه، و أبغض مَن أبغضه، و أعن مَن أعانه.
اصبغ بن نباتہ سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کھلے میدان میں لوگوں کو قسم دی کہ جس نے غدیر خم کے دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہو، وہ کھڑا ہو جائے۔ اس پر تیرہ(13) سے زائد افراد کھڑے ہوئے جن میں ابوایوب انصاری، ابو عمرہ بن محصن، ابو زینب، سہل بن حنیف، خزیمہ بن ثابت، عبداللہ بن ثابت انصاری، حبشی بن جنادہ سلولی، عبید بن عازب انصاری، نعمان بن عجلان انصاری، ثابت بن ودیعہ انصاری، ابوفضالہ انصاری اور عبدالرحمن بن عبد رب انصاری رضی اللہ عنھم تھے۔ ان سب نے کہا : ہم گواہی دیتے ہیں کہ ہم نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا : لوگو! آگاہ رہو! اللہ میرا ولی ہے اور میں مؤمنین کا ولی ہوں، خبردار! (آگاہ رہو!) جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے، اے اللہ! جو اِسے دوست رکھے تو اُسے دوست رکھ، جو اِس سے عداوت رکھے تو اُس سے عداوت رکھ، جو اِس سے محبت کرے تو اُس سے محبت کر، جو اِس سے بغض رکھے تو اُس سے بغض رکھ اور جو اِس کی مدد کرے تو اُس کی مدد فرما۔
1. ابن اثير، اسد الغابه في معرفة الصحابه، 3 : 465
2. طحاوي، مشکل الآثار، 2 : 308
3۔ ابن اثیر نے ’اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ (2 : 362)‘ میں یعلیٰ بن مرہ سے ایک روایت بیان کی ہے جس میں گواہان میں یزید یا زید بن شراحیل کا بھی ذکر ہے، جبکہ یعلیٰ بن مرہ سے ہی بیان کردہ ایک اور روایت (3 : 137) میں عامر بن لیلیٰ کا ذکر ہے، ایک اور مقام (5 : 282) پر گواہان میں ناجیہ بن عمرو کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔
حدیث نمبر : 41
عن زيد بن أرقم، قال استشهد علي الناس، فقال : أنشد اﷲ رجلا سمع النبي صلي الله عليه وآله وسلم يقول : اللهم! من کنتُ مولاه، فعلي مولاه، اللهم! والِ من والاه، و عادِ من عاداه، قال : فقام ستة عشر رجلاً، فشهدوا.
زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے گواہی طلب کرتے ہوئے کہا کہ میں تمہیں قسم دیتا ہوں جس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : ’’اے اللہ! جس کا میں مولا ہوں، اُس کا علی مولا ہے، اے اللہ! تو اُسے دوست رکھ جو اِسے دوست رکھے اور تو اُس سے عداوت رکھ جو اِس سے عداوت رکھے۔‘‘ پس اس (موقع) پر سولہ (16) آدمیوں نے کھڑے ہو کر گواہی دی۔
1. احمد بن حنبل، المسند، 5 : 370
2. طبراني، المعجم الکبير، 5 : 171، رقم : 4985
3. محب طبري، ذخائر العقبي في مناقب ذوي القربي : 125، 126
4. محب طبري، الرياض النضره في مناقب العشره، 3 : 127
5. ابن کثير، البدايه والنهايه، 5 : 461
6. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 106
ہیثمی نے کہا ہے کہ جنہوں نے اس واقعہ کو چھپایا اُن کی بصارت چلی گئی۔
حدیث نمبر : 42
عن عمير بن سعد أن عليا جمع الناس في الرحبة و أنا شاهد، فقال : أنشد اﷲ رجلا سمع رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول : من کنت مولاه فعلي مولاه، فقام ثمانية عشر رجلا فشهدوا أنهم سمعوا نبي صلي الله عليه وآله وسلم يقول : ذالک.
عمیر بن سعد سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کھلے میدان میں یہ قسم دیتے ہوئے سنا کہ کس نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ جس کا میں مولیٰ ہوں اُس کا علی مولا ہے؟ تو اٹھارہ (18) افراد نے کھڑے ہو کر گواہی دی۔
1۔ ہیثمی نے ’مجمع الزوائد(9 : 108)‘ میں یہ حدیث بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسے طبرانی نے روایت کیا ہے اور اُس کی اسناد حسن ہیں۔
2۔ ابن عساکر نے ’تاریخ دمشق الکبیر (45 : 158)‘ میں عمیر بن سعید رضی اللہ عنہ سے یہ روایت لی ہے جبکہ عمیر بن سعد رضي اللہ عنہ سے مروی روایت میں ہے کہ گواہی دینے والے افراد بارہ (12) تھے۔
3۔ ابن کثیر نے ’البدایہ والنہایہ (4 : 171، 5 : 461)‘ میں عمیر بن سعد رضی اللہ عنہ سے جو روایت لی ہے اس میں ہے کہ گواہی دینے والے بارہ (12) آدمی تھے جن میں حضرت ابوہریرہ، ابوسعد اور انس بن مالک رضی اللہ عنھم بھی شامل تھے۔
4. حسام الدين هندي، کنز العمال، 13 : 154، 155، رقم : 36480
5. شوکاني، در السحابه : 211
حدیث نمبر : 43
عن أبي الطفيل، قال : جمع علي رضي الله عنه الناس في الرحبة، ثم قال لهم : أنشد اﷲ کل امرئ مسلم سمع رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول يوم غدير خم ما سمع لما قام، فقام ثلاثون من الناس، و قال أبو نعيم : فقام ناس کثير فشهدوا حين أخذه بيده، فقال للناس : أتعلمون أني أولي بالمؤمنين من أنفسهم؟ قالوا : نعم، يا رسول اﷲ! قال : من کنت مولاه فهذا مولاه، اللهم! والِ من والاه و عاد من عاداه، قال فخرجتُ و کأنّ في نفسي شياً فلقيتُ زيد بن أرقم فقلتُ له : إني سمعتُ عليا رضي الله عنه يقول کذا و کذا، قال فما تنکر قد سمعت رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يقول ذلک له.
ابوطفیل سے روایت ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو ایک کھلی جگہ (رحبہ) میں جمع کیا، پھر اُن سے فرمایا : میں ہر مسلمان کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ جس نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غدیرخم کے دن (میرے متعلق) کچھ فرماتے ہوئے سنا ہے وہ کھڑا ہو جائے۔ اس پر تیس (30) افراد کھڑے ہوئے جبکہ ابونعیم نے کہا کہ کثیر افراد کھڑے ہوئے اور اُنہوں نے گواہی دی کہ (ہمیں وہ وقت یاد ہے) جب رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کا ہاتھ پکڑ کر لوگوں سے فرمایا : ’’کیا تمہیں اس کا علم ہے کہ میں مؤمنین کی جانوں سے قریب تر ہوں؟‘‘ سب نے کہا : ہاں، یا رسول اﷲ! پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا یہ (علی) مولا ہے، اے اللہ! تو اُسے دوست رکھ جو اِسے دوست رکھے اور تو اُس سے عداوت رکھ جو اِس سے عداوت رکھے۔‘‘ راوی کہتے ہیں کہ جب میں وہاں سے نکلا تو میرے دل میں کچھ شک تھا۔ اسی دوران میں زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے ملا اور اُنہیں کہا کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اس طرح فرماتے ہوئے سنا ہے۔ (اس پر) زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے کہا : تو کیسے انکار کرتا ہے جبکہ میں نے خود رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق ایسا ہی فرماتے ہوئے سنا ہے؟
1۔ احمد بن حنبل نے ’المسند (4 : 370)‘ میں اسے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔
2. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 2 : 682، رقم : 1167
3. بزار، المسند، 2 : 133
4۔ ابن حبان کی ’الصحیح (15 : 376، رقم : 6931)‘ میں بیان کردہ روایت کی اسناد صحیح اور رجال ثقہ ہیں۔
5. ابن ابي عاصم، کتاب السنه : 603، رقم : 1366
6۔ حاکم نے ’المستدرک (3 : 109، رقم : 4576)‘ میں اسے شیخین کی شرط کے مطابق صحیح قرار دیا ہے۔
7. بيهقي، السنن الکبريٰ، 5 : 134
8۔ یہ حدیث مختصر الفاظ سے طبرانی نے ’المعجم الکبیر (5 : 195، رقم : 5071)‘ میں روایت کی ہے۔
9. محب طبري، الرياض النضرة في مناقب العشره، 3 : 127
10. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 156
11. ابن اثیر نے ’اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ (6 : 246)‘ میں گواہی دینے والے افراد کی تعداد سترہ (17) ذکر کی ہے۔
12. ابن کثیر نے ’البدایہ والنہایہ (4 : 171)‘ میں لکھا ہے کہ رحبہ سے مراد کوفہ کی مسجد کی کھلی جگہ ہے۔
13. ابن کثير، البدايه والنهايه، 5 : 460، 461
14. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 104
15. ابومحاسن، المعتصرمن المختصرمن مشکل الآثار، 2 : 301
16۔ ہیتمی نے ’الصواعق المحرقہ (ص : 122)‘ میں لکھا ہے کہ یہ حدیث حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تیس صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے روایت کی ہے اور اس کے طرق کی کثیر تعداد صحیح یا حسن کے ذیل میں آتی ہے۔
17. شوکاني، در السحابه : 209
حدیث نمبر : 44
عن رياح بن الحرث قال : جاء رهط إلي علي رضي الله عنه بالرحبة فقالوا : السلام عليک يا مولانا! قال : کيف أکون مولاکم وأنتم قوم عرب؟ قالوا : سمعنا رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يوم غدير خم يقول : من کنتُ مولاه فإن هذا مولاه، قال رياح : فلما مضوا تبعتهم فسألت من هؤلاء؟ قالوا : نفر من الأنصار فيهم أبو أيوب الأنصاري.
ریاح بن حرث سے روایت ہے کہ ایک وفد نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ملاقات کی اور کہا : اے ہمارے مولا! آپ پر سلامتی ہو۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے پوچھا : میں کیسے آپ کا مولا ہوں حالانکہ آپ تو قومِ عرب ہیں (کسی کو جلدی قائد نہیں مانتے)۔ اُنہوں نے کہا : ہم نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے غدیر خم کے دن سنا ہے : ’’جس کا میں مولا ہوں بے شک اُس کا یہ (علی) مولا ہے۔‘‘ حضرت ریاح رضی اللہ عنہ نے کہا : جب وہ لوگ چلے گئے تو میں نے ان سے جا کر پوچھا کہ وہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے کہا کہ انصار کا ایک وفد ہے، اُن میں حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ بھی ہیں۔
1. احمد بن حنبل، المسند، 5 : 419
2. احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 2 : 572، رقم : 967
3. ابن ابي شيبه، المصنف، 12 : 60، رقم : 12122
4. طبراني، المعجم الکبير، 4 : 173، 174، رقم : 4052، 4053
5. هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 103، 104
6. محب طبري، الرياض النضره في مناقب العشره، 2 : 169
7. محب طبري، الرياض النضره في مناقب العشره، 3 : 126
8۔ ابن عساکر نے یہ روایت ’تاریخ دمشق الکبیر‘ میں زیاد بن حارث (45 : 161)، حسن بن حارث (45 : 162) اور ریاح بن حارث (45 : 163) سے لی ہے۔
9۔ ابن اثیر نے ’اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ (1 : 672)‘ میں زِر بن حبیش سے روایت کیا ہے کہ بارہ صحابہ کرام نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنا مولا تسلیم کیا، جن میں قیس بن ثابت، ہشام بن عتبہ اور حبیب بن بدیل رضی اللہ عنھم شامل تھے۔
10. ابن کثير، البدايه و النهايه، 4 : 172
11. ابن کثير، البدايه والنهايه، 5 : 462
ہیثمی نے اس روایت کے رجال کو ثقہ قرار دیا ہے۔
حدیث نمبر : 45
عن عمر رضي الله عنه : و قد نازعه رجل في مسألة، فقال : بيني و بينک هذا الجالس، و أشار إلي عليّ بن أبي طالب رضي الله عنه ، فقال الرجل : هذا الأبطن! فنهض عمر رضي الله عنه عن مجلسه و أخذ بتلبيبه حتي شاله من الأرض، ثم قال : أتدري من صغرت، مولاي و مولي کل مسلم!
حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے آپ کے ساتھ کسی مسئلے میں جھگڑا کیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میرے اور تیرے درمیان یہ بیٹھا ہوا آدمی فیصلہ کرے گا ۔ ۔ ۔ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف اشارہ کیا ۔ ۔ ۔ تو اس آدمی نے کہا : یہ بڑے پیٹ والا (ہمارے درمیان فیصلہ کرے گا)! حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنی جگہ سے اٹھے، اسے گریبان سے پکڑا یہاں تک کہ اسے زمین سے اوپر اٹھا لیا، پھر فرمایا : کیا تو جانتا ہے کہ تو جسے حقیر گردانتا ہے وہ میرے اور ہر مسلمان کے مولیٰ ہیں۔
محب طبري، الرياض النضره في مناقب العشره، 3 : 128
محب طبری نے کہا ہے کہ ابن سمان نے اس کی تخریج کی ہے۔
حدیث نمبر : 46
و عن عمر رضي الله عنه و قد جاء ه أعرابيان يختصمان، فقال لعلي رضي الله عنه : إقض بينهما يا أبا الحسن! فقضي علي رضي الله عنه بينهما، فقال أحدهما : هذا يقضي بيننا! فَوَثَبَ إليه عمر رضي الله عنه و أخذ بتلبيبه، و قال : ويحک! ما تدري من هذا؟ هذا مولاي و مولي کل مؤمنٍ، و من لم يکن مولاه فليس بمؤمن.
حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کے پاس دو بدّو جھگڑا کرتے ہوئے آئے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا : اے ابوالحسن! ان دونوں کے درمیان فیصلہ فرما دیں۔ پس آپ رضی اللہ عنہ نے اُن کے درمیان فیصلہ کر دیا۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ (کیا) یہی ہمارے درمیان فیصلہ کرنے کے لئے رہ گیا ہے؟ (اس پر) حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس کی طرف بڑھے اور اس کا گریبان پکڑ کر فرمایا : تو ہلاک ہو! کیا تو جانتا ہے کہ یہ کون ہیں؟ یہ میرے اور ہر مؤمن کے مولا ہیں (اور) جو اِن کواپنا مولا نہ مانے وہ مؤمن نہیں۔
1۔ محب طبری نے یہ روایت ’ذخائر العقبی فی مناقب ذوی القربی (ص : 126)‘ میں بیان کی ہے اور کہا ہے کہ اسے ابن سمان نے اپنی کتاب ’الموافقہ‘ میں ذکر کیا ہے۔
2. محب طبري، الرياض النضره في مناقب العشره، 3 : 128
حدیث نمبر : 47
عن عمر أنه قال : عليّ مولي من کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم مولاه.
عن سالم قيل لعمر : إنک تصنع بعليّ شيئا ما تصنعه بأحد من أصحاب رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، قال : إنه مولاي.
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس کے مولا ہیں علی رضی اللہ عنہ اس کے مولا ہیں۔
حضرت سالم سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایسا (امتیازی) برتاؤ کرتے ہیں جو آپ دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے (عموماً) نہیں کرتے! (اس پر) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے (جواباً) فرمایا : وہ (علی) تو میرے مولا (آقا) ہیں۔
1. محب طبري، الرياض النضره في مناقب العشره، 3 : 128
2. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 178
حدیث نمبر : 48
عن يزيد بن عمر بن مورق قال : کنت بالشام و عمر بن عبد العزيز يعطي الناس، فتقدمتُ إليه فقال لي : ممن أنتَ؟ قلت : مِن قريش، قال : مِن أي قريش؟ قلتُ : مِن بني هاشم، قال : مِن أي بني هاشم؟ قال : فسکتُ. فقال : مِن أي بني هاشم؟ قلتُ : مولي عليّ، قال : مَن عليّ؟ فسکتُ، قال : فوضع يده علي صدري و قال : و أنا و اﷲِ مولي عليّ بن أبي طالب عليه السلام، ثم قال : حدثني عدة أنّهم سمعوا النبي صلي الله عليه وآله وسلم يقول : مَن کنتُ مولاه فعليّ مولاه، ثم قال : يا مزاحم! کم تعطي أمثاله؟ قال : مائة أو مائتي درهم، قال : إعطه خمسين ديناراً، وقال ابن أبي داؤد : ستين ديناراً لولايته عليّ بن أبي طالب رضي الله عنه ، ثم قال : ألحق ببلدک فسيأتيک مثل ما يأتي نظراءک.
یزید بن عمر بن مورق روایت کرتے ہیں کہ ایک موقع پر میں شام میں تھا جب حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ لوگوں کو نواز رہے تھے۔ پس میں ان کے پاس آیا، اُنہوں نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کس قبیلے سے ہیں؟ میں نے کہا : قریش سے۔ اُنہوں نے پوچھا کہ قریش کی کس (شاخ) سے ؟ میں نے کہا : بنی ہاشم سے۔ اُنہوں نے پوچھا کہ بنی ہاشم کے کس (خاندان) سے؟ راوی کہتے ہیں کہ میں خاموش رہا۔ اُنہوں نے (پھر) پوچھا کہ بنی ہاشم کے کس (خاندان) سے؟ میں نے کہا : مولا علی (کے خاندان سے)۔ اُنہوں نے پوچھا کہ علی کون ہے؟ میں خاموش رہا۔ راوی کہتے ہیں کہ اُنہوں نے میرے سینے پر ہاتھ رکھا اور کہا : ’’بخدا! میں علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کا غلام ہوں۔‘‘ اور پھر کہا کہ مجھے بے شمار لوگوں نے بیان کیا ہے کہ اُنہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : ’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے۔‘‘ پھر مزاحم سے پوچھا کہ اِس قبیل کے لوگوں کو کتنا دے رہے ہو؟ تو اُس نے جواب دیا : سو (100) یا دو سو (200) درہم۔ اِس پر اُنہوں نے کہا : ’’علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی قرابت کی وجہ سے اُسے پچاس (50) دینار دے دو، اور ابنِ ابی داؤد کی روایت کے مطابق ساٹھ (60) دینار دینے کی ہدایت کی، اور (اُن سے مخاطب ہو کر) فرمایا : آپ اپنے شہر تشریف لے جائیں، آپ کے پاس آپ کے قبیل کے لوگوں کے برابر حصہ پہنچ جائے گا۔
1. ابو نعيم، حلية الاولياء و طبقات الاصفياء، 5 : 364
2. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 48 : 233
3. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 69 : 127
4. ابن اثير، اسد الغابه في معرفة الصحابه، 6 : 427، 428
حدیث نمبر : 49
عن الزهري قال : سمعت أباجنيدة جندع بن عَمرو بن مازن، قال : سمعت النبيا يقول : من کذب عليّ متعمداً فليتبوأ مقعده من النار، و سمعته و إلا صُمَّتا، يقول. و قد انصرف من حجة الوداع فلما نزل غدير خُمّ قام في الناس خطيباً وأخذ بيد علي رضي الله عنه، و قال : من کنت وليه فهذا وليه، اللهم! وال من والاه، وعاد من عاداه. قال عبيد اﷲ : فقلت للزهري : لا تحدّث بهذا بالشام، وأنت تسمع ملء أذنيک سب علي رضي الله عنه، فقال : و اﷲ! إن عندي من فضائل علي رضي الله عنه ما لو تحدثت بها لقُتلتُ.
زہری سے روایت ہے کہ ابوجنیدہ جندع بن عمرو بن مازن نے کہا : میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : جس نے مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ بولا وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنائے۔ (اور یہ فرمان) میں نے خود سنا ہے ورنہ میرے دونوں کان بہرے ہو جائیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حجۃ الوداع سے واپس لوٹے اور غدیر خم کے مقام پر پہنچے، لوگوں کو خطاب فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ تھام کر فرمایا : جس کا میں ولی ہوں یہ (علی) اُس کا ولی ہے، اے اللہ! جو اِسے دوست رکھے تو اُسے دوست رکھ اور جو اِس سے عداوت رکھے تو اُس سے عداوت رکھ۔ عبیداللہ نے کہا : میں نے زہری سے کہا : ایسی باتیں ملک شام میں بیان نہ کرنا ورنہ تو وہاں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی مخالفت میں اتنی باتیں سنے گا کہ تیرے کان بھر جائیں گے۔ (اس کے جواب میں) اِمام زہری نے فرمایا : خدا کی قسم! حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اِتنے فضائل میرے پاس محفوظ ہیں کہ اگر میں اُنہیں بیان کروں تو مجھے قتل کر دیا جائے۔
ابن اثير، اسد الغابه في معرفة الصحابه، 1 : 572، 573
حدیث نمبر : 50
عن عَمرو بن العاص رضي الله عنه، قال : سئله رجلٌ عن عليّ رضي الله عنه، قال : يا عَمرو! إنّ أشياخنا سمعوا رسولَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يقول : مَن کنتُ مولاه فعليّ مولاه، فحق ذلک أم باطل؟ فقال عمرو : حق و أنا أزيدک : إنه ليس أحد من صحابة رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم له مناقب مثل مناقب عليّ.
حضرت عَمرو بن عاص رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اُن سے کسی شخص نے پوچھا : اے عمرو! ہمارے بزرگوں نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے۔ یہ بات درُست ہے یا غلط؟ عمرو نے کہا : درست ہے، اور میں آپ کو مزید بتاؤں کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم میں سے کسی کے بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ جیسے مناقب نہیں ہیں۔
ابن قتيبه دينوري، الامامه والسياسه، 1 : 113
حدیث نمبر : 51
عن علي رضي الله عنه قال : عمّمني رسولُ اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يوم غدير خم بعمامة سدلها خلفي، ثم قال : إن اﷲ عزوجل أمدني يوم بدر و حنين بملائکة يعتمون هذه العمة، فقال : إنّ العمامةَ حاجزةٌ بين الکفر و الإيمان.
(خود) حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غدیر خم کے دن ایسے عمامے سے میری دستار بندی کروائی اس کا شملہ پیچھے لٹکا دیا پھر فرمایا : ’’اللہ تعالیٰ نے بدر و حنین میں (جن) فرشتوں کے ذریعے میری مدد کی، اُنہوں نے اِسی ہیئت کے عمامے باندھ رکھے تھے۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’بیشک عمامہ کفر اور ایمان کے درمیان فرق کرنے والا ہے۔‘‘
1. طيالسي، المسند : 23، رقم : 154
2. بيهقي، السنن الکبريٰ، 10 : 14
3. حسام الدين هندي، کنزالعمال، 15 : 306، 482، رقم : 41141، 41909
حسام الدین ہندی نے کہا ہے کہ اِس حدیث کو طیالسی کے علاوہ بیہقی، طبرانی، ابن ابی شیبہ اور ابن منیع نے بھی روایت کیا ہے۔ حسام الدین ہندی نے ’انّ العمامۃَ حاجزۃٌ بین المسلمین و المشرکین‘ کے الفاظ کا اِضافہ کیا ہے۔
عبدالاعلیٰ بن عدی سے بھی یہ روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غدیر خم کے دن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو بلایا اور اُن کی دستاربندی فرمائی اور دستار کا شملہ پیچھے لٹکا دیا۔ یہ حدیث درج ذیل کتب میں ہے :
1. ابن اثير، اسد الغابه في معرفة الصحابه، 3 : 170
2. محب طبري، الرياض النضره في مناقب العشره، 3 : 194
3. زرقاني، شرح المواهب اللدنيه، 6 : 272

 

تازہ ترین میں چوتھی خبر

تازہ ترین میں چوتھی خبرتازہ ترین میں چوتھی خبرتازہ ترین میں چوتھی خبرتازہ ترین میں چوتھی خبرتازہ ترین میں چوتھی خبرتازہ ترین میں چوتھی خبرتازہ ترین میں چوتھی خبرتازہ ترین میں چوتھی خبرتازہ ترین میں چوتھی خبرتازہ ترین میں چوتھی خبرتازہ ترین میں چوتھی خبرتازہ ترین میں چوتھی خبرتازہ ترین میں چوتھی خبرتازہ ترین میں چوتھی خبرتازہ ترین میں چوتھی خبرتازہ ترین میں چوتھی خبرتازہ ترین میں چوتھی خبرتازہ ترین میں چوتھی خبرتازہ ترین میں چوتھی خبرتازہ ترین میں چوتھی خبرتازہ ترین میں چوتھی خبر

 

تازہ ترین میں چوتھی خبر

 

تازہ ترین میں چوتھی خبرتازہ ترین میں چوتھی خبرتازہ ترین میں چوتھی خبرتازہ ترین میں چوتھی خبرتازہ ترین میں چوتھی خبرتازہ ترین میں چوتھی خبرتازہ ترین میں چوتھی خبرتازہ ترین میں چوتھی خبر

 

تازہ ترین میں چوتھی خبرتازہ ترین میں چوتھی خبرتازہ ترین میں چوتھی خبرتازہ ترین میں چوتھی خبر